• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ریڈ کلف صاحب کا بٹوارہ

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
سنہ 1947 کی پندرہ اگست کو ہمارا ملک آزاد بھی ہوااور تقسیم بھی۔تقسیم کے نتیجے میں فوری طور پر جوآفت دونوں ملکوں کے بے گناہوں پر ٹوٹی اس کے داغ ابھی پوری طرح دھندلے نہیں ہوئے۔اور گذشتہ پچاس ساٹھ برس میںدونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات کی داستان کشت و خون اور آپسی عدم اعتماد سے بھری ہوئی ہے۔اب بہت سے لوگ کہنے لگے ہیں کہ تقسیم غیر ضروری تھی اور وہ پورے بر صغیر کے لئے نقصان دہ تو بہر حال ثابت ہوئی۔لیکن تقسیم کے متعلق بعض سوال ابھی سرحد کے دونوں طرف ٹھیک سے بحث میںنہیں آئے ہیں،بلکہ شاید اٹھائے ہی نہیں گئے۔مغرب میں بعض سوال گذشتہ چند برس کے دوران زیر گفتگو آئے ضرور ہیں،لیکن ان کے جواب میں کوئی قول فیصل ابھی نہیں کہا جاسکا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے آزادی کی تاریخ جون 1948سے آگے کر کے اگست 1947 کیوں کر دی؟ماؤنٹ بیٹن فروری1947 میں یہاں پہنچا تھا۔کس بنا پر انگریز حکومت نے طے کیا کہ اسے اگلے چند مہینوںمیں ہندوستان چھوڑدینا چاہیئے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ دونوںملکوںکی سرحدیںمتعین کرنے کے لیے لندن سے ایک ایسا وکیل، سر سرل ریڈکلف(Sir Cyril Radcliffe) کیوں چنا گیا جسے ہندوستان کے بارے میں کچھ خاص معلومات اور اس کے مسائل اور مشکلات میں غالباً کوئی دلچسپی نہ تھی؟
ریڈ کلف کوایک وسیع و عریض برصغیرکا بٹوارہ کرنے کے لئے صرف سات ہفتے دئیے گئے،جب کہ معمولی جائدادوں کی تقسیم میںمہینوں، بلکہ برسوں لگ جاتے ہیں۔کہا گیا کہ وہ وائسرائے اور اس کے ذاتی عملے سے کوئی ربط نہ رکھے گا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جب تک ہندوستان میں رہا،وائسرائے ہاؤس سے مسلسل رابطہ قائم کئے رہا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ رازداری کے دعوے کے باوجود کچھ فیصلے کانگریس اور شاید مسلم لیگ کے بھی کہنے پر بدلے گئے۔تبدیلیوں کے نتیجے میں پنجاب کے کچھ مسلمان اکثریت کے علاقے ہندوستان کو ملے اور بنگال کے کچھ ہندو اکثریت کے علاقے پاکستان کو دے دیئے گئے۔
انگلستان واپس جاتے ہی ریڈکلف نے اپنے سارے کاغذات ضائع کردئیے۔ایسا کیوں ہوا؟ کہاگیا ہے کہ اس کا طریقہ یہی تھا کہ جن کاغذوں کی ضرورت اسے نہ ہوتی تھی وہ انھیں کام ختم ہوجانے کے بعدضائع کردیتا تھا۔لیکن وہ کاغذات جو اس نے ضائع کئے وہ اس کے نہ تھے بلکہ دونوں نئی حکومتوں کی مشترکہ ملکیت تھے۔ریڈکلف کے واپس جاتے وقت وہ کاغذات اس سے واپس کیوں نہ لے لئے گئے؟ اس سے شک پیدا ہوتا تھا کہ تقسیم کے کچھ فیصلے عام دیانت داری پر بھی مبنی نہ تھے۔ ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف کے فیصلے 51 اگست 1947 کے بعد کیوں شائع کئے اور کیوں اس نے انھیں مہینوں دبائے رکھااور ایک پوری خلقت کو اپنی تقدیر کے بارے میں شک میں مبتلا رکھا؟
نئی سرحدوں کا اعلان 15 اگست 1947 کے بعد کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ غیر منقسم ہندوستان کی فوج جوبجا طور پر اپنی غیر جانب داری اور اعلیٰ کار کردگی کے لئے مشہور تھی،فسادات کو روکنے اور فسادیوںکوسزا دینے کے کام میں نہ لائی جا سکی۔
تقسیم کے پہلے ہی کشت و خون بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا تھا لیکن حکومت نے اس کے تدارک کی موثر تدابیر کیوں نہ اختیار کیں؟کیا حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے اس تاخت و تاراج کی خبر حکومت کو پہنچادی تھی؟اگر نہیں،تو کیوں نہیں؟ریڈ کلف نے کس دباؤ کے تحت ،اتنے کم وقت میں اور اس قدر ناقص کاغذات کی بنیا دپر سرحد سازی کاکام کیوں قبول کیا،جب کہ اسے اس کام میں کوئی درک بھی نہ تھا؟
ڈبلیو ۔ایچ۔آڈن (W۔H۔Auden)کی نظم Partition،جس کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے،اس لئے اہم ہے کہ یہ آڈن کے طنزیہ ،بے تکلف،کھردرے لہجے کی نمائندگی توکرتی ہی ہے،اس میں وہ سوال بھی پوشیدہ ہیں جو اوپر اٹھائے گئے اور یہ نظم ہمارے اردو ہندی کے عام "فساداتی ادب" سے بالکل مختلف ہے اور اس انسانی المیے کی طرف ہمیںمتوجہ کرتی ہے جو تقسیم کے باعث ملک میں ہر طرف رونما ہوا۔اس نظم میں انسانی اقدار کے بامعنی اور برحق ہونے کی تصدیق کی گئی ہے اور خود ریڈکلف کی ایمان داری بھی معرض شک میں لائی گئی ہے۔ایسی کوئی نظم یا افسانہ اردو میںکسی نے نہ لکھا۔شاید اس کے بیک وقت معروضی اور طنزیہ لہجے کے لئے حکمراںقوم کا فرد ہونا ضروری تھا کیونکہ ہم ہندوستانی ان باتوں کو اب بھی پوری درستی اور ٹھنڈے دل سے نہیں دیکھ سکے ہیں۔آڈن کی نظراس انسانی المیے اور خوف ناک سیاسی غلطی تک پہنچی جس کی ذمہ داری تقسیم پر ہے اور تقسیم جس میں آلودہ تھی۔آڈن کی نظم ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ سیاسی شاعری ہو تو ایسی ہو۔
ہیئتی اعتبار سے اس نظم میں دو غیر معمولی باتیں ہیں۔ایک تو یہ کہ اس کے تمام مصرعے Hexametre کہلائیں گے ،کیونکہ یہ بارہ بارہ سالموں پر مشتمل ہیں۔انگریزی میں ایسی نظمیں بہت ہی شاذ ہیں اور آڈن جیسا ماہر عروضی ہی اس مشکل کو آسان کر سکتا تھا۔انگریزی میں تو گیارہ سالموں والے مصرعے (Alexanderine)ہی خال خال دکھائی دیتے ہیں اور شاعر ان کے لئے خاص اہتمام کرتا ہے ۔پوری نظم بارہ سالموں والے مصرعوں یعنی Hexametre میں کہہ دینا اور اس قدر روانی کے ساتھ،انتہائی غیر معمولی کارنامہ ہے۔دوسری بات یہ کہ نظم مثنوی کی ہیئت میں ہے،یعنی انگریزی عروض کے اعتبار سے یہ Coupletsمیں لکھی گئی ہے اور ہر قافیہ اس قدر برجستہ ہے کہ باید وشاید۔اس خوبی کا صحیح اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنھیں یہ بات معلوم ہو کہ انگریزی زبان میں قوافی کا بے حد فقدان ہے۔
جن چار ججوں کا ذکر نظم میں ہے،وہ در اصل آٹھ تھے،دو ہندو اوردو مسلمان بنگال کے لئے اور دو ہندو اور دو مسلمان پنجاب کے لئے۔یہ سب ہائی کورٹ کے جج تھے۔ان کے نام حسب ذیل ہیں:
بنگال:
سی۔سی۔بسواس
بی۔کے۔مکھرجی
ابوصالح محمد اکرم
ایس۔اے۔رحمان

پنجاب:
مہر چند مہاجن
تیج سنگھ
دین محمد
محمد منیر

کہا جا سکتا ہے جب ریڈکلف نے اپنی متعین کی ہوئی تقسیم کا نتیجہ ایک ایسے انسانی المیے کی صورت میں دیکھا تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی،تو اس نے اپنے کام کی فیس جو چالیس ہزار روپئے تھی،واپس کردی۔
ابھی حال میں "اردو ادب"کے شمارے میں اس نظم کا ترجمہ (مترجم،شمیم حنفی) دیکھا تو مجھے یاد آیاکہ میں نے بھی اسے ترجمہ کرکے "شب خون" میں چھپوایا تھا۔ترجمے کو پڑھ کر میرے مرحوم دوست نقی حسین جعفری نے اس کی تحسین کی لیکن مجھے اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا کہ میں نے پوری نظم کاترجمہ نہیں کیا تھا۔میں نے یہ نظم آڈن کے مجموعے میں سے نہیں، بلکہ نیو یارک ریویو آف بکس کے ایک شمارے سے لی تھی۔مرحوم پرفیسر جعفری نے مجھے اصل نظم کی نقل بھی مہیا کردی تھی۔ بات آئی گئی ہو گئی،لیکن اب جب شمیم حنفی کا ترجمہ دیکھا تو میں نے سوچا کہ میں بھی پوری نظم کا ترجمہ کرلوں تو بہتر ہوگا۔میں نے ترجمہ کیا اوراپنے نوٹ اور ترجمے میں کچھ اضافے اور تبدیلیاں بھی کیں۔ میںاسے نقی حسین جعفری کو خراج تحسین کے طور پر پیش کرتا ہوں۔
اب نظم ملاحظہ ہو۔

ریڈ کلف صاحب کا بٹوارہ
آڈن
انگریزی سے ترجمہ: شمس الرحمن فاروقی

کم سے کم اتنا تو ہے کہ جب وہ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے پہنچے
جو انھیں تفویض ہوا تھا،تو اس وقت وہ بالکل غیر جانب دار تھے۔
جس سرزمین کا بٹوار ہ کرنے وہ آئے تھے،انھوں نے اس کی جھلک بھی نہ دیکھی تھی۔
اور بٹوارہ خلق خدا کے دو ایسے گروہوں کے درمیان ہونا تھا جو
تشدد کی حد تک باہم دست و گریبان تھے۔ان کے کھانے الگ،ان کے
خدا سراسر مصالحت ناپذیر۔
"وقت"، لندن میں دوران ہدایت ان پر واضح کیا گیا،
"کم ہے۔بہت دیر ہو چکی،اب امکان نہیں کہ
آپس میںمزید مشورہ ہویا معقولیت اورمنطق پرمبنی بحث مباحثہ ہو۔
اب توایک ہی حل ہے:دونوں کو الگ کردیاجائے۔اور وائسرائے
کا خیال یہ ہے،جیسا کہ آپ کو ان کے مکتوب سے معلوم ہوگا۔۔۔
آپ ان کے آس پاس جتنا کم نظر آئیں اتناہی اچھا ہو گا۔اس لئے
ہم نے آپ کے قیام کا الگ انتظام کیا ہے۔"
صلاح کاروں کے طور پر ہم آپ کے لئے چار جج مہیا کر سکتے ہیں، دو ہندو،دو مسلمان۔
مگر آخری فیصلہ ہمیشہ آپ ہی کے اختیار میں ہوگا۔

تو پھر ایک سنسان حویلی میں،چار طرف سے بند،پولیس والے دن رات
باغ میں پہرے پرمستعد،کہ کہیں کوئی قاتل نہ آدھمکے،
وہ کام میں جٹ گئے۔اور کام تھا کروڑوں انسانوں کی تقدیر
کا فیصلہ کرنا۔جو نقشے انھیں مہیا تھے سب پرانے اور سال خوردہ تھے

اور مردم شماری کے اعداد و شمار،تقریباً یقینی ہے کہ غلط تھے۔
لیکن انھیں چھان بین اور تصدیق کرنے کا وقت ہی کہاں تھا؟اور نہ
ہی متنازعہ جگہوں کے موقع معائنے کا وقت تھا۔اور پھر گرمی
بھی بلا کی تھی۔اس پر طرہ یہ کہ انھیں پیچش پڑنے لگی اور
بار بار جاے ضرور جانا لگ گیا۔
لیکن کام سات ہفتوں میںمکمل ہو ہی گیا۔سر حدیں طے ہو گئیں،
ایک بر اعظم،بھلے یا برے تقسیم ہو گیا۔
اور اگلے دن انھوں نے انگلستان کی راہ لی،جہاں وہ فوراً ہی
سارے معاملے کو بھول گئے،جیسا کہ اچھے وکیلوں کو کرنا ہی چاہیئے۔واپس
جانے کو وہ تیار نہ تھے۔جیسا کہ انھوںنے اپنے کلب میں بتایا،انھیں
ڈر تھا کہ کوئی انھیں گولی نہ ماردے۔
--
بشکریا شمس الرحمٰن فاروقی سہ ماہی اثبات انڈیا
 
Top