بیس تراویح کی حقیقت:
بیس تراویح رسول اللہ (ﷺ) یا کسی صحابی مثلاً عمر بن خطابؓ وغیرہ سے ثابت نہیں اس سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں اس کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں۔
اس سلسلہ میں سنن کبریٰ بیہقی
(بہ روایت مصنف ابن ابي شيبه، عبد بن حميد في المنتخب من المسند، طبراني في المعجم الكبير وفي المعجم الاوسط والمنتقي منه للذھبي والجمع بينه وبين الصغير لغير الطبراني وابن عدي في الكامل والخطيب في الموضح)
کی ايك روايت عبد الله بن عباس سے مرفوعا بیان کی جاتی ہے جو یہ ہے:
اِنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً سِوٰی الْوِتْرِ۔
نبی (ﷺ) کا معمول رمضان میں بیس رکعات وتر کے سوا تھا۔ اس پر صاحب مرعاۃ المفاتیح لکھتے ہیں
فَھُوَ ضَعِيْفٌ جِدًّا لَّا يَصْلُحُ لِلْاِسْتِدْلَالِ ولا للاستشْھَادِ وَلَا لِلْاِعْتِبَارِ فَاِنَّ مَدَارَه عَلٰي اَبِيْ شَيْبَةَ اِبْرَاھِيْمَ بْنِ عُثْمَانَ وَھُوَ مَتْرُوْكُ الْحَدِيْثِ كَمَا فِيْ التَّقْرِيْبِ۔
یعنی عبد اللہ بن عباس کی حدیث سخت ضعیف ہے جو نہ تو دلیل بنانے کے قابل ہے اور نہ ہی تائید و تقویت کے قابل ہے کیونکہ اس کا مدار ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان (دادا امام ابن ابی شیبہ) پر ہے اور وہ متروک الحدیث ہے جیسا کہ تقریب التہدیب میں ہے۔
اور علامہ زیلعی حنفی اسی حدیث کے متعلق نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایۃ میں فرماتے ہیں:
ھُوَ مَعْلُوْلٌ بِاَبِيْ شَيْبَةَ اِبْرَاھِيْمَ بْنِ عُثْمَانَ مُتَّفَقٌ عَلٰي ضَعْفِه وَلَيَّنَه ابْنُ عَدِيٍّ فِيْ الْكَامِلِ ثُمَّ اِنَّه مُخَالِفٌ لِلْحَدِيْثِ الصَّحِيْحِ عَنْ اَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّه سَأَلَ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) فِيْ رَمَضَانَ؟ قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيْدُ فِيْ رَمَضَانَ وَلَا فِيْ غَيْرِه عَلٰي اِحْدٰي عَشَرَةَ رَكْعَةً الْحَدِيْثَ
عبد اللہ بن عباس کی حدیث ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے سبب سے ضعیف ہے۔ جس (ابی شیبہ) کے ضعف پر اتفاق ہے اور ابن عدی نے کامل میں اسے لین (کمزور) کہا ہے۔
پھر یہ روایت ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں انہوں نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے سوال کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) کی رمضان کی نماز کیسی تھی؟ فرمایا: آپ کا معمول رمضان غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تھا۔
اور ابن الہمام حنفی فتح القدیر شرح ہدایۃ میں اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
ھُوَ ضَعِيْفٌ بِاَبِيْ شَيْبَةَ اِبْرَاھِيْمَ بْنِ عُثْمَانَ مُتَّفَقٌ عَلٰي ضَعْفِه مَعَ مُخَالَفَتِه لِلصَّحِیْحِ
یہ روايت ابو شیبہ ابرہيم بن عثمان کی وجہ سے ضعيف ہے جس كے ضعف پر علماء كا اتفاق ہے جب کہ وہ صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے۔
اور علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں تحریر فرماتے ہیں:
اَبُوْ شَيْبَةَ اِبْرَاھِيْمُ ابْنُ عُثْمَانَ عَبْسِيٌّ كُوْفِيٌّ قَاضِيْ وَاسِطَ جَدُّ اَبِيْ بَكْرِ بْنِ اَبِيْ شَيْبَةَ كَذَّبَه شُعْبَةُ وَضَعَّفَه حَمْدُ فِيْ مَنَاكِيْرِه انْتَھٰي
امام شعبہ نے ابراہيم بن عثمان كو كذاب کہا ہے اور امام احمد، ابن معين، بخاری اور نسائی وغيره نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس حدیث کو ابن عدی نے کامل میں ابراہیم بن عثمان کی منکر احادیث میں شامل کیا ہے۔
اور امام بیہقی فرماتے ہیں۔
تَفَرَّدَ بِه اَبُوْ شَيْبَةَ اِبْرَاھِيْمَ بْنِ عُثْمَانَ الْعَيسِيُّ الْكُوْفِيُّ وَھُوَ ضَعِيْفٌ اس حدیث میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔
فتح الباری جز ۴ میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
وَاَمَّا مَا رَوَاهُ ابْنُ اَبِيْ شَيْبَةَ مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُصَلِّيْ فِيْ رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ فَاِسْنَادُه ضَعِيْفٌ وَقَدْ عَارَضَه ھَدِيْثُ عَائِشَةَ ھٰذَا الَّذِيْ في الصَّحِيْحَيْنِ مَعَ كَوْنِھَا اَعْلَمَ بِحَالِ النَّبِيِّ (ﷺ) لَيْلًا مِّنْ غَيْرِھَا
ابن ابی شیبہ نے (مصنف میں) ابن عباس سے جو روايت كی ہے کہ رسول الله ﷺ رمضان ميں بيس ركعت اور وتر پڑھتے۔ اس كی سند ضعيف ہے۔ نیز حضرت عائشہ (رضی الله عنها) كی صحيحين والی حديث اس كے خلاف ہے۔ حالانکہ عائشہؓ نبی (ﷺ) كے رات احوال سے دوسروں كی نسبت زياده با خبر ہیں۔
اور حضرت الشیخ علامہ ناصر الدین البانی محدث شام اپنی تالیف صلوٰۃ التراویح میں فرماتے ہیں: میں نے اس حدیث کے مصادر کا تتبع کیا۔ جمیع طرق میں ابراہیم بن عثمان عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس مرفوعا ہے۔
امام طبرانی فرماتے ہیں:
یہ روایت حضرت ابن عباس سے صرف اسی اسناد سے منقول ہے۔
اور حافظ نور الدین ہیثمی کا قول ہے۔
انہ ضعیف۔
عبد اللہ ؓ بن عباس کی حدیث ضعیف ہے۔
اور علامہ البانی فرماتے ہیں:
وَالْحَقِيْقَةُ اَنَّه ضَعِيْفٌ جِدًّا كَمَا يُشِيْرُ اِلَيْهِ قَوْلُ الْحَافِظِ الْمُتَقَدِّمِ (مَتْرُوْكُ الْحَدِيْثِ) وَھٰذَا ھُوَ الصَّوَابُ فَقَدْ قَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: لَيْسَ بِثِقَةٍ وَقَالَ الْجَوْزَ جَانِيُّ: سَاقِطٌ وَّقَالَ الْبُخَارِيُّ: سَكَتُوْا عَنْهُ۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس كی روايت بہت ضعيف ہے جيسا کہ تقريب التہذیب میں حافظ ابن حجر کے قول (متروک الحدیث میں) اشارہ ہے اور یہی درست ہے۔ امام الجرح والتعدیل ابن معین نے کہا: ابراہیم ثقہ نہیں اور جو زجانی نے کہا ہے: اعتبار سے گرا ہوا ہے اور امام بخاری فرماتے ہیں:
سَکَتُوْا عَنْهُ (امام بخاری كے نزديك یہ کلمہ متروك الحديث كے شبیہ ہے۔ ملاحظہ ہو اختصار علوم الحدیث للحافظ ابن کثیر ص ۱۱۸)
پھر شیخ البانی اپنے رسالہ ’’صلوۃ التراویح‘‘ میں فرماتے ہیں۔
وَلِذَالِكَ فَاِنِّيْ اَرٰي اَنَّ حَدِيْثَه ھٰذَا فِيْ حُكْمِ الْمَوْضُوْعِ لِمُعَارَضَتِه لِحَدِيْثِ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ كَمَا سَبَقَ عَنِ الْحَافظَيْنِ الزَّيْلَعِيِّ وَالْعَسْقَلَانِيِّ
اور اسی لئے میری رائے یہ ہے کہ ابن عباس سے روایت موضوع کے حکم میں ہے کیونکہ یہ عائشہ اور جابر کی احادیث کے بھی معارض ہے جیسا کہ حافظ زیلعی اور حافظ عسقلانی کے اقوال میں گزرا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت قابل احتجاج و اعتبار نہیں ہے اس لئے حضرت عائشہ اور جابر کی روایت پر عمل کیا جائے گا جس میں آٹھ رکعت کا ذکر ہے۔
حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے بیس تراویح ثابت نہیں اور نہ ہی ان کے دورِ خلافت میں یہ صحابہ کا معمول رہا بلکہ حضرت عمرؓ نے سب کو جمع کر کے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ موطا امام مالک (یہ حدیث ابو بکر نیشا پوری نے فوائد میں اور بیہقی نے سنن کبریٰ میں اور فریابی نے بھی روایت کی ہے) میں ہے۔
عَنْ مُّحَمَدَّ بْنِ يُوْسُفَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ اَنَّه قَالَ اَمَرَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ اُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَّتَمِيْمًا الدَّارِيَّ اَنْ يَّقُوْمَا لِلنَّاسِ بِاحْدٰي عَشَرَةَ َكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِيُ يَقْرَءُ بِالْمِئِيْنَ حَتّٰي كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلٰي الْعِصِيِّ مِنْ طُوْلِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرُِ اِلَّا فِيْ فُزُوْعِ الْفَجْرِ۔
سائب بن یزید فرماتے ہیں خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ قاری مئین سورتیں پڑھتا یہاں تک کہ ہم طول قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے اور ہم پو پھٹنے کے قریب (گھروں کو) واپس ہوتے۔
محدث شام شیخ البانی فرماتے ہیں:
قُلْتُ: َھٰذَا سَنَدٌ صَحِيْحٌ جِدًّا فَاِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ شَيْخ مَالِكٍ ثِقَةٌ اِّفَقًا وَّاحْتَجَّ بِه الشَّيْخَانِ وَاسَّائِبُ بْنُ يَزِيْدَ صَحَابِيٌّ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ (ﷺ) وَھُوَ صَغِيْرٌ۔
اس روایت کی سند بہت صحیح ہے کیونکہ محمد بن یوسف شیخ امام مالک بالاتفاق ثقہ ہے اور شیخین (بخاری مسلم) نے اس سے حجت لی ہے اور سائب بن یزید صحابی ہے جس نے بچپن میں نبی ﷺ کے ساتھ حج کیا تھا۔
حضرت عمرؓ کا یہ فرمان حضرت عائشہؓ و جابرؓ کی پہلے بیان کردہ احادیث کے عین موافق ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک مسنون گیارہ رکعت ہی ہیں جس پر آپ نے لوگوں کو جمع کیا۔
باقی رہا کہ حضرت عمرؓ كے عہد خلافت ميں لوگوں کا معمول کیا تھا؟ سو وہ بھی بیس تراویح کسی صحیح طریق سے ثابت نہیں اور حضرت عمرؓ کے عہد میں لوگوں کا باجماعت گیارہ رکعت پڑھنا صحیح روایت سے ثابت ہو چکا ہے۔ بیس رکعت والی روایات ضعیف ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔