محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ایک صاحب نے اپنے فرمودات کے موتی کچھ اس طرح بکھیرے
رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ ریاست میں حدود اللہ کا نفاذ ہو چکا تھا۔ کیا آپ نے، آپ کی عدالتوں نے، آپ کی فوج نے، آپ کے ملکی حکام نے بھی حدود اللہ کا نفاذ مکمل کر لیا ہے کہ آپ کی فہم کے مطابق آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی شر و فساد اور فتنہ سے خالی نہیں؟
موصوف نے مندرجہ بالا اپنی تحریر کے آخری جملے کا جواب کچھ اس طرح سے ارشاد فرمایا:
اللہ کے نبی ﷺ نے رئیس المنافقین پر بقول موصوف کے اگر حدود اللہ کا نفاذ نہیں کیا تو
فرق بین الناس محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرضی سے ایسا ہرگز ہرگز نہیں کیا
جس کی شان عظمت یہ ہو
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۳ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۴ۙ
وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے چھوڑ دے اور جسے چاہے سزا دے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔
اللہ کی قسم!
اگر محمد عربی (ﷺ) پر ایمان اس لئے ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں تو
ایسا گمان کرنا بھی صریحاً کفر ہے۔
دوسرا رُخ
کیا رسول اللہ ﷺ نے منافقین کو تو چھوڑ دیا ؟؟؟؟؟
جبکہ
سچے مومنین پر حدود اللہ کا نفاذ کر دیا؟؟؟؟؟
کیا اس سے بڑی بھی گستاخی کی گنجائش باقی ہے؟؟؟؟
میرے بھائیو!ذرا سوچو کہ بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچی۔؟؟؟؟؟
تیسرا رُخ
موصوف نے کفر و شرک کی سرپرستی کرنے والے موجودہ حکام کو ہمارے اعتراضات سے بچاتے بچاتے
محمد رسول اللہ ﷺ کی
بے عیب ذات پر
اعتراضات صادر کر دیئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
چوتھا رُخ
یہ اعتراض صرف پیغمبر محمد رسول اللہ پر تو براہِ راست آتا ہے
اور
بالواسطہ طور پر
اللہ تعالی کی ذات بابرکات پر بھی آتا ہے۔
میرے بھائیو! ذرا آگاہ ہو جاؤ۔
اس کے بعد موصوف نے اپنا بہت بڑا موقف بھی صادر فرما دیا ہے۔ موصوف کے جواب کا آخری جملہ پڑھیئے، لکھتے ہیں:
راقم نے موصوف سے سوال کرنے کی جسارت اس انداز میں کی:سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں کی اصلاح کا طریقہ مسلسل دعوت و نصیحت ہے۔ مسلمانوں کی غلطیوں پر جلد بازی کرنے کی بجائے انکی اصلاح کے صبر آزما راستے کو اختیار کرنا ہی ہمارا راستہ ہونا چاہیئے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عہد نبوی میں گندے ترین انسان یعنی منافقین بھی موجود تھے اور وہ اسلام کی مخالفت، اسلامی شعار کا استہزاء، حدود اللہ کا مزاق تک اڑانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے اس وطن کے امن و امان کی خاطر جو لائحہ عمل اور سیرت کا نمونہ پیش کیا ، آج بھی مسلمان ممالک میں اسلام کے غلبہ و احیاء اور برائی کے خاتمے کا وہی طریقہ ہی ہمارے لئے اپنانا لازم ہے۔ اس راہ اور طرہقہ سے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی شر و فساد اور فتنہ سے خالی نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ ریاست میں حدود اللہ کا نفاذ ہو چکا تھا۔ کیا آپ نے، آپ کی عدالتوں نے، آپ کی فوج نے، آپ کے ملکی حکام نے بھی حدود اللہ کا نفاذ مکمل کر لیا ہے کہ آپ کی فہم کے مطابق آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی شر و فساد اور فتنہ سے خالی نہیں؟
موصوف نے مندرجہ بالا اپنی تحریر کے آخری جملے کا جواب کچھ اس طرح سے ارشاد فرمایا:
موصوف کے اس جواب میں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لئے بہت کچھ ہے۔ مثلاً:جواب: اس بارے جواب اوپر زر چکا ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ ابی اور اس کے ساتھیوں پر حدود اللہ نفاذ کیوں نہیں کیا تھا؟ اور کیا حدود اللہ کے نفاذ کے بغیر اسلام بے معنی ہے؟
اللہ کے نبی ﷺ نے رئیس المنافقین پر بقول موصوف کے اگر حدود اللہ کا نفاذ نہیں کیا تو
فرق بین الناس محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرضی سے ایسا ہرگز ہرگز نہیں کیا
جس کی شان عظمت یہ ہو
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۳ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۴ۙ
وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے چھوڑ دے اور جسے چاہے سزا دے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔
اللہ کی قسم!
اگر محمد عربی (ﷺ) پر ایمان اس لئے ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں تو
ایسا گمان کرنا بھی صریحاً کفر ہے۔
دوسرا رُخ
کیا رسول اللہ ﷺ نے منافقین کو تو چھوڑ دیا ؟؟؟؟؟
جبکہ
سچے مومنین پر حدود اللہ کا نفاذ کر دیا؟؟؟؟؟
کیا اس سے بڑی بھی گستاخی کی گنجائش باقی ہے؟؟؟؟
میرے بھائیو!ذرا سوچو کہ بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچی۔؟؟؟؟؟
تیسرا رُخ
موصوف نے کفر و شرک کی سرپرستی کرنے والے موجودہ حکام کو ہمارے اعتراضات سے بچاتے بچاتے
محمد رسول اللہ ﷺ کی
بے عیب ذات پر
اعتراضات صادر کر دیئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
چوتھا رُخ
یہ اعتراض صرف پیغمبر محمد رسول اللہ پر تو براہِ راست آتا ہے
اور
بالواسطہ طور پر
اللہ تعالی کی ذات بابرکات پر بھی آتا ہے۔
میرے بھائیو! ذرا آگاہ ہو جاؤ۔
اس کے بعد موصوف نے اپنا بہت بڑا موقف بھی صادر فرما دیا ہے۔ موصوف کے جواب کا آخری جملہ پڑھیئے، لکھتے ہیں:
اے اللہ! صرف اور صرف تو ہی ہدایت دینے والا ہے۔ تیرے علاوہ کوئی نہیں جو ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور اس پر ہمیشہ قائم رکھے۔ تجھ ہی سے التجا ہے کہ آخر وقت تک اسلام پر ہمیں کماحقہ قائم و دائم رکھنا آمین۔ یا ارحم الراحمینکیا حدود اللہ کے نفاذ کے بغیر اسلام بے معنی ہے؟