• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سامعین ومشاہدین اعداد وشمار کے آئینے میں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
سامعین ومشاہدین اعداد وشمار کے آئینے میں

تحریر: محمد معاذ أبو قحافة

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!
بصارت وسماعت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، انسان کسی آواز یا منظر کو مناسب مقدار سے ہو تو بہتر طور پر سن اور دیکھ سکتا ہے۔ البتہ سمع وبصر کا موازنہ کریں تو کسی بھی حادثے کو دیکھنے والوں کی بنسبت حادثے کی بابت سننے والوں کی عدد زیادہ ہوتی ہے۔

خطباتِ جمعہ کو لے لیجیے؛ خطیب صاحب کو جتنے لوگ دیکھتے ہیں، سننے والوں کی تعداد ان سے دو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ صحابہ رسول اللہ ﷺ کی امامت میں نماز پڑھتے تو قراءت اور تکبیرات سننے والے بہت ہوتے مگر رسول اللہ ﷺ کے قیام، رکوع وسجود، اور قعود کی کیفیت کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے والے صرف ابتدائی دو تین صف کے مصلی ہوتے۔

سامعین ومشاہدین کی تعداد - ایک قرآنی اسلوب

شیخ فہد بن عبد اللہ الجربوی حفظہ اللہ اپنا حاصلِ مطالعہ ( مع التفاسير: ص 157 ) میں ماضی قریب کے ایک معروف مغربی اشعری اور صوفی عالم شیخ عبد اللہ بن محمد الصدیق الغُماری رحمہ اللہ (ت 1993م) کے طبع شدہ موسوعہ (١٣/٢٤١) کے حوالے سے ایک بات نقل کیے ہیں، پہلے ان آیات پر نظر ڈالیں پھر مستدَل پیش کروں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ وَلَوْ كَانُواْ لَا يَعْقِلُونَ وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تَهْدِى ٱلْعُمْىَ وَلَوْ كَانُواْ لَا يُبْصِرُونَاور ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں، پھر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں اگر چہ وہ عقل نہ رکھتے ہوں؟ اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں، کیا پھر آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں اگرچہ وہ نہ دیکھتے ہوں؟( يونس: 42 - 43 ).

غور فرمائیے!

پہلی آیت میں ﴿يَسْتَمِعُونَ﴾ کہہ کر ( استماع ) ایک جماعت کا فعل بتایا گیا ہے، جب کہ دوسری آیت میں صیغۂ مفرد ﴿يَنظُرُ﴾ سے ایک فرد کا مشاہدہ بتایا گیا ہے۔ مفرد اور جمع کے صیغے سے کیا بتانا مقصود ہے؟ در اصل دو جدا جدا اسلوب سے سامعین اور ناظرین کی تعداد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب ( مع التفاسیر ) میں شیخ الغُماری سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں:

أنَّ الاستماع يحصل من المُبصِر والأعمى، ومع حجاب كجدارٍ مثلًا وبدونه، فجُمِع فعلُه بالسمْع لحالاته المتعددة، بخلاف النظر؛ فإنَّه لا يحصل إلا في حالةٍ واحدةٍ، وهي أنْ يكون الناظرُ في مواجهَة المنظورِ إليه.

کسی بات اور آواز کی ( سماعت ) میں اندھا اور دیکھنے والا دونوں برابر ہیں، کسی کہنے والے کی بات کو سامنے سے بھی سنا جا سکتا ہے اور پردے کی آڑ میں جیسے دیوار کے پیچھے سے بھی بات کو سن لیا جا سکتا ہے، یعںی ہر جہت اور ہر طرف سے سنا جا سکتا ہے اسی لیے قرآن میں ( استماع ) کا فعل ﴿يَسْتَمِعُونَ﴾ صیغۂ جمع میں ذکر کیا گیا ہے۔
(
نظر ) کا معاملہ اس کے بر عکس ہے، نظر کا تعلق بس ایک ہی جہت سے ہوتا ہے، کیوں کہ دیکھنے کے لیے کسی بھی چیز کا نظروں کے سامنے ہونا ضروری ہے، اسی وجہ سے ﴿يَنظُرُ﴾ صیغۂ مفرد میں مذکور ہے۔
 
Last edited:
Top