محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
زکاۃ کے مصارف:
الحمد للہ:
جن آٹھ مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے انہیں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بتلایا کہ انہی مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے، اور یہ علم و حکمت پر مبنی فیصلہ ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]
پہلا اور دوسرا مصرف:
فقراء اور مساکین:
ان لوگوں کو زکاۃ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دی جائے گی۔
فقیر اور مسکین میں فرق یہ ہے کہ :
فقیر شخص کو زکاۃ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے پاس اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آدھے سال کا بندو بست بھی نہیں ہوتا، تاہم مساکین کا حال فقراء سے قدرے بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ مساکین کے پاس سال کے آدھے یا زیادہ حصے کیلئے ضروریات پوری کرنے کا بندو بست ہوتا ہے، چنانچہ مساکین کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے بقدر حاجت ہی دیا جائے گا۔
لیکن یہاں یہ مسئلہ ہے کہ ان کی اس ضرورت و حاجت کو کیسے تولا جائے؟
اس کے جواب میں علمائے کرام کہتے ہیں:
"انہیں ان کے خاندان کی ایک سالہ ضروریات کیلئے کافی کر دینے والی مقدار میں مال دیا جائے گا، کیونکہ ایک سال بعد دوبارہ ان کے لئے اصحاب ثروت کے مال میں زکاۃ واجب ہو جائے گی، چنانچہ زکاۃ کے مستحق فقراء اور مساکین کی ایک سالہ ضروریات و حاجات کا اندازہ لگایا جائے گا۔
یہ اچھا موقف ہے، کہ ہم فقراء و مساکین اور ان کے اہل خانہ کو مکمل ایک سال کی اشیائے ضرورت وغیرہ دیں، چاہے یہ راشن اور لباس کی صورت میں ہوں یا نقدی کی صورت میں کہ اپنی مرضی سے جو چاہیں خرید لیں، یا کسی بھی فن میں ماہر زکاۃ کے مستحق فرد کو متعلقہ آلات و اوزار خرید کر دیں، مثلاً: درزی، بڑھئی، لوہار وغیرہ کو مطلوبہ چیزیں خرید کر دے دیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہم انہیں ایک سال کی ضروریات کیلئے کافی مقدار میں زکاۃ دیں گے"
تیسرا مصرف:
زکاۃ جمع کرنے والے اہل کار:
یعنی وہ لوگ جنہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ جمع کرنے پر مقرر کیا گیا ہے، اسی لیے فرمایا:
( وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا )
اور زکاۃ جمع کرنے والے عاملین[التوبة:60]
اللہ تعالی نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ: " وَالْعَامِلِينَ فِيْهَا " کیونکہ " وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا " میں یہ اشارہ ہے کہ انہیں اس کام کیلئے حکومت کی طرف سے مقرر کیا جائے، یعنی وہ لوگ جو مالدار طبقہ سے زکاۃ اکٹھی کر کے زکاۃ کے مستحق افراد میں اسے تقسیم کریں، زکاۃ کا حساب کتاب رکھیں، چنانچہ ان لوگوں کو زکاۃ کی مد میں سے دیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ انہیں کتنا دیا جائے گا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے کام کی نوعیت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی، چنانچہ جس کا حق زیادہ ہو اسے زیادہ اور جس کا حق کم ہو اسے کم دیا جائے، یعنی ہر ایک کی ملازمت کے اعتبار سے اس کی تنخواہ مقرر کی جائے، چاہے کام کرنے والے یہ لوگ امیر ہوں یا غریب، کیونکہ انہیں یہ تنخواہ ملازمت کی وجہ سے دی جا رہی ہے ان کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر نہیں دی جا رہی، اس لئے انہیں ان کی ملازمت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی، تاہم اگر انہی زکاۃ جمع کرنے والے کارندوں میں کچھ غریب لوگ بھی ہے کہ ان کی تنخواہ ضروریات سے کم ہے تو انہیں بھی غربت کی وجہ سے ضرورت کے مطابق ایک سال کا راشن وغیرہ دیا جائے گا، کیونکہ یہ لوگ عامل اور غریب دونوں کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے دونوں کے اعتبار سے انہیں زکاۃ دی جائے گی، تاہم انہیں دیتے ہوئے یہ خیال رکھیں گے کہ تنخواہ کے بعد جس قدر ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زکاۃ کی ضرورت ہو اتنی ہی مقدار میں انہیں زکاۃ دینگے، اس کی مثال یوں سمجھیں: ہم یہ اندازہ لگائیں کہ انہیں سالانہ 10000 ریال کی ضرورت ہے، اور انہیں غربت کی مد میں 10000 ریال ہی ملیں گے، لیکن زکاۃ جمع کرنے کے بدلے میں انہیں 2000 ملے ہیں تو باقی 8000 ریال ہم انہیں غربت کی وجہ سے دیں گے۔
جاری ہے ---
Last edited: