• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زکوٰۃ قرض میں اتارلینا

شمولیت
اپریل 03، 2011
پیغامات
101
ری ایکشن اسکور
661
پوائنٹ
0
السلام علیکم ورحمۃاللہ برکاتہ:
اگر کسی پہ ہمارا قرض ہو اور وہ قرض لینے والا غریب اور زکوۃ کا مستحق بھی ہو تو کیا زکوۃ جتنے پیسے اس کے قرض سے معاف کئے جاسکتے ہیں؟ اوربقایہ قرضہ اس پہ برقرار رکھا جائے تو کیا اس عمل سے ہماری زکوۃ ادا ہوجائے گی؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
۱۔ زکوۃ سمیت جمیع عبادات کی ادائيگی کا انحصار نیت پر ہے جب آپ نے اس شخص کو قرض، قرض کی نیت سے دیا تھا تو اب اسے زکوۃ شمار کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر قرض دیتے ہوئے یہ نیت کی ہو کہ یہ زکوۃ ہے لیکن قرض لینے والے کو اس وقت بتلایا نہ ہو تو یہ زکوۃ ادا ہو جائیگی۔ آپ کا فرمان ہے ؛
رواه البخاري (5070) ومسلم (1907) عن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : (إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ) .
۲۔ اسی طرح اگر کسی نے کسی فقیر یا مسکین یا مستحق زکوۃ کو نفلی صدقہ دیا ہو یا تحفہ دیا ہو اور بعد میں اپنے تئیں اسے زکوۃ شمار کر لے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اعتبار اس نیت کا ہو گا جو اس عمل کے وقت موجود تھی اور بعد والی نیت معتبر نہ ہو گی۔ مزید تفصیل کے لیے یہ عربی لنک دیکھیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم ورحمۃاللہ برکاتہ:
اگر کسی پہ ہمارا قرض ہو اور وہ قرض لینے والا غریب اور زکوۃ کا مستحق بھی ہو تو کیا زکوۃ جتنے پیسے اس کے قرض سے معاف کئے جاسکتے ہیں؟ اوربقایہ قرضہ اس پہ برقرار رکھا جائے تو کیا اس عمل سے ہماری زکوۃ ادا ہوجائے گی؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر مقروض تنگدست اور زکوٰۃ کا مستحق ہو تو مکمل قرض یا قرض کے کچھ حصہ کو اس پر صدقہ (یعنی معاف) کیا جا سکتا ہے بلکہ کرنا چاہئے، اور یہی دین اسلام کا حُسن ہے، اور زکوٰۃ بھی فرضی صدقہ ہے۔ سودی نظام میں تو سود خور کو اپنی رقم سود کے ساتھ ہر حال میں درکار ہوتی ہے خواہ مقروض کو اپنے جسم کا کچھ حصہ کاٹ کر ہی کیوں نہ دینا پڑے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سود کی مذمت بیان فرماتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول سے جنگ قرار دیا ہے، اور صرف اصل مال ہی واپس لینے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، اور اگر مقروض کیلئے مال واپس کرنا مشکل ہو جائے تو اسے معاف کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جو ظاہری سی بات ہے کہ فرضی یا نفلی صدقہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۲۷۸ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ۰۰۲۷۹ وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۰۰۲۸۰ کہ ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (٢٧٨) اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا (٢٧٩) اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو۔‘‘

واضح رہے کہ قرض دیتے وقت تو نیت قرض ہی کی ہوتی ہے لیکن اس صورت میں مال قرض خواہ کا ہی ہوتا ہے جو اس نے مخصوص مدّت کے بعد واپس لینا ہوتا ہے۔ مقروض کی تنگدستی کی صورت میں وہ فرضی یا نفلی صدقہ کی نیّت سے کچھ یا سارا مال ہی معاف کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے جو درج بالا آیت کریمہ کے مطابق بہت فضیلت والی بات ہے۔

البتہ کسی کو تحفہ دینے یا فقیر کو نفلی صدقہ دینے کے بعد چونکہ وہ مال اس کا رہ نہیں جاتا بلکہ موہوب لہ یا فقیر کا بن جاتا ہے، لہٰذا وہ کچھ عرصہ کے بعد نیّت تبدیل کرکے اسے زکوٰۃ قرار نہیں دے سکتا۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
” وأن تصدقوا خیر لکم “ سے زکوۃ کی ادئیگی کے استدلال میں مجھے ذاتی طور اس پہلو سے اطمینان نہیں ہو رہا ہے کہ صرف ” أن تصدقوا “ کے الفاظ نہیں ہے بلکہ اس صدقہ کرنے کو ” خیرا لکم “ کہا گیا ہے اور قرآن کا یہ اسلوب زکوۃ کے بجائے نفلی صدقات کے بارے زیادہ مناسب ہے کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی قرض لینے والے پر کوئی احسان تھوڑا ہے جسے خیر سے تعبیر کیا جائے بلکہ یہ تو ایک فرض کی ادائیگی ہے۔ ہاں نفلی صدقہ کی صورت میں قرض معاف کر دینا یقینا قرض لینے والے پر احسان ہے جسے خیر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں مجھے ذاتی طور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس حیلہ کے ذریعے ہماری نیت زکوۃ یا ایک فریضے کی ادائیگی کی نہیں ہوتی بلکہ عموما اپنے قرض میں پھنسے ہوئے مال کو ایک فرض کی ادائیگی کے نام سے کسی سائیڈ میں لگانے کی ہوتی ہے اور فرض کی ادائیگی کا جو مقصد تھا یعنی مال کی محبت کو کم کرنا، وہ اس سے حاصل ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے۔ اگر میری نیت اپنے پھنسے ہوئے مال کو کسی کھاتے لگانے کی نہیں ہے تو مجھے اس مقروض شخص کو اپنی زکوۃ ایسے ہی دے دینی چاہیے اور اس سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ میرا قرض آسانی کی صورت میں مجھے واپس کر دے گا یا جب میں اسے زکوۃ کی رقم دوں گا تو اسی رقم سے میرا قرض واپس کر دے گا۔ یعنی قرض تو واپس ملنا نہیں ہے چلو زکوۃ ہی ادا ہو گئی اور قرض بھی فی سبیل اللہ نہیں بلکہ ذاتی کاروباری مفادات کے لیے دیا ہوتا ہے اور یہ طرزعمل تاجر طبقے میں عام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top