• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رواداری سے مداہنت تک ۔ ۔ ۔ ابوبکر قدوسی

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
رواداری سے مداہنت تک

..
ابوبکر قدوسی

بنیادی بات یہ یاد رکھئے کہ رواداری اخلاقیات کے باب میں ہوتی ہے نہ کہ عقائد میں - آپ کسی کے بزرگ کا احترام کر سکتے ہیں ، انہیں مولانا ، حضرت جی ، حتی کہ چچا جی تو کہہ سکتے ہیں لیکن ان کے نظریات کا احترام نہیں کر سکتے کہ جو کے نظریات سے متصادم ہیں - سو حقیقت کی دنیا میں رہ کے مکالمے کی شروعات ہونی چاہیے -
میری "جم پل " مینار پاکستان کے پہلو میں آباد بستی راوی روڈ کی ہے - ہمارے محلے توحید آباد میں ، گھر کے سامنے ایک قادیانی فیملی آن بسی - ان لوگوں کا "گھٹے پن" سے رہنا معمول کی بات ہے - ایک سبب ان کے عقائد سے عام مسلمانوں کا تنفر ہے ، لیکن دوسرا سبب جس کی طرف نگاہ کم ہی جاتی ہے ، وہ یہ ہے کہ قادیانی حضرات خود بھی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اور ان تمام تر کو کافر کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں - سو یہ خاندان بھی اسی گھٹن کا شکار تھا ، ایک دم چپکا سا ، تنہا - ایک روز ان کی باپردہ خاتون گھبرائی سی باہر نکلی اس کی بچی اس کے ہاتھ میں تھی کہ جو لہولہان تھی - اس کو منہ پر گہری چوٹ آئی تھی - اتفاق سے میں بھی نکل رہا تھا ، میں نے ان خاتون کو روکا ، جلدی سے گاڑی نکالی ، اور ڈاکٹر پر لے گیا - علاج شروع ہوا ، جب تک کہ ان کے مرد لواحقین نہ آ گئے ، میں ادھر ہی موجود رہا - جی اس کو رواداری کہتے ہیں کہ جو آپ کے مخالف مذہبی اور سیاسی نظریات رکھنے والوں کا حق ہے -
لیکن ہمارے بہت سے احباب رواداری اور مداہنت میں فرق نہیں کر پاتے - روادری کے شوق میں کبھی تو مداھنت کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے گھر کا رستہ بھی بھول جاتے ہیں ، اور گاہے اپنے نظریات پر بھی شرمندہ شرمندہ دکھائی دیتے ہیں اور دوسری انتہا یہ ہوتی ہے کہ مخالف مذھب یا مسلک کے افراد کو انسان بھی نہیں سمجھتے اور عمدہ اخلاق کو بھی کھو دیتے ہیں -
میں اس موضوع پر پہلے بھی بہت بار لکھ چکا ہوں - آج مکرر عرض کرتا ہوں کہ میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ روادری سے بھرپور تھا - میرے بچپن کے دن بہت سے میرے والد کی صحبت سے عبارت ہیں اور بہت کچھ علامہ احسان الہی ظہیر شہید سے سیکھا - اور یہ دونوں بزرگ رواداری میں اپنی مثال آپ تھے - میرے والد کا موضوع ہی تاریخ اہل حدیث تھا اور احناف پر بہت سی تنقید انہوں نے کی بھی لکھی بھی - جب کہ علامہ کا موضوع "فرق " یعنی مختلف فرقے اور ان کے عقائد کا تجزیہ و مطالعہ - اب دیکھئے ان دو موضوعات کے ساتھ آپ نے معاشرتی تعلقات بھی نبھانے ہیں اور بہت اچھے نبھانے ہیں ، کیسا مشکل سا لگتا ہے - لیکن ایسا نہ تھا ، ان کے لیے سب آسان تھا -
بلا شبہ احناف کے مکتبہ فکر کے سب سے بڑے ناشر مکتبہ رحمانیہ والے ہیں - ان کی اور میرے والد کی ایسی دوستی تھی کہ لوگ مثال دیتے تھے- چھے دوست تھے یہ سب ، جن کو اردو بازار کی صحاح ستہ کہا جاتا ، اور یہ "صحاح ستہ " کہ جو روز کسی نہ کسی ہوٹل میں کھانے پر بیٹھی ہوتی اس میں دیوبندی اور اہل حدیث باہم مل بیٹھے ہوتے -
مولانا سعید الرحمان علوی کا قصہ پہلے بھی لکھ چکا کہ انہوں نے اہل حدیث کے خلاف مضامین لکھے ، میرے والد نے ان کے جوابات لکھے - گو کبھی لہجہ ترش بھی ہو جاتا لیکن عملی زندگی میں دونوں دوست تھے - میرے والد کی وفات کے بعد اور اپنی وفات تک مولانا علوی نے ہمیشہ ہمارے پاس آنا جانا رکھا ، حالات سے آگاہی رکھتے اور شفقت کا ہاتھ سر پر رکھتے - کیا ان کی حنفیت کمزور ہو گئی تھی یا ہماری وہابیت ؟؟
علامہ احسان اک روز قادیانیوں کی کاغذ کی دکان پر چلے گئے کہ کاغذ لینا ہے - وہ علامہ کو دیکھ کر بظاہر مودب ہو گئے بولے کیا چھاپنا ہے علامہ صاحب ؟
"آپ لوگوں کے خلاف کتاب لکھی ہے ، القادیاںیہ ، وہ شائع کرنی ہے "
مفتی محمد حسن اور مولانا محمد داوود غزنوی کی محفلیں کس سے پوشیدہ ہیں - لیکن ان میں سے کس نے کبھی اپنے عقیدے پر مداہنت کا اظہار کیا ؟
کبھی کسی نے ایک شمہ بھر بھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا -
مولانا غزنوی فوت ہو گئے ، مفتی محمد حسن بھی اللہ کے پاس چلے گئے ، مفتی شفیع صاحب سے پوچھا گیا کہ اب لاہور کم آتے ہیں ، بولے :
" نہ داوود غزنوی رہے ، نہ مفتی حسن ، اب کس کے پاس آوں ؟"
پچھلے دنوں ہمارے " چیتے " احناف کے ایک مولوی صاحب کی نہایت زہریلی اور سطحی کتاب منظر عام پر آئی - " شادی کی پہلی دس راتیں "
اہل حدیث کے خلاف ایسی زبان تھی کہ شرافت تو کیا ، بدزبانی بھی پناہ مانگے - اس کا نہایت عمدہ جواب میرے برادر عزیز عمر فاروق قدوسی نے لکھا - لیکن مجال ہے کسی جگہ کسی دیوبندی بزرگ کے بارے میں ایک حرف بھی ان کے مقام سے گرا ہو لکھا ہو - انتہائی احترام کے ساتھ ان کا ذکر کیا ، اور اپنا موقف بیان کیا - اس پر بعض حنفی دوست بھی ان کو مبارک باد دینے آئیے کہ آپ نے جواب کا حق ادا کر دیا - اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہمارے اردو بازار میں صبح دکانداری سے پہلے ایک محفل چائے ہوتی ہے - جو مکتبہ رحمانیہ پر جمتی ہے - میں اسے دیوبندی چائے بولتا ہوں کہ میزبان ہمارے چا چا جی حاجی مقبول الرحمان ہوتے ہیں - لیکن سب یوں باہم شیر شکر ہوتے ہیں کہ "دیکھا کرے کوئی "-
اس تمام تر تفصیل کہ مطلب یہ تھا کہ اتحاد اور اتفاق کے جب تک حقیقی پیمانے اور راستے اختیار نہ کیے جائیں گے تب تک یہ سب بے مقصد رہے گا - اور اتفاق ان باتوں پر ہو سکتا ہے کہ اختلاف کیا جائے تو عمدہ اخلاق کے ساتھ ، بحث ہو تو علمی نکات پر نہ کہ ذاتیات پر - عقائد پر سمجھوتوں کی خواہش دل میں رکھ کے جو گھروندہ تعمیر ہو گا اس کی بنیاد کچی ہو گئی ، ہوا کا ایک تیز جھونکا بھی اسے ڈھانے کو کافی ہو گا - ہاں اگر بنیاد اس پر ہو گی کہ جو نکتہ ہائے اتفاق ہیں ان پر ساتھ چلا جائے ، جہاں اختلاف ہو وہاں عمدہ اخلاق سے اختلاف کیا جائے، دلیل اور برہان کا سہارا لیا جائے - اور اگر اختلاف کا کوئی حل نہ ہو تو باہمی ربط ، معاشرتی تعلقات پر کوئی آنچ نہ آنے پائے -
ہمارے بعض احباب رواداری کو نظریات پر سمجھوتہ جان لیتے ہیں اور بعض دوست رواداری کے شوق میں مداہنت کو گلے لگائے رکھتے ہیں​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بہت اچھی تحریر ہے ، علما کے ان رویوں کو بہت سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اخلاق میں رواداری اور نظریات میں مداہنت کا فرق سمجھ نہ آئے ، تو بہت مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
 
Top