• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک، عبرو نصائح

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
خطبہ جمعہ حرم مدنی۔۔۔۔16 شعبان 1433ھ

خطیب: عبدالمحسن القاسم​

مترجم: عمران اسلم​

پہلا خطبہ

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهدِه الله فلا مُضِلَّ له، ومن يُضلِل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
أما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے اس طرح ڈر جاؤ جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ اور اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔
اے مسلمانو!
اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اللہ جن و انس سے غنی ہے جبکہ جن و انس اس سے لا پرواہ نہیں ہو سکتے۔ بندوں کی حوائج و ضروریات پوری ہونے کے باوصف اپنے رب کی عبادت ان کا اولین فریضہ ہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا شدو مد کے ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [البقرة: 21]
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے قبل کے لوگوں کو پیدا کیا، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے تو اپنے رسولوں کو بھی عمل صالح کا حکم فرمایا۔
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا [المؤمنون: 51]
’’اے رسولو! پاکیزہ رزق کھاؤ اور نیک اعمال بجا لاؤ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو فرمایا:
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي [طه: 14]
’’ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر‘‘
اور نبی کریمﷺ کو حکم دیا:
بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ [الزمر: 66]
’’ لہٰذا (اے نبیؐ) تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو ‘‘
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا: لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [البقرة: 83]
اور قریش کو عبادت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ [قريش: 3]
اسی طرح مؤمنین کے لیے حکم ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ [الحج: 77]
اللہ تعالیٰ نے کثرت عبادت کے باو صف صحابہ کرام کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی:
تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [الفتح: 29]
’’ تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں ‘‘
عبودیت ایک عظیم شرف ہے جس کے حصول کے لیے سلیمانؑ نے ان الفاظ میں دعا فرمائی:
وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ [النمل: 19].
’’ اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر ‘‘
ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ رکوع سے اٹھ کر یوں گویا ہوتے:
«أحقُّ ما قال العبدُ، وكلُّنا لك عبدٌ»؛ رواه مسلم.
’’بندے نے جو کہا وہ عین حق ہے اور ہم سارے تیرے بندے ہیں۔‘‘
نبی کریمﷺ اپنے رب کی بالکل اسی طرح عبادت بجا لاتے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کے حصول کا طریقہ بتلایا ہے۔ آپﷺ ہر نماز کے بعد فرمایا کرتے:
«اللهم أعِنِّي على ذِكرِك وشُكرِك وحُسن عبادتك»؛ رواه أبو داود.
’’اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت بجا لانے میں میرا مدد گار ہو جا۔‘‘
ہر مسلمان فرضی نمازوں میں ایک دن میں سترہ مرتبہ اس عبادت کے قیام کا عہد کرتا ہے اور کہتا ہے:
جو شخص اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اس کی اطاعت میں اپنی زندگی گزارتا ہے اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کو عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے۔ فرمایا:
’’سات لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس دن سایہ نصیب فرمائیں گے جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘
اور اس میں اس نوجوان کا تذکرہ فرمایا جو اپنی جوانی رب کی عبادت میں گزارتا ہے۔
ایک نیک بندہ ہر نمازمیں آفات و شرور سے ان الفاظ سے پناہ مانگتا ہے:
نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب بندہ یہ کہتا ہے تو اس کی دعا زمین و آسمان کے ہر فرد تک پہنچ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت جنت میں داخلے کا سبب ہے۔ ایک شخص نے نبی کریمﷺ نے کہا: مجھے ایسا عمل بتائیے جس کی وجہ سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا:
«تعبُد اللهَ لا تُشرِكُ به شيئًا، وتُقيمُ الصلاة المكتوبة، وتُؤدِّي الزكاةَ المفروضة، وتصومُ رمضان»؛ متفق عليه.
’’اللہ کی عبادت کر اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا، فرض نماز قائم کر، فرضی زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر احسانات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے بندوں کو اپنی عبادت کی کیفیت کے سلسلہ میں حیران و پریشان نہیں چھوڑا۔ بلکہ اپنے رسل کے ذریعے سے عبادت کا طریق کار واضح فرما دیا۔ اور ان کو اپنی فرمانبرداری کا مکلف بنایا۔ اور فرمایا:
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [النور: 54].
جب بندہ ذات مقدس کے ساتھ اپنے اعمال میں اخلاص کا مظاہرہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مقام کو بلند فرما دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ [فاطر: 10]
’’ اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اس نے اس امت کے لوگوں کی عمروں کوکم کر دیا ہے۔ اس وقت اوسط عمر ساٹھ سے ستر برس کے درمیان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شب و روز تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں، سال مہینوں کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ دنیا میں لوگوں کو بھیجتا اور فوت کرتا ہے۔ اس دور میں کہ جب عمریں کم ہو گئی ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے اعمال کا ثواب بہت بڑھا دیا ہے اور ان کے لیے مغفرت کے دروازے کھول دئیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان کوبقیہ تمام مہینوں پر فضیلت عطا فرمائی، اس میں رسول اللہﷺ کو مبعوث فرمایا اور اور اسی میں اپنی مقدس کتاب نازل فرمائی۔ اس مہینے میں اہل اسلام کے لیے بہت زیادہ کشش ہے اور وہ ہر سال اس مہینے کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس میں وہ دین کے ایک اہم رکن کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اسی مہینہ میں ایک ایسی رات ہے جس میں فرشتے آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں جس کی عبادت ایک ہزاررات کی عبادت سے افضل ہے۔
رمضان کی فضیلت و اہمیت آپﷺ کے اس ارشاد سے ملاحظہ فرمائیے:
«من قامَ رمضانَ إيمانًا واحتسابًا غُفِر له ما تقدَّم من ذنبه»؛ متفق عليه
’’جس نے رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے اس کے گزشتہ تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔‘‘
اسی طرح نماز تراویح سے متعلق آپﷺ کا ارشاد ہے:
«من قامَ رمضانَ إيمانًا واحتسابًا غُفِر له ما تقدَّم من ذنبه»؛ متفق عليه.
’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا اس کے گزشتہ تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔‘‘
جو امام کے ساتھ نمازکو ادا کرتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
قرآن کریم رب تعالیٰ کا کلام ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو نور، برکت اور ہدایت کا نمونہ بنایا ہے۔ جو اس کی تلاوت کرتا ہے وہ اس کی ضیاپاشیوں سے مستفید ہوتا ہے ۔ اور اس کے ہر حرف کی تلاوت کے ساتھ نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ قرآن کا نزول چونکہ رمضان میں ہوا ہے اس لیے رمضان میں اس کی تلاوت کی تاکید زیادہ کی گئی ہے۔ جبریلؑ رمضان میں نبی کریمﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے۔
مزید برآں رمضان قبولیت دعا کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
’’تین لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ 1۔ روزے دار ، جب تک روزہ افطار نہ کر لے۔ 2۔ عادل امام۔3۔ مظلوم کی دعا۔ اس کی دعا بادلوں پر چڑھ جاتی ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میری عزت کی قسم! میں تمہاری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ عرصہ کے بعد ہی۔‘‘
اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ [البقرة: 186]
اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں
ماہ رمضان فقرا و مساکین کا مہینہ ہے۔وہ پورا سال اس مہینہ کا انتظار کرتے ہیں تاکہ صدقہ و خیرات وصول کر سکیں۔ تو آپ ان مساکین کی امیدوں پر پورا اتریں اور ان کے لیے اپنی جیبیں کھول دیں اور جود و سخا کا مظاہرہ کریں۔ حضور نبی کریمﷺ رمضان کریم میں بہت زیادہ خرچ کیا کرتے تھے۔
جو شخص خلق خدا پر خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کو اس سے کہیں بہتر عطا فرماتے ہیں۔
وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ [سبأ: 39]
’’ جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے ۔‘‘
اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والوں کے لیے رمضان ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ رمضان کے شب و روز غنیمت کی گھڑیاں ہیں اس میں بدی کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور نیکی کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں تاکہ اس کے بندے توبہ کے ذریعے اس کی طرف رجو ع کریں اور اپنے آپ کو گناہوں کی نجاست سے پاک کریں۔ تاکہ اسی کے باوصف اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے خوشی کا چہرہ کھول دے۔
نیکی کے دروازے کچھ مدت کے لیے کھلتے ہیں اور بہت جلد بند ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کو رمضان میسر آ گیا ہے تو ہو سکتا ہے اگلا رمضان میسر نہ آئے۔ اگر آپ اگلے رمضان کو پا لیں تو ہو سکتا ہے آپ کو کوئی بیماری لاحق ہو جائے جس کی وجہ سے آپ کی عبادت میں ضعف آ جائے، یا آپ کسی ایسی مصروفیت میں پڑ جائیں کہ عبادت کےلیے ٹائم ہی نہ نکال سکیں۔ فلہٰذا نیک اعمال کی طرف رجوع کیجئے اس سے پہلے کے فراغت کے لمحات ہاتھ سے جاتے رہیں۔
وہ شخص حقیقی معنوں میں محروم ہے جو رمضان کے قیمتی لمحات کو ضائع کر دیتا ہے اور معصیت کا ارتکاب کر کے اللہ تعالیٰ کے مقابلے پراتر آتا ہے۔ اس حوالے سے یاد رہے روزہ صرف کھانے اور پینے سے رکنے کانام نہیں ہے۔ بلکہ اس کی مشروعیت کا اصل سبب تقویٰ کا حصول ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [البقرة: 183]
’’تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
انسان کے اعضا کا روزہ یہ ہے کہ زبان کو جھوٹ ، غیبت وغیرہ سے پاک کرےاور بد نظری سے بچے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«من لم يدَع قولَ الزورِ والعملَ به فليس لله حاجةٌ في أن يدَعَ طعامَه وشرابَه»؛ متفق عليه.
’’جو جھوٹی بات کہنا اوراس پر عمل کرنا ترک نہیں کرتا، اللہ کوکوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
خواتین پر لازم ہے کہ وہ پردہ کا خصوصی اہتمام کریں اور فتنہ پیدا کرنے والی جگہوں سے دور رہیں۔ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
خوش بخت ہے وہ شخص جو اللہ کی اطاعت کا اہتمام کرتا ہے اور اپنے اعضا کو معاصی اور باطل چیزوں سے بچا کر رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا (107) خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا [الكهف: 107، 108]
’’ لبتّہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے (107) جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اُس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔‘‘
دوسرا خطبہ

مسلمانان گرامی!
نبی کریمﷺ شعبان میں روزوں کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
’’میں نے آپﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں اس قدر کثرت سے روزے رکھتے تھے۔‘‘
جوشعبان کے شروع میں روزے رکھے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے دوسرے نصف میں بھی روزے رکھے۔ یاد رہے کہ آپﷺ سے شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کے علاوہ کوئی اور عمل ثابت نہیں ہے۔ شعبان میں ایسی کوئی رات نہیں ہے جس کی عبادت کی باقاعدہ فضیلت بیان ہوئی ہو۔
ابن رجب کہتے ہیں:
’’شعبان کی پندرھوریں رات کی الگ حیثیت کے بارے میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام سے کچھ بھی منقول نہیں ہے۔‘‘
بہترین نیکی وہ ہے جس کو ہمارے نبیﷺ مشروع کر دیں۔اور بامراد وہی شخص ہے جو خالص اللہ کے لیے عمل کرے اور نبی کریمﷺ کی پیروی کو لازم کر لے۔
ثم اعلموا أن الله أمركم بالصلاةِ والسلامِ على نبيِّه، فقال في مُحكَم التنزيل: إِنَّ اللهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الذِيْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا [الأحزاب: 56].
اللهم صلِّ وسلِّم على نبيِّنا محمدٍ، وارضَ اللهم عن خلفائه الراشدين الذين قضَوا بالحق وبه كانوا يعدِلون: أبي بكرٍ، وعمر، وعُثمان، وعليٍّ، وعن سائر الصحابةِ أجمعين، وعنَّا معهم بجُودك وكرمِك يا أكرم الأكرمين.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، وأذِلَّ الشرك والمشركين، ودمِّر أعداء الدين، واجعل اللهم هذا البلد آمِنًا مُطمئنًّا وسائر بلاد المسلمين.
اللهم إنا نسألُك التوفيقَ والسعادة في الدنيا والآخرة، اللهم إنا نسألُك الإخلاصَ في القول والعمل.
اللهم انصر المُستضعفين من المؤمنين في الشام، اللهم كن لهم وليًّا ونصيرًا، ومُعينًا وظهيرًا، اللهم احفَظ لهم دينَهم وأعراضَهم وأموالَهم، اللهم عليك بمن طغَى عليهم، اللهم زلزِل الأرضَ من تحت أقدامهم، اللهم سلِّط عليهم جنودًا من عند يا قوي يا عزيز.
اللهم وفِّق إمامنا لهُداك، واجعل عمله في رِضاك، ووفِّق جميع ولاة أمور المسلمين للعملِ بكتابك وتحكيم شرعك يا ذا الجلال والإكرام.
عباد الله:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90].
فاذكروا الله العظيم الجليل يذكركم، واشكروه على آلائه ونعمه يزِدكم، ولذكر الله أكبر، والله يعلم ما تصنعون.


اس خطبہ کو سننے کے لیے یہاں کلک کریں
 
Top