• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زمانہ عروج

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا مرحلہ: زمانہ عروج

یہ تیسری اور چوتھی صدی کا عرصہ ہے۔ یہ دونوں صدیاں علم حدیث کے عروج کی ہیں۔ ہزاروں طلبہ اپنے معاصرسینئر مشایخ کے اردگرد بیٹھے علم حدیث اور علم سنت حاصل کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک اور ان کے دار الخلافوں میں طالبان حدیث کا اژدحام ہے۔ مسجد، منزل، اور کھلے میدان ، جہاں کہیں شیخ کا بسیرا ہے طلبہ کی وہاں آمد ورفت ہے ان کے پاس قلم ، دوات اور کاغذ ہیں۔ صحرا، ہائی ویز اور سرائیں سبھی اس زمانہ میں ایک عجیب منظر پیش کررہی ہیں کہ طلبہ سے لدی سواریاں جوق در جوق روانہ ہورہی ہیں۔قافلے در قافلے بخارا سے قرطبہ واشبیلیہ کی طرف اور قوقاز سے صنعاء وعدن کی طرف متحرک ہیں اور ایک سفر کے بعد دوسرے سفر کاتسلسل ہے۔یہ سب رحلہ فی الحدیث کے مناظر ہیں جو شاید ان دو صدیوں کے بعد آسمان نے نہیں دیکھے۔اس دور میں بے شمار علوم نے انگڑائی لی اور ان علماء کے ذریعے لی جو اس وقت حیات تھے اورعلم ودین کے پیکر اور آنے والی نسلوں کے لئے قدوہ (Role model)تھے۔

تیسری صدی علم حدیث کی صدی قرار پائی جس میں حدیث اور علم حدیث میں امہات کتب لکھی گئیں ۔یہ صدی مسند احمد کے علاوہ امام بخاری ومسلم کی صحیحین کی صدی ہے اور کتب سنن کی بھی۔یعنی اصحاب ستہ کی۔ چنانچہ حدیث کو زیادہ مربوط صورت میں پیش کرنے کا خیال محدثین کے ذہن میں سمایا۔ جو تفصیلاً ملاحظہ کیجئے۔

٭ …اس صدی میں فقہاء محدثین میں یہ شعور بیدار ہوا کہ علوم اسلامیہ کی مختلف انواع میں انفرادی کتب تو ضرور موجود ہیں جن میں عقیدہ، فقہ، تفسیر، مغازی، سیر، زہد، رقاق، فضائل اور آداب جیسے موضوعات میں بے شمار احادیث و آثار جمع کردئے گئے ہیں۔نیز سنن، جوامع اور موطآت بھی محض فقہی احکام کی احادیث وآثار کو اپنے پہلو میں لئے ہوئے ہیں۔ کتب السیر اور المغازی بھی مخصوص موضوع پر روشنی ڈال رہی ہیں، یہی حال کتب تفسیر کا ہے کہ وہ فقہ ومغازی کی احادیث وآثار کا ذکر ہی نہیں کرتیں۔ رہے اجزاء حدیثی ان کا ہر جزء خاص موضوع اور خاص باب کی احادیث وآثار کو بیان کرتا ہے۔ توکیوں نہ کچھ کتب ایسی لکھی جائیں جن میں ان تمام مضامین پر سیر حاصل مواد ہو اور جامع قسم کی ہوں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭ …جو کتب موجود تھیں ان میں احادیث وآثار نیز فتاوی وغیرہ سبھی موجود تھے مگر ان میں درآئی کمزوریوں کے بارے میں ماہرین حدیث کے علاوہ کوئی بھی آگاہ نہیں تھا جب کہ دیگر ماہرین ان سے مستفید ہوکر فقہ، استنباط اور استدلال کو بھی اپنا رہے تھے۔ ایسی صورت میں یہ خیال فقہاء محدثین کے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ایک کوشش ایسی کی جائے جو ان کتب میں صحیح، حسن ، ضعیف اور مرسل ومنقطع کو نکھار دے تاکہ علماء وفقہاء صحیح استنباط واستدلال پر مبنی فقہی مسائل طلبہ اور عوام کو دے سکیں۔

٭ …ان کتب میں مرفوع احادیث تھیں اور موقوف آثار بھی۔متصل ومنقطع بھی شامل تھیں اور مرسل و معلل بھی۔چنانچہ اس خیال نے محدثین میں شدت پکڑلی کہ صرف صحیح مسند متصل احادیث کو ہی بیان کیا جائے اور اگر آثار وموقوفات سے مستفید ہونا بھی پڑے تو انہیں بطور استشہاد ذکر کردیا جائے۔ مگر اصل کتاب میں صحیح مسند مرفوع، متصل احادیث ہی ہوں۔

٭ … سابق مصنفین، حدیث کے ساتھ فقہی مسائل بھی درج کردیا کرتے جیسے موطأ امام مالکؒ میں اور مصنف عبد الرزاق میں یہ امتزاج ملتا ہے۔ان میں علماء امصار اور فقہاء تابعین کی آراء اور مسائل کو بھی احادیث وآثار سے مزین کیا۔ اور اختصار سے کام لیتے ہوئے انہوں نے ضمناً ان فقہی مسائل کا ذکر کیا ہے۔چنانچہ صحیح احادیث پر مشتمل مجموعے لکھنے، صحیح وغیر صحیح احادیث کوچھانٹنے، صرف صحیح حدیث پر عمل کرنے، علل حدیث کو واضح کرنے، رواۃ حدیث کی تاریخ لکھنے اور موجودہ وسابقہ فقہی واستنباطی کاوشوں کا درست میزان قائم کرنے کے لئے علماء حدیث نے:

…کسی سے تاثر لئے بغیر نقد حدیث کے پیمانے مقرر کئے جو مناقشہ ومذاکرہ کے بعد اصول وقواعد کی صورت اختیار کر گئے۔حدیث کی مصطلحات کو لغوی واصطلاحی معانی دئے۔

… اقوال وفتاوی کو ان کتب نے بطور استشہاد اپنی کتب کی زینت بنایا مگر اصل توجہ صحیح مسند مرفوع متصل احادیث کی طرف رہی۔

… ضعیف وموضوع احادیث ورواۃپر بھی الگ کتب لکھ دی گئیں۔

… نقادعلماء نے اپنی علمی، تنقیدی، اصولی اور تجزیاتی وتجرباتی آراء اتنی پختگی سے پیش کیں کہ شاید ہی ان کے بعد کوئی ایسا ہو جو حدیث کی تصحیح و تضعیف میں، اسانید ومتون کی علل میں یا جرح وتعدیل میں کوئی جدید شے لایا ہو۔

…ان نقاد علماء کے سرخیل تین شیوخ الإسلام ہیں جو بلاشرکت غیرے اپنے وقت کے امام فقہ الحدیث ہیں اور وہ ہیں: امام احمد بن حنبل ؒ(م: ۲۴۲ھ)، امام یحییٰ بن معینؒ(م:۲۳۳ھ) اور امام علی بن المدینی(م: ۲۳۴ھ) ۔

… اس دورمیں پچھلے تمام صحائف اور کتب میں احادیث، اقوال اور فتاوی وغیرہ جمع تھے۔ ان کی وہ روایات جو متصل ومرفوع تھیں اور صحت کے تمام لوازمات کو پورا کرتی تھیں مولفین صحاح ستہ نے خود اپنے مشایخ سے سنداً سن کر انہیں اپنی کتب کی زینت بنا لیا۔ جس کی تصدیق منکشف ہونے والے صحیفوں نے بھی کردی اور یہ باور کرادیا کہ زبانی روایت بھی اس دور میں انتہائی قابل اعتماد تھی۔ مثلا موطأ امام مالک کی چھ سومسند مرفوع صحیح روایات صحیح بخاری میں سنداً سماگئیں۔اسی طرح دیگر صحیفوں اور کتابوں کی احادیث بھی روایت کے ساتھ کتب میں جمع ہو گئیں۔ مثلاً صحیفہ ہمام بن منبہ کی ایک سو اڑتیس احادیث مسند احمد بن حنبل میں سما گئیں۔ مقوقس کو لکھا ہوا آپ ﷺ کا مکتوب بھی سنن وغیرہ کی کتابوں میں آچکا۔جس کی سند کی اب ضرورت نہیں۔صحیفۂ صادقہ جو عبد اللہ بن عمرو ؓبن العاص(م:۶۵ھ) کا ہے اس میں ایک ہزار کے قریب احادیث تھیں جس کا بیشتر حصہ مسند احمد اور دیگر کتب سنن میں آگیا ہے جب کہ ان محدثین کے پاس نہ صحیفہ تھا اور نہ ہی کوئی نامۂ رسول۔اسی طرح صحیفہ جابر بن عبد اللہ انصاری(م:۷۸ھ) جسے مشہور تابعی قتادۃ بن دعامۃ سدوسی(م:۱۱۸ھ) بہت اہمیت دیتے تھے اور کہا کرتے:
لَأَنَا بِصَحِیْفَۃِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَحْفَظُ مِنِّیْ لِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ۔
میں صحیفہ جابر بن عبد اللہ کو سورہ بقرہ سے زیادہ یاد رکھتا ہوں۔سیدنا جابر ؓ کا مسجد نبوی میں ایک حلقہ قائم تھا جس میں وہ اپنے شاگردوں کو احادیث رسول املاء کرایا کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب۴؍۲۱۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… دوسری اور تیسری صدی ہجری کا عرصہ مصطلحات واصولِ حدیث ومناہج ِاستنباط کی پختگی اور ان کے نفاذ کا ہے۔ اس صدی میں علماء حدیث نے متداول اصطلاحات کو مزید دلائل سے مدلل کیا۔ جومتکلمین اورفلاسفہ کی اصطلاحات کی وضاحت اور جواب بھی تھے۔

٭… انہی کے معاصرین دیگر فقہاء محدثین مثلاً: امام حمیدیؒ، عبد اللہ بن الزبیرؒ(م: ۲۱۹ھ)، امام سعید بن منصور مروزیؒ(م: ۲۲۷ھ)، ابو عبید القاسم بن سلامؒ(م: ۲۲۴ھ)، محمد بن سعدؒ(م: ۲۳۰ھ)، ابو خیثمہ زہیر بن حربؒ(م: ۲۳۴ھ)، ابو بکر بن ابی شیبہؒ(م: ۲۳۵ھ)، اسحاق بن راہویہؒ(م: ۲۳۸ھ)، خلیفہ بن خیاط العصفریؒ(م: ۲۴۰ھ)، عمرو بن علی الفلاسؒ(م: ۲۴۹ھ)، عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمیؒ(م: ۲۵۵ھ)، ابراہیم بن یعقوب الجوزجانیؒ(م: ۲۵۶ھ)، محمد بن یحییٰ ذہلیؒ(م: ۲۵۸ھ)۔جیسے عظیم علماء امت جن کی مثبت حدیثی اور فقہی سوچ نے ان کے لائق شاگردوں میں تلاطم پیدا کیا اور نتھارنے کا عمل ان میں شروع ہوا۔

٭… یہ تلامذہ بھی علم حدیث و اصول فقہ کے ماہرین ومؤسسین تھے ۔ جن میں محمد بن اسماعیل بخاریؒ(م: ۲۵۶ھ)، ابو زرعہ عبید اللہ بن عبدالکریم الرازیؒ(م: ۲۶۴ھ)امام عجلیؒ، احمد بن عبد اللہ بن صالح(ؒم: ۲۶۱ھ)، ابو حاتم محمد بن ادریس الرازیؒ(م: ۲۷۷ھ)، مسلم بن الحجاجؒ(م: ۲۶۱ھ)، یعقوب بن شیبہؒ(م: ۲۶۲ھ)، ابوداؤد سلیمان بن الاشعث سجستانیؒ(م: ۲۷۵ھ)، ابو عیسیٰ ترمذی، محمد بن عیسیٰؒ(م: ۲۷۹ھ)، ابن ماجہ، محمد بن یزیدؒ(م: ۲۷۵ھ)، یعقوب بن سفیان الفسویؒ(م:۲۷۷ھ)، احمد بن زہیر بن حربؒ ، ابن ابی خیثمہؒ(م: ۲۷۹ھ)کے اسماء گرامی لئے جاسکتے ہیں۔

٭…ان دونوں صدیوں کی یہ ہستیاں بھی قابل افتخار سرمایہ ہیں۔ ابوزرعہ دمشقی، عبد الرحمن بن عمرو(م: ۲۸۱ھ)، ابن ابی عاصم، احمد بن عمر النبیل(م: ۲۸۷ھ)، عبد اللہ بن احمد بن حنبل(م: ۲۹۲ھ)، صالح بن محمد جزرۃ(م: ۲۹۳ھ)، ابو بکر احمد بن عمرو البزار(م: ۲۹۲ھ)، محمد بن نصر المروزی(م: ۲۹۴ھ)، ابو القاسم عبد اللہ بن محمد البغوی(م: ۳۱۷ھ)، ابو عوانۃ، یعقوب بن اسحق الاسفرایینی(م: ۳۱۶ھ)، امام علل ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی(م: ۳۰۳ھ)، ابو یعلی الموصلی، احمد بن علی بن المثنی(م: ۳۰۷ھ)، ابو بشر محمد بن احمد بن حماد الدولابی(م: ۳۱۰ھ)، محمد بن اسحق بن خزیمہ(م: ۳۱۱ھ)، محمد بن جریر الطبری(م: ۳۱۰ھ)، ابو جعفر محمد بن عمرو العقیلی(م: ۳۲۰ھ)، اسی طبقہ میں ابو محمد عبد الرحمن بن محمد بن ادریس جو ابن ابی حاتم الرازی (م: ۳۲۷ھ)رحمہم اللہ کے نام سے مشہور ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مشہور تصانیفِ حدیث وعلوم ِحدیث:
٭…یہ دونوں صدیاں علم حدیث کی پختگی کے ادوار ہیں ۔نقد حدیث کے ذریعے احادیث کی تنقیح وتہذیب کا دور ہے۔ سنت رسول سے استنباط و استدلال اور فقہیات میں مجتہدانہ سوچ کا دور ہے۔

٭… اس دور کی مشہور ترین تصانیف میں الجامع الصحیح از امام بخاری ہے۔ امام محترم سے قبل بیشتر علماء علومِ دینیہ میں اپنی کتب تصنیف فرماچکے تھے۔ امام مالک اور سفیان ثوری نے فقہ میں، ابن جریج نے تفسیر میں، ابوعبید نے غریب القرآن میں، محمد بن اسحق اور موسیٰ بن عقبہ نے سیر میں اور عبد اللہ بن المبارک نے زہد ومواعظ میں اور کچھ نے بدء الخلق اور قصص الأنبیاء میں جبکہ یحییٰ بن معین نے احوال صحابہ وتابعین میں اور کچھ نے رؤیا، ادب، طب اور شمائل میں اور بعض نے اصول حدیث، اصول فقہ اور مبتدعہ کے رد میں کتب تصنیف کردی تھیں۔امام بخاریؒ نے ان سب علوم پر غور کیا اور ان کے جزئیات وکلیات کو چھانٹا۔ ان میں سے جو علوم احادیثِ صحیحہ سے امام بخاری کی شرط پرپورے اترے انہیں وہ اپنی کتاب میں لائے۔ تاکہ اہل اسلام کے ہاتھ میں ان علوم میں سے ایک قطعی حجت ہو جس میں شک نہ ہو۔ ان علوم کی مہارت میں وہ اپنے سابقین سے منفرد ہیں کیونکہ سابقین کے پاس ایک یا دو علم کی مہارت تھی ۔مگر امام بخاریؒ نے ایک ماہر کی حیثیت سے ان تمام فنون پر گفتگو فرمائی ۔جبکہ ایسے علوم کے اصول، احادیث سے مستنبط کرنا اور انہیں پرکھنا ایک بہت بڑا شرعی کام ہے جو ذہن رسا اور حفظ بے بہا کا متقاضی ہے۔نیزفقاہت کے لئے علمی ثقاہت کے علاوہ معتمد علیہ ہونا بڑا ضروری ہے۔وہ لکھتے ہیں:
ہم سیر، تفسیر اور زہد کی تنقید سے عاجز آگئے کیونکہ ان فنون میں اکثر احادیث مرسل اور ضعیف ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
موقوفاتِ صحابہ وتابعین کے ذریعہ انہوں نے ہر فن کے بارے میں اہم فوائد کا اضافہ کیا ہے۔جو تراجم ابواب میں منتشر ہیں۔

جو اہم نیا مسئلہ ہو اس کے حل کا طریقہ امام محترم نے بتایا ہے کہ حدیث رسول کو کس طرح ذہن میں لائیں؟ اور کس طرح اس کی نص سے استدلال لیں؟ امام محترم نے اپنی صحیح میں چنداہم مصطلحات حدیث کو بھی پرو دیا ہے۔ اور کتاب العلم میں حدیث، علم حدیث کی مختلف فروعات، نیز تحمل حدیث اور الفاظ اداء حدیث وغیرہ ذکر کرکے مہر ثبت کردی ہے کہ یہ اصطلاحات صرف لغت عربی ہی کی نہیں بلکہ حدیث ِرسول یا زمانۂ خیر سے ماخوذ ہیں۔

٭… امام مسلم کی الجامع الصحیح،میں ان کا لکھامقدمہ انتہائی جامع اور علوم حدیث میں ایک وقیع شے ہے۔ سنن أربعہ، بھی فقہ الحدیث کی ترجمان کتب ہیں اور منتشر ضعیف وصحیح احادیث پر ذاتی محاکمہ پیش کرکے علوم ِحدیث کے شعور کا پتہ دیتی ہیں۔

٭… مسند امام احمد بن حنبل، علم الاسناد کی اہمیت کو اجاگر کرنے، ایک ہی متن کی مختلف روایات کا پتہ دینے ، رحلات علمیہ کے فروغ کا شعور دینے اور بلاد واقطار کے علماء حدیث سے مستفید ہونے کے شوق وجذبے کو دکھاتی اور ابھارتی ہے۔

٭… المنتقی فی الأحکام از ابن الجارود(م: ۳۰۷ھ) ۔

٭…امام محمد بن جریرطبری(م: ۳۱۰ھ)، طبری ؒکی کتب میں تہذیب الآثار منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ ابتدائً سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی احادیث بیان کیں۔مولف نے ہر حدیث پر علمی کلام بھی کیا۔اس کی علت اور دیگر طرق سے آگاہ کیا نیز فقہیات کے ساتھ اختلافِ علماء ، ان کے دلائل، لغت وغیرہ سے بھی آشنا کرایا۔ اپنی کتاب کو انہوں نے عشرۂ مبشرہ کی مسند ، اہل بیت سے متعلق احادیث، احادیث ِموالی، اور ایک مناسب سا مواد سیدنا ابن عباسؓ کی مرویات کا تھا جس پر کتاب کو ختم کیا۔

٭…امام بقی بن مخلدؒ قرطبی(۲۷۶ھ) کی المسند الکبیر بھی ایک ہزار تین سوسے زائد اسماء صحابہ کرام کی ترتیب سے ان کی مرویات پر مشتمل تھی۔فقہی ترتیب بھی اس میں نمایاں تھی۔ انہوں نے ہر صحابی کی احادیث کو فقہی ترتیب سے مرتب کیا ۔اس طرح امام بقیؒ بن مخلد کی ثقاہت اور اتقان کی وجہ سے ان کی کتاب ایک عظیم کتاب ثابت ہوئی۔

٭…معاصرین اوران کے بعدبھی تصانیف حدیث کا ایک تانتا بندھ گیا اور مختلف نظری وفکری کتب متعارف ہوئیں۔ان میں مسانید بھی تھیں جوبالخصوص عبید اللہ بن موسیٰ کوفی(م: ۲۱۳ھ) ، مسدد بن مسرہد(م:۲۲۸ھ) اور اسد بن موسیٰ اموی اور نعیم بن حماد نزیل مصر کی مسانید ہیں۔ ان کے ساتھ عثمان بن ابی شیبہ(م: ۲۳۹ھ)، مسند الحمیدی(م: ۲۱۹ھ) ، مسند عبد بن حمید(م: ۲۴۹ھ)، اسحق بن راہویہ (م: ۲۳۷ھ) اور مسند ابی یعلی الموصلی(م: ۳۰۷ھ) کی مسانیدبھی ممتاز ترین شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح مصنفات، جوامع نامی کتب بھی وجود میں آئیں۔ ان مسانید کا مرتبہ ومقام سنن اربعہ سے ذرا کم ہے اس لئے کہ ان کے مصنفین نے ہر صحابی کی مسند میں ہر اس حدیث کو لکھ دیا ہے جو صحیح یاسقیم تھی۔سوائے مسند حمیدی اور مسند احمد کے جنہوں نے صحت کے معیار کوملحوظ رکھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… امام بخاریؒ(۱۹۴۔۲۵۶ھ) نے اپنی صحیح میں جس طرح نقد حدیث کو پرویا ہے اسی طرح نقد رواۃ میں بھی ان کی تواریخ ثلاثہ بلند مقام رکھتی ہیں۔ اسی موضوع پر ان کی ایک اور کتاب الکنی المجردۃ ہے اور دوسری الضعفاء ہے۔

٭…امام مسلمؒ (۲۰۴۔۲۶۱ھ) نے بھی نقد حدیث میں بے مثال کام کیا ہے ان کی معروف کتب میں تاریخ، طبقات، الأسماء والکنی، المفارید اور الوحدان نامی کتب ہیں۔

٭…احمدبن عبد اللہ بن صالح العجلیؒ(۱۸۲۔۲۶۱ھ) امام بخاری ؒ ومسلم ؒ سے عمر میں بڑے تھے اور وفات بھی ان کی تاخیر سے ہوئی تھی۔ان کی معروف کتاب الثقات ہے۔

٭…ابوزرعہ الرازیؒ(۲۰۰۔۲۶۴ھ) ان کا بھی جرح وتعدیل میں عظیم الشان کام ہے۔ جس کا غالب حصہ ابن ابی حاتم الرازی ؒکی کتاب میں آگیا ہے۔ابوحاتم الرازیؒ(۱۹۵۔۲۷۷ھ) نقاد رواۃ کے گل سر سبدجن کے نقدی تبصرے تقدمۃ الجرح والتعدیل میں آگئے ہیں جو ان کے بیٹے کی ہے۔

٭… معروف امام حدیث وناقد حدیث النسائیؒ(۲۱۵۔۳۰۳ھ) کی نقد رواۃمیں ایک کتاب الضعفاء ہے۔ ابوبشر الدولابیؒ(۲۲۴۔۳۱۰ھ) بہت بڑے ناقد حدیث اور علم رجال کے ماہر تھے ان کی معروف کتاب الکنی ہے۔ ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان سب علماء کے ہاں متواتر یا خبر آحاد کی تقسیم عنقاہے۔

٭…روایت حدیث کے لئے تحقیق وروایت کے مناہج مرتب کئے۔ ان میں ہم آہنگی پیدا کرکے ان کی حدود متعین کیں۔ اسی طرح رواۃ حدیث کو بھی خوب کھنگالا۔

٭…اس دور میں علوم حدیث پر بعض (Theoretical Books) موضوعی کتب بھی منظر عام پر آگئیں۔ جن میں امام ابوبکر عبد اللہ بن الزبیر الحمیدی کا ایک نفیس کتابچہ ہے جوروایت حدیث کے اہم نکات واصول کو اجاگر کرتا ہے۔ خطیب بغدادیؒ نے اپنی کتاب الکفایۃ میں جابجا اس کا ذکر کیا ہے۔امام بخاری ؒنے اپنی تاریخ کبیر اور صحیح بخاری کے مختصر نام میں اپنے منہجِ قبولِ حدیث و رواۃ کو انتہائی جامعیت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک طویل مقدمہ لکھ کر علم حدیث کے بعض اہم مسائل پر سیر حاصل مگر پرزور بحث کی ہے۔ اسی طرح امام ابوداؤد نے رسالۃ إلی أہل مکۃمیں اپنی کتاب السنن میں احادیث کو فقہی ترتیب سے درج کرنے اورروایت کرنے کا منہج لکھا ہے اور علوم حدیث کے بعض اہم مسائل پر تبصرہ بھی کیا ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ نے العلل الصغیر کتاب لکھی جو علم حدیث ہی کا موضوع ہے اس میں بعض انتہائی اہم اور مشکل اصطلاحات اور کچھ علوم حدیث کے قواعد پر روشنی ڈالی ہے۔جس کی شرح ابن رجب الحنبلی (م: ۷۹۵ھ) نے بصد شوق بڑی عمدگی سے کرڈالی۔

٭٭٭٭٭
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تبصرہ:
نقد روایت کی کوکھ سے علمِ رجال برآمد ہوا جس نے لاکھوں محدثین کے حالات وواقعات قلمبند کردئے۔ رجال کے ماہرین نے راوی کے ذاتی کوائف، اس کی اہلیت وقابلیت، تقوی وصلاح اور صغائر وکبائر سے اس کا اجتناب، اس کی ثقاہت وضعف، درایت وضبط، شذوذ ونکارت جیسے تمام پہلو جانچے ، راوی کے اساتذہ وطلبہ، تعلیم وتدریس،اس کی روایات و تصنیفات، علمی مقام واعتبار حتی کہ اس کے محلہ، بستی ، شہراور ملک تک کو چھان مارا، اوربغیر کتمانِ علم کے انہوں نے اس امانت کو انتہائی ذمہ داری اور خدا خوفی سے قلمبند بھی کیا اور روایت بھی ۔ اس تحقیق و تنقید نے بتدریج چالیس سے زیادہ علوم علم الرجال میں متعارف کرادئے اور ہر علم پر مستقل کتب بھی تصنیف ہوئیں۔ اس اندازِ تحقیق کو دیگر علوم نے بھی اپنایا۔کسی نے بھی اگر کچھ کہا یا روایت کیا ، تو اس سے یہ سوال کرنا بھلا لگا: کون ہے وہ ؟ اس نے کس سے سنا؟ یہ لکھا کہاں ہے ؟ اس لئے کہ حریت علم ِتحقیق کے ایسے دروازے وا کرتا ہے جو محقق کوعلم یقین سے روشناس کرادیں۔ورنہ بلاسند روایت کرنا ایسا ہے جیسے کسی چھت پر بغیر سیڑھیوں کے چڑھنا ۔

٭…ان نقاد محدثین نے زمانۂ صحابہ وتابعین سے لے کر آخروقت تدوین تک جن لوگوں پر تنقید کی وہ یا توصرف ان کے ضعف پر تھی یا ان کے نظریاتی ومذہبی تعصبات پر۔جیسے زنادقہ یا مبتدع حضرات جن میں روافض، خوارج،قصہ گو، معتزلہ اور صوفی حضرات وغیرہ شامل ہیں ان پر تنقید کی بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ وہ اپنی روایات میں اپنی بدعات کو فروغ دے دیتے چاہے حدیث کا حال کچھ بھی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…اسی تیسری صدی میں حدیث کے مختلف علوم پر کتب لکھی گئیں جن میں رجال، انساب، اسماء و کنی، القاب، مؤتلف ومختلف، غریب الحدیث، جرح وتعدیل، فقہ الحدیث، اصول الحدیث، مناہج المحدثین، شروحات، طبقات، فضائلِ صحابہ، استدراکات، مرسل، ضعیف، صحیح، موضوع، اختلاف الحدیث، معرفۃ اصول الروایۃ وغیرہ پر اہل علم نے خوب لکھا۔

٭… تیسری صدی کے بعدائمہ حدیث نے راوی اور روایت کی شرط میں سختی کی بجائے تخفیف کردی کیونکہ حدیث اسانید ومتون سمیت چھان بین کے مراحل طے کر چکی تھی اور مدون بھی ہوچکی تھی۔متون واسانیداور رواۃ وغیرہ پر علماء حدیث کی نقدی نگاہ پڑ چکی تھی۔ اس لئے سند کو باقی رکھنے کے لئے راوی میں عدالت وضبط کی سختی ترک کردی گئی۔اسی صدی کے معروف حافظ ِحدیث امام ابوعبد اللہ الحاکم نیساپوری (۳۲۱۔۴۰۵ھ) نے( معرفۃ علوم الحدیث : ۱۵ ) اپنے معاصر علماء میں شروط راوی میں عدالت اور ضبط میں تخفیف کا ذکر کرتے ہوئے صرف ضبط ِکتاب کا تذکرہ کیا ہے اور ضبط ِصدر کا ذکر چھوڑ دیا ہے جو کہ ایک تخفیف ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ(م: ۴۵۸ھ) نے اس تخفیف پر بڑی نفیس بات کہی ہے جس کا ذکر امام ابنؒ الصلاح نے تدوینِ حدیث وعلوم کی تکمیل کے بعد تخفیف پر بحث سمیٹتے ہوئے یوں کیا ہے:
أَنَّ الْاَحَادِیْثَ الَّتِی صَحَّتْ أَوْ وَقَفَتْ بَیْنَ الصِّحَّۃِ وَالسَّقْمِ، قَد دُوِّنَتْ وَکُتِبَتْ فِی ا لْجَوَامِعِ الَّتِی جَمَعَہَا أَئِمَّۃُ الْحَدِیْثِ ، وَلاَ یَجُوْزُ أَنْ یَذْہَبَ شَئ ٌمِنْہَا عَلَی جَمِیْعِہِمْ ، وَإِنْ جَازَ أَنْ یَذْہَبَ عَلَی بَعْضِہِمْ، لِضَمَانِ صَاحِبِ الشَّرِیْعَۃِ حِفْظَہَا۔ قَالَ۔۔الْبَیْہِقِیُّ۔۔ فَمَنْ جَائَ الْیَومَ بِحَدیثٍ لاَ یُوجَدُ عِنْدَ جَمِیْعِہِمْ لَمْ یُقْبَلْ مِنْہُ، وَمَنْ جَائَ بِحَدِیْثِ مَعْرُوْفٍ عِنْدَہُمْ ، فَالَّذِیْ یَرْوِیْہِ لاَ یَنْفَرِدُ بِرِوَایَتِہِ، وَالْحُجَّۃُ قَائِمَۃٌ بِحَدِیْثِہِ بِرِوَایَۃٍ غَیْرِہِ۔ وَالْقَصْدُ مِنْ رِوَایَتِہِ وَالسَّمَاعُ مِنْہُ: أَنْ یَصِیْرَ الْحَدِیْثُ مُسَلْسَلًا بِ۔ حَدَّثَنَا وَ أَخْبَرَنَا، وَتَبْقَی ہَذِہِ الْکَرَامَۃُ الَّتِی خُصَّتْ بِہَا ہَذِہِ الأُمَّۃُ شَرَفاً لِنَبِیِّناَ الْمُصْطَفٰی ﷺ۔ (معرفۃ انواع علم الحدیث: ۱۲۱)
جو احادیث صحیح ٹھہریں یا صحت وسقم کے درمیان اٹک گئیں یہ سب اب ائمہ حدیث کی جوامع میں مدون ہوچکیں اورلکھی جاچکیں ہیں۔کیونکہ ان ائمہ سے کوئی حدیث اب رہ نہیں گئی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کسی ایک سے وہ حدیث چھوٹ گئی ہو مگر دوسرے سے نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شریعت کی حفاظت کی ضمانت دی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام بیہقی مزید فرماتے ہیں:
آج اگر کوئی ایسی حدیث لے آتا ہے جو ان ائمہ کے ہاں مذکور نہیں تو وہ قبول نہیں کی جاسکتی۔یا اگر ائمہ حدیث کے ہاں کسی معروف حدیث کو آج کوئی روایت کرتا ہے تو وہ اس کی روایت میں منفرد نہیں ہوگا کیونکہ اس سے پہلے یہ حدیث کسی اور کی روایت سے ائمہ حدیث ذکر کر چکے۔ جس کی حجت پہلے سے ہی قائم ہے۔آج کے شخص کی روایت حدیث کرنا یا اس سے اس حدیث کا سننا محض اس لئے ہوتا ہے کہ حدیث کا تسلسل حدثنا اور أخبرناکے ساتھ جڑا رہے اور عزت وتکریم کا جو مقام وشرف اس امت کو رسول اکرم ﷺ کی سند کے حوالہ سے ملا ہے وہ قائم رہے۔

اس لئے ایسی کتب جو تیسری صدی ہجری کے بعد منظر عام پر آئیں مگر ان کا علم ہمیں نہ ہوسکا ،ہمارے اس دعوے کی معارض نہیں ۔ تخفیف کا اصول پھربھی قائم ہے اوررہے گا۔ سابقہ کتب اور ان کی احادیث ورواۃ کو پرکھنے کا جو معیار رہا وہی بعد میں لکھی گئی کتب کا بھی ہوگا۔ جدید مصطلح کے معنوی تعین میں وسعت کی گنجائش باقی رکھی گئی ہے۔

٭… چوتھی صدی ہجری کی مشہور کتب حدیث میں امام طبرانیؒ کی معاجم ثلاثہ ہیں۔ المعجم الکبیر میں انہوں نے صحابہ کرام کی ہجائی ترتیب سے ان کی احادیث کو لکھا۔ اس میں بیس ہزار پانچ سو احادیث ہیں۔ نیزالوسیط اورالصغیر میں اپنے شیوخ کی ہجائی ترتیب ملحوظ رکھ کر احادیث جمع کیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… اسی طرح امام ابن حبان بستی (م: ۳۵۴ھ) کی التقاسیم والانواع ، کتاب المجروحین اور کتاب الثقات کے مقدمات میں پہلی دو کتب کے مقدمے علوم حدیث کا شاہکار سمجھے گئے ہیں۔ وجہ شاید یہ ہو کہ ابن حبان چوتھی صدی ہجری کے ان ماہرینِ حدیث میں سے ہیںجنہوں نے بڑے اہم مباحث پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

٭… امام حمد بن سلیمان خطابی (م: ۳۸۸ھ) نے سنن ابی داؤد کی شرح معالم السنن لکھی ۔جس کا مقدمہ گو انتہائی مختصر ہے مگر یہ پہلے فرد ہیں جنہوں نے مقدمہ کتاب میں قبول و رد کے اعتبار سے صراحتاً حدیث کی تین اقسام : صحیح ، حسن، اور ضعیف بتائی ہیں۔

٭…امام یعقوب بن اسحق(م: ۳۱۶ھ) کی مسند ابی عوانہ جو اصل میں صحیح مسلم کی مستخرج ہے جس کا مطلب ہے کہ اپنی سند سے ان احادیث کو روایت کیا جو امام مسلم اپنی صحیح میں روایت کرچکے۔ اس کا ایک فائدہ متاخر زمانہ میں عالی اسانید کا مل جانا ہے جو شاید امام مسلم مرحوم کے علم میں بھی نہ تھیں۔مزید اس کتاب میں کچھ ایسے زائد متون بھی مل جاتے ہیں جو اصل کتاب صحیح مسلم میں نہیں۔ ایک اور اہم کام اس کتاب کا یہ ہے کہ صحیح مسلم میں آئے ہوئے مبہم اسماء کی امام ابوعوانہ تعیین کرکے ان کا نام لکھتے ہیں۔امام ذہبیؒ اور امام ابن حجر عسقلانیؒ کا کہنا ہے کہ اس مسند میں جو زائد احادیث ہیں ان میں صحیح، حسن اور ضعیف بھی ہیں۔کتاب کو مؤلف نے فقہی ترتیب دی ہے ۔ کتاب اور پھرباب۔ یعنی ہر کتاب میں ابواب ہیں۔
 
Top