محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رُت کچھ بدلی بدلی سی ہے، عنوان راقم نے قائم کیا ہے۔
اب اپ بی بی سیعہ کی یہ رپورٹ پڑھ لیں۔ شاید میں ٹھیک سے سمجھا نہ پاؤں:
پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی نئی شاخ کھلنے پر سرکاری سطح پر وہی ردعمل دکھائی دے رہا ہے جو یہاں طالبان کے جڑیں پکڑتے وقت سامنے آیا تھا۔
ریت میں سر چھپانے سے شاید یہ تنظیم بھی ہوا میں تحلیل نہیں ہو جائے گی۔
پاکستان میں نیا جہادی بھنور
کیا داعش ٹی ٹی پی کی مدد کر سکتی ہے؟
حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر کھل کر بات نہ کرنے سے خدشہ یہی ہے کہ لوگوں کا یہ شک بڑھے گا کہ اسے کیا کسی کی سرپرستی تو حاصل نہیں۔
شام و عراق میں بڑے علاقے پر قبضہ جمانے والی تنظیم دولت اسلامیہ کی پاکستان میں حمایت کی پہلی نشانی خیبر پختونخوا کے جنوبی اور وزیرستان سے جڑے علاقے بنوں میں وال چاکنگ کی صورت دکھائی دی۔
فوجی حکام نے اس پر فوراً راتوں رات چونا پھیر دیا۔ یہی صورت حال بعد میں کراچی اور پشاور میں بھی جگہ جگہ دکھائی دی۔ لیکن تحریری صورت میں پہلی بار اس تنظیم کی جانب سے پشاور اور افغانستان میں کتابچے شائع اور تقسیم ہوئے۔
اسی صوبے کی قیادت سے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے وہاں کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے انٹرویو کا باضابطہ وقت لیا گیا۔ بی بی سی ٹیم اسلام آباد سے پشاور بھی پہنچی لیکن آخری وقت پر انٹرویو دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ اس مسئلے کو سکیورٹی ادارے دیکھ رہے ہیں لہٰذا وہی بات کریں گے۔
کہا، سکول اساتذہ کو اسلحہ دینے کے صوبائی کابینہ کے فیصلے پر بات کر لیتے ہیں تو اس سے بھی انکار۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے تجویز آئی کہ ترقیاتی منصوبوں پر بات کر لیں۔ تو کہا، چلیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس اعلان پر بات کر لیتے ہیں کہ اب وہ اب پشاور میں بیٹھ کر صوبائی حکومت کی کارکردگی کی نگرانی کریں گے، تو پرویز خٹک کا جواب تھا کہ یہ عمران خان سے پوچھ لیں۔ میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا تو وزیراعلیٰ صاحب یہاں پھر وزیراعلیٰ ہاؤس میں کس لیے بیٹھے ہیں؟
مصالحت کاروں سے کہا کہ انھیں کہیں کہ اگر وہ وزیراعلیٰ بن کر نہیں بات کر سکتے تو ایک سیاست دان کی حیثیت سے بات کر لیں۔ لیکن بات نہیں کرنی تھی سو نہ کی۔
پاکستانی سیاست دان جس طرح سے اپنی گرفت اور حیثیت کھو رہے ہیں اس کی یہ واقعہ شاید بہترین مثال ہے۔ اعتماد کی کمی اور حالات کا ادراک نہ ہونے ہی کی وجہ سے دیگر ریاستی اداروں کو آگے آنے کا موقع مل رہا ہے۔
یہ بھی ایک ایسے صوبے میں جو شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ جو شدت پسند پکڑے جا رہے، ان کی ڈوریاں ہلانے والے بےنقاب ہونا چاہییں، تاکہ قوم کو معلوم ہو کہ مسئلہ کتنا گھمبیر ہے۔
سکیورٹی ادارے شاید کبھی اس پر بات نہ کریں کیونکہ انھیں ہمیشہ یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے۔ لیکن سیاست دان کا کام ہے عوام کو اعتماد میں لینے کا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/01/150128_islamic_state_pak_reaction_zz
رُت کچھ بدلی بدلی سی ہے، عنوان راقم نے قائم کیا ہے۔
اب اپ بی بی سیعہ کی یہ رپورٹ پڑھ لیں۔ شاید میں ٹھیک سے سمجھا نہ پاؤں:
پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی نئی شاخ کھلنے پر سرکاری سطح پر وہی ردعمل دکھائی دے رہا ہے جو یہاں طالبان کے جڑیں پکڑتے وقت سامنے آیا تھا۔
ریت میں سر چھپانے سے شاید یہ تنظیم بھی ہوا میں تحلیل نہیں ہو جائے گی۔
پاکستان میں نیا جہادی بھنور
کیا داعش ٹی ٹی پی کی مدد کر سکتی ہے؟
حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر کھل کر بات نہ کرنے سے خدشہ یہی ہے کہ لوگوں کا یہ شک بڑھے گا کہ اسے کیا کسی کی سرپرستی تو حاصل نہیں۔
شام و عراق میں بڑے علاقے پر قبضہ جمانے والی تنظیم دولت اسلامیہ کی پاکستان میں حمایت کی پہلی نشانی خیبر پختونخوا کے جنوبی اور وزیرستان سے جڑے علاقے بنوں میں وال چاکنگ کی صورت دکھائی دی۔
فوجی حکام نے اس پر فوراً راتوں رات چونا پھیر دیا۔ یہی صورت حال بعد میں کراچی اور پشاور میں بھی جگہ جگہ دکھائی دی۔ لیکن تحریری صورت میں پہلی بار اس تنظیم کی جانب سے پشاور اور افغانستان میں کتابچے شائع اور تقسیم ہوئے۔
اسی صوبے کی قیادت سے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے وہاں کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے انٹرویو کا باضابطہ وقت لیا گیا۔ بی بی سی ٹیم اسلام آباد سے پشاور بھی پہنچی لیکن آخری وقت پر انٹرویو دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ اس مسئلے کو سکیورٹی ادارے دیکھ رہے ہیں لہٰذا وہی بات کریں گے۔
کہا، سکول اساتذہ کو اسلحہ دینے کے صوبائی کابینہ کے فیصلے پر بات کر لیتے ہیں تو اس سے بھی انکار۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے تجویز آئی کہ ترقیاتی منصوبوں پر بات کر لیں۔ تو کہا، چلیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس اعلان پر بات کر لیتے ہیں کہ اب وہ اب پشاور میں بیٹھ کر صوبائی حکومت کی کارکردگی کی نگرانی کریں گے، تو پرویز خٹک کا جواب تھا کہ یہ عمران خان سے پوچھ لیں۔ میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا تو وزیراعلیٰ صاحب یہاں پھر وزیراعلیٰ ہاؤس میں کس لیے بیٹھے ہیں؟
مصالحت کاروں سے کہا کہ انھیں کہیں کہ اگر وہ وزیراعلیٰ بن کر نہیں بات کر سکتے تو ایک سیاست دان کی حیثیت سے بات کر لیں۔ لیکن بات نہیں کرنی تھی سو نہ کی۔
پاکستانی سیاست دان جس طرح سے اپنی گرفت اور حیثیت کھو رہے ہیں اس کی یہ واقعہ شاید بہترین مثال ہے۔ اعتماد کی کمی اور حالات کا ادراک نہ ہونے ہی کی وجہ سے دیگر ریاستی اداروں کو آگے آنے کا موقع مل رہا ہے۔
یہ بھی ایک ایسے صوبے میں جو شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ جو شدت پسند پکڑے جا رہے، ان کی ڈوریاں ہلانے والے بےنقاب ہونا چاہییں، تاکہ قوم کو معلوم ہو کہ مسئلہ کتنا گھمبیر ہے۔
سکیورٹی ادارے شاید کبھی اس پر بات نہ کریں کیونکہ انھیں ہمیشہ یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے۔ لیکن سیاست دان کا کام ہے عوام کو اعتماد میں لینے کا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/01/150128_islamic_state_pak_reaction_zz