” وأن تصدقوا خیر لکم “ سے زکوۃ کی ادئیگی کے استدلال میں مجھے ذاتی طور اس پہلو سے اطمینان نہیں ہو رہا ہے کہ صرف ” أن تصدقوا “ کے الفاظ نہیں ہے بلکہ اس صدقہ کرنے کو ” خیرا لکم “ کہا گیا ہے اور قرآن کا یہ اسلوب زکوۃ کے بجائے نفلی صدقات کے بارے زیادہ مناسب ہے کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی قرض لینے والے پر کوئی احسان تھوڑا ہے جسے خیر سے تعبیر کیا جائے بلکہ یہ تو ایک فرض کی ادائیگی ہے۔ ہاں نفلی صدقہ کی صورت میں قرض معاف کر دینا یقینا قرض لینے والے پر احسان ہے جسے خیر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں مجھے ذاتی طور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس حیلہ کے ذریعے ہماری نیت زکوۃ یا ایک فریضے کی ادائیگی کی نہیں ہوتی بلکہ عموما اپنے قرض میں پھنسے ہوئے مال کو ایک فرض کی ادائیگی کے نام سے کسی سائیڈ میں لگانے کی ہوتی ہے اور فرض کی ادائیگی کا جو مقصد تھا یعنی مال کی محبت کو کم کرنا، وہ اس سے حاصل ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے۔ اگر میری نیت اپنے پھنسے ہوئے مال کو کسی کھاتے لگانے کی نہیں ہے تو مجھے اس مقروض شخص کو اپنی زکوۃ ایسے ہی دے دینی چاہیے اور اس سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ میرا قرض آسانی کی صورت میں مجھے واپس کر دے گا یا جب میں اسے زکوۃ کی رقم دوں گا تو اسی رقم سے میرا قرض واپس کر دے گا۔ یعنی قرض تو واپس ملنا نہیں ہے چلو زکوۃ ہی ادا ہو گئی اور قرض بھی فی سبیل اللہ نہیں بلکہ ذاتی کاروباری مفادات کے لیے دیا ہوتا ہے اور یہ طرزعمل تاجر طبقے میں عام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب