زمانہ نبوت میں اجتہاد کا ہونا:
ایک گروہ نے زمانہ نبوت میں اجتہاد کومطلقاً ممنوع قرار دیا ہےاور دوسرے گروہ نے مطلقاً جائز قرار دیا ہے تو صحیح بات اس میں تفریق اور امتیاز کرناہے کہ جن لوگوں کے پاس آپﷺ نہیں تھے ، ان کےلیے تو اجتہاد کرنا جائز تھا اور جن کے پاس آپﷺ موجود تھے، ان کےلیے آپﷺ کی اجازت کے بغیر اجتہاد کرنا جائز نہیں تھا۔ اس بات کے دلائل میں چند ایک یہ ہیں:
معاذ رضی اللہ عنہ والا قصہ اور نبی کریمﷺ کا ان کی تصدیق کرنا اور انہیں درست قرار دینا۔اور آپﷺ کا بنی قریظہ کے بارے میں فیصلے کو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمادینا، جب انہوں نے سعد سے فیصلہ کروانے کا مطالبہ کیا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے ان کے جنگجوؤں کے قتل اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنانے کا فیصلہ دیا اور نبی کریمﷺ نے اس تصدیق کی اور اسے درست قرار دیا۔اسی طرح نبی کریمﷺ کا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو برقرار رکھنا جب انہوں نے سردی کی شدت کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :﴿ وَلا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ﴾ [النساء:29] اپنے آپ کو خود ہی قتل نہ کرو۔
سے دلیل پکڑتے ہوئے غسل جنابت کیے بغیرتیمم کرکے لوگوں کو نماز پڑھا دی تھی۔
اسی بات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام نے احرام کی حالت میں زیبرا کھا لیا تھا جسے ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ نے ان کےلیے شکار کیا تھا تو انہوں نے اسے اپنے اجتہاد کی بناء پر ہی کھایا تھا۔اسی طرح اہل قباء کا نماز کے اندر ہی کعبہ کی طرف پھر جانا بھی اسی بات کی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی دلیلیں ہیں ، اختصار کی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر