• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رقص و وجد کی کیفیت کا ثبوت حضرت علی ؓشیر خدا سے اور اس روایت پر کیے گئے اعتراضات کا مدلل رد

شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
رقص و وجد کی کیفیت کا ثبوت حضرت علی ؓشیر خدا سے

اور اس روایت پر کیے گئے اعتراضات کا مدلل رد

(بقلم اسد الطحاوی)




****حضرت امام جعفر اور حضرت علی علیہ السلام کا نبی پا ک کے سامنے رقص کرنا *****

حَدَّثَنَا أَسْوَدُ يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ قَالَ فَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ مَوْلَايَ فَحَجَلَ قَالَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَنْتَ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي قَالَ فَحَجَلَ وَرَاءَ زَيْدٍ قَالَ وَقَالَ لِي أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ قَالَ فَحَجَلْتُ وَرَاءَ جَعْفَرٍ

ترجمہ :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، نبی کریم ﷺ نے حضرت زید سے فرمایا:زید! آپ ہمارے آزاد کردہ غلام ہیں ( أَنْتَ مَوْلَايَ) تو اس پر انہوں نےنبی کریم ﷺ کے گرد ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے (فحجل) ،پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت جعفر سے فرمایا : جعفر! آپ صورت اور سیرت میں میرے مشابہ ہیں اس پر حضرت جعفر نے بھی حضرت زید کے پیچھے ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے(فحجل) ،پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا : علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں اس پر انہوں نے بھی حضرت جعفر کے پیچھے ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے (فحجلت) ‘‘
(مسند احمد ابن حنبل جلد۱ ص۵۳۷ ، حدیث۸۵۷)
اس روایت کے رجال کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے

اس سندکا پہلا راوی : اسود بن عامر
یہ امام احمد بن حنبل ؒ کے شیخ ہیں اور امام احمد عام طور پر اپنے ثقہ شیوخ ہی سے روایت کرتے ہیں الا اسکے کہ کسی پر جرح مفسر ثابت ہو جائے ، نیز یہ صحیح مسلم کے رجال میں سے ہیں
امام ذھبیؒ سیر اعلام میں انکا ترجمہ کرتے ہوئے یوں توثیق فرماتے ہیں (ہم مختصر ترجمہ بیان کرینگے)

1547- شاذان 1: "ع"
الإمام الحافظ الصدوق أبو عبد الرحمن أسود بن عامر شاذان الشامي ثم البغدادي. ولد سنة بضع وعشرين ومائة.
(سیر اعلام النبلاء برقم 1547)


نیز انکی توثیق امام احمد نے خود بیان کی ہے
أحمد بن حسن ابن عبد الهادي الصالحي، انکی توثیق امام احمد سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
89 - أسود بن عامر أبو عبد الرحمن شاذان: قال أحمد: ثقة.
(
بحر الدم فيمن تكلم فيه الإمام أحمد بمدح أو ذم برقم 89)
..............................

دوسرا راوی : امام اسرائیل بن یونس ہیں یہ بھی متفقہ طور پر ثقہ ثبت ہیں

امام ابن ابی خثیمہ اپنی تصنیف التاریخ الکبیر میں امام یحییٰ بن معین سے انکی توثیق نقل کرتے ہیں

3531- سَمِعْتُ يحيى بن مَعِيْن يقول: إسرائيل بن يونس ثقة.
(التاریخ الکبیر لا ابن ابی خثیمة المتوفیٰ 279ه)

نیز امام ابن حبان نے بھی انکو الثقات میں درج کیا ہے
6810 - إِسْرَائِيل بن يُونُس بن أبي إِسْحَاق السبيعِي الْهَمدَانِي من أهل الْكُوفَة أَخُو عِيسَى بن يُونُس يروي عَن أبي إِسْحَاق وَسماك يروي عَنهُ أهل الْعرَاق ولد سنة مائَة وَمَات سنة سِتِّينَ وَمِائَة وَقد قيل سنة اثْنَتَيْنِ وَسِتِّينَ وَمِائَة كنيته أَبُو يُوسُف سَمِعت بن خُزَيْمَة يَقُول سَمِعت الدَّوْرَقِي يَقُول سَمِعت بن مهْدي يَقُول قَالَ عِيسَى بن يُونُس قَالَ إِسْرَائِيل كنت أحفظ حَدِيث يُونُس بن أبي إِسْحَاق كَمَا أحفظ السُّورَة من الْقُرْآن
(الثقات لا ابن حبان برقم 6810)


امام عجلی نے بھی انکی توثیق کرتے ہوئے انکو الثقات میں درج کیا ہے

77- إسرائيل بن يونس بن أبي إسحاق1: "كوفي"، ثقة، وقال مرة جائز الحديث.
(الثقات امام عجلی برقم 77)



تیسرے راوی: امام ابو اسحاق السبیعی ہیں
یہ امام اسرائیل بن یونس کے دادا ہیں اور مشہور تابعین میں سے ہیں اصحاب حضرت علیؓ میں سے ہیں اور جید عالم و محدث تھے امام ذھبیؒ نے انکے شاگردوں میں امام شعبیٰ کو بھی شامل کیا ہے اور امام شعبہ سوائے ثقہ کے روایت نہیں کرتے تو اس میں امام شعبہ سے توثیق بھی شامل ہے
امام ذھبیؒ نے انکو اپنی تصنیف طبقات الحفاظ میں شامل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

99- 4/ 4ع- أبو إسحاق السبيعي عمرو بن عبد الله الهمداني الكوفي الحافظ أحد الأعلام: رأى عليا رضي الله عنه وهو يخطب وروى عن زيد بن أرقم وعبد الله بن عمرو وعدي بن حاتم والبراء بن عازب ومسروق وخلق كثير. يقال حدث عن ثلاثمائة شيخ, وروى عنه الأعمش وشعبة والثوري وإسرائيل وزهير وأبو الأحوص وزائدة وشريك وأبو بكر بن عياش وسفيان بن عيينة وخلائق.
(تذكرة الحفاظ امام ذھبی برقم 99)


امام ذھبی ؒ نے انکو اپنی دوسری تصنیف ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں درج کیا ہے اور اس کتاب کے مقدمے میں انہوں نے تصریح کی ہے کہ وہ راویان جن پر کچھ جروحات ہیں لیکن انکی روایت رتبہ حسن سے نیچے نہیں گرتی ان پر جروحات انکی عدالت کی وجہ سے نہیں کچھ جروحات انکے عمر کے آخری حصے میں انکے حافظے میں تغیر آجانے کی وجہ سے ہیں لیکن وہ بالکل عمر کا آخری حصہ تھا
396 - أبو إسحاق السبيعي عمرو بن عبد الله (ع) :
ثقة تغير قبل موته من الكبر وساء حفظه
(ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق امام ذھبی ، برقم 396)


اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی نے بھی لسان المیزان میں انکے نام کے ساتھ صیغہ (صح) استعمال کرتے ہوئے انکی توثیق کو حجت قرار دیا ہے
*- (ع) (صح) أبو إسحاق السبيعي عمرو بن عبد الله، تقدم (4: 489/ 9945).
=========
[مفتاح رموز الأسماء التي حذف ابن حجر ترجمتها من الميزان اكتفاءً بذكرها في تهذيب الكمال]
رموز التهذيب: (خ م س ق د ت ع 4 خت بخ ف فق سي خد ل تم مد كن قد عس)، ثم (صح) أو (هـ):
- (صح): ممن تكلم فيه بلا حجة.
- (هـ): مختلف فيه والعمل على توثيقه.
-ومن عدا ذلك: ضعيف على اختلاف مراتب الضعف.
-ومن كان منهم زائدا على من اقتصر عليه الذهبي في "الكاشف" ذكر ابن حجر ترجمته مختصرة لينتفع بذلك من لم يحصل له تهذيب الكمال.
(لسان المیزان برقم 489)

نیز یہ صحیحن کے کے متفقہ راوی ہیں تغیرآنے سے پہلے لیکن انکے پوتے کا سماع ان سے محفوظ ہے
مندرجہ ذیل ثبوت سے پیش کرتے ہیں کہ اسرائیل کا سماع اپنے دادا ابو اسحاق السبیعی سے صحیح ہے
امام الحاکم مستدرک میں ایک روایت جسکی سند : انا اسرائیل عن ابی اسحاق عن ھانی بن ھانی عن علی سے ہے فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے
اور امام ذھبیؒ نے تلخیص میں اس سند کو صحیح کہہ کر امام حاکمؒ کی موافقت کی ہے
اسی طرح امام ضیاء الدین الحنبلی المقدسیؒ (المتوفیٰ 567) اپنی مشہور تصنیف الاحادیث المختارہ میں یہی روایت امام اسرائیل عن ابی اسحاق اور عن ھانی بن ھانی سے یہی روایت نقل کرتے ہیں
نیز ایک شہاد ت غیر مقلدین کے گھر سے بھی دے دیتے ہیں مسند السراج کے محقق ارشاد الحق اثری نے ایک روایت (نمبر1498) جسکی سند یوں ہے عبیداللہ بن موسیٰ عن اسرائیل عن ابی اسحاق عن حارثہ بلخ۔۔۔۔۔۔
ارشاد الحق اثری حاشیے میں اس روایت کی سند کو :اسنادہ صحیح کہہ کر روایت کی توثیق کرتا ہے
اس طرح بہت سی کتب حدیث ہیں جس میں امام اسرائیل کی روایات کو انکے دادا سے قبول کیا گیا ہے کسی محدث نے یہ اعتراض نہیں کیا

چوتھا راوی : ھانی بن ھانی
یہ راوی بھی ثقہ ہیں جمہور محدثین نے انکی توثیق کی ہے نیز امام ابن مدینی نے انکو مجہول قرار دیا ہے متعرض جو اعتراض پیش کر کے اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ھانی بن ھانی مجہول ہے اسکی توثیق ثابت نہیں ہم انکی توثیق پیش کرتے ہیں
اپنی تحریر آگے لکھنے سے پہلے آپکی توجہ ایک نقطے پر مرقوظ کرتے چلیں ہم جب ھانی بن ھانی کی توثیق بیان کرینگے تو آپ نے ایک بات دھیحان سے نوٹ کرنی ہے جتنے بھی محدثین نے ھانی بن ھانی کی توثیق کی ہے اور اور انکا ترجمہ بیان کیا ہے ھانی بن ھانی کے شاگردوں میں فقط ابو اسحاق السبیعی کا نام ہی لکھا ہے یعنی ابی اسحاق کے علاوہ ھانی بن ھانی سے اور کوئی روایت کرتا ہی نہیں اور نہ ہی انکا کوئی اور شاگرد ہے اس بات کی تصریح ہم متعدد محدثین بشمول غیر مقلدین سے بھی پیش کرینگے
امام ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا ہے (توثیق میں وہ متساہل ہیں جب منفرد ہوں لیکن یہاں ایسا مسلہ نہیں ہے ) انہوں نے بھی ھانی بن ھانی کے شاگردوں میں فقط ابو اسحاق کا زکر کیا ہے

5979 - هَانِئ بن هَانِئ الْمرَادِي من أهل الْكُوفَةِ يروي عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالب رَوَى عَنْهُ أَبُو إِسْحَاق السبيعِي
(الثقات لا ابن حاتم برقم 5979)

امام عجلی نے بھی ھانی بن ھانی کو ثقات تابعین میں شمار کیا ہے
1883 - هَانِئ بن هَانِئ كوفى تَابِعِيّ ثِقَة
(الثقات امام عجلی برقم 1889)

امام ابی حاتم نے انکے شیوخ اور شاگرد کا نام بتایا ہے انہوں نے بھی فقط ھانی بن ھانی کے شاگردوں میں ابو اسحاق کو ہی لکھا ہے
420 - هانئ [بن هانئ - 2] الهمداني روى عن على رضي الله عنه روى عنه أبو إسحاق السبيعي سمعت أبي يقول ذلك.
(الجرح والتعدیل برقم 420)


امام ذھبی ؒ نے بھی انکا ترجمہ بیان کرتے ہوئے امام نسائی سے انکی توثیق نقل کی ہے اور ھانی بن ھانی کے شاگردوں میں فقط ابو اسحاق کا نام درج کیا

5938- هانئ بن هانئ الهمداني عن علي وعنه أبو إسحاق قال النسائي ليس به بأس د ت ق
(الکاشف امام ذھبیؒ برقم 5938)


نیز امام ذھبی نے میزان میں بھی ابن مدینی کے مجہول کے کلمے کے ساتھ انکی توثیق بھی نقل کی ہے
9199 - هانئ بن هانئ [د، ت، ق] .
عن علي رضي الله عنه.
قال ابن المديني: مجهول.
وقال النسائي: ليس به بأس.
وذكره ابن حبان في الثقات.
(میزان الاعتدال)


امام ترمذی نے ھانی بن ھانی سے مروی روایت کی توثیق کرتے ہوئے حسن صحیح فرمایا ہے
حدیث نمبر (3798)
ھانی بن ھانی کی توثیق کرنے والے مندرجہ ذیل امام ہیں

۱۔ امام عجلی
۲۔امام ابن حبان
۳۔ امام نسائی
۴۔ امام ترمذی
۵۔امام حاکم
۶۔ امام ذھبیؒ
۷۔ امام الہیثمی

اتنے اماموں کی توثیق کے بعد اس راوی کو فقط امام علی بن مدینی کی وجہ سے مجہول قرار دینا علوم حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے
پانچھےراوے: اس سند کے پانچھوے راوی خلیفہ چہارم حضرت علی علیہ السلام خود ہیں انکی توثیق پیش کرنے کی ضرورت نہیں
اب ہم متعرض کے اس روایت پر اعتراض بیان کر کے انکا رد پیش کرتے ہیں
پہلا اعتراض : اس سند کا ایک راوی ھانی بن ھانی مجہول ہے
الجواب: ھانی بن ھانی کی توثیق اوپر 5 محدثین سے پیش کر دی گئی ہے لہذا یہ اعتراض باطل ہوا

دوسرا اعتراض:
ابو اسحاق السبعی مدلس ہیں اور طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور مدلس جب تک روایت میں سماع کی تصریح پیش نہ کرے روایت ضعیف ہوتی ہے

الجواب:
یہ اعتراض اصولی طور پر صحیح ہے کہ ابواسحاق طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور جب تک سماع کی تصریح نہ ملے روایت ضعیف رہتی ہے
لیکن ہم نے اوپر پیش کیا کہ ھانی بن ھانی کے شاگرد صرف امام ابو اسحاق السبعی ہیں اور کتب رجال کی کتب سے محدثین سے ھانی بن ھانی کے شاگردوں میں فقط ابی اسحاق کا نام لکھا ہے
اب دیگر محدثین کی تصریح پیش کرتے ہیں
امام بزار اپنی تصنیف مسند البزار میں ایک باب قائم کرتے ہیں :

وَمِمَّا رَوَى هَانِئِ بْنُ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
اور اس میں ھانی بن ھانی سے مروی تمام روایات لاتے ہیں اور اپنی رائے بھی پیش کرتے ہیں ہم پہلے وہ تمام اسناد اور انکا کلام نقل کرتےہیں
۱۔
739 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: نا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عَمَّارٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «الطَّيِّبُ الْمُطَيَّبُ»

740 - حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: أنا هِشَامُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ، اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «ائْذَنُوا» لِلطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ مُلِئَ إِيمَانًا إِلَى مُشَاشِهِ "
، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى إِلَّا عَنْ عَلِيٍّ، وَهَانِئُ بْنُ هَانِئٍ لَا نَعْلَمُ رَوَى عَنْهُ إِلَّا أَبُو إِسْحَاقَ


740 - حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: أنا هِشَامُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ، اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «ائْذَنُوا» لِلطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ مُلِئَ إِيمَانًا إِلَى مُشَاشِهِ
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى إِلَّا عَنْ عَلِيٍّ، وَهَانِئُ بْنُ هَانِئٍ لَا نَعْلَمُ رَوَى عَنْهُ إِلَّا أَبُو إِسْحَاقَ

741 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: نا أَبُو نُعَيْمٍ، وَأَبُو عَاصِمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عَمَّارٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «ائْذَنُوا» لِلطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ " ، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ فِي حَدِيثِهِ: مَرْحَبًا بِالطِّيِّبِ الْمُطَيَّبِ،
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ عَلِيٍّ إِلَّا هَانِئُ بْنُ هَانِئٍ، وَرَوَاهُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ غَيْرُ وَاحِدٍ، فَأَمَّا حَدِيثُ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ فَلَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنِ الْأَعْمَشِ إِلَّا عَثَّامُ بْنُ عَلِيٍّ، وَزَادَ فِيهِ: مُلِئَ إِيمَانًا إِلَى مُشَاشِهِ. وَلَا نَعْلَمُ رَوَى عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، إِلَّا أَبُو إِسْحَاقَ

744 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَجَعْفَرٌ، وَزَيْدٌ، فَقَالَ لِزَيْدٍ: «أَخُونَا مَوْلَانَا» ، فَحَجَلَ زَيْدٌ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: «أَنْتَ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي» ، قَالَ: فَحَجَلَ وَرَاءَ حَجْلِ زَيْدٍ، ثُمَّ قَالَ لِي: «أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ» ، فَحَجَلْتُ وَرَاءَ حَجْلِ جَعْفَرٍ ".
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ


آپ امام بزار کا تمام روایات پر تبصرہ دیکھ سکتے ہیں انہوں نے تمام روایات میں یہ بات لکھی ہے کہ ھانی بن ھانی سے یہ احادیث سوائے ابو اسحاق کے علاوہ اور کوئی سند وہ نہیں جانتے ہیں

امام ابن ماجہ نے بھی ھانی بن ھانی سے ایک روایت بیان کی ہے جسکی سند کچھ اس طرح ہے

146 - حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَاسْتَأْذَنَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْذَنُوا لَهُ، مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ»
__________

[حكم الألباني]
صحيح

غیرمقلدین کے محدث البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دے رکھا ہے اور سند میں غور کریں ابی اسحاق ھانی بن ھانی سے عن سے روایت کر رہے ہیں اور البانی نے حدیث پر حکم صحیح لگایا ہے
اسکے جواب میں کوئی اگر یہ بہانہ بنائے کہ البانی صاحب نے یہ حدیث متعدد طرق یا کی وجہ سے توثیق کی ہے تو اس بہانے کاراستہ بھی ہم بند کرتے چلتے ہیں
امام طبرانی نے اس روایت کو جسکو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اپنی تصنیف الدعا میں نقل فرمائی اور اسکے سارے طرق بیان کرتے ہوئے اسکی تمام اسناد کو ابی اسحاق عن ھانی بن ھانی سے بیان کیا ہے یعنی اس روایت کے جتنے بھی طرق ہیں وہ سارے کے سارے ابی اسحاق عن ھانی بن ھانی سے ہی مروی ہیں

1949 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا سُفْيَانُ، ح وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ الضَّبِّيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَنْبَأَ شُعْبَةُ، ح وَحَدَّثَنَا مَحْمُودٌ الْوَاسِطِيُّ، ثنا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى زَحْمَوَيْهِ، ثنا شَرِيكٌ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ، ثنا أَبِي، ثنا زُهَيْرٌ، ح وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْجَرْجَرَائِيُّ، ثنا نُوحُ بْنُ دَرَّاجٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، كُلُّهُمْ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ عَمَّارٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: «ائْذَنُوا لَهُ، مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ»
(کتاب الدعا امام طبرانی برقم 1949)

اس تحقیق سے یہ بات ثابت ہو گئی کے البانی صاحب نے ابن ماجہ والی روایت کو ابی اسحاق عن ھانی بن ھانی کی سند سے توثیق کی ہے اور تدلیس مضر نہیں اسکے نزدیک بھی
مزید البانی صاحب سے پیش کرتے ہیں کہ ھانی بن ھانی سے سوائے امام ابی اسحاق کے اور کوئی روایت نہیں کرتا ہے
البانی صاحب ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے اپنے موقف کے خلاف اس روایت میں ھانی بن ھانی کو مستور ثابت کرتے ہیں لیکن ایک بات پتے کی کرتے ہیں جو کہ ہمارے موقف کی تائید کرتی ہے البانی صاحب لکھتے ہیں

وقد روى الحديث أبو داود عن موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن ثابت البُنَاني عن
النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مرسلاً، دون قوله: " يا أبا بكر! ارفع من صوتك
... " إلخ.
وكذلك أخرجه أيضاً الإمام أحمد (1/109) من حديث علي رضي الله عنه
بنحوه. قال الهيثمي (2/366) :
" ورجاله ثقات ".
قلت: وفيهم هانئ بن هانئ؛ لم يرو عنه إلا أبو إسحاق السَّبِيعي. وفي
" التقريب ":
" مستور ".

(أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم البانی)

البانی صاحب ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے کہتے ہیں قلت:
یعنی میں کہتا ہوں اس میں ھانی بن ھانی ہے ان سے سوائے ابو اسحاق کے اور کوئی بھی روایت نہیں کرتا اور تقریب میں انکو مستور کہا گیا ہے
اس میں صریح طور پر البانی صاحب نے یہ بات مان لی کہ ھانی بن ھانی سے سوائے ابو اسحاق کے اور کوئی روایت نہیں کرتا
نیز ہمارا یہ اللہ کے فضل سے دعویٰ ہے کہ تمام کتب احادیث میں ھانی بن ھانی سے مروی کوئی بھی روایت دیکھ لیں سوائے ابی اسحاق کے ھانی بن ھانی سے کوئی روایت نہیں کرتا
اب ہم آتے ہیں اس نقطے کی طرف کہ ہم یہ کیوں ثابت کر رہے تھے کہ ھانی بن ھانی کا فقط ایک شاگرد ابی اسحاق ہیں
ابی اسحاق مدلس ہیں اور طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور مدلس تدلیس کرتا ہے
تدلیس میں کیا ہوتا ہے کہ ایک ثقہ راوی ایک روایت بیان کرتا ہے اپنےشیخ سے لیکن بیچ میں ایسے راوی کا نام حذف کر دیتا ہے جو کہ مدلس راوی کا بھی شیخ ہوتا ہے
مدلس اپنےاس شیخ کا نام حذف کرتا ہے جو کہ مدلس اور اسکا حذف شدہ شیخ دونوں کا شیخ ثقہ ہوتا ہے جس سے مدلس ڈریکٹ عن سے روایت بیان کر رہا ہوتا ہے
اب ہم نے جب ثابت کر دیا کہ ھانی کا فقط شاگرد ہی ابی اسحاق ہے اگر ھانی بن ھانی کے دو یا متعدد شاگرد ہوتے تو پھر ہم کہہ سکتے کہ ابی اسحاق نے تدلیس کی ہوگی اور بیچ میں ضعیف راوی کو حذف کر کے ڈریکٹ ھانی بن ھانی کا نام عن سے بیان کیا جبکہ صورت حال یہ ہے کہ ھانی بن ھانی سے تنہاروایت کرنے والے ہی ابی اسحاق ہیں تو وہ تدلیس کس سے کرینگے ؟
اس مندرجہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ اس رویات کی سند بے غبار ہے اور محدثین نے اس روایت سے استدلال بھی کیا ہے
جیسا کہ امام بیھقیؒ اس روایت کو نقل کرنے سے پہلے ایک تبصرہ فرماتے ہیں

21027 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ خُشَيْشٍ الْمُقْرِئُ بِالْكُوفَةِ , أنبأ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ الشَّيْبَانِيُّ , ثنا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ , ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى , عَنْ إِسْرَائِيلَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ , عَنْ عَلِيٍّ , رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ , فَقَالَ لِزَيْدٍ: " أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا " , فَحَجَلَ , وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: " أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي " , فَحَجَلَ وَرَاءَ حَجْلِ زَيْدٍ , ثُمَّ قَالَ لِي: " أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ " , فَحَجَلْتُ وَرَاءَ حَجْلِ جَعْفَرٍ قَالَ الشَّيْخُ: " هَانِئُ بْنُ هَانِئٍ لَيْسَ بِالْمَعْرُوفِ جِدًّا , وَفِي هَذَا - إِنْ صَحَّ - دَلَالَةٌ عَلَى جَوَازِ الْحَجْلِ , وَهُوَ أَنْ يَرْفَعَ رِجْلًا , وَيَقْفِزَ عَلَى الْأُخْرَى مِنَ الْفَرَحِ , فَالرَّقْصُ الَّذِي يَكُونُ عَلَى مِثَالِهِ يَكُونُ مِثْلَهُ فِي الْجَوَازِ , وَاللهُ أَعْلَمُ
(
السنن کبری امام بیھقی 21027)

امام بیھقی ؒ اس سند کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں اس میں ھانی بن ھانی معروف نہیں (جبکہ ھانی بن ھانی کی توثیق ہم نے متعدد محدثین سے اوپر پیش کر دی) اگر یہ سند صحیح ثابت ہو جائے تو یہ الحجل یعنی رقص (وجد) صحیح ثبوت اور جواز ہے جس میں خوشی کی حالت مین اوپر اٹھنا اور کودنا شامل ہے اور اسی طرح رقص کرنا جو اس جیسا ہو اسکا بھی جواز ہے واللہ اعلم!
امام بیھقی نے اس روایت کے صحیح ہونے میں صرف ایک چیز کا ذکر کیا ہے کہ ھانی بن ھانی کا غیر معروف ہونا اگر اسکی توثیق مل جائے تو یہ روایت صحیح ہے یعنی امام بیھقی نے بھی اس پر تدلیس کا الزام نہیں عائد کیا اور امام بیھقی نے اپنی دوسری کتاب میں اس روایت کی خود توثیق بھی کر دی اور پھر وجد (رقص) کے لیے اس دلیل کو مان بھی لیا
لیکن اسکو پیش کرنے سے پہلےہم امام بیھقی سے ایک اور سند اس روایت کی بھی پیش کرتے ہیں جسکا متن میں اضافہ بھی ہے اور امام بیھقی نے یہی روایت ابی اسحاق کی ھانی سے سماع کی تصریح کے ساتھ پیش کی ہے یعنی اس میں ابی اسحاق کی تحدیث ثابت ہے

15770 - قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي هَانِئُ بْنُ هَانِئٍ، وَهُبَيْرَةُ بْنُ يَرِيمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: فَاتَّبَعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي: يَا عَمُّ، يَا عَمُّ. فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ. فَحَمَلَتْهَا، فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَا أَخَذْتُهَا، وَبِنْتُ عَمِّي. وَقَالَ جَعْفَرٌ: بِنْتُ عَمِّي، وَخَالَتُهَا عِنْدِي. وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي. فَقَضَى بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ: " الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ " وَقَالَ لِزَيْدٍ: " أَنْتَ أَخُونَا، وَمَوْلَانَا " فَحَجَلَ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: " أَنْتَ أَشْبَهُهُمْ بِي خَلْقًا وَخُلُقًا " فَحَجَلَ وَرَاءَ حَجْلِ زَيْدٍ ثُمَّ قَالَ لِي: " أَنْتَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْكَ " فَحَجَلْتُ وَرَاءَ حَجْلِ جَعْفَرٍ، قَالَ: وَقُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَتَزَوَّجُ بِنْتَ حَمْزَةَ؟ قَالَ: " إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ " وَيُحْتَمَلُ أَنْ تَكُونَ رِوَايَةُ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَاءِ فِي قِصَّةِ ابْنَةِ حَمْزَةَ مُخْتَصِرَةً كَمَا رُوِّينَا، ثُمَّ رَوَاهَا عَنْهُمَا عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَتَمَّ مِنْ ذَلِكَ كَمَا رُوِّينَا، فَقَصَّةُ الْحَجْلِ فِي رِوَايَتِهِمَا دُونَ رِوَايَةِ الْبَرَاءِ وَاللهُ أَعْلَمُ، وَرُوِّينَا هَذِهِ الْقِصَّةُ أَيْضًا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

امام بیھقی اپنی ایک اور تصنیف بنام الاداب میں یہ روایت بیان کر کے اس پر خوشی کی حالت میں رقص کرنے پر اللہ کی طرف سے نعمتیں نوازنے کا خوبصورت فتویٰ دیتے ہیں اور محدث کا کسی روایت سے استدلال کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ روایت انکے نزدیک صحیح ہوتی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بیھقی کو بھی ھانی بن ھانی کی تصریح مل گئی ہوگی توثیق کی کیونکہ وہ معاذ اللہ وہابی نہیں تھے سنی شافعی تھے تو وہ ھانی کی توثیق ملنے پر اسکو مجہول نہ بنایا (اللہ ان پر لاکھو نعمتیں عطا کریں قبر شریف میں )
چناچہ وہ اس روایت کو لکھ کر فتویٰ اپنا پیش کرتے ہیں

626 - فَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ شَوْذَبٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ، فَقَالَ لِزَيْدٍ: «أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا» ، فَحَجَلَ. وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: «أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي» ، فَحَجَلَ وَرَاءَ حَجَلِ زَيْدٍ. وَقَالَ لِي: «أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ» ، فَحَجَلْتُ وَرَاءَ حَجَلِ جَعْفَرٍ.

قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ رَحِمَهُ اللَّهُ(
شیخ سے مراد امام بیھقی ہیں ): وَالْحَجَلُ أَنْ يَرْفَعَ رِجْلًا وَيَقْفِزَ عَلَى الْأُخْرَى مِنَ الْفَرَحِ، فَإِذَا فَعَلَهُ إِنْسَانٌ فَرَحًا بِمَا أَتَاهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنْ مَعْرِفَتِهِ أَوْ سَائِرِ نِعَمِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ. وَمَا كَانَ فِيهِ تَثَنٍّ وَتَكَسُّرٍ حَتَّى يُبَايِنَ أَخْلَاقَ الذُّكُورِ فَهُوَ مَكْرُوهٌ لِمَا فِيهِ مِنَ التَّشَبُّهِ بِالنِّسَاءِ
(الآداب للبيهقي برقم 626)

یہ حدیث روایت کرنے کے بعد امام بیھقی فرماتے ہیں
اس کتاب میں قال شیخ سے مراد امام بیھقی ہوتے ہیں یہ کتاب انکے شاگرد نے ان سے سماع کر کے لکھی ہے
وہ فرماتے ہیں : آدمی پاوں کو اٹھائے اوردوسرے کے وپر (جمپ لگائے ) خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جب انسان ایسا کرے جو اللہ نے اسکو عطا کیا ہے ااپنی معرفت یا سکے نعمتوں کی خوشی کے طور پر ایسا کرے تو اس میں کوئی حرج نہین اور جس کے اندر تثن (عورتوں کے انداز میں ) اور اسی طرح جھک کر چلنا یہاں تک کہ مردوں کا جو اخلاق ہے وہ گر جائے ایسا کرنہ مکرہ ہے وجہ یہ ہے کہ اس طرح چلنےسے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہو جاتی ہے

اسی طرح امام المحدث المفسر جلال الدین سیوطی الشافعیؒ نے بھی اسی روایت سے وجد صوفیہ پر استدلال کیا ہے وہ اپنے مشہور فتویٰ الحاوی الفتاوی میں فرماتے ہیں

وقد ورد في الحديث «رقص جعفر بن أبي طالب بين يدي النبي - صلى الله عليه وسلم - لما قال له: أشبهت خلقي وخلقي» ، وذلك من لذة هذا الخطاب، ولم ينكر ذلك عليه النبي - صلى الله عليه وسلم - فكان هذا أصلا في رقص الصوفية لما يدركونه من لذات المواجيد، وقد صح القيام والرقص في مجالس الذكر والسماع عن جماعة من كبار الأئمة، منهم شيخ الإسلام عز الدين بن عبد السلام.
(الحاوی الفتاوی ص 234)


امام سیوطی فرماتے ہیں کہ اور وارد ہوئی ہے حدیث جس میں امام جعفر بن ابی طالب نبی کریم کے گرد رقص کرتے ہیں اور نبی پاک انکو منع نہیں کرتے اور یہ صوفیہ جو زکر میں رقص کرتے ہیں انکی دلیل ہے اور زکر اور قیام کے دوران کو کبار جماعت عائمہ نے صحیح قرار دیا ہے اور میں نے بھی شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسام سے سنا ہے



خلاصہ تحقیق:
ھانی بن ھانی کی توثیق جمہور محدثین سے ثابت ہے
ابی اسحاق کی ھانی بن ھانی سے تدلیس ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ وہ منفرد شاگرد ہیں ھانی بن ھانی کے
نیز امام بیھقی نے ابی اسحاق کی ھانی بن ھانی سے سماع کی تصریح کے ساتھ بھی یہ روایت اضافی متن سے بیان کی ہے
اور امام بیھقی ، امام ابن حجر مکی اور امام سیوطی نے اس روایت سے وجد و رقص جو کہ سچے صوفیاء کرام کرتے ہیں لیکن یہ وجد بے ترتیب ہو انکے لیے جواز پیش کیا ہے اس روایت سے
نوٹ: آج کل کے دو نمبر پیر ، جو ڈھول پر دھمال ڈالتے ہیں یا ترتیب سے ڈانس کرتے ہوے درباروں پے نظر آتے ہیں یہ وہ وجد و رقص نہیں جو صوفیہ سے وجد میں بغیر ترتیب ایک کیفیت میں ہوتا تھا


دعاگو: اسد الطحاوی خادم الحدیث : ۲۷ جون ، ۲۰۱۹







 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
حیرت کی بات ہے اردو زبان میں لکھا ہوا سمجھ نہیں آرہا ہے؟
صاحب لکھنا بھول گیا تو اب یہ گستاخی تو نہیں ہے ۔۔۔
جب غلط زبان استعمال ہو تب مجھے ٹیگ کیجیے گا اتنی سختی اچھی نہیں ہوتی میں نے نظر ثانی کی لیکن اس جگہ نظر نہیں پڑی اور ویسے بھی اس میں نام ہی لکھا ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔ اتنی سختی آپ اپنے نوجوانون پر کرتے تو آج فیسبک پر سلف پر زبان درازی نہ ہو رہی ہوتی
اپنے آج کے محققین کی عزت کی آپکو اتنی قدر ہے اور دوسروں کے اماموں کوآپ دجالوں میں سے ایک دجال کہتے رہتے ہیں فیسبک پر
آپکی اس پوسٹ کی تصویر آج بھی میرے پاس سیو ہے


خیر جو بات واقعی غلط ہو وہاں ٹیگ کیجیے گا
جزاک اللہ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
اتنی سختی آپ اپنے نوجوانون پر کرتے تو آج فیسبک پر سلف پر زبان درازی نہ ہو رہی ہوتی
یہ سختی ان کے لیے بھی تھی لیکن یرقان کے مریض کو سب زرد ہی دکھتا ہے
اپنے آج کے محققین کی عزت کی آپکو اتنی قدر ہے اور دوسروں کے اماموں کوآپ دجالوں میں سے ایک دجال کہتے رہتے ہیں فیسبک پر
آپکی اس پوسٹ کی تصویر آج بھی میرے پاس سیو ہے
وہ الزامی سوال تھا جس کو لے کر ابھی تک ماتم کیا جارہا ہے

ساون کے اندھے کو کیا کہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن ہم نے اوپر پیش کیا کہ ھانی بن ھانی کے شاگرد صرف امام ابو اسحاق السبعی ہیں اور کتب رجال کی کتب سے محدثین سے ھانی بن ھانی کے شاگردوں میں فقط ابی اسحاق کا نام لکھا ہے
نیز ہمارا یہ اللہ کے فضل سے دعویٰ ہے کہ تمام کتب احادیث میں ھانی بن ھانی سے مروی کوئی بھی روایت دیکھ لیں سوائے ابی اسحاق کے ھانی بن ھانی سے کوئی روایت نہیں کرتا
اب ہم نے جب ثابت کر دیا کہ ھانی کا فقط شاگرد ہی ابی اسحاق ہے اگر ھانی بن ھانی کے دو یا متعدد شاگرد ہوتے تو پھر ہم کہہ سکتے کہ ابی اسحاق نے تدلیس کی ہوگی اور بیچ میں ضعیف راوی کو حذف کر کے ڈریکٹ ھانی بن ھانی کا نام عن سے بیان کیا جبکہ صورت حال یہ ہے کہ ھانی بن ھانی سے تنہاروایت کرنے والے ہی ابی اسحاق ہیں تو وہ تدلیس کس سے کرینگے ؟
کیا اس طرح تدلیس رفع ہو جاتی ہے؟
یہ علم حدیث ہے بابو!
رائے کے اٹکل ناہی
 
Top