• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکعات تراویح متعین نہیں ہیں

شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی رکعتیں متعین کی تھیں؟
ازقلم: ڈاکٹر محمد یٰسین

راجح قول یہی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی رکعتیں متعین نہیں کی تھیں۔ دلیل حسب ذیل ہے:
دلیل:حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْنَافِعٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام:‏‏‏‏"صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى۔
ترجمہ: "ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے نافع اور عبداللہ ابن دینار سے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔ (صحیح بخاری کتاب الوتر باب ماجاء فی الوتر حدیث نمبر 990)
وضاحت :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل کی رکعتوں کو چاہے رمضان ہو کہ غیر رمضان ،تہجد ہو کہ تراویح متعن نہیں کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دودو" ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی اور یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا اسے تعداد کا علم نہیں تھا۔ کیونکہ جسے نماز کی کیفیت ہی کا علم نہ ہو اس کا عدد سے جاہل ہونہ زیادہ اولیٰ ہے۔اور پھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے ہونے والے ہر کام کا علم ہو۔
لہٰذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاس آدمی کو تعداد کی تحدید کئے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں وسعت ہے اور انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ رمضان ہو کہ غیر رمضان رات میں جتنی چاہے اتنی رکعتیں پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ دو دو رکعت کر کے پڑھے اور اگر صبح ہونے کا ڈر ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ قیام اللیل کی رکعتیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قیام اللیل کی وتر کے علاوہ بارہ(12) رکعتوں کا ثبوت:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْمَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ،‏‏‏‏ عَنْ كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍأَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ،‏‏‏‏ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ،‏‏‏‏"ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي،‏‏‏‏ فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ،‏‏‏‏ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ،‏‏‏‏ ثُمَّ أَوْتَرَ،‏‏‏‏ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ،‏‏‏‏ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ
ترجمہ: ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے (آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) میں تکیہ کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
(صحیح بخاری کتاب الوتر باب ماجاءفی الوتر 992)
وضاحت:
اس حدیث میں ابن عباسؓ نے کل پندرہ رکعتوں کا ذکر کیا ہے جن میں بارہ تہجد کی 1 وتر اور 2 فجر کی سنتیں ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قیام اللیل کی وتر کے علاوہ دس (10) رکعتوں کا ثبوت:
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ،‏‏‏‏ عَنْ حَنْظَلَةَ،‏‏‏‏ عَنْالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ عَشْرَ رَكَعَاتٍ،‏‏‏‏ وَيُوتِرُ بِسَجْدَةٍ،‏‏‏‏ وَيَسْجُدُ سَجْدَتَيِ الْفَجْرِ،‏‏‏‏ فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً.
ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دس رکعتیں پڑھتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے اور دو رکعت فجر کی سنت پڑھتے، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوتیں۔
(سنن ابو داؤد أبواب قيام الليل باب فی صلاۃ اللیل 1334، صحیح البخاری/التھجد ۱۰ (۱۱۴۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۳۸) سنن النسائی/قیام اللیل ۳۳ (۱۶۹۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۴۸)، مسند احمد (۴/۱۵۱، ۱۵۸،۲۰۱) (صحیح)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قیام اللیل کی وتر کے علاوہ آٹھ (8) رکعتوں کا ثبوت:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ "مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً،‏‏‏‏ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا،‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں سعید بن ابوسعید مقبری نے خبر دی، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں (رات کو)کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہوتا یا کوئی اور۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
(صحیح بخاری كتاب التهجد باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم بالليل في رمضان وغيره 1147)
دلیل نمبر2۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْهَا بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْخَمْسِ حَتَّى يَجْلِسَ فِي الْآخِرَةِ فَيُسَلِّمُ". قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ رَوَاهُ ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے اور انہیں پانچ رکعتوں سے طاق بنا دیتے، ان پانچ رکعتوں میں سوائے قعدہ اخیرہ کے کوئی قعدہ نہیں ہوتا پھر سلام پھیر دیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن نمیر نے ہشام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
(سنن ابوداؤد أبواب قيام الليل باب في صلاة الليل1338، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/لمسافرین ۱۷ (۷۳۸)، سنن النسائی/قیام اللیل ۳۹ (۱۷۱۸)، مسند احمد (۶/ ۱۲۳، ۱۶۱، ۲۰۵) (صحیح)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قیام اللیل کی وتر کے علاوہ چھ (6) رکعتوں کا ثبوت:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ عَنْعَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً بِرَكْعَتَيْهِ،‏‏‏‏ قَبْلَ الصُّبْحِ يُصَلِّي سِتًّا مَثْنَى مَثْنَى،‏‏‏‏ وَيُوتِرُ بِخَمْسٍ لَا يَقْعُدُ بَيْنَهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ".
ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں کو لے کر تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے: دو دو کر کے چھ رکعتیں پڑھتے اور وتر کی پانچ رکعتیں پڑھتے اور صرف ان کے آخر میں قعدہ کرتے۔
(سنن ابوداؤد أبواب قيام الليل باب في صلاة اللیل 1359، وقد أخرجہ: مسند احمد( ۶/۲۷۵) ( صحیح)
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل میں وتر کے علاوہ 6،8،10،12 رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر قیام اللیل کی رکعتوں کو متعیں نہیں کیا اور نہ ہی اپنی امت پر۔
تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں:
تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں۔ جسکے متعلق شیخ کفایت اللہ سنابلی نے دس دلائل پیش کئے ہیں جن میں سےپانچ حسبِ ذیل ہیں۔
پہلی دلیل:
صحیح بخاری کی پیش کردہ حدیث میں سائل نے رمضان کی نماز یعنی تراویح کے بارے میں سوال کیا تھا لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجددونوں کو ایک ہی نماز مان کردونوں کے بارے میں ایک ہی جواب دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے۔
دوسری دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں ہے یہی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔
حنفیوں کے انورشاہ کشمیری تراویح اور تہجدکے ایک ہی نماز ہونے کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّمأنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
دونوں نمازوں کا الگ الگ نماز ہونا اس وقت ثابت ہوگا جب اس بات کا ثبوت مل جائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے۔[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 23]۔
تیسری دلیل:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا، حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الخَامِسَةِ، حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ: «إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ»، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ، وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الفَلَاحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الفَلَاحُ، قَالَ: «السُّحُورُ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے آپ نے تئیسویں رات تک ہمارے ساتھ رات کی نماز نہیں پڑھی (یعنی تراویح) پھر تیئسویں رات کو ہمیں لے کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی پھر چوبیسویں رات کو نماز نہ پڑھائی لیکن پچیسویں رات کو آدھی رات تک نماز (تراویح) پڑھائی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آرزو تھی کہ آپ رات بھی ہمارے ساتھ نوافل پڑھتے آپ نے فرمایا جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز میں شریک رہا اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھ دیا گیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستائیسویں رات تک نماز نہ پڑھائی ۔ ستائیسویں رات کو پھر کھڑے ہوئے اور ہمارے ساتھ اپنے گھر والوں اور عورتوں کو بھی بلایا یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ فلاح کا وقت نہ نکل جائے راوی کہتے ہیں میں نے ابوذر سے پوچھا فلاح کیا ہے تو انہوں نے فرمایا سحری امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے [سنن الترمذي: 3/ 160 رقم806 واسنادہ صحیح]۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے دن تراویح کو اتنی دیرتک پڑھا تھا کہ صحابہ کو ڈر تھا کہ کہیں سحری کا موقع ملے ہی نہ ۔ظاہر ہے کہ جب سحری کا وقت نہ ملنے کا خوف تھا تو تہجد کا وقت ملنے کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔
اگرتراویح اور تہجد دونوں الگ الگ نماز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کواتنی تاخیر نہ کرتے کہ سحری کا وقت بھی مشکل سے ملے۔
نیز صحابہ کرام یہ نہ کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں سحری کا وقت نہ ملے بلکہ یوں کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں تہجد ہی کا وقت نہ ملے ۔
مزید یہ کہ یہ حدیث اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس رات تراویح کے بعد تہجد کے لئے کوئی موقع تھا ہی نہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات تہجدنہیں پڑھی۔اگر تراویح اور تہجد دونوں ا لگ الگ نمازیں ہوتی ں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بھی تہجد خود پڑھتے اور صحابہ کو بھی اس کا موقع دیتے ۔
چوتھی دلیل:
عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ»
قیس بن طلق بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا :ایک رات میں دو وتر نہیں ہے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 333 رقم470 ]۔
یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے ساتھ وتر بھی پڑھی تھی جیساکہ آگے حدیث آرہی ہے۔اور وتر کی نمازتہجد کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہے۔
اگر تراویح اور تہجد الگ الگ مانیں تو یہ لازم آئے گا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےدو باروترپڑھی ہے اوریہ ناممکن ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہے۔
پانچویں دلیل:
محدثین نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو رمضان کے قیام یعنی تروایح اور تہجد دونوں طرح کے عناوین اور ابواب کے تحت ذکر کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ محدثین کی نظر میں تراویح اور تہجد ایک ہی ہے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں تراویح اور تہجد ہی کی رکعات کا ذکر ہے۔
چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں” کتاب صلاۃ التراویح “میں اس حدیث کو درج کیا ہے اور اس پر ”فضل من قام رمضان“ یعنی تراویح پڑھنے کی فضیلت کا باب قائم کیا ہے ۔دیکھئے: صحیح بخاری : کتاب صلاۃ التراویح :باب فضل من قام رمضان ،حدیث نمبر2013۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ”باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان“ یعنی رمضان میں تراویح کی رکعات کی تعداد کے بیان میں ذکرکیا ہے ۔دیکھئے: كتاب الصلاة(جماع أبواب صلاة التطوع، وقيام شهر رمضان):باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان،حدیث نمبر 4285۔
امام ابوحنیفہ کے شاگر محمدبن الحسن نے مؤطا محمد میں ”باب: قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل“یعنی رمضان میں تراویح پڑھنے اوراس کی فضیلت کے بیان کےتحت ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:موطأ محمد بن الحسن الشيباني:ابواب الصلاة:باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل،حدیث نمبر239۔
حنفیوں کے عبدالحی لکھنوی نے مؤطا محمد کے اس باب کی تشریح کرتے ہوئے لکھا:
قوله :(قیام )شهر رمضان ويسمى التراويح
یعنی ماہ رمضان کے قیام کا نام تراویح ہے۔[التعليق المُمَجَّد للكنوي: 1/ 351]
حنفی حضرات کہتے کہ بعض محدثین نے اس حدیث کو کتاب التہجد میں ذکرکیا ہے۔
عرض ہے کہ اس میں پریشان ہونی کی بات کیا ہے جب تراویح اورتہجد دونوں ایک ہی نماز ہیں تو اس حدیث کا ذکر تراویح کے بیان میں بھی ہوگا اورتہجد کےبیان میں بھی ہوگا۔
چنانچہ محدثین نے اگر تہجدکے بیان میں اسے ذکر کیا ہے تو تراویح کے بیان میں بھی اسے ذکر کیا ہے جیساکہ اوپر حوالے دئے گئے ہیں۔
جو حضرات بیس (20) رکعت تراویح کے وجوب کےقائل ہیں اُن کے دلائل کا جائزہ:
دلیل نمبر 1:
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ اَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مَقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ رَمْضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرَ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص286؛معجم کبیرطبرانی ج5 ص433 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف میں بیس رکعات نماز(تراویح)اور وتر پڑھاتے تھے۔
الجواب: اس روایت کے بنیادی راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے بارے میں قدوری حنفی نے لکھا ہے: "قا ضى واسط كذاب" واسط کا قاضی کذاب ہے.
(التجرید / ٢٠٣ فقرہ: ٦٣٢، الحدیث: ٧٦ ص٣٨)
کذاب کئی منفرد روایت موضوع ہوتی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع ہے.
دلیل نمبر2۔ قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْالْحَسَنِ عَلِّیُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ الْقَصْرِیُّ اَلشَّیْخُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤمِنِ اَلْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ؛ اَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُوْنَ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَنَّازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ ۔
(تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی ص146)
ترجمہ:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کی ایک رات تشریف لائے ۔ لوگوں کو چار رکعات فرض، بیس رکعات نماز(تراویح)اور تین رکعات وتر پڑھائے۔
الجواب:اس روایت کا ایک راوی محمد بن حمید الرازی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے اور (امام) اسحاق کوسج نے فرمایا: "میں گواہی دیتا ہوں وہ کذاب تھا."
اس کا دوسرا راوی عمر بن ہارون بھی جمہور کے نزدیک مجروح ہے.
(دیکھئے نصب الرایہ / ٣٥١،٣٥٥،٤/٢٧٣)
دلیل نمبر 3: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ عَنْ حَسَنٍ عَنْ عَبْدِالْعَزِیْزِ بْنِ رُفَیْعٍ قَالَ کَانَ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ فِیْ رَمْضَانَ بِالْمَدِیْنَۃِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُبِثَلَاثٍ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285؛ الترغیب والترھیب للاصبہانی ج2ص368 )
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں رمضان کے مہینے میں لوگوں کوبیس رکعات نماز (تروایح) اور تین (رکعات ) وتر پڑھاتے تھے۔
الجواب : یہ روایت منقطع ہے. عبدالعزیز رفیع نے ابی بن کعب رضی الله عنہ کو نہیں پایا تھا. (تعداد رکعات قیام رمضان ص ٦٦ بحوالہ آثار السنن)
جو حضرات آٹھ (8) رکعت تراویح کے وجوب کےقائل ہیں اُن کے دلائل کا جائزہ:
دلیل نمبر1:
امام ابن خزیمہ رحمہ الله (المتوفى311)نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ»
ترجمہ: جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبی ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاںتک کہ صبح ہوگئی،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے توہم نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمہمیں اُمیدتھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے۔(صحیح ابن خزیمہ2/ 138 رقم 1070)۔
الجواب: یہ حدیث ضعیف ہے اور اس میں عیسیٰ بن جاریہ مجروح ہے۔
1۔ امام ابن معين رحمہ الله (المتوفى233)نے کہا:
عيسى بن جارية عنده أحاديث مناكير
ترجمہ: عیسی بن جاریہ ،ان کے پاس منکر احادیث ہیں [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 369]
2۔ امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا:
روى عنه يعقوب القمي لا نعلم أحدا روى عنه غيره وحديثه ليس بذاك
ترجمہ: ان سے یعقوب القمی نے روایت کیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ان کے علاوہ بھی کسی نے ان سے روایت کیا ہے اور ان کی حدیث اعلی درجے کی حدیث نہیں ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/369)
3۔ نیزامام ابن معین رحمہ اللہ نےان کے بارے میں جو یہ کہا:
ليس بشيء
ترجمہ: ان کا کوئی مقام نہیں [سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 302]
4۔ امام أبوداؤد رحمہ الله (المتوفى275)نے کہا:
منكر الحديث
ترجمہ: یہ منکر الحدیث ہے[تهذيب الكمال للمزي: 22/ 589]
5۔ امام مزی نے امام ابوداؤد ہی سے یہ بھی نقل کیا کہ:
وَقَال في موضع آخر : ما أعرفه ، روى مناكير.
ترجمہ: امام ابوداؤد نے دوسرے مقام پر کہا کہ: میں اسے نہیں جانتا اس نے منکر روایات نقل کی ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 22/ 590]
6۔ امام نسائي رحمہ الله (المتوفى303)نے کہا:
عيسى بن جارية يروي عنه يعقوب القمي منكر
ترجمہ: عیسی بن جاریہ ،ان سے یعقوب القمی روایت کرتے ہیں یہ منکر ہے۔[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 76]
7۔ امام ابن عدي رحمہ الله (المتوفى365)نے کہا:
كلها غير محفوظة
ترجمہ: اس کی مذکورہ تمام احدیث غیرمحفوظ ہیں[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 438]
8۔ حافظ ابن حجر رحمہ الله (المتوفى852)نے کہا:
فيه لين
ترجمہ: ان میں کمزوری ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5288]
9۔امام عقیلی نے ضعفاء میں اس راوی کا تذکرہ کیا ہے ۔ (الضعفاء للعقيلي ( 3 / 383 )
10۔ نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ»
امام ابن عدی نے خاص اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہ "غیر محفوظ" ہے۔ اور انہوں نے شاید یہ اس لئے فرمایا ہے کیونکہ اس روایت میں وتر کا لفظ ذکر کرنے میں عیسی بن جاریہ نے نکارت کی ہے اور اس وجہ سے یہ لفظ منکر ہے! اصل الفاظ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ ہیں: "إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةُ اللَّيْلِ" (صحیح البخاری
اور مسند ابی یعلی کی روایت میں عیسی بن جاریہ نے خود بھی صرف انہی الفاظ پر اکتفا کیا ہے: "إِنِّي خَشِيتُ أَوْ كَرِهْتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ" (مسند ابی یعلی)
اعتراض:امام ابن حبان نے عیسیٰ بن جاریہ کو الثقات میں ذکر کیا ہے۔ (الثقات لابن حبان ( 5 / 214 )
الجواب: امام ابن حبان توثیق کے معاملہ میں متساہل ہیں۔لہٰذا مذکورہ محدثین کے جراح کے مقابلے میں ابن حبان کی توثیق غیر مقبول ہوگی۔
دلیل نمبر2: موطأ مالك میں ہے؛
و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ قَالَ أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ
ترجمہ: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا ، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام سوسو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ ہم طویل قیام کی وجہ سے لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔
الجواب 1: اس کا متن مضطرب ہے اور یہ حدیث قابلَ استدلال نہیں کیونکہ صحیح بخاری میں اس کے خلاف لکھا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے۔
حَدَّثَنِي مَالِك عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُفَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ۔۔۔۔۔۔الحدیث
مفہوم حدیث: عبدالرحمن بن عبدالقاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رمضان میں ایک رات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مسجد نبوی کی طرف نکلا لوگ الگ الگ تراویح پڑھ رہے تھے ـــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اللہ (تعالیٰ) کی قسم اگر میں ان کو ایک قاری کے پیچھے جمع کردوں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔پھر ان کو ابی بن کعب کی اقتدا میں کر دیا۔۔۔۔۔۔ الحدیث
لہٰذا صحیح یہ ہی ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف ایک قاری ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےپیچھے لوگوں کو جمع کیا۔جبکہ موطا امام مالک کے متن میں تمیم داری کا اضافہ ہے۔
الجواب2: محمد بن اسحاق کی روایت میں گیارہ ( 11) رکعت کے بجائے تیرہ (13) رکعت کا ذکر ہے۔
امام أبو بكر النيسابوري رحمہ الله (المتوفى324)نے کہا:
حدثنا أبو الأزهر، ثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثني أبي، عنابن إسحاق، قال حدثنيمحمد بن يوسف بن عبد الله بن أخت السائب، عن السائب، قال: كُنَّا نُصَلِّي فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ومَا كُنَّا نُخْرِجُ إِلاَّ فِي وِجَاهِ الصُّبْحِ , كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ فِي كل رَكْعَةٍ خَمْسِينَ آيَةً , سِتِّينَ آيَةً.
ترجمہ: امام محمدبن اسحاق رحمہ اللہ نے محمدبن یوسفسے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم عمرفارق رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں تیرہ رکعات پڑھتے تھے اورہم صبح کے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے ، اور قاری ایک رکعت میں پچاس سے ساٹھ آیات کی تلاوت کرتاتھا۔
[فوائد أبي بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري:ق 136/أ واسنادہ حسن]۔
الجواب3:
: امام مالک کا اپنا عمل اس کے خلاف ہے ،علامہ ابن رشد لکھتے ہیں:واختار مالک فی احد قولیہ ۔۔۔۔۔القیام بعشرین رکعة۔ (بدایہ المجتہد ج1ص214)
ترجمہ: امام مالک رحمہ اللہ نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو اختیار فرمایا ہے۔
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ راوی کا عمل اگر اپنی روایت کے خلاف ہو تو اس بات کی دلیل ہے کہ روایت ساقط ہے۔ (المنار مع شرحہ نور الانوار: ص190) خلاصہ یہ ہے کہ محمد بن یوسف کی یہ روایت شدید مضطرب ہے اور اضطراب فی المتن وجہ ضعف ہوتا ہے:والاضطراب يوجب ضعف الحديث۔ ترجمہ: اضطراب روایت کو ضعیف بنا دیتا ہے۔ (تقریب النووی مع شرحہ التدریب: ص234)
فائدہ: چونکہ یہ روایت تمام رواۃ کی مرویات کے خلاف تھی اس لیے علماء نے اس کے بارے میں دو موقف اختیار کیے ہیں ۔ [۱] ترجیح [۲] تطبیق
1۔ترجیح : اس روایت (گیارہ رکعت)کو راوی کا وہم قرار دے کر مرجوح قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:ان الاغلب عندی ان قولہ احدی عشرۃ وھم. (الزرقانی شرح موطا: ج1ص215)
ترجمہ: میرے نزدیک غالب (راجح ) یہی ہے کہ راوی کا قول ”احدی عشرۃ“ [گیارہ رکعت]وہم ہے۔
2۔ تطبیق: موطا امام مالک میں محمد بن یوسف گیارہ رکعت کا ذکر کرتے ہیں جبکہ محمد ابن اسحاق ان سے تیرہ رکعت کا ذکر کرتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی تراویح کی رکعتوں کو متعین نہیں کیا تھا بلکہ وہ کبھی گیارہ رکعت پڑھانے حکم دیتے تو کبھی تیرہ۔
دلیل نمبر3:حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ،‏‏‏‏ عَنْسَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِأَنَّهُ أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ "مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً،‏‏‏‏ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا،‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي
ترجمہ: ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں سعید بن ابوسعید مقبری نے خبر دی، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہوتا یا کوئی اور۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
(صحیح بخاری كتاب التهجد باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم بالليل في رمضان وغيره 1147)
الجواب1:
شیخ ابن عثیمین ؒ نے کہا کہ : علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ دیکھیں فتاویٰ الشیخ ابن عثیمین ؒ (1/407)
الجواب2۔:اس کے علاوہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے تیرہ رکعت بھی مروی ہے جیسا کہ
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْهَا بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْخَمْسِ حَتَّى يَجْلِسَ فِي الْآخِرَةِ فَيُسَلِّمُ". قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ رَوَاهُ ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے اور انہیں پانچ رکعتوں سے طاق بنا دیتے، ان پانچ رکعتوں میں سوائے قعدہ اخیرہ کے کوئی قعدہ نہیں ہوتا پھر سلام پھیر دیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن نمیر نے ہشام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
(سنن ابوداؤد أبواب قيام الليل باب في صلاة الليل1338، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/لمسافرین ۱۷ (۷۳۸)، سنن النسائی/قیام اللیل ۳۹ (۱۷۱۸)، مسند احمد (۶/ ۱۲۳، ۱۶۱، ۲۰۵) (صحیح)۔
خلاصہ کلام:
عائشہ رضی اللہ عنھا کی دونوں گیارہ اور تیرہ رکعات والی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ ہی نہیں بلکہ کبھی تیرہ رکعات بھی پڑھاکرتے تھے۔ الغرض ان تمام روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ ہی اپنے اوپر تراویح کی رکعتوں کو متعین کیا تھا اور نہ ہی اپنی امت پر متعن کیا۔
تراویح کی رکعتوں کا متعن نہ ہونے پر سلف کے اقوال:
1۔ علامہ تاج الدین سبکی الشافعیؒ فرماتے ہیں:
اعلم انه لم ينقل كم صلي رسول الله صلى الله عليه و سلم تلك الليا لي (تحفۃ الاخیار ص 116)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے با جماعت نماز تراویح ایام ثلاثہ میں رکعت ثابت نہیں۔
2۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒفرماتے ہیں:
ومن ظن ان قیام رمضان فیه عدد معین موقت عن النبی صلی الله علیه وسلم لا نزید ینقص فقد اختا (فتاوی ج2 ص251)
ترجمہ: جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قیام رمضان کی رکعات کے لئے ایسا عدد معین ثابت ہے کہ اس میں کم بیشی نہیں ہو سکتی وہ (شخص) غلطی پر ہے۔
3۔ علامہ سیوطی الشافعیؒ فرماتے ہیں:
ان العلماء اختلفو فی عدد ھا ولو ثبت ذالک من فعل النبی صلی الله علیه و سلم لم یختلف فیه (مصابیح للسیوطی 42)
ترجمہ: علماء نے رکعت تراویح میں اختلاف کیا ہے۔ اگر سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا عدد معین ثابت ہوتا تو علماء اختلاف نہ کرتے۔
4۔ علامہ قاضی شوکانیؒ فرماتے ہیں:
نماز تراویح کو رکعات کے کسی عدد معین سے محدود کرنا یا کسی خاص قرات کے ساتھ مخصوص کرنا سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
(نیل الاوطار 4/53)
5۔ شیخ ابن عثیمین ؒ فرماتے ہیں:
اس معاملہ میں وسعت پائی جاتی ہے ، بلکہ جو گیارہ رکعت ادا کرتا ہے یا جو تئیس رکعت ادا کرے اسے غلط نہیں کہنا چاہئے ، بلکہ الحمد لللہ اس میں وسعت پائی جاتی ہے۔ (فتاوٰی الشیخ ابن عثیمین 1/407)
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
اہل حدیث بھائی نماز تراویح میں ان امور کے کیا دلائل رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی صحیح احادیث ہوں تو مطلع فرمائیں۔
۱۔ سارا رمضان پڑھنا
۲۔ ختم قرآن کرنا
۳۔ باجماعت پڑھنا
۴۔ بعد عشا پڑھنا

جزاک اللہ
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64

نبی پاک ﷺ سے ۲۰ رکعت تراویح کا ثبوت

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْالْحَسَنِ عَلِّیُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ الْقَصْرِیُّ اَلشَّیْخُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤمِنِ اَلْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ؛ اَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُوْنَ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَنَّازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ. (تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی ص146)
اعتراض:
محمد بن حمید الرازی اور عمر بن ہارون البلخی ضعیف ہیں۔ (ضرب حق: جولائی 2012ء مضمون زبیر علیزئی
جواب:
۱۔ امام ابن ماجہ رحمة اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں محمد بن حمید راوی ہیں اور اس کو صحیح کہا ہے اور البانی نے بھی اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے
(۱۳۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الْعِيدِ رَجَعَ فِي غَيْرِ الطَّرِيقِ الَّذِي أَخَذَ فِيهِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدین کے لیے نکلتے تو اس راستہ کے سوا دوسرے راستہ سے لوٹتے جس سے شروع میں آئے تھے۔ابن ماجہ (صحیح عند ابن ماجہ و البانی وفیھا راوی محمد بن حمید)
۲۔عمر بن ہارون کے بارے میں امام ترمذی، امام بخاری اور دیگر محدثین کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔

(شرح۲۷۶۲) ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ:‏‏‏‏ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَى أَهْلِ الطَّائِفِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِوَكِيعٍ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ صَاحِبُكُمْ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ.(ترمذی)
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے: عمر بن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔ میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو، یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں، سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے۔ میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتا ہوں۔ میں نے انہیں ( یعنی بخاری کو عمر بن ہارون ) کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایا ہے، ۳- میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔ اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، ۴- قتیبہ نے کہا: وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثور بن یزید سے بیان کیا ثور بن یزید سے اور ثور بن یزید روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کر دیا۔ قتیبہ کہتے ہیں میں نے ( اپنے استاد ) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟ ( جن کا آپ نے ابھی روایت میں «عن رجل» کہہ کر ذکر کیا ہے ) تو انہوں نے کہا: یہ تمہارے ساتھی عمر بن ہارون ہیں
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412

نبی پاک ﷺ سے ۲۰ رکعت تراویح کا ثبوت

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْالْحَسَنِ عَلِّیُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ الْقَصْرِیُّ اَلشَّیْخُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤمِنِ اَلْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ؛ اَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُوْنَ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَنَّازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ. (تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی ص146)
اعتراض:
محمد بن حمید الرازی اور عمر بن ہارون البلخی ضعیف ہیں۔ (ضرب حق: جولائی 2012ء مضمون زبیر علیزئی
جواب:
۱۔ امام ابن ماجہ رحمة اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں محمد بن حمید راوی ہیں اور اس کو صحیح کہا ہے اور البانی نے بھی اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے
(۱۳۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الْعِيدِ رَجَعَ فِي غَيْرِ الطَّرِيقِ الَّذِي أَخَذَ فِيهِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدین کے لیے نکلتے تو اس راستہ کے سوا دوسرے راستہ سے لوٹتے جس سے شروع میں آئے تھے۔ابن ماجہ (صحیح عند ابن ماجہ و البانی وفیھا راوی محمد بن حمید)
۲۔عمر بن ہارون کے بارے میں امام ترمذی، امام بخاری اور دیگر محدثین کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔

(شرح۲۷۶۲) ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ:‏‏‏‏ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَى أَهْلِ الطَّائِفِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِوَكِيعٍ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ صَاحِبُكُمْ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ.(ترمذی)
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے: عمر بن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔ میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو، یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں، سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے۔ میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتا ہوں۔ میں نے انہیں ( یعنی بخاری کو عمر بن ہارون ) کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایا ہے، ۳- میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔ اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، ۴- قتیبہ نے کہا: وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثور بن یزید سے بیان کیا ثور بن یزید سے اور ثور بن یزید روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کر دیا۔ قتیبہ کہتے ہیں میں نے ( اپنے استاد ) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟ ( جن کا آپ نے ابھی روایت میں «عن رجل» کہہ کر ذکر کیا ہے ) تو انہوں نے کہا: یہ تمہارے ساتھی عمر بن ہارون ہیں
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ
أبو القاسم حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي القرشي الجرجاني (المتوفى427) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْقَصْرِيُّ الشَّيْخُ الصَّالِحُ رَحِمَهُ اللَّهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحنازِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَتِيكٍعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسُّ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلاثَةٍ . [تاريخ جرجان (ص: 317) ].
یعنی جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورلوگوں کو چوبیس رکعات تراویح اورایک رکعات وترپڑھائی۔

یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس میں درج ذیل علتیں ہیں۔

پہلی علت:
عبد الرحمن بن عطاء بن أبي لبيبة

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فيهِ نَظَرٌ[التاريخ الكبير للبخاري: 5/ 336]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
عبد الرحمن بن عطاء [الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 633]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى:463)نے کہا:
ممن لا يحتج به فيما ينفرد به فكيف فيما خالفه فيه من هو أثبت منه [الاستذكار 4/ 83]

نیز کہا:
ليس عندهم بذلك وترك مالك الرواية عنه وهو جاره وحسبك بهذا[التمهيد لابن عبد البر: 17/ 228]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
أدخله البخاري في الضعفاء وقال الرازي يحول من هناك[الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي: 2/ 97]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق فيه لين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3953]

تحرير التقريب كے مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)نے کہا:
ضعيف يعتبر به[تحرير التقريب: رقم3953]۔


دوسری علت:
عمر بن هارون
امام عبد الرحمن بن مهدى رحمه الله (المتوفى198)نے کہا:
لَمْ تكن لَهُ قيمة عندي[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 57 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
تَرَكوا حَديثِه[الطبقات الكبير لابن سعد 9/ 378]۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عمر بن هارون كذاب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن حبان نے ابن معین کی تائید کرتے ہوئے کہا:
والمناكير في روايته تدل على صحة ما قال يحيى بن معين فيه[المجروحين لابن حبان: 2/ 91]۔

امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله سے بھی منقول ہے۔
كان كذابا [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 15 واسنادہ ضعیف]۔

امام ابن المبارك رحمه الله سے بھی منقول ہے۔
هو كذاب[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 15واسنادہ ضعیف]۔

نوٹ: امام صالح بن محمد اور ابن مبارک رحمہاللہ کے اقوال کی سند ضعیف ہے لیکن ابن معین رحمہ اللہ کا قول بسند صحیح ثابت ہے اورابن حبان نے بھی ان کی تائیدکی ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
لا اروى عنه شيئا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
عمر بن هارون: لم يقنع الناس بحديثه[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 355]۔

امام عجلى رحمه الله (المتوفى:261)نے کہا:
عمر بن هارون بن يزيد الثقفي ضعيف [تاريخ الثقات للعجلي: 2/ 171]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
الناس تركوا حديثه[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عمر بن هَارُون الْبَلْخِي مَتْرُوك الحَدِيث بَصرِي[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 84]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
عمر بن هارون البلخي[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 194]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن يروي عن الثقات المعضلات ويدعى شيوخا لم يرهم[المجروحين لابن حبان: 2/ 90]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
عمر بن هارون البلخي، ضعيف[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 16]۔

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
عمر بن هَارُون الْبَلْخِي عَن بن جريج وَالْأَوْزَاعِيّ وَشعْبَة الْمَنَاكِير لَا شَيْء[الضعفاء لأبي نعيم: ص: 113]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
عمر بن هارون البخلي ليس بشيء في الحديث[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 176]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
واه اتهمه بعضهم [الكاشف للذهبي: 2/ 70]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
متروك وكان حافظا[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4979]۔

تیسری علت:
محمد بن حميد الرازی۔


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فِيهِ نَظَرٌ[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 69]

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
محمد بن حميد الرازي: كان رديء المذهب، غير ثقة.[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 350]۔

أبو حاتم محمد بن إدريس الرازي، (المتوفى277)نے کہا:
هذا كذاب[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 739]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے اسے ضعفاء میں ذکرکیا:
محمد بن حميد الرازي۔۔۔[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 61]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن ينفرد عن الثقات بالأشياء المقلوبات[المجروحين لابن حبان: 2/ 303]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وثقه جماعة والاولى تركه[الكاشف للذهبي: 2/ 166]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
محمد بن حميد بن حيان الرازي حافظ ضعيف[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5834 ]۔

خان بادشاہ بن چاندی گل دیوبندی لکھتے ہیں:
کیونکہ یہ کذاب اوراکذب اورمنکرالحدیث ہے۔[القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علی الالبانی المسکین:ص٣٣٤].

نیز دیکھئے رسول اکرم کاطریقہ نماز از مفتی جمیل صفحہ ٣٠١ ۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔

جابررضی اللہ عنہ کی صحیح روایت:
جابررضی اللہ عنہ سے منقول مذکورہ روایت موضوع ومن گھڑت ہونے کے ساتھ ساتھ ، جابررضی اللہ عنہ ہی سے منقول صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے ، کیونکہ جابررضی اللہ عنہ نے بسندصحیح منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح پڑھائی، چنانچہ:

امام بن خزيمة رحمہ اللہ(المتوفى311) نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ» [صحيح ابن خزيمة 2/ 138 رقم 1070]۔

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاںتک کہ صبح ہوگئی،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے توہم نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں امیدتھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے۔
تحقیق: شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ
 
Top