• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان کے قضاء روزے کب رکھے جائیں .؟

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
وقال ابن عباس لا بأس أن يفرق لقول الله تعالى ‏ {‏ فعدة من أيام أخر‏}‏ وقال سعيد بن المسيب في صوم العشر لا يصلح حتى يبدأ برمضان‏.‏ وقال إبراهيم إذا فرط حتى جاء رمضان آخر يصومهما،‏‏‏‏ ولم ير عليه طعاما‏.‏ ويذكر عن أبي هريرة مرسلا،‏‏‏‏ وابن عباس أنه يطعم‏.‏ ولم يذكر الله الإطعام إنما قال ‏ {‏ فعدة من أيام أخر‏}‏
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان کو متفرق دنوں میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم صرف یہ ہے کہ ”گنتی پوری کر لو دوسرے دنوں میں۔“ اور سعید بن مسیب نے کہا کہ (ذی الحجہ کے) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں (اور ان کی قضاء ابھی تک نہ کی ہو) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضاء پہلے کرنی چاہئے اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ اگر کسی نے کوتاہی کی (رمضان کی قضاء میں) اور دوسرا رمضان بھی آ گیا تو دونوں کے روزے رکھے اور اس پر فدیہ واجب نہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مرسلاً ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ وہ (مسکینوں) کو کھانا بھی کھلائے۔ اللہ تعالیٰ نے کھانا کھلانے کا (قرآن میں) ذکر نہیں کیا بلکہ اتنا ہی فرمایا کہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کی جائے۔


حدیث نمبر: 1950
حدثنا أحمد بن يونس،‏‏‏‏ حدثنا زهير،‏‏‏‏ حدثنا يحيى،‏‏‏‏ عن أبي سلمة،‏‏‏‏ قال سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ تقول كان يكون على الصوم من رمضان،‏‏‏‏ فما أستطيع أن أقضي إلا في شعبان‏.‏ قال يحيى الشغل من النبي أو بالنبي صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتیں کہ رمضان کا روزہ مجھ سے چھوٹ جاتا۔ شعبان سے پہلے اس کی قضاء کی توفیق نہ ہوتی۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا۔

صحیح بخاری
کتاب الصیام
 
Top