• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایت مسلسل بالمصافحہ کا تحقیقی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
روایت مسلسل بالمصافحہ کا تحقیقی جائزہ

کامران طاہر​
اِمسال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں لاہور میں ایک نئی بدعت کا احیا ہوا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک موضوع وغیرمعتبر روایت کی بنا پر اپنے پیروکاروں کو جنت کے ٹکٹ بانٹنا شروع کئے۔ اور یہ دعویٰ کیا کو جو شخص مجھ سے مصافحہ کرے گا، اس کے لئے اس روایت کی رو سے جنت لازم ہو جائے گی۔ نہ صرف یہ کہ اس مصافحہ کے لئے لوگوں کی قطاریں لگیں بلکہ اس کی مصدقہ سندبھی ڈاکٹر صاحب کی طرف سے جاری کی جانے لگی، جس پر ان کے دستخط اور مہر بھی ثبت ہے۔ لوگوں کو اس قدر آسانی سے جنت کے پرمٹ ملیں تو اور کس چیز کی ضرورت ہے… ؟
کتاب وسنت اور علومِ نبوت کے محافظوں کو حسب ِسابق اس صورتحال پر گہری تشویش ہوئی اور اُنہوں نے اس بنیاد کا سراغ لگایا، جس پر یہ سارا ڈھونگ کھڑا کیا گیا ہے۔ ذیل میں اسی روایت کا تفصیلی وتحقیقی جائزہ قارئین ِ محدث کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے جسے ادارہ محدث کے ریسرچ فیلو جناب کامران طاہر نے تحریر کیا ہے۔ حدیث وسنت کے متوالوں کا فرض ہے کہ وہ اس تحریر کو بھی اسی حد تک پھیلائیں جہاں جہاں اس بدعت کا بول بالا ہوا ہے تاکہ ہمارے ذمے عائد اسلام کی حفاظت کا فرض پورا ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا قیامت تک محافظ ومددگار ہے۔ واﷲ المستعان (ح م)
آج کل ہمارے ہاں اس روایت کا بڑا چرچا ہے کہ نبیﷺنے فرمایا:
’’من صافحني أو صافح من صافحنی إلیٰ یوم القیامۃ دخل الجنۃ‘‘ ’’جس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور جس نے مجھ سے مصافحہ کرنیوالے سے قیامت تک مصافحہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
’حدیث ِمسلسل‘ سے مراد محدثین کے ہاں
’’کسی حدیث کی سند کے رواۃ کی کسی ایک حالت یاصفت کا تسلسل سے منقول ہونا ہے۔‘‘
جس حدیث میں یہ حالت یا صفت پائی جائے، اسے حدیث ِمسلسل کہتے ہیں۔زیر بحث روایت میں چونکہ راویان کی صفت ’باہمی مصافحہ‘ کا ذکر ہے، اس لیے یہ روایت مسلسل بالمصافحہ کے نام سے مشہور ہے۔
ذیل میں یہ واضح کیاجائے گاکہ محدثین کے ہاں اس روایت کی حیثیت کیا ہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔اس روایت کو محمد عبدالباقی الانصاری نے اپنی کتاب مناھل السلسلۃ في الأحادیث المسلسلۃ میں مکمل سند کے ساتھ یوں ذکر کیا ہے :
صافحني شیخنا فالح بن محمد الظاہري قال: من صافحني أو صافح من صافحنی إلیٰ یوم القیامۃ دخل الجنۃ۔قال: صافحني شیخنا الأستاذ محمد بن علي الخطابي وقال: من صافحني أو صافح من صافحني إلی یوم القیامۃ دخل الجنۃ، صافحنی الأستاذ محمد بن عبد السلام الناصري وقال: کذلک صافحني الإمام أبو الحسن علی بن محمد بن ناصر وقال کذلک عن والدہ وقال: کذلک عن أبی إسحاق السباعي کذلک قال: صافحني أبو سالم عبداﷲ العیاش قال: کذلک صافحني أبومہدي عیسٰی بن محمد الثعالبي وقال: کذلک صافحني أبو عثمان سعید الجزائري وقال: کذلک صافحني أبو عثمان سعید بن أحمد المقری وقال: کذلک صافحني سیدي أحمد حجي الوھراني وقال: کذلک صافحني الإمام الزواوي وقال: کذلک صافحني الشریف محمد الفاسي نزیل الإسکندریۃ وقال: کذلک صافحنی والدي الشریف عبدالرحمن وعاش من العمر مائۃ وأربعین وقال: کذلک صافحني الشھاب أحمد بن عبد الغفار بن نوح القوصي وقال: کذلک صافحني أبو العباس الملثم وقال: کذلک صافحني المعمر وقال: کذلک قال: صافحني رسول اﷲ ﷺ وقال: )من صافحني أو صافح من صافحني إلی یوم القیامۃ دخل الجنۃ(ص :۵۰)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔اسی معنی کی ایک اور روایت ابوسعیدا لحبشی الصحابی المعمر سے روایت کی گئی ہے اور اس میں ابن طیب کے حوالے سے یہ اضافہ بھی کیا گیاہے :
من صافحني صافحتہ یوم القیامۃ ووجبت عليّ شفاعتہ وکذا من صافح من صافحنی إلی سبع مرات وجبت عليّ شفاعتہ (ص ۵۴،۵۵)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔علاوہ ازیں نبیﷺسے مصافحہ کے متعلق اس معنی کی روایات خضر ؑ اور قاضی شمہورش جنی صحابی سے بھی مروی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا اُمت ِمحمدیہﷺ پر یہ احسان ہے کہ اس نے شریعت ِمحمدی کو غش و غل سے محفوظ رکھنے کے لئے اسباب پیدا فرما دیے کہ دین کے اس چشمہ صافی کو گدلا کرنے کی کوئی کوشش آج تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ آپﷺ کی وفات کے بعدصحابہ کرامؓ ایسا مصدر تھے جو آپﷺ کی شریعت کے کماحقہ گواہ تھے، پھر ان ہستیوں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد نبیﷺ کی طرف منسوب من گھڑت روایات کا دور دورہ شروع ہوا جن کی روک تھام کے لئے اللہ تعالیٰ نے محدثین کا سلسلہ پیدا فرمایا جنہوں نے نہ صرف آپﷺ کی احادیث کو جمع فرمایا بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں راوی اور روایت کو پرکھنے کے ایسے متفقہ اُصول وضع کئے کہ من گھڑت روایات احادیث ِرسول ؐ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں۔انہوں نے ان اُصولوں کی کسوٹی پر ہر ایک راوی کو پرکھا جس کی زد میں بظاہر زہد و تقویٰ کے مرقع، ائمہ و صلحا اور صوفیا سب کے سب آئے اور اس طرح کھرے کو کھوٹے سے الگ کردیا گیا۔
اس سلسلہ میں محدثین کرام کی روشن دماغی اور گرانقدر خدمات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہارون الرشید کے پاس ایک زندیق لایا گیا انہوں نے اس کے قتل کا حکم دیا تو زندیق نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! آپ کیا سمجھتے ہیں، میں نے آپ کے درمیان چار ہزار حدیثیں گھڑی ہیں او ران میں حلال کو حرام اورحرام کو حلال کیا ہے جس کا ایک حرف بھی رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا تھا۔(میرے قتل کر دینے سے یہ حدیثیں تو نہیں مٹ جائیں گی؟)یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشید نے کہا :
’’أین أنت یا زندیق؟ من عبد اﷲ بن المبارک وأبي إسحاق الفرازي ینخلانہا فیخرجانہا حرفا حرفا ‘‘ ’’ اے زندیق ! تو عبد اللہ بن مبارک اور ابو اسحق فرازی سے بچ کر کہاں جائے گا؟ وہ تیری ان واہیات کو چھانٹ لیں گے اور اس کا ایک ایک حرف الگ نکال لیں گے۔‘‘(تہذیب التہذیب:۱؍۱۵۲، تنزیہ الشریعۃ:۱؍۱۶)
محدثین نے اسناد کا سلسلہ شروع کرکے ہر مفتری و فاسق کا قافیہ تنگ کردیا کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ کرسکے جو آپﷺ نے نہ کہی ہو۔ عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں:
’’الإسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شائ‘‘ ’’اسناد دین کا حصہ ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا کہہ دیتا۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم )
محدثین نے جہاں عام رواۃ کے لئے أسماء الرجال کا علم مدوّن کیا اور رواۃ پر جرح وتعدیل کے ضوابط مقرر فرمائے،وہاں ایسے لوگ جو نبی کریمﷺ کی صحبت کے مدعی ہیں، ان کے اس دعویٰ کو پرکھنے کے لئے بھی کئی تفصیلات اور اصول ترتیب دیے اور اس دعوائے صحابیت کی تصدیق کے بعد یہ اُصول بھی طے کردیا
کہ صحابہؓ سب کے سب عدول ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی جرح سے مبرا ہیں۔ (دیکھئے : الإصابۃ:۱؍۱۶۲، علوم الحدیث: ص۲۶۴)
لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدعیٔ صحبت عادل ہو، یعنی وہ اپنے صحابی ہونے میں سچا ہو۔ جب کسی کا صحابی ہونا ثابت ہوجائے تو اس پرہر طرح کی جرح ساقط ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ واضعین احادیث نے جب محدثین کی دوسرے ذرائع پر گرفت دیکھی اور نسبت ِصحابیت کے دروازے کو واجاناتواسے چور دروازہ کے طور پر استعمال کرنا چاہا اور صحابیت کا دعویٰ کرکے روایات بیان کرنا شروع کردیں جبکہ پاسبانِ ورثہ نبوت آنکھیں کھلی رکھے ہوئے تھے، لہٰذا ان کی نظروں سے ایسے مفسد ِدین لوگ بچ نہ سکے اور علوم نبوت کے پہرہ داروں نے ان ’چوروں‘ کی نقاب کشائی کا پورا پورا انتظام وانصرام کیا اور ان کے زہد و تقویٰ کے مصنوعی لبادوں کو بیچ چوراہے چاک کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مذکورہ بالا اور اس معنی کی جملہ روایات کے سلسلۂ سند کی تان چار شخصیات:
1۔معمر الصحابی
2۔قاضی شمہورش جنی
3۔ابوسعید الحبشی اور
4۔خضر ؑ پر ٹوٹتی ہے۔
اور یہ راوی یا تو وہ ہیں جن کی طرف شرفِ صحابیت کو منسوب کیا جاتا ہے یا جنہوں نے نبیﷺ کی وفات کے دوسو سال بعد آپؐ سے ملاقات کا دعوی کیا اور ان کے متعلق مشہور ہے کہ ان لوگوں نے لمبی عمر پائی جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو مُعَمّرین کہا جاتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یہاں ہم اپنے بعض قارئین کی یاددہانی کے لئے فن حدیث کے اس مشہور اُصول کا تذکرہ مناسب خیال کرتے ہیں کہ
اگر سلسلۂ سند میں کوئی ایک راوی بھی غیر عادل، غیر ثقہ ہو یا سلسلۂ سند کسی ایک مقام سے بھی منقطع ہو تو فن حدیث کی رو سے وہ روایت ’ضعیف‘ یعنی ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ ایسی حدیث سے شریعت ِمطہرہ کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ اس لئے اس نوعیت کی تمام روایات میں اگر مذکورہ بالا چار بنیادی رواۃ کا جائزہ لے لیا جائے جو ہر کسی سلسلہ سند میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہیں، تو اس سے اس روایت کی فنی وشرعی حیثیت کا واضح تعین بخوبی ہوجائے گا۔
مذکورہ بالا چاروں راوی اپنی اپنی روایت میں اس امر کے مدعی ہیں کہ انہوں نے یہ فرمان نبی آخر الزمان محمدﷺسے سنا ہے۔ گویا وہ اس طرح اپنے شرفِ صحابیت کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ محدثین نے مدعیانِ صحبت ِنبوی ؐکے متعلق حدیث
’’ أرأیتکم لیلتکم ھذہ فإن رأس مائۃ سنۃ عنھا لا یبقی فمن ھو علی ظھر الأرض أحد‘‘ (صحیح بخاری :۵۶۳)
اور
’’ ما علی الأرض من نفس منفوسۃ الیوم یأتي علیھا مائۃ وھی حیۃ یومئذ‘‘ (صحیح مسلم:۲۵۳۸) ’’ آج سے سوسال بعد جو ذی روحبھی زمین پر ہے، وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
سے یہ اُصول اَخذ کیا ہے کہ مدعی صحبت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نبیﷺ کے اس فرمان کے بعد سوسال کے بعد کانہ ہو، کیونکہ نبیﷺ کا یہ فرمان۱۰؍ہجری کا ہے
جبکہ علیٰ الاطلاق آخری صحابی ابو طفیل عامر بن واثلہؓ ہیں جس پر محدثین کا اتفاق ہے۔ (فتح المغیث :۳؍۱۳۹)
اور آپؓ
راجح قول کے مطابق ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے۔ (تقریب:۱؍۳۸۹)
گویا نبیﷺ کے فرمان کے بعد ابوطفیلؓ صحابہؓ میں سے آخر میں فوت ہونے والے شخص تھے، ان کے بعد روئے زمین پر کوئی بھی صحابیؓ باقی نہ رہا۔ اس وجہ سے ۱۱۰ہجری کے بعد کے مدعیانِ صحبت کا کوئی اعتبار نہیں۔ مذکورہ تمہید کے بعد اب ہم روایات کے مرکزی کرداروں کا بالترتیب ذکر کرکے ان کی حیثیت واضح کرتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔ ابوعبداللہ المعمرالصحابی کی حیثیت ؛ ماہرین فن کی نظر میں

1۔حافظ ابن حجر کے اقوال:
یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت ابوطفیلؓ کی وفات کے بعد صحابیت کا دعویٰ کیا اور اس کی عمر ۴۰۰ سال بتائی جاتی ہے اور اس کی اس روایت کو روایت مسلسل بالمصافحۃ المعمریۃکہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ابن حجر ؒلکھتے ہیں:
’’شخص اختلق اسمَہ بعض الکذابین من المغاربۃ‘‘ (الإصابۃ :۶؍۲۹۱)
’’اس کردار کو مغاربہ کے بعض کذاب لوگوں نے گھڑا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔مزید معمر بن بُریک کے ترجمہ میں اس کا ذکر یوں کرتے ہیں:
’’وقد وقع نحو ھذا في المغرب محدث شیخ یقال لہ أبوعبد اﷲ محمد الصقلي قال: صافحني شیخی أبو عبد اﷲ معمر وذکر أنہ صافح النبي ﷺ وأنہ دعا لہ فقال لہ: عَمَّرک اﷲ یا معمر فعاش أربع مائۃ سنۃ وأجاز لي محمد بن عبد الرحمن المکناسي من المغرب بضع عشرۃ وثمان مائۃ أنہ صافح أباہ صافح شیخا یقال لہ: الشیخ علي بن الخطاب بتونس وذکر لہ أنہ لہ مائۃ وثلاثۃ وثلاثین عامًا وأن الخطاب صافح الصقلي وذکر أنہ عاش مائۃ وستین سنۃ قال الصقلي: صافحني شیخي أبو عبد اﷲ معمر وذکر أنہ صافح النبي ﷺ وأنہ دعا لہ فقال: عمّرک اﷲ یا معمر فعاش أربع مائۃ سنۃ۔ فھذا کلہ لا یفرح بہ من لہ عقل۔(لسان المیزان :۶؍۶۹)
’’مغرب میں ایک محدث شیخ جنہیں ابوعبداللہ محمد صقلی کہا جاتا ہے، نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ ابوعبداللہ معمر نے مصافحہ کیا اور ذکر کیا کہ میں نے نبیﷺ سے مصافحہ کیا اور آپﷺ نے میرے لئے دعا کی کہ اے معمر! اللہ تجھے لمبی عمر دے۔ پس وہ ۴۰۰ سو سال تک زندہ رہے اور مجھے اجاز ت دی محمد بن عبدالرحمن مکناسی مغربی نے تقریباً ۸۱۰ھ میں کہ اس نے اپنے باپ سے مصافحہ کیا جنہوں نے اپنے شیخ علی بن خطاب تیونسی سے مصافحہ کیا اور ا س کی عمر ۱۳۳ سال تھی اور خطاب نے صقلی سے مصافحہ کیا اور اس کی عمر ۱۶۰ سال تھی اور صقلی نے کہا کہ مجھ سے مصافحہ کیا میرے شیخ ابوعبداللہ معمر نے اور اُنہوں نے ذکر کیا کہ اس نے نبیﷺ سے مصافحہ کیا اور نبیﷺ نے اسے دعا دی، فرمایا: اے معمر! اللہ تیری عمر دراز کرے۔ پس وہ ۴۰۰ سال تک زندہ رہے۔ (میں ابن حجر کہتا ہوں) کوئی عقل مند آدمی ان باتوںسے کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔اور اسی طرح ابن حجر الملثم کے طریق سے اسناد بیان کرکے لکھتے ہیں:
ذلک مما لا أَعتَمِد علیہ ولا أَفرح بعلوہ ولا أذکرہ إلا استطرادًا (ایضاً:۱؍۷۱)
’’یہ سلسلۂ اسناد ایسا ہے کہ میں اس پراعتماد نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے عالي سند ہونے پر خوش ہوں بلکہ میں نے ضمناً اُنہیں ذکر کردیا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔مزید، الصقلي کے طریق سے سند بیان کرکے لکھتے ہیں:
وھذا من جنس رتن وقیس بن تمیم ومُکلبۃ ونَسطور (الإصابۃ: ۶؍۲۹۱)
’’یہ (معمر) رتن1، قیس بن تمیم2، مکلبہ3 اور نسطور4 کے قبیل سے ہے۔‘‘
1۔امام ذہبی کہتے ہیں:
’’وما أدراک ما رتن! شیخ دجال بلا ریب ظہر بعد الستمائۃ فادعی الصُّحبۃ‘‘ (میزان الاعتدال:۲؍۴۵)
’’تو کیا جانے رتن کیا ہے ؟ بلا ریب یہ دجالوں کا شیخ ہے جس نے ۶۰۰ھ کے بعد صحابی ہونے کا دعوی کیا۔‘‘
2۔ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’ من نمط أشج العرب ومن نمط رتن الہندي۔۔۔‘‘ (الاصابہ:۵؍۲۸۷)
’’… قیس بن تمیم رتن ہندی کی قبیل سے ہے۔‘‘ اس نے ۵۱۷ھ میں صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ۔
3۔ابن حجر کہتے ہیں :
’’شخص کذاب أو لا وجود لہ۔۔۔‘‘ (ایضاً:۶؍۲۹۸)
’’یہ کذاب شخص ہے یا پھر فرضی کر دار ہے ۔‘‘اور یہ تیسری صدی ہجری کا ہے۔
4۔ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’کذابین میں سے تھا۔نبی ؐ کی وفات کے بعد اس کی عمر ۳۰۰ سال تک بتائی جاتی ہے۔‘‘ (ایضاً:۶؍۲۷۱)
 
Top