• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزے کی فضیلت اور اس کے تقاضے

شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ والتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون(حشر 18)
اللہ تعالیٰ نے جب سے انسان کو پیدا کیا تب سے لے کر اب تک اور اب سے لے کر قیامت تک کے لئے انسان کو ایک مقصد دے دیا اور اس مقصد کو پانے کے لئے ایک راستہ دے دیا، وہ مقصد کیا ہے ؟ "تاکہ وہ تم کو آمازئے تم میں کون بہترین عمل کرنے والا ہے" اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح سے بیان کیا کہ، "اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور لازمی طور پر ہر بندے کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کےلئے کیا تیارکیا ہے،اللہ سے ڈر جاؤیقینا اللہ تعالی تہمارے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے۔" دراصل دنیا ہمارے لئے ایک امتحان گاہ ہے اور ہم اس میں بس کچھ دیر رکنے کےلئے آئے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ قیامت کے روز اس دنیا میں پچاس،ساٹھ،سال گزارکرجانے والے آدمی سے جب یہ سوال ہو گا کہ کتنا وقت دنیا میں رہ کر آئے ہوتو وہ کہے گا بس ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، حیرانگی اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان اس تھوڑی سے دنیا کے لئے کتنا کچھ جمع کرتا ہے،
بقول شاعر
" آگاہ اپنے انجام سے کوئی بشر نہیں ساماں سو برس کا پل کی خبر نہیں"
لیکن اس حقیقی و ابدی زندگی کے لئے ہمارے ہاتھ بالکل خالی نظر آتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ہماری کچھ بھی تیاری نہیں ہے۔
ایک چھوٹی سی دنیاوی مثال دے کر بات سمجھتے ہیں کہ ایک آدمی نے سفر کرنا ہے تو اس کےلئے وہ تیاری کرتاہے جیسے گاڑی کا وقت معلوم کرنا،سفر کی مدت،سفر کے لئے ضروری چیزیں، وغیرہ ایسا بندہ جس کے پاس رخت سفر نہ ہو یا ہو بھی تو پورا نہ ہو وہ کبھی بھی منز ل مقصود تک نہیں پہچ سکتا۔ بس یہ ہی مثال اس دنیا کی ہے کہ یہاں ہم صرف تیاری کر رہے ہیں منز ل تو ابھی بہت آگے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم کو رمضان ماہ غفران عطاء کیا یہ اسکی خاص کرم نوازی ہے،وگرنہ ہم میں سے کتنے ہی ایسے ہیں جو اس رمضان کو پا نہ سکے۔اس مہنے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم طلوع صادق سے لے کر غروب آفتاب تک بھوکے رہیں اور بس۔۔۔!نہیں بلکہ اس کا مقصد ہماری ٹریننگ ہے اسلام انسان کو بھوکا رکھنا بالکل بھی پسند نہیں کرتا اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ : جب نماز کا وقت آجائے اور تمہارے پاس کھانا حاضر ہو تو تم پہلے کھانا کھا لو" اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ اسلام لوگوں کو بھوکا رکھنا پسند نہیں کرتا اور اسی لئے روزے کا مقصد اور اس کا تقاضا بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے۔اگر روزے کی حالت میں بھوکے پیاسے رہنے کی اتنی اہمیت ہوتی تو اللہ کے نبی ﷺ کبھی یہ بات بیان نہ کرتے "من لم یدع قول الزور والعمل بہ،فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ وشرابہ" (بخاری 1903)اس حدیث نے آکر یہ بات واضح کردی کہ روزہ کیا چاہتا ہے؟ اگر کوئی بندہ روزہ رکھتا ہے اور زبان گندی ہے،روزہ رکھتا ہے اور کان موسیقی سنتےہیں روزہ رکھتا ہے آنکھیں برائی دیکھتی ہیں، روزے کی حالت میں ہے اور ہاتھ دوسرے مسلمان کی گریبان پر ہیں تو ایسے بندے کو بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے اس چاہئے کہ وہ کھائے پیئے اور انجوائے کرے۔ ذارا سا غور کریں کہ ایسا آدمی دن بھر بھوکا پیاسا بھی رہا اور ہاتھ بھی کچھ نہ آیا دوسرے لفظوں میں ایک آدمی نے دن بھر مزدوری کی پر شام کومالک نے کہہ دیا کوئی مزدوری نہیں ہے تونے کام میری مرضی سے نہیں کیا۔اس لئے اس بات کو باخوبی جان لینا چاہئے کہ روزے کا مقصدہے ہماری تیاری اور تقویٰ کو اپنانا ¬تاکہ ہم اللہ کے مقرب بندے بن جائیں اور ہمارا نام بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائے جن کو اللہ تعالیٰ باب الریان میں سے گزاریں گے۔
اللہ نے روزے دار کی بڑی تعظیم رکھی ہے اس کی ایک ایک نیکی کوسات سو گنا تک بڑھا دیا ہے کیا عجیب بات ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ اللہ کو روزے دار پر اس قدر پیار آتا ہے کہ اس کےمنہ سے (معدہ خالی ہو نے کی وجہ سے ) آنے والی باس کو اس قدر مقبول کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا :والذی نفس بیدہ محمد، لخلوف فم الصائم اطیب عند اللہ من ریح المسک( بخاری 1904) کیسی شان ہے روزے دار کی مگر یہ شان صرف اس روزے دار کی ہے جو روزے کی حالت میں بچنے والا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی اسے گالی دیتا ہے یا لڑتا ہے تو وہ جوابی حملہ نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے "انی صائم انی صائم" روزے کی حالت میں اس کی ہر چیز اللہ کے تابع ہو جاتی ہے خواہ اس کی معاشی زندگی ہو معاشرتی زندگی ہو عائلی زندگی ہو ہر چیز میں وہ اس بات کا متلاشی ہو کہ اللہ کی رضا کس بات میں ہے۔
اگر بندہ ایک مہینہ خود کو درست سمت میں چلانے کا عادی ہو جائے گا تو وہ پوری زندگی بھی اس بات کو اپنا سکے گا۔ اسی وجہ سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا: الصوم جنۃ،(خ:1904) کہ روزہ ڈھال ہے کیوں کہ یہ آدمیوں کو گناہوں سے بچاتاہے جس طرح ایک سپاہی کو اس کے پاس موجود ڈھال دشمن کے حملوں سے بچاتی ہے۔
روزے دار کے لئے برکات ہی برکا ت ہیں اور خوشیاں ہی خوشیاں ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لصائم فرحتان اذا افطر فرح واذا لقی ربہ فرح بصومہ (خ1904)۔اسلام کی جتنی بھی عبادات ہیں ان کے ثواب کی تقسیم اللہ تعالی نے کسی نہ کسی طرح سے کر دی ہے۔ مثلا نماز باجماعت ادا کرنا 27 گنا زیادہ ثواب ہے نسبتاً الگ نماز ادا کرنے سے اسی طرح جتنا خشوع و خضوع ہو گا اتنا ثواب بڑھتا جائے گا۔زکوٰۃ کی بات آئی تو کہہ دیا گیاہے جو ادا کرے گا اس کا مال پاک ہو جائےگا ،حج کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ ابھی ماں کے پیٹ سے باہر آیا ہو۔ لیکن جب روزے کی باری آتی ہے تو اللہ فرماتے ہیں۔بس ۔۔!"الصوم لي وأنا أجزي به(خ:7492) یہ بات اس لئے کہی گئی کہ روزہ وہ واحد بدنی عبادت ہے جو اللہ مکمل طور پر حڈن ہے ۔ جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں سب کو نظر آجاتی ہے اور زکوٰۃ دیں تو جس کو دی جائے وہ تو جانتا ہی ہو تا ہے کم سے کم اور حج کے بعد تو ہم ویسے ہی سارے خاندان کو جمع کر لیتے ہیں لے دے کے بچتا ہے تو روزہ کے بندہ بظاہر تو روزے دار ہے مگر چھپ کر کیا ہو رہاہے یہ بات اللہ اور بندے کے درمیان ہی خاص ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اللہ نے روزے دار کو جزا دینے کا وعدہ بھی خود ہی کر لیا ہے۔ جو جتنا زیادہ متقی ہو گا وہ اس قدر ہی اجر وثواب کا مستحق ہو گا۔
انہی باتوں پر اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ سے اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان سے زیادہ سے زیادہ مستفیدہونے توفیق عطاء فرمائے اور روزے کہ جو تقاضے ہیں اللہ ان کو پورا کرنے کی توفیق دیں۔(آمین )
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=34273
 
Top