مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
رمضان المبارك كے بعض مسائل
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
اس مختصر مضمون میں رمضان المبارك كے بعض مسائل پیش خدمت ہیں:
(1) ارشاد باری تعالی ہے: ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ «پس تم میں سے جو شخص یہ مہینہ (رمضان) پائے تو اس كے روزے ركھے» (البقرہ: 185)۔
اس آیت سے معلوم ہوا كہ ہر بالغ مكلّف مسلمان پر رمضان كے روزے ركھنا فرض ہے۔ اس عموم سے صرف وہی لوگ خارج ہیں جن كا استثناء قرآن، حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ مثلا نا بالغ، مسافر، حائضہ عورت، بیمار اور شرعی معذور۔
(2) رسول اللہ ﷺنے فرمایا: «چاند دیكھ كر روزے ركھنا شروع كرو اور چاند دیكھ كر عید كرو، اگر (29 شعبان كو) بادل ہوں تو شعبان كے تیس دن پورے كر كے روزے ركھنا شروع كرو» (صحیح بخاری 1909، صحیح مسلم 1081، مفہوماً)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا كہ ہر شہر اور ہر علاقے كے لوگ اپنا اپنا چاند دیكھ كر رمضان كے روزے ركھنا شروع كریں گے اور اسی طرح عید كریں گے۔
یاد رہے كہ دُور كی رُویت كا كوئی اعتبار نہیں ہے مثلا اگر سعودی عرب میں چاند نظر آ جائے تو حضرو كے لوگ رمضان كے روزے ركھنا شروع نہیں كریں گے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ كے دور میں مُلك شام میں جمعہ كی رات كو چاند نظر آیا جب كہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ میں ہفتہ كی رات كو چاند دیكھا تھا، پھر انہوں نے اپنے (ثقہ) شاگرد كے كہنے پر فرمایا: ہم تو تیس تك روزے ركھتے رہیں گے حتی كہ چاند نظر آجائے۔ پوچھا گیا كیا آپ (سیدنا) معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن كے روزے كا كوئی اعتبار نہیں كرتے؟ انہوں نے فرمایا كوئی اعتبار نہیں، كیونكہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اسی طرح كا حكم دیا تھا (صحیح مسلم 1087)۔
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا كہ ملك شام كی رُویت مدینے میں معتبر نہیں ہے۔ درج ذیل محدثین وعلماء نے اس حدیث پر ابواب باندھ كر یہ ثابت كیا ہے كہ ہر علاقے كے لوگ اپنا اپنا چاند دیكھیں گے:
(1) امام ترمذی رحمہ اللہ (باب ما جاء لكل اهل بلد رؤیتہم) سنن الترمذی (693)۔
(2) امام الائمہ شیخ الاسلام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (باب الدلیل علی أن الواجب علی أهل كل بلد صیام رمضان لرؤیتہم، لا رؤیتہ غیرهم) صحیح ابن خزیمہ (3/205 ح 1916)۔
(3) علامہ نووی (باب بیان أن لكل بلد رؤیتہم وأنہم إذا رأوا الہلال ببلد لا یثبت حكمہ لما بعد عنہم) شرح صحیح مسلم (ج 7، ص 197، تحت ح 1087، طبع احیاء التراث العربی بیروتو لبنان)۔
(4) محمد بن خلیفہ الوشتابی الابی (حدیث لكل قوم رؤیتہم) شرح صحیح مسلم (ج 4 ص 19 ح 1087)۔
(5) ابو العباس احمد بن ابراہیم القرطبی (ومن باب لاهل كل بلد رؤیتہم عند التباعد) المفہم لما اشكل من تلخیص كتاب مسلم (ج 3 ص 141 ح 955)۔
(6) ابو جعفر الطحاوی نے فرمایا: اس حدیث میں یہ ہے كہ ابن عباس نے اپنے شہر كے علاوہ دوسرے شہر كی رُویت كا كوئی اعتبار نہیں كیا .... الخ (شرح مشكل الآثار 1/423 ح 481)۔
محدثین كرام اور شارحین حدیث كے اس تفقہ كے مقابلے میں چودھویں صدی اور متاخر علماء كے منطقی استدلالات مردود ہیں، جو حدیث ابن عباس كے موقوف وغیرہ كہہ كر اپنی تاویلات كا نشانہ بناتے ہیں۔ حافظ ابن عبدالبر الاندلسی نے اس پر اجماع نقل كیا ہے كہ خراسان كی رُویت كا اندلس میں اور اندلس (Spain) كی رُویت كا خراسان میں كوئی اعتبار نہیں ہے۔ (الاستذكار 3/283 ح 592)۔
تنبیہ:یہ كوئی مسئلہ نہیں ہے كہ ساری دنیا كے لوگ ایك ہی دن روزہ ركھیں اور ایك ہی دن عید كریں۔ جغرافیائی لحاظ سے ایسا ممكن ہی نہیں ہے كیونكہ جب مكہ ومدینہ میں دن ہو تا ہے تو امریكہ كے بعض علاقوں میں اس وقت رات ہوتی ہے۔
(3) یہ بر حق ہے كہ ہرعمل كی قبولیت كیلئے نیت ضروری ہے لیكن نیت دل كے ارادے كو كہتے ہیں مثلا رمضان كی تیاریاں كرنا، چاند دیكھنا یا معلوم كرنے كی كوشش كرنا، سحری كھانا اور تراویح پڑھنا وغیرہ سب كاموں سے نیت ثابت ہو جاتی ہے لیكن یاد رہے كہ زبان كے ساتھ روزے كی نیت مثلاً (بصوم غدٍ نویت من شہر رمضان) ثابت نہیں ہے۔
(4) اگر كوئی شخص حالت روزہ میں بھول كر كھا پی لے تو اس كا روزہ برقرار رہتا ہے لہذا وہ دوسرے لوگوں كے ساتھ شام كو غروب آفتاب كے بعد روزہ افطار كرے۔
تنبیہ: یہ كوئی مسئلہ نہیں ہے كہ اگر كوئی شخص روزے میں بھول كر كھا یا پی رہا ہے تو اسے یاد نہیں دلانا چاہئے، لہذا اسے یاد دلانے میں كوئی حرج نہیں ہے۔
(5) روزہ افطار كرتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا سنت سے ثابت ہے : (ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ) «پیاس ختم ہوئی، رگیں تر ہو گئیں اور اجر ثابت ہو گیا، ان شاء اللہ»، (سنن أبی داود 2357، وسندہ حسن وصححہ الحاكم 1/22، والذهبي وحسنہ الدارقطني 2/182، وهو الصواب)۔
تنبیہ: سنن ابی داود كی ایك روایت میں (اَللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَىْ رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ)كے الفاظ آئے ہیں لیكن یہ روایت ثابت نہیں ہے بلكہ مرسل ہونے كی وجہ سے ضعیف ہے۔
(6) گرمی یا پیاس كی وجہ سے سر پر پانی ڈالنا جائز ہے، دیكھئے: موطا إمام مالك (ج 1، ص 294، ح 660، وسندہ صحیح، سنن أبی داود 2365)۔
جنابت اور احتلام كی وجہ سے غسل كرنا فرض ہے لیكن اگر گرمی یا ضرورت ہو تو روزے كی حالت میں نہانا بالكل جائز ہے، كیونكہ اس كی ممانعت كی كوئی دلیل نہیں ہے۔ نیز دیكھئے صحیح بخاری (1925، 1926) وصحیح مسلم (1109)۔ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (تابعی) كپڑا بھگو كر اپنے چہرے پر ڈالنے میں كوئی حرج نہیں سمجھتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ 3/40 ح 9214 وسندہ صحیح)۔
(7) كھجور یا پانی سے روزہ افطار كرنا چاہئے، دیكھئے:(سنن أبی داود: 3255 وسندہ صحیح، وصححہ الترمذی: 659، وابن خزیمہ: 2067، وابن حبان: 892، والحاكم علی شرط البخاري 1/431، ووافقہ الذهبي وأخطأ من ضعفہ)۔
(8) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تابعی صغیر) نے فرمایا: اگر تم چاند دیكھو تو كہو: (رَبِّيْ وَرَبُّكَ اللهُ) «میرا اور تیرا رب اللہ ہے»، (مصنف ابن ابی شیبہ 3/98، ح 9730 وسندہ صحیح)۔
تنبیہ: اس بارے میں مرفوع روایات ضعیف ہیں۔
(9) روزے كی حالت میں مسواك كرنے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ كوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، دیكھئے مصنف ابن ابی شیبہ (3/35، ح 9149، وسندہ صحیح)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: روزے كی حالت میں مسواك كرنے میں كوئی حرج نہیں ہے، چاہے مسواك خشك ہو یا تر (مصنف ابن ابی شیبہ 3/37، ح 9173، وسندہ صحیح) نیز دیكھئے صحیح بخاری (قبل ح 1934)۔
(10) امام زہری رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا: میں نے اپنے اصحاب میں سے كسی كو بھی روزہ دار كےلئے سُرمے كا استعمال مكروہ قرار دیتے ہوئے نہیں دیكھا (یعنی وہ سب اسے جائز سمجھتے تھے) دیكھئے سنن ابی داود (2379 وسندہ حسن)۔ معلوم ہوا كہ سُرمہ ڈالنے سے روزہ خراب نہیں ہوتا۔
(11) اگر دوران وضو كلی كرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جائے تو عطاء (بن ابی رباح رحمہ اللہ تابعی) نے فرمایا: كوئی حرج نہیں ہے، دیكھئے مصنف ابن ابی شیبہ (3/70، ح 9486، وسندہ قوي، روایۃ ابن جریج عن عطاء محمولۃ علی السماع)۔
(12) جس شخص كو روزے كی حالت میں خود بخود قے آ جائے تو اس كا روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر كوئی شخص جان بوجھ كر قے كرے تو اس كا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ مسئلہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، دیكھئے مصنف ابن ابی شیبہ 3/38، ح 9188، وسندہ صحیح)۔
تنبیہ: اس بارے میں مرفوع روایت ضعیف ہے۔
(13) سورج غروب ہوتے ہی روزہ جلدی افطار كرنا چاہئے، (صحیح بخاری 1957، صحیح مسلم 1098)۔
(14) جو شخص سحری كھا رہا ہو اور كھانے كا برتن اس كے ہاتھ میں ہو (یعنی وہ كھانا كھا رہا ہو) اور صبح كی اذان ہو جائے تو وہ كھانا كھا کراس سے فارغ ہو جائے، (سنن أبي داود: 2350، سندہ حسن)۔
(15) اگر كوئی شخص كسی روزہ دار كو روزہ افطار كرائے تو اسے روزہ دار جتنا ثواب ملتا ہے اور روزہ دار كے ثواب میں كوئی كمی نہیں آتی، (سنن الترمذي 807، قال:«هذا حدیث حسن صحیح» وسندہ صحیح)۔
(16) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یا كسی صحابی سے بھی بیس ركعات تراویح قولا یا فعلا ثابت نہیں ہے بلكہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دو صحابیوں سیدنا ابی بن كعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما كو حكم دیا كہ لوگوں كو گیارہ ركعتیں پڑھائیں، دیكھئے:موطا إمام مالك (روایۃ یحیی بن یحیی 1/114، ح 249، وسندہ صحیح) شرح معانی الآثار للطحاوي (1/293)۔
تقلید كے دعویدار محمد بن علی النیموی نے اس اثر كے بارے میں كہا: «وإسناده صحيح»اور اس كی سند صحیح ہے، (آثار السنن ص 250، ح 776)۔
ان دو صحابیوں میں سے ایك مردوں كو اور دوسرے عورتوں كو تراویح كی نماز پڑھاتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ كی ایك روایت كا خلاصہ یہ ہے كہ یہ دونوں صحابی گیارہ ركعات پڑھاتے تھے، (ج2، ص 392، ح 7670)۔
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ ہم (یعنی صحابہ) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ كے زمانے میں گیارہ ركعات پڑھتے تھے (سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی، ج 1 ، ص349)۔ اس روایت كے بارے میں سیوطی نے كہا: «بسند في غاية الصحة»بہت زیادہ صحیح سند كے ساتھ (الحاوی للفتاوی، ج 1 ، ص 350)۔
ان صحیح آثار كے مقابلے میں بعض تقلیدی حضرات السنن الكبری للبیہقی اور معرفۃ السنن والآثار كی جو روایتیں پیش كرتے ہیں، وہ سب شاذ (یعنی ضعیف) ہیں۔
(17) رمضان كے پورے مہینے میں با جماعت نماز تراویح پڑھنے كا ثبوت اس حدیث میں ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة) «بیشك جو شخص امام كے ساتھ (نماز سے) فارغ ہونے تك قیام كرتا ہے تو اس كیلئے پوری رات (كے ثواب) كا قیام لكھا جاتا ہے» (سنن الترمذی 806، وقال: «هذا حديث حسن صحيح» وسنده صحيح)۔
(1) نماز تراویح میں پورا قرآن پڑھنا كئی دلائل سے ثابت ہے، مثلا:
(1) ارشاد باری تعالی ہے : (اور قرآن میں سے جو میسر ہو، اسے پڑھو) (سورۃ المزمل 20)۔
(2) رسول اللہ ﷺ ہر سال رمضان میں جبریل كے ساتھ قرآن مجید كا دورہ كرتے تھے ، (دیكھئے صحیح بخاری 4997، وصحیح مسلم 2308)۔
(3) یہ عمل سلف صالحین میں بلا انكار جاری وساری رہا ہے۔
(19) رمضان كے آخری عشرے میں اعتكاف كرنا سنت ہے لیكن یاد رہے كہ یہ فرض یا واجب نہیں ہے، سنیت كیلئے دیكھئے صحیح بخاری (2026) اور صحیح مسلم (5/1172)۔
اعتكاف ہر مسجد میں جائز ہے اور جس حدیث میں آیا ہے كہ «تین مسجدوں كے سوا اعتكاف نہیں ہے» الخ، اس كی سند امام سفیان بن عیینہ كی تدلیس (عن) كی وجہ سے ضعیف ہے اور بعض علماء كا اسے صحیح قرار دینا غلط ہے۔
(20) اگر شرعی عذر (مثلا بارش) نہ ہو تو عید كی نماز عید گاہ (یا كھلے میدان) میں پڑھنی چاہئے، دلیل كیلئے دیكھئے صحیح بخاری (956) اور صحیح مسلم (9/889)۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر بارش ہو تو عید كی نماز مسجد میں پڑھ لو، (السنن الكبری للبیہقي، ج 3، ص 310، وسندہ قوي)۔
(21) اگر كسی شرعی عذر كی وجہ سے رمضان كے روزے رہ جائیں اور اگلے سال كا رمضان آ جائے تو پہلے رمضان كے روزے ركھیں اور بعد میں قضا روزوں كے بدلے میں روزے ركھیں اور ہر روزے كے بدلے میں ایك مسكین كو كھانا بھی كھلائیں۔ یہ فتوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، (دیكھئے :السنن الدارقطني، ج2، ص 197، ح 2321، وقال: «إسناده صحيح» وسنده حسن)۔
(22) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (الإفطار مما دخل وليس مما خرج) «جسم میں اگر كوئی چیز (مرضی سے) داخل ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر كوئی چیز (مثلا خون) باہر نكلے تو روزہ نہیں ٹوٹتا»، (الأوسط لابن المنذر، ج1، ص 185، ث 81، وسنده صحيح/ ترجمہ مفہوماً ہے)۔
اس اثر سے معلوم ہوا كہ ہر قسم كا ٹیكہ اور ڈرپ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لہذا روزے كی حالت میں ہر قسم كے انجكشن لگانے سے اجتناب كریں۔
(23) روزے كی حالت میں اگر مكھی وغیرہ خود بخود منہ میں چلی جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا كیونكہ ایسی حالت میں انسان مجبور محض ہے، دیكھئے سورۃ البقرۃ (173)۔
(24) روزے كی حالت میں آنكھ یا كان میں دوائی ڈالنے كا كوئی ثبوت نہیں ہے لہذا اس عمل سے اجتناب كریں۔
(25) روزے كی حالت میں خشك یا تر وتازہ مسواك اور سادہ برش كرنا جائز ہے لیكن ٹوتھ پیسٹ استعمال كرنے كا كوئی ثبوت نہیں ہے لہذا ٹوتھ پیسٹ یا دانتوں كی دوائی استعمال كرنے سے اجتناب كریں۔
(26) روزے كی حالت میں آكسیجن كا پمپ (جس میں دوا بھی ہوتی ہے) استعمال كرنے كا كوئی ثبوت میرے علم میں نہیں ہے لہذا اس فعل سے اجتناب كریں یا پھر اگر شدید بیماری ہے تو روزہ افطار كر كے اسے استعمال كریں، بعض موجودہ علماء روزے كی حالت میں آكسیجن كے پمپ كا استعمال جائز سمجھتے ہیں، واللہ اعلم۔
(27) چھوٹے بچوں كو روزہ ركھنے كی عادت ڈلوانا بہت اچھا كام ہے۔
(28) دائمی مریض جو روزے نہ ركھ سكتا ہو، اسے ہر روزے كا كفارہ دینا چاہئے۔
(29) اگر كوئی شخص فوت ہو جائے اور اس كے رمضان كے روزے رہ گئے ہوں تو پھر اس كے رہ جانے والے تمام روزوں كا كفارہ دینا چاہئے اوراگر اس پر نذر كے روزے بقایا تھے تو پھر اس كے وارثین یہ روزے ركھیں گے۔
(30) سفر میں روزہ ركھنا بھی جائز ہے لیكن اس روزے كی قضا بعد میں ادا كرنا ہوگی اور اگر طاقت ہو اور مشقت نہ ہو تو سفر میں روزے ركھنا بہتر ہے۔