• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کتاب کا نام:
رسومات محرم الحرام اور سانحۂ کربلا

مصنف:
حافظ صلاح الدین یوسف

ناشر:
مکتبہ دارالسلام،لاہور

ٹائٹل:
تبصرہ:
نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جس کی مذمت بہرآئینہ ضروری ہے۔ لیکن اس بنیاد پر ماتم، سینہ کوبی اور سب و شتم کا بازار گرم کرنے کی بھی کسی طور تائید نہیں کی جا سکتی۔ زیر نظر کتاب میں شیخ محترم حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے محرم الحرام کی رسومات کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے غیر جانبداری سے سانحہ کربلا پربالدلائل اپنی قیمتی آراء کا اظہار کیا ہے۔ حافظ صاحب نے شیعی رسومات کی تاریخ ایجاد و آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے یزید پر سب و شتم کے مسئلہ کو بھی بڑے احسن انداز سے قلم زد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ شہادت حسین میں یزید کسی بھی حوالے سے ملوث نہیں تھے۔ فاضل مؤلف نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ سانحہ کربلا کے اسباب سے نقاب کشائی کرنے کے ساتھ ساتھ واقعات شہادت میں مبالغہ آمیزی کی بھی قلعی کھولی ہے۔
ڈؤانلوڈ پی ڈی ایف

بشکریہ:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فہرست عناوین

 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عرض مؤلف

یہ کتاب راقم کے چند مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں ہفت روزہ "الاعتصام" لاہور میں شائع ہوئے۔ موضوع ان سب کا ماہ محرم اور اس سے متعلقہ مباحث و مسائل ہیں۔ (ایک فاضلانہ مقالہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ کا بھی اس کی اہمیت اور موضوع کی مناسبت سے اس میں شامل کردیا گیا ہے) جن احباب اور بزرگوں کی نظروں سے یہ مضامین گزرے ہیں ان کی خواہش تھی کہ یہ الگ کتابی شکل میں شائع ہوجائیں تاکہ ان کی اہمیت مستقل اور ان کا دائرہ استفادہ وسیع ہوجائے۔ الحمد للّٰہ ان کی خواہش کی تکمیل کا سروسامان بہم پہنچ گیا ہے اور اب انہیں بعض ضروری اور مفید اضافوں کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔ ان مضامین کے مخاطب اہل سنت کے وہ علما اور عوام ہیں جو شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعیت کے مسموم اثرات سے متاثر ہیں۔ اور ان کا طرز عمل اور فکر رِفض و تَشَیُّع کے فروغ کا باعث ہے۔ہم نے علم وعقل کی روشنی میں ان کو دعوت فکر دی ہےتاکہ وہ سنجیدگی سے موروثی نظریات پر نظر ثانی کرسکیں۔ اللہ کرے کہ ان مضامین میں جو جذبۂ ہمدردی کارفرما ہے وہ مؤثر ثابت ہو اور فکر و نظر کی کجیوں کو دور کرنے کا باعث ہو۔
ایں دعاء ازمن وازجملہ جہاں آمین باد!​
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۳۹۹ھ میں بعنوان "ماہ محرم اور موجودہ مسلمان" چھپا تھا، اس وقت سے اب تک اسی عنوان سے پاک و ہند سے اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور الحمد اللہ عوام و خواص میں اس کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ تاہم اس میں ایک کمی محسوس ہوتی تھی اور وہ تھی "واقعہ کربلا اور اس کے اہم اسباب"
سالہا سال سے کتاب تو شائع ہورہی تھی اور اس میں ساری گفتگو بھی اسی موضوع کے متعلقہ مباحث پر ہے، لیکن اصل واقعے کی تفصیلات نہ ہونے کی وجہ سے کتاب میں ایک تشنگی موجود تھی۔
اس ایڈیشن میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس تشنگی اور کمی کا بھی ازالہ "سانحۂ کربلا۔ پس منظر اور اہم اسباب" کے عنوان سے ، ایک باب کا اضافہ کرکے ، کردیا گیا ہے۔ اور اب یہ کتاب "رسومات محرم الحرام اور سانحہ ٔ کربلا" کے نئے عنوان سے چھپ رہی ہے۔
علاوہ ازیں اب یہ اضافہ شدہ ایڈیشن ، اسلامی کتابوں کی نشر واشاعت کے عالمی ادارے دارالسلام الریاض۔ لاہور کی طرف سے شائع ہورہا ہے۔ ادارے نے اپنی روایات کے مطابق اس کی تحقیق کے معیار کو مزید بلند اور طباعت کے حسن کو دوچند بلکہ دَہ چند کردیا ہے۔ اس کے لیے راقم ادارے کے سینئر رفیق مولانا محمد عبدالجبار اور حافظ عبدالعظیم اسد حفظہما اللّٰہ کا شکرگزار ہے۔ اول الذکر فاضل رفیق نے اس کی تصحیح و تحقیق میں ثانی الذکر عزیز موصوف نے اس کے گیسوئے طباعت کی تزئین و آرائش میں خوب خوب محنت کی ہے۔ جزاھما اللّٰہ احسن الجزاء۔
اس لحاظ سے یہ ایڈیشن، سابقہ تمام ایڈیشنوں کے مقابلے میں ، زیادہ مفید، بہتر اور ظاہری و معنوی محاسن سے آراستہ ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
محرم الحرام ... سن ہجری کا آغاز


سانحہ کربلا کا اس کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں!​

ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیادتو آنحضرت ﷺ کے واقعہ ٔ ہجرت پر ہے لیکن اس اسلامی سن کا تقرر اور آغاز ِ استعمال ۱۷ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابو موسی ٰ اشعری رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر تھے ان کے پاس حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فرمان آتے تھے جن پر تاریخ درج نہ ہوتی تھی ۔ ۱۷ھ ہجری حضرت ابو موسی ٰرضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو اپنے ہاں جمع فرمایا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا، تبادلۂ افکار کے بعد قرار پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتداء ماہ محرم سے کی جائے کیونکہ ۱۳ نبوت کے ذوالحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کرلیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔ (فتح الباری، باب التاریخ ومن أین أرخو التاریخ؟ ج۳۳۴/۷، حدیث: ۳۹۳۴، طبع دارالسلام)
مسلمانوں کا یہ اسلامی سن بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سےایک خاص امتیازی حیثیت کا حامل ہے ۔ مذاہب عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کو یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں، مثلاً مسیحی سن کی بنیاد حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے۔ بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش کی یادگار ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے، لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کےا یسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتیجے میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھر جائے ، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور درپئے آزار ہوجائیں، قریبی رشتہ دار اور خویش واقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کرلیں، اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کردئیے جائیں، شہر کے تمام سربرآوردہ لوگ اس کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں، اس پر عرصۂ حیات ہر طرح سے تنگ کردیا جائے اور اس کی آواز کو جبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے؟ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفر و باطل کے ساتھ مصالحت کرلی جائے، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائےاور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کرکے ان میں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کرکے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے۔
چنانچہ اسی واقعۂ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ تو کسی انسانی برتری اور تَفَوُّق کو یاد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی واقعے کو، بلکہ یہ واقعہ ٔ ہجرت مظلومی اور بے کسی کی ایک یادگار ہے کہ جو ثبات قدم، صبر واستقامت اور راضی برضائے الہٰی ہونے کی ایک زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتاہے۔ یہ واقعہ ٔ ہجرت بتلاتا ہے کہ ایک مظلوم و بے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوسکتا ہے اور مصائب و آلام سے نکل کر کس طرح کامرانی و شادمانی کا زریں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی و گمنامی سے نکل کر رفعت و شہرت اور عزت و عظمت کے بام عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے۔ (یہ حدیث آگے آئے گی)
یہ بھی خیال رہے کہ اس مہینے کی حرمت کا سیدنا حضرت حسین رض کے واقعۂ شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لیے قابل احترام ہے کہ اس میں حضرت حسین رض کی شہادت کا سانحۂ دلگداز پیش آیا تھا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ یہ سانحۂ شہادت تو حضور اکرم ﷺ کی وفات سے پچاس سال بعد پیش آیا اور دین کی تکمیل آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی کردی گئی تھی۔
’’ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًۭا ۚ‘‘ (المائدۃ۳/۵)
اس لیے یہ تصور اس آیت قرآنی کے سراسر خلاف ہے، پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور سانحۂ شہادت اور واقعۂ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ۔ اگر بعد میں ہونے والی ان شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کا اعتبار کرتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم و شیون کی اجازت ہوتی تو یقینا ً تاریخ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام ان پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے ، کم ہوتا۔ لیکن ایک تو اسلام میں اس ماتم و گریہ زاری کی اجازت نہیں، دوسرے یہ تمام واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ہیں اس لیے ان کی یاد میں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دین میں اضافہ ہے جس کے ہم قطعاً مجاز نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عشرہ محرم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام مطلوب

عشرۂ محرم میں عام دستور رواج ہے کہ شیعی اثرات کے زیر اثر واقعات کربلا کو مخصوص رنگ اور افسانوی و دیو مالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ شیعی ذاکرین تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے اہل سنت کے واعظان خوش گفتار اور خطیبان سحر بیان بھی گرمیٔ محفل اور عوام سے داد و تحسین وصول کرنے لیے اسی تال سر میں ان واقعات کاتذکرہ کرتے ہیں جو شیعیت کی مخصوص ایجاد اور ان کی انفرادیت کا غماز ہےاس سانحہ ٔ شہادت کا ایک پہلو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا بازی ہے جس کے بغیر شیعوں کی " محفل ماتم حسین رضی اللہ عنہ " مکمل نہیں ہوتی۔ اہل سنت اس پستی و کمینگی تک تو نہیں اترتے تاہم بعض لوگ بوجوہ بعض صحابہ پر کچھ نکتہ چینی کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، مثلا ایک "مفکر" نے تو یہاں تک فرمادیا کہ قلیل الصحبت ہونے کی وجہ سے ان کی قلب ماہیت نعوذ باللہ نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام اعلیٰ و ادنی ٰ صحابہ کا فرق مراتب کے باوصف بحیثیت صحابی ہونے کے یکساں عزت و احترام اسلام کا مطلوب ہے۔ کسی صحابی کے حقوق میں زبان طعن وتشنیع کھولنا اور ریسرچ کے عنوان پر نکتہ چینی کرنا ہلاکت وتباہی کو دعوت دینا ہے۔
صحابی کی تعریف ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی ٔ اکرم ﷺ کو دیکھا ہو اور قرآن و حدیث میں صحابہ ٔ کرام کے جو عمومی فضائل و مناقب بیان کیے گئے ہیں، ان کا اطلاق بھی ہر صحابی پر ہوگا۔
حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے الاصابہ مین صحابی کی جس تعریف کو سب سے زیادہ صحیح اور جامع قرار دیا ہے، وہ یہ ہے:
’’ وَاَصَحُّ مَا وَقَفتُ عَلَیہِ مِن ذٰلِکَ أَنَّ الصَّحَابِیَّ مَن لَقِیَ النَّبِیَّ ﷺ مُؤمِناً بِہٖ وَمَاتَ عَلَی الاِسلَامِ، فَیَدخُلُ فِیمَن لَقِیَہُ مَن طَالَت مُجَالَسَتُہُ لَہُ أَو قَصُرَت وَ مَن رَوٰی عَنہُ أَو لَم یَروِ وَمَن غَزَا مَعَہُ أَو لَم یَغزُ وَ مَن رَاَٰہُ رُؤیَۃً وَلَو لَم یُجَالِسہُ وَ مَن لَم یَرَہُ بِعَارِضِ کَالعَمٰی‘‘ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ : ۱۵۸/۱، طبع دارالکتب العلمیۃ: ۱۹۹۵ء)
"سب سے زیادہ صحیح تعریف صحابی کی جس پر میں مطلع ہوا وہ یہ ہے کہ "وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں حضور ﷺ سے ملاقات کی اور اسلام ہی پر اس کی موت ہوئی۔" پس اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبی ﷺ سے ملاقات ( قطع نظر اس سے کہ )اسے آپ کی ہم نشینی کا شرف زیادہ حاصل رہا یا کم، آپ سے روایت کی یا نہ کی۔ آپ کے ساتھ غزوے میں شریک ہوا یا نہیں ور جس نے آپ کو صرف ایک نظر ہی سےدیکھاہو اور آپ کی مجالس ، ہم نشینی کی سعادت کا موقع اسے نہ ملا ہواور جو کسی خاص سبب کی بنا پر آپ کی رؤیت کا شرف حاصل نہ کرسکا ہو جیسے نابینا پن۔"
اس لیے اہل سنت کا خلفاء اربعہ ابوبکر وعمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور دیگر ان جیسے اکابر صحابہ کی عزت و توقیر کو ملحوظ رکھنا لیکن بعض ان جلیل القدر اصحاب رسول کی منقبت و تقدیس کا خیال نہ رکھنا یا کم از کم انہیں احترام مطلوب کا مستحق نہ سمجھانا جن کے اسمائے گرامی مشاجرات کے سلسلے میں آتے ہیں جیسے حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، یکسر غلط اور رفض و تشیع کا ایک حصہ ہے۔ اہل سنت کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ خلفائے راشدین کی عزت و توقیر تو کسی حد تک معقولیت پسند شیعہ حضرات بھی ملحوظ رکھنے پر مجبور ہیں اور ان کا ذکر وہ نامناسب انداز میں کرنے سے بالعموم گریز ہی کرتے ہیں البتہ حضرت معاویہ ، عمروبن العاص رضی اللہ عنہما وغیرہ کو وہ بھی معاف نہیں کرتے اگر صحابہ کرام رض کے نام لیوا بھی یہی مؤقف اختیار کرلیں ، تو پھر محبان صحابہ اور دشمنان صحابہ میں فرق کیا رہ جاتاہے؟ اور ان صحابہ کو احترام مطلوب سے فروتر خیال کرکے ان کے شرف و فضل کو مجروح کرنا کیا صحابیت کے قصر رفیع میں نقب زنی کا ارتکاب نہیں ہے؟ کیا س طرح نفس صحابیت کا تقدس مجروح نہیں ہوتا؟ اور صحابیت کی ردائے عظمت (معاذ اللہ) تارتار نہیں ہوتی؟
بہرحال ہم عرض یہ کررہے تھے کہ قرآن و حدیث میں صحابہ ٔ کرام رض کے جو عمومی فضائل و مناقب مذکور ہیں وہ تمام صحابہ رض کو محیط و شامل ہیں اس میں قطعاً کسی استثناء کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ان نصوص کی وجہ سے ہم اس امر کے پابند ہیں کہ تمام صحابہ کو نفس صحابیت کے احترام میں یکساں عزت و احترام کا مستحق سمجھیں، اس سلسلے میں یہ حدیث ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نےفرمایا:
’’ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ ‘‘ (صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی ﷺ، ح : ۳۶۷۳ وصحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، ح:۲۵۴۱۔۲۵۴۰)
"میرے صحابہ پر سب وشتم نہ کرو( یعنی انہیں جرح و تنقید اور برائی کا ہدف نہ بناؤ) انہیں اللہ نے اتنا بلند رتبہ عطا فرمایا ہے) کہ تم میں سے کوئی شخص اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مُد (تقریباً ایک سیر) بلکہ آدھے مُد کے بھی برابر نہیں ہوسکتا۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ماہ محرم اور عاشورۂ محرم

عشرۂ محرم(محرم کے ابتدائی دس دن) میں شیعہ حضرات جس طرح مجالس عزا اور محافل ماتم برپا کرتے ہیں، ظاہر بات ہے کہ یہ سب اختراعی چیزیں ہیں اورشریعت اسلامیہ کے مزاج سے قطعاً مخالف۔اسلام نےتو نوحہ و ماتم کے اس انداز کو"جاہلیت" سے تعبیر کیا ہے اور اس کام کو باعث لعنت بلکہ کفر تک پہنچا دینے والا بتلایا ہے۔
بدقسمتی سے اہل سنت میں سے ایک بدعت نواز حلقہ اگرچہ نوحہ و ماتم کا شیعی انداز تو اختیار نہیں کرتا لیکن ان دس دنوں میں بہت سی ایسی باتیں اختیار کرتا ہے جن سے رفض و تشیع کی ہمنوائی اور ان کے مذہب باطل کا فروغ ہوتا ہے۔ مثلاً
٭ شیعوں کی طرح سانحۂ کربلاکو مبالغے اور رنگ آمیزی سے بیان کرنا
٭ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید رحمۃ اللہ علیہ کی بحث کے ضمن میں جلیل القدر صحابہ کرام (معاویہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما وغیرہ) کو ہدف طعن و ملامت بنانے میں بھی تامل نہ کرنا۔
٭ دس محرم کو تعزیے نکالنا، انہین قابل تعظیم پرستش سمجھنا، ان سے منتین مانگنا، حلیم پکانا، پانی کی سبیلیں لگانا اپنے بچوں کو ہرے رنگ کے کپڑے پہنا کر انہیں حسین رضی اللہ عنہ کا فقیر بنانا۔
٭ دس محرم کو تعزیوں اور ماتم کے جلوسوں میں ذوق و شوق سے شرکت کرنا اور کھیل کود (گٹکے اور پٹہ بازی) سے ان محفلوں کی رونق میں اضافہ کرنا، وغیرہ
٭ ماہ محرم کو سوگ کا مہینہ سمجھ کر اس مہینے میں شادیاں نہ کرنا۔
٭ ذ والجناح (گھوڑے) کے جلوس میں ثواب کا کام سمجھ کر شرکت کرنا۔
اور اسی انداز کی کئی چیزیں ہیں۔ حالانکہ یہ سب چیزیں بدعت ہین جن سے نبی ٔ اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق اجتناب ضروری ہے۔ آپ نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے۔
’’ فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ‘‘ (مسند احمد:۱۲۶/۴۔۱۲۷ وسنن ابی داؤد، السنۃ، ح:۴۶۰۷ وابن ماجہ، اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، ح: ۴۲ وجامع الترمذی، العلم، ح: ۲۶۷۶)
"مسلمانو!تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے ہی کو اختیار کرنا اوراسے مضبوطی سے تھامے رکھان اور دین میں اضافہ شدہ چیزوں سے اپنے کو بچا کررکھنا، اس لیے کہ دین میں نیاکام (چاہے وہ بظاہر کیسا ہی ہو) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
یہ بات ہر کہ و مہ پر واضح ہے کہ یہ سب چیزیں صدیوں بعد کی پیداوار ہیں، بنا بریں ان کے بدعات ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور نبی ﷺ نے ہر بدعت کو گمراہی سے تعبیر فرمایا ہے جس سے مذکورہ خود ساختہ رسومات کی شناعت وقباحت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
محرم میں مسنون عمل

محرم میں مسنون عمل صرف روزے ہیں۔ حدیث مین رمضان کے علاوہ نفلی روزوں میں محرم کے روزوں کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔
’’ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ ‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم، ح: ۱۱۶۳)
"رمضان کے بعد ، سب سے افضل روزے ، اللہ کے مہینے ، محرم کے ہیں۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
10محرم کے روزے کی فضلیت

بالخصوص دس محرم کے روزے کی حدیث میں یہ فضیلت آئی ہے کہ یہ ایک سال گزشتہ کا کفارہ ہے۔(صحیح مسلم، باب استحباب صیام ثلاثہ ایام۔۔۔حدیث: ۱۱۶۲)
اس روز آنحضر ت ﷺ بھی خصوصی روز ہ رکھتے تھے(ترغیب) پھر نبیﷺ کے علم میں یہ بات آئی کہ یہودی بھی اس امر کی خوشی میں کہ دس محرم کے دن حضرت موسیٰ کو فرعون سے نجات ملی تھی ، روزہ رکھتے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ عاشورہ (دس محرم) کا روزہ تو ضرور رکھو لیکن یہودیوں کی مخالفت بھی بایں طور کرو کہ اس کے بعد یا اس سے قبل ایک روزہ اور ساتھ ملا لیا کرو۔ ۹، ۱۰ محرم یا ۱۰، ۱۱ محرم کا روزہ رکھا کرو۔
’’ صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا ‘‘ (مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ، ح: ۲۱۵۴ و مجمع الزوائد: ۴۳۴/۳، مطبوعۃ دارالفکر، ۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴ء)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عاشورے کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ نے آپ کو بتلایا کہ یہ دن تو ایسا ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ ‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، باب ای یوم یصام فی عاشوراء، ح؛ ۱۱۳۴)
"اگرمیں ائندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا۔
لیکن اگلا محرم آنے سے قبل ہی آپ اللہ کو پیارے ہوگئے،ﷺ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایک ضروری وضاحت

بعض علماء کہتے ہیں کہ "میں نویں محرم کا روزہ رکھوں گا" کا مطلب ہے کہ صرف محرم کی ۹ تاریخ کا روزہ رکھوں گا یعنی دس محرم کا روزہ نہیں، بلکہ اس کی جگہ ۹ محرم کا روزہ رکھوں گا۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اب صرف ۹ محرم کا روزہ رکھنا مسنون عمل ہے۔ ۱۰ محرم کا روزہ رکھنا بھی صحیح نہیں اور ۱۰ محرم کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ ملا کر رکھنا بھی سنت نہیں ۔ بلکہ اب سنت صرف ۹ محرم کا ایک روزہ ہے۔ لیکن یہ رائے صحیح نہیں۔ نبی ﷺ کے فرمان کا مطلب ہے کہ میں ۱۰ محرم کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا، اسی لیے ہم نے ترجمے میں ۔۔بھی۔۔ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ ۱۰ محرم کا روزہ تو آپ نے حضرت موسیٰ کے نجات پانے کی خوشی میں رکھا تھا، اس اعتبار سے ۱۰ محرم کے روزے کی مسنونیت تو مسلم ہے، لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آپ نے اس کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا جس پر عمل کرنے کا موقع آپ کونہیں ملا۔ بعض دیگر روایات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، اسی لیے صاحب مرعاۃ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری ، امام ابن قیم اور حافظ ابن حجر نے اسی مفہوم کو زیادہ صحیح اور راجح قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مرعاۃ المفاتیح، ۲۷۰/۳، طبع قدیم)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
توسیع طعام کی بابت


ایک من گھڑت روایت​

محرم کی دسویں تاریخ کے بارے میں جو روایت بیان کی جاتی ہے کہ اس دن جو شخص اپنے اہل وعیال پر فراخی کرےگا ، اللہ تعالیٰ سارا سال اس پر فراخی کرے گا، بالکل بے اصل ہے جس کی صراحت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور دیگر ائمہ محققین نے کی ہے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔
"۱۰ محرم کو خاص کھانا پکانا، توسیع کرنا وغیرہ من جملہ ان بدعات ومنکرات سے ہے جو نہ رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت ہے نہ خلفائے راشدین سے ، اور نہ ائمہ مسلمین میں سے کسی نے اس کو مستحب سمجھا ہے۔" (فتاویٰ ابن تیمیہ: ۳۵۴/۲)اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مذکورہ روایت کے متعلق امام ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے کہ ((لا اصل لہ فلم یرہ شیئاً)) (اس کی کوئی اصل نہیں، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو کچھ نہیں سمجھا) (منہاج السنۃ ، ۲۴۸/۲ اور فتاویٰ مذکور)
اسی طرح امام صاحب کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (ص:۳۰۱، طبع مصر ۱۹۵۰ء)
اور امام محمد بن وضاح نے نے اپنی کتاب "البدع والنھی عنھا" میں امام یحییٰ بن یحییٰ (متوفی ۲۳۴ھ) سے نقل کیا ہے۔
"میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں مدینہ منورہ اور امام لیث ، ابن القاسم او ر ابن وہب کے ایام میں مصر میں تھا اور یہ دن (عاشورا) وہاں آیا تھا میں نے کسی سے اس کی توسیع رزق کا ذکر تک نہیں سنا۔ اگر ان کے ہاں کوئی ایسی روایت ہوتی تو باقی احادیث کی طرح اس کا بھی وہ ذکر کرتے۔" (کتاب مذکورص۴۵)
اس روایت کی پوری سندی تحقیق حضرت الاستاذ المحترم مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مفصل مضمون میں کی ہےجو "الاعتصام" ۱۳ مارچ ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا تھا۔ من شآء فلیراجعہ۔یہ تمام مذکورہ امور وہ ہیں جو اہل سنت عوام کرتے ہیں، شیعہ ان ایام میں جو کچھ کرتے ہیں ، ان سے اس وقت بحث نہیں، اس وقت ہمارا روئے سخن اہل سنت کی طرف ہے کہ وہ بھی دین اسلام سے ناواقفیت ، عام جہالت اور ایک برخود غلط فرقے کی دسیسہ کاریوں سے بے خبری کی بنا پر مذکورہ بالا رسومات بڑی پابندی اور اہتمام سے بجا لاتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام کے ابتدائی دور کے بہت بعد کی ایجاد ہیں جو کسی طرح بھی دین کا حصہ نہیں اور نبی ﷺ کے فرمان:
’’ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘ (صحیح البخاری، الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، ح۲۶۹۷ وصحیح مسلم، الاقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ۔۔۔، ح: ۱۷۱۸)
"دین میں نو ایجاد کام مردود ہے۔"
کے مصداق ان سے اجتناب ضروری ہے۔
 
Top