• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زنا کے سدباب کے قرآنی طریقے

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کئی بار ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ شریعت میں صرف زنا کی سزا ہی اتنی سخت کیوں رکھی گئی. یہاں جب قرآن کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ جہاں صرف اللہ کے حق کا معاملہ ہوتا ہے تو اللہ نرمی کا رویہ اپناتے ہیں اور جہاں بندے کا حق اللہ کے حق سے مل جائے تو اللہ پاک سختی اختیار کرتے ہیں. دو افراد کے زنا کے متاثرین دو فرد، دو خاندان، دو قومیں، دو گروہ یا دو قبیلے نہیں بلکہ پوری امت ہے.
قتل کے گناہ کی سزا بھی قتل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے

"جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اسے نے پوری انسانیت کو قتل کیا"

مگر یہاں آپس میں صلح صفائی کی بنیاد پر دیت کی رعایت بھی دے دی. چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، ڈاکے کی سزا قتل ہے مگر زنا کی سزا یوں بھی اپنی شدت میں بڑھ کر ہے کہ یہ چھپ کر نہیں بلکہ سرِعام مجمع میں دینی ہے. اور ہر پتھر جسم پر ایک زخم بنائے گا جب تک جان نہ نکل جائے
اس میں حکمت یہ ہے کہ جیسے اس گناہ کے عمل میں اس کے جسم کے ہر ٹشو tissue نے لطف اٹھایا تو اب موت بھی لمحہ لمحہ اور پل پل کی اذیت کے بعد آئے گی. یعنی زانی جب تک اپنے خون میں غسل نہ کرے، اس کی توبہ قبول نہ ہوگی
مگر کیا اللہ پاک اتنے بے انصاف ہیں کہ ایک گناہ کی اتنی بڑی سزا رکھ دی مگر اس سے بچنے کی کوئی ترکیب یا طریقہ نہ سکھایا؟ ایسا نہیں ہے. اللہ تعالٰی نے اس امت کو اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے واسطے سے قرآن و حدیث کے ذریعے اس گناہ سے بچنے کے لیے پورا پلان پیش کیا ہے. احکامات کی پوری لسٹ ہے. Do's اور Dont's کی مکمل فہرست ہے. آئیں ان سب کا جائزہ لیں

پہلا حکم:
استیذان یعنی اجازت طلب کرنا

کسی کے گھر یا کمرے میں بلا اجازت مت جاؤ. بھائی بہن کے، باپ بیٹی کے، ماں بیٹے کے کمرے میں جانے سے پہلے اجازت طلب کریں. شریعت اس طرح ہمیں مزاج سکھا رہی ہے. اور آج اس حکم پر عمل نہ کرنے سے محرم رشتوں میں بھی خرابی آ رہی ہے
گھر میں دو حصے رکھیں
پرائیویٹ رومز یعنی ذاتی
کامن رومز یعنی عام
پرائیویٹ کمروں میں محرم اجازت سے اور اجنبی بالکل مت جائیں. تاکہ ایک دوسرے کو نامناسب حالت میں نہ دیکھ لیں. Segregated rooms یعنی ڈرائنگ روم وغیرہ میں مرد ہی مردوں کو attend کریں. عورتیں بالکل مت کریں چاہے کزنز ہوں یا سسرالی رشتہ دار. مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کزنز کھلم کھلا فیمیل کزنز کے کمروں میں جاتے ہیں، چھیڑ خانی ہو رہی ہوتی ہے، ہنسی مذاق اور آؤٹنگ چل رہی ہوتی ہے اور اسی دوران شیطان اپنا وار کر دیتا ہے. عورتیں یاد رکھیں مرد زبردست اور عورت زیردست ہوتی ہے
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی عورت پاک رہنا چاہے مگر مرد اس کو پاک نہ رہنے دے؟

دوسرا حکم
نظر کی حفاظت
نظروں کو نیچا رکھیں اور اپنی حیا کی حفاظت کریں. یہ حکم مرد عورت دونوں کے لئے ہے. عورتوں کی شادی بیاہ اور مردوں کی بازاروں میں اکثر نظر بہکتی ہے. کوئی مہمان آئے تو عورتیں جھانکتی تاکتی ہیں. باپ، بھائیوں کے دوستوں سے ہنس ہنس کر ملنا اور serving ہو رہی ہوتی ہے. جبکہ شریعت تو دیکھنے سے بھی منع کر رہی ہے.
مردوں، عورتوں کی یہ عادت شادی بیاہ میں کھل کر سامنے آتی ہے جب بے حیائی اپنے عروج پر ہوتی ہے.
دو اندھے اگر آمنے سامنے بیٹھے ہیں تو انکو نہیں معلوم کہ سامنے والا کیسا، کتنی عمر کا ہے. مگر شریعت ایک بینا اور اندھے کو بھی آمنے سامنے بیٹھنےسے منع کرتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ثابت ہے. عورتوں اور مردوں کو کئی بار مجبوری میں بات بھی کرنی پڑتی ہے جیسے بازار وغیرہ. تب شریعت چہرے پر نظر ڈالنے سے منع کرتی ہے. صرف پردہ کرنا مسلے کا حل نہیں بلکہ نظر بھی جھکانی ہے. امام غزالی فرماتے ہیں،
"نظر سوچ کے اندر تصویر لے جاتی ہے، یہ تصویر خواہش میں بدل جاتی ہے اور پھر یہی خواہش بے حیائی کا راستہ دکھاتی ہے. "

اگلا حکم:زینت کو چھپانا

پردہ اور چیز ہے اور زینت اورچیز.عورت کے اعضائے زینت نماز میں چھپانے والے اعضاء ہیں. کوشش کریں کہ اس فتنہ کے دور میں محارم سے بھی زینت والے اعضاء چھپائے جائیں. اپنے سینے اور گریبان کو خصوصاً ڈھانپیے. مرنے کے بعد اللہ تعالٰی چار کپڑوں میں عورت کو ڈھانک کر قبر میں بھیجنے کا کہتا ہے. ہم عورتوں نے زندگی میں دو کپڑوں کا لباس معمول بنا لیا ہے کہ اب تو بوتیکس بھی دوپٹے آرڈر پہ تیار کرتی ہیں. کیونکہ عورتیں تین کپڑے بھی پہننے پر راضی نہیں.
مسلمان عورت کا غیر مسلم عورت سے بھی نماز والا پردہ ہے. یعنی سوائے چہرے، دونوں ہاتھ اور پاؤں کے باقی جسم چھپانا ہے. مگر یہاں تو ویکس بھی کروائی جاتی ہے اور فیشلز بھی.
مرد حضرات پبلک یا گھر میں شارٹس نہیں پہن سکتے. آپ حیا دار ہوں گے تو گھر کی عورتیں بھی اپنی حیا کو متقدم رکھیں گی. ورنہ سب سے پہلے بگاڑ گھروں کے ماحول سے شروع ہوتا ہے. ماؤں اور بہنوں کے نامناسب لباس گھر کے لڑکوں میں حیا کی کمی کی وجہ بنتے ہیں. یاد رکھیں
"جب عورت نے اپنے ستر کا خیال نہ رکھا تو محرم محرم کا دشمن بن گیا. جب اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو باپ بیٹیوں کو خود پہ حلال کر لیں گے "
خدارا اپنے گھروں سے فسق کا ماحول ختم کریں.

اگلا حکم:بیوہ اور مطلقہ کا نکاح

ان کے نکاح کا مقصد معاشرے کو پاک رکھنا ہے. کیونکہ بیوہ یا مطلقہ ازدواجی زندگی کے دور سے گزر چکی ہوتی ہے اور ان کے نکاح میں تاخیر یا انکار معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے. یہ حکم اس مرد کے لیے بھی ہے جس کی بیوی مر جائے یا وہ طلاق دے دے. یاد رکھیں شادی پر اصرار وہی مرد کرتا ہے جو پاک رہ کر صرف بیوی سے سکون حاصل کرنا چاہے. ورنہ معاشرہ بھرا ہوا ہے ایسے غلیظ لوگوں سے جو شادی کو بوجھ سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں اس بوجھ کو گلے میں ڈالے بنا بھی سب کچھ مل رہا ہوتا ہے. اللہ تعالٰی نے اجازت دی ہے کہ ایک سے خواہش پوری نہیں ہوتی تو دو شادیاں کرلو. تین کرلو، چار کرلو اور اس میں بیوی کی اجازت بھی شرط نہیں ہاں بیوی کے حقوق پورے کرنا فرض ہے
مگر کیا کیا اس اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرے کا کہ جو گرل فرینڈز تو دس دس برداشت کر لیتا ہے مگر بیوی ایک سے دو نہیں. اسی طرح بیوہ یا مطلقہ کی شادی پہ ایسے ایسے بےشرم تبصرے اور اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ.

نکاح میں بہت تاخیر نہ کی جائے

ہم گھروں میں کیبل لگوا کر، کھلی آزادی دے کر، کو ایجوکیشن میں پڑھا کر پھر اپنے بچوں سے رابعہ بصری اور جنید بغدادی بننے کی توقع کریں تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں. دو جوان لڑکا لڑکی جب یونیورسٹی کے آزاد اور "روشن خیال" ماحول میں پڑھیں گے تو انکو تعلق بنانے سے کون روکے گا؟ جب گھروں میں دینی تربیت نہ ہو، مائیں سٹار پلس کے ڈراموں اور کپڑوں کی ڈیزائننگ میں مگن رہتی ہوں، اولاد کی سرگرمیوں اور ان کی صحبت سے ناواقف ہوں تو جیسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں وہ بعید نہیں.
مگر ہمیں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پردے کی ضرورت نہیں. اس کا تو یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پھر کپڑوں کی ضرورت بھی نہیں. یہ اللہ کا اپنے محبوب کی امت پہ خاص احسان ہے کہ اس نے ہم میں پچھلی قوموں کے تمام گناہ دیکھ کر بھی ہمیں غرق نہیں کیا. ورنہ بنی اسرائیل کے لوگ تو بندر بھی بنائے گئے اور خنزیر بھی. توبہ کے دروازے بند نہیں اور نہ ہی رب کی رحمت مدھم ہو گئی ہے. جب خدا کی محبت اور ایمان کی روشنی دل میں آجاتی ہے تو یہ "نورٌ علی نورٌ" ہے اب ایسے دل میں بے حیائی داخل نہیں ہو سکتی. ایمان کا نور لینا ہے تو ان گھروں میں جا کر بیٹھ جاؤ جہاں صبح شام اس کا ذکر اور تسبیح و پاکی بیان ہوتی ہے یعنی مسجدیں اور خانقاہیں. توبہ سے شاید دن گزرنے کا انداز بدل جائے. راتوں کی بے چینی سجدوں کے سرور میں بدل جائے. اور جب یہ میڈیا اور معاشرہ تمہاری توبہ کو کھانے لگے تب فیصلہ ہوگا کہ تم اس رب العزت کے غلام ہو یا اپنے نفس کے.
وماعلیناالاالبلاغ
حفصہ فاروقی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ہم گھروں میں کیبل لگوا کر، کھلی آزادی دے کر، کو ایجوکیشن میں پڑھا کر پھر اپنے بچوں سے رابعہ بصری اور جنید بغدادی بننے کی توقع کریں تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں. دو جوان لڑکا لڑکی جب یونیورسٹی کے آزاد اور "روشن خیال" ماحول میں پڑھیں گے تو انکو تعلق بنانے سے کون روکے گا؟ جب گھروں میں دینی تربیت نہ ہو، مائیں سٹار پلس کے ڈراموں اور کپڑوں کی ڈیزائننگ میں مگن رہتی ہوں، اولاد کی سرگرمیوں اور ان کی صحبت سے ناواقف ہوں تو جیسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں وہ بعید نہیں.
بہت عمدہ ۔۔۔
حقیقت واقعیہ۔۔۔۔۔۔۔جزاکم اللہ تعالی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کوئی فیملی کے ساتھ رک کر رستہ پوچھے، تو بتانے والے کی نظریں پیچھے بیٹھی خاتون کی طرف ہوتی ہیں.!!
اس اخلاقی دیوالیہ کے شکار معاشرے میں ’’دار الامان‘‘ کی بچیاں کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں۔
ہر گلی ، محلے اور موڑ پر جنرل سٹور، کپڑے کی دکان، کلینک، ٹیوشن سنٹر اور اکیڈمی، جیسی معاشرتی ضروریات کے نام پر کئی ایک بد طینت افراد اپنا کاروبار کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
یہاں جبوں، داڑھیوں اور ٹوپیوں، اور بوٹڈ شوٹڈ شخصیات کے اندر سے ٹوٹا عاشق برآمد ہوتا ہے.... تو آخر قوم کی بچیاں کہاں کہاں سے اور کس کس سے محفوظ رہ سکتی ہیں؟!!
اس جنگل کے نظام کو بدلو، اخلاقیات درست کرو... نکاح کو عام کرو... شرم وحیا کے تقاضوں کی ترویج کرو.... ٹی وی، ڈرامہ، فلم، میوزک جیسی تفریحات کو آگ لگاؤ.
جنسی ہوس ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہے... حلال طور پر اسے پورے کرنے کے سامنے جتنے بند اور مجبوریاں ہیں، وہ ’سد سکندری‘ حرام خوروں کے سامنے ہونی چاہیے تھی.
لیکن افسوس یہاں شادی اور نکاح کے بندھن میں بندھنے کے ہزار تقاضے اور ضرورتیں ہیں، لیکن حرام خوری کے لیے لڑکے اور لڑکی کے پاس ایک موبائل فون ہونا کافی ہے. وہی بچی بچا جسے چھوٹا سمجھ کر نکاح نہیں کیا جاتا وہ اسی چھوٹی عمر میں شرم وحیا کا جنازہ نکالنے کے ہر طریقے سے واقف ہوتے ہیں.
میں یہاں تک کہتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بعض دفعہ میاں بیوی کے لیے آپسی راحت وسکون حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے،، جبکہ باہر جاکر منہ کالا کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ شادی شدوں میں کثیر تعداد ایسی عورتیں ہیں، جو خاوند کے لیے منہ بنائے رکھتی ہیں، جبکہ ناجائز تعلقات اور کالیں سارا سارا دن رات چلتی ہیں.. اور یہی حال مردوں کا. اپنی بیوی اور بچوں کی ماں کے سامنے کتے کی طرح بھونکنے والا معشوقاؤں کے لیے مجنوں بنا ہوا ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ سرِ بازار نوک زبان پر آئے، تو ہر بندہ تھو تھو اور چھی چھی کرتا ہے... لیکن کڑوی حقیقت یہ ہے کہ سینہ بہ سینہ پورے شہر اور گاؤں میں ’کہانیاں‘ پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔
اور بقول غالب
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے
خدارا شرم و حیا کے مصنوعی بندھن اتاریں، اور حقیقت میں شرم و حیا کو عام کرنے کی سوچیں۔ بدکاری و بے حیائی ایک ملی و معاشرتی روگ بن چکا ہے۔
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
کرتی نہیں مگر ملت کے گناہوں کو معاف
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و عصمت پر جان لوٹانے والو، آپ کی پیشین گوئی ہے کہ دو اجنبی مرد و عورت میں تیسرا شیطان ہوتا ہے... پھر تم عورت کو کیوں اکیلا کسی ڈاکٹر، ٹیچر، مولوی، کزن، کولیگ کے پاس بھیجتے ہو؟
تم شرم وحیا سے عاری ہو کر کسی نصیحت کرنے والے کو گندی اور تنگ ذہنیت کا طعنہ تو دے سکتے ہو... لیکن کیا تم حضور کی نصیحت کو نظر انداز کرکے قوم کی بیٹیوں کی عزت محفوظ رکھنے کا بھی کوئی حل نکال سکتے ہو؟؟
آؤ عزم کرو، ہم خود بھی نظریں جھکائیں گے، قلوب واذہان کو پاک صاف رکھیں گے، اور آس پاس بھی لچوں لفنگوں پر عرصہ حیات تنگ کریں گے، خود روکیں گے، نصیحت کریں گے، نہ باز آئے تو دوسروں کو بتائیں گے، پنچایت میں بات کریں گے، رپورٹ درج کروائیں گے... کیونکہ یہ قوم کی بیٹیوں کی عزت کا معاملہ ہے۔
 
Top