• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رفع سبابة کا طریقہ

شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام عليكم
بہت دنوں باد فورم پر آنا ہوا.
میں نے کچھ دنوں پہلے حافظ زبیر علی زئ رحمت اللہ علیہ کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں شیخ نے رفع سبابة کا طریقہ بتایا جو اس طرح تھا کہ جب تشھد میں بیٹھے تو اپنی شہادت کی انگلی کو اٹھا لے. اور درود شریف کے باد جب دعا کریں تو اپنی انگلی سے اشارہ کرے.یہ ویڈیو نیٹ پر 100 سوال کے نام سے ہیں. جیسا کی سنن نسائی میں حدیث موجود ہیں. ہمارے یہاں تشھد میں بیٹھتے ہی انگلی سے اشارہ شروع کر دیتے ہیں. کچھ لوگ کہتے ہیں کہ التہیات اور درود شریف بھی دعا ہے.
اب ان میں سے راجے بات کیا ہے? اس کی تفصیل سے وزاہت کرے کی انگلی کو کب ہرقت دے.
جزاکم اللہ خیرا

محترم جناب @اسحاق سلفی صاحب
محترم جناب @خضر حیات صاحب
محترم جناب @یوسف ثانی صاحب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تشہد میں شروع سے آخر تک انگشت شہادت اٹھا کرحرکت دیتے رہنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔لیکن صرف شہادتین کے موقع پر انگلی اٹھانا اور پھر اسے رکھ دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے پہلے اور دوسرے تشہد میں انگلی اٹھانے کے دو طریقے ہیں:
1۔دایئں ہاتھ کی انگلیاں بند کرلی جایئں پھر انگوٹھے کو درمیانی انگلی کی جڑ میں رکھ کر انگشت شہادت کو قبلہ رخ کرین اور اسے مسلسل ہلاتے رہیں۔
2۔دایئں ہاتھ کی دو انگلیاں بند کرلی جایئں پھر انگوٹھے اور درمیانی انگلی سے حلقہ بنا کر انگشت شہادت کو متواتر حرکت دیتے رہیں۔(مسلم۔ابودائود۔کتاب الصلاۃ)
بعض روایتوں میں انگشت شہادت کوحرکت نہ دینے کی صراحت ہے لیکن علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی تمام روایات شاذ یا منکر ہیں انہیں حرکت دینے والی روایات کے مقابلہ میں لانا صحیح نہیں ہے تشہد میں انگلی اٹھا کر حرکت کرتے رہنا اس کا فائدہ یہ ہے کہ نماز میں یکسوئی کا باعث ہے۔ خیالات پراگندہ نہیں ہوتے۔حدیث میں بھی اس کا اشارہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔''تشہد میں انگلی اٹھانا شیطان کے لئے لوہے کے نیزہ سے زیادہ ضرب کاری کا باعث ہے۔''(مسند امام احمد :119/2)
© حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا پابند کیاگیا پیشانی دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔(صحیح بخاری :حدیث نمبر 809)
فتاوی اصحاب الحدیث
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
جزاکم اللہ خیرا
شیخ کیا درود شریف اور اتحیات بھی دعا ہے.
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
لیکن شیخ زبیر علی زئ رحمت اللہ علیہ تو درود شریف کے باد انگلی سے اشارہ کرنے کے لیے کہتے ہیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
درج ذیل دو حدیثیں غور سے دیکھیں ؛؛

عَن وَائِلِ بْنِ حَجَرٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بهَا. ( رَوَاهُ أَبُو دَاوُد والدارمي )
سیدنا وائل ابن حجر (رضی اللہ عنہ) ( نبی کریم کی نماز کی تفصیل بتاتے ہوئے ) فرماتے ہیں کہ " پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (سجدے سے سر اٹھا کر اس طرح) بیٹھے (کہ) اپنا بایاں پاؤں تو بچھا لیا اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا اور دائیں ران پر دائیں کہنی الگ رکھی (یعنی کہنی کو ران پر رکھتے وقت اسے پہلو سے نہیں ملایا) اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی) بند کر کے حلقہ بنایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہادت کی انگلی اٹھائی اور میں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس انگلی کو حرکت دیتے تھے اور اس سے دعاء کرتے تھے۔ " (سنن ابوداؤد، دارمی)
(مشکوٰۃ المصابیح )
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ فِي التَّشَهُّدِ وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى وَعَقَدَ ثَلَاثًا وَخمسين وَأَشَارَ بالسبابة ‘‘
وَفِي رِوَايَةٍ: كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَرَفَعَ أُصْبُعَهُ الْيُمْنَى الَّتِي تلِي الْإِبْهَام يَدْعُو بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهَا. رَوَاهُ مُسلم

عبداللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ امام الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے ہی تشہد (یعنی التحیات) میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر رکھتے تھے اور اپنا (داہنا) ہاتھ مثل عدد تریپن کے بند کر کے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز ( کے قعدہ) میں بیٹھتے ہی دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے تھے اور داہنے ہاتھ کی اس انگلی کو جو انگوٹھے کے قریب ہے۔ (یعنی شہادت کی انگلی کو) اٹھاتے اور اس کے ساتھ دعا مانگتے ، اور بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے۔ " (صحیح مسلم)
اس حدیث شریف میں لفظ (إِذَا قَعَدَ ) کا مطلب واضح ہے کہ تشہد کیلئے بیٹھتے ہی انگشت شہادت اٹھالیتے
اور (يَدْعُو بِهَا ۔ اسی کے ساتھ دعاء کرتے ) کا مطلب ہے کہ آخر تک انگشت مسلسل کھڑی رکھتے اور ہلاتے رہتے ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا درود شریف اور اتحیات بھی دعا ہے.
دیکھئے قعدہ اخیرہ میں پڑھنے کی تین چیزیں ہیں :
(۱) پہلی عبارت التحیات سے لے کر (عبدہ رسولہ ) تک۔۔ تَّشَهُّدُ ۔۔ کہلاتی ہے،
(۲) دوسری عبارت درود شریف کی ہے ،
(۳ )ٌ تیسری اور آخری دعاء ہے ،
ہم اردو بولنے والے کبھی ان تینوں کو ( التحیات ) بھی کہہ دیتے ہیں ؛
اور اہل عرب ان تینوں کو اختصار کی راہ سے (تَّشَهُّدُ ) کہتے ہیں (کیونکہ اس میں توحید ورسالت کی شہادت بھی ہے )
علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ عون المعبود میں لکھتے ہیں :
(كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا) أَيْ إِذَا تَشَهَّدَ
قَالَ فِي الْمِرْقَاةِ وَالْمُرَادُ إِذَا تَشَهَّدَ وَالتَّشَهُّدُ حَقِيقَةُ النُّطْقِ بِالشَّهَادَةِ وَإِنَّمَا سُمِّيَ التَّشَهُّدُ دُعَاءً لِاشْتِمَالِهِ عَلَيْهِ وَمِنْهُ قَوْلُهُ فِي الرِّوَايَةِ الثَّانِيَةِ يَدْعُو بِهَا أَيْ يَتَشَهَّدُ بِهَا وَأَنْ يَسْتَمِرَّ عَلَى الرَّفْعِ إِلَى آخِرِ التَّشَهُّدِ۔انْتَهَى

یعنی : تَّشَهُّدُ شہادت دینے کو کہا جاتا ہے ،اور یہاں (قعدہ اخیرہ کی اس عبارت کو ) تَّشَهُّدُ کو دعاءاسلئے کہا گیا ہے کیونکہ اس میں دعاء بھی شامل ہے ، اور انگلی اٹھا کر دعاء پڑھنے کا مطلب ہے انگشت شہادت کے ساتھ تشہد پڑھتے اور مسلسل آخر تک اس کو اٹھائے رکھتے ، انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ :
کبھی پوری نماز کو دعاء کہا جاتا ہے یا پوری نماز کو قرآن کہا جاتا ہے:
( وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا )سورۃ بنی اسرائیل
اور نماز صبح (کا بھی التزام کرو) ۔ بلاشبہ صبح کی نماز (فرشتوں کے) حاضر ہونے کا وقت ہے۔
اور اسی سورۃ میں فرمایا :
{وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا [وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا } نہ تو آپ اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کی راہ اپنالے۔
ابن کثیرؒ لکھتے ہیں :
قَالَ: كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو برا کہتے ۔ اس لیے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں۔
اس آیت میں قرآن کریم کو نماز کہا کیونکہ وہ نماز پڑھا جاتا جس کے سبب مشرکین بکواس کرتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جزاک اللہ خیرا شیخ صاحب
تفصیلی جواب کے لیے شکریہ قبول فرمائیں۔
میں اپنے اوپر والے اقتباس کو ذرا مزید واضح کر دیتا ہوں۔
کیا درود شریف کو مطلقا "دعا" کہا جاسکتا ہے؟۔اس بنیاد پر کہ ہم اللہ تعالی سے ہی کہتے ہیں کہ یا اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ وبرکات بھیج۔۔مفہوم۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا درود شریف کو مطلقا "دعا" کہا جاسکتا ہے؟۔
درود شریف کو عربی میں (صلاۃ ) کہا جاتا ہے،
اور صلاۃ کا اصلی معنی ’’ دعاء ‘‘ ہے ، خود قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ
ترجمہ :
(اے محبوب نبی ) ان کے مالوں سے صدقہ لے، اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا اور ان کے لیے دعا کر، بیشک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے ۔
اور علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’ جلاء الافہام ‘‘ میں فرماتے ہیں :
فِي بَيَان معنى الصَّلَاة على النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
وأصل هَذِه اللَّفْظَة فِي اللُّغَة يرجع إِلَى مَعْنيين
أَحدهمَا الدُّعَاء والتبريك

یعنی لفظ (الصلاۃ ) میں دو معنے پائے جاتے ہیں : ایک دعاء اور کسی کو برکت کی دعا یا مبارکباد دینا ‘‘
اور اسی باب میں انہوں نے تفصیل سے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قرآن و حدیث میں (الصلاۃ ) کے مرادی معنی کیا کیا ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top