بنات خدیجہ
رکن
- شمولیت
- ستمبر 01، 2014
- پیغامات
- 115
- ری ایکشن اسکور
- 57
- پوائنٹ
- 54
قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے کچھ زیادہ علم کی ضرورت نہیں ، کیونکہ پیغمبر نادانوں کو راہ بتانے کے لئے ، جاہلوں کو سمجھانے کے لئے اور بے علموں کو علم سکھانے ہی کے لئے آئے تھے۔ فرمایا:
ترجمہ: "وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انکو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناََ یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔" (سورۃ الجمعہ : 2)
یعنی حق تعالیٰ کی یہ بڑی زبردست نعمت ہے کہ اس نے ایسا رسول مبعوث فرمایا جس نے ناواقفوں کو واقف ، ناپاکوں کو پاک ، جاہلوں کو عالم ، نادانوں کو دانا اور گمراہوں کو راہ یافتہ بنا دیا ۔ اس آیت کو سمجھنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ قرآن کو سمجھنا عالموں اور اس پر عمل کرنا بڑے بڑے بزرگوں ہی کا کام ہے تو اس نے اس آیت کو ٹھکرادیا اوررب کی اس جلیل الشان نعمت کی ناقدری کی ۔ بلکہ یہ کہنا چاہئےکہ اس کو سمجھ کر جاہل عالم اور گمراہ عمل کرکے بزرگ بن جاتے ہیں ۔
مثال کے طور پر یوں سمجھو!
ایک دانا حکیم ہے اور ایک شخص کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ایک شخص اس بیمار سے ازراہ ہمدردی کہتا ہے کہ تم فلاں حکیم کے پاس جاکر اپنا علاج کرالو! لیکن بیمار کہتا ہے کہ اس کے پاس جانا اور اس سے علاج کرانا ان تندرستوں کا کام ہے جن کی صحت بہت اچھی ہو، میں تو سخت بیمار ہوں بھلا میں کس طرح جاکر علاج کراسکتا ہوں؟ کیا تم اس بیمار کو خبطی نہ سمجھوگے؟ کہ نادان اس حاذق حکیم کی حکمت کو نہیں مانتا ۔ کیونکہ حکیم بیماروں کے لئے ہی ہوتا ہے، جو تندرستوں کا علاج کرے حکیم کیسے ہوا؟ مطلب یہ ہے کہ جاہل اور گناہگار کو بھی قرآن و حدیث کے سمجھنے اور احکام شرعیہ پر انتہائی سر گرمی سے عمل کرنے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ایک عالم اور بزرگ کو ہے لہٰذا ہر خاص و عام کا فرض ہے کہ کتاب و سنت ہی کی تحقیق میں لگا رہے، انہیں کو سمجھنے کی کوشش کرے ، انہیں پر عمل کرے اور انہیں کے سانچوں میں ایمان ڈھالے۔
ترجمہ: "وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انکو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناََ یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔" (سورۃ الجمعہ : 2)
یعنی حق تعالیٰ کی یہ بڑی زبردست نعمت ہے کہ اس نے ایسا رسول مبعوث فرمایا جس نے ناواقفوں کو واقف ، ناپاکوں کو پاک ، جاہلوں کو عالم ، نادانوں کو دانا اور گمراہوں کو راہ یافتہ بنا دیا ۔ اس آیت کو سمجھنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ قرآن کو سمجھنا عالموں اور اس پر عمل کرنا بڑے بڑے بزرگوں ہی کا کام ہے تو اس نے اس آیت کو ٹھکرادیا اوررب کی اس جلیل الشان نعمت کی ناقدری کی ۔ بلکہ یہ کہنا چاہئےکہ اس کو سمجھ کر جاہل عالم اور گمراہ عمل کرکے بزرگ بن جاتے ہیں ۔
مثال کے طور پر یوں سمجھو!
ایک دانا حکیم ہے اور ایک شخص کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ایک شخص اس بیمار سے ازراہ ہمدردی کہتا ہے کہ تم فلاں حکیم کے پاس جاکر اپنا علاج کرالو! لیکن بیمار کہتا ہے کہ اس کے پاس جانا اور اس سے علاج کرانا ان تندرستوں کا کام ہے جن کی صحت بہت اچھی ہو، میں تو سخت بیمار ہوں بھلا میں کس طرح جاکر علاج کراسکتا ہوں؟ کیا تم اس بیمار کو خبطی نہ سمجھوگے؟ کہ نادان اس حاذق حکیم کی حکمت کو نہیں مانتا ۔ کیونکہ حکیم بیماروں کے لئے ہی ہوتا ہے، جو تندرستوں کا علاج کرے حکیم کیسے ہوا؟ مطلب یہ ہے کہ جاہل اور گناہگار کو بھی قرآن و حدیث کے سمجھنے اور احکام شرعیہ پر انتہائی سر گرمی سے عمل کرنے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ایک عالم اور بزرگ کو ہے لہٰذا ہر خاص و عام کا فرض ہے کہ کتاب و سنت ہی کی تحقیق میں لگا رہے، انہیں کو سمجھنے کی کوشش کرے ، انہیں پر عمل کرے اور انہیں کے سانچوں میں ایمان ڈھالے۔
ماخوذ از کتاب تقویۃ الایمان
تالیف:شاہ اسماعیل شہید
تالیف:شاہ اسماعیل شہید