• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سب سےزیادہ طاقتور کون ہے ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
سب سےزیادہ طاقتور کون ہے ؟

تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، طائف

انسان بہت ہی کمزور مخلوق ہے ، اپنی پیدائش سے لیکر موت تک ہرپل اورہرلمحہ اپنے خالق کی مہربانی کا محتاج ہے ۔ہاتھ وپیر میں چلنےپھرنے ،اٹھنے بیٹھنے اور کام کاج کرنے کی طاقت۔ ناک ، کان اور آنکھ میں سونگھنے ، سننے اور دیکھنے کی طاقت –دل ودماغ میں سوچ وفکر کی طاقت –اور جسم میں جان کی طاقت سب ان اعضا کے بنانے والے اللہ کی جانب سے ہے ۔ ایک آدمی اسی وقت زندہ رہ سکتا ہے جب تک اللہ کی مہربانی ہے ، اس کی مہربانی سے محروم ہوتے ہی وہ دنیا سے فنا ہوجائے گا۔ اس بات کو مثال سے اس طرح سمجھیں کہ اللہ ایک آدمی پر تئیس گھنٹے مہربان رہا اور چوبیسویں گھنٹے اپنی مہربانی ہٹالیتا ہے، اس کے بعد آدمی چوبیس سکنڈبھی سانس نہیں لے سکتا ۔ اس قدر مجبور وکمزور انسان بھلا طاقتور کیسے ہوسکتا ہے ؟اللہ نے انسانوں کی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا(النساء:28)
ترجمہ:اللہ چاہتا ہے کہ تم پر آسانی کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا(الأنفال:66)
ترجمہ: اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے ۔
سورہ روم میں انسان کی مرحلہ وار کمزوری بتاتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً
ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ (الروم:54)
ترجمہ:اللہ تعالٰی وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی ، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔
اس آیت میں اللہ نے بتایا کہ انسان ضعیفی میں پیدا کیا گیا پھر اسے قوت دے کر جوان بنایاگیا اس کے بعد پھر سےاس پر بڑھاپا کا بوجھ ڈال کر ضعیف بنادیا گیا۔ہمارے مشاہدے کی چیزیں ہیں یا یہ کہہ لیں کہ یہ ہمارے حالات ہیں ، آئے دن ہم بیمار ہوتے ہیں ، کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں ، ہمیں آرام ونیند کی ضرورت پڑتی ہے ،ہم سب کوبھوک وپیاس محسوس ہوتی ہے ، سردی وگرمی سےہمیں تکلیف پہنچتی ہے ، مصائب ومشکلات پہ روپڑتے ہیں ، ایک وقت آتا ہے بدن سے روح ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ ساری انسانى کمزوریاں ہیں اور جو کمزور ہو طاقت والا کیسے ہوسکتا ہے ؟
یہ بھی امر واقعی ہے کہ کوئی آدمی کسی سے جسمانی اعتبار سے طاقتور ہوتا ہے ، کسی کو مال ، کسی کو اولاد ، کسی کو جاہ ومنصب اور کسی کو حکومت وکرسی کی طاقت ملتی ہے ۔ ایسے میں کچھ لوگ اپنی طاقت کا استعمال دوسروں کو نفع پہنچانے میں کرتے ہیں جبکہ اکثرلوگ قوت وطاقت کا استعمال کمزوروں پر زیادتی میں کرتے ہیں ۔ ظلم وزیادتی کرنے والوں پر طاقت کا نشہ اس قدر حاوی ہوجاتا ہے کہ اسے یہ شعور نہیں ہوتا کہ اس سے بھی بڑا طاقتور ہے ، ایک ایسی قوت ہے جو عظیم الشان کائنات کو حاوی ہے۔اسے یہ احساس نہیں رہ جاتا ہے کہ اس کے پاس موجود قوت خواہ مال ہو، اولادہو، اسلحہ وبارود ہو، عہدہ ومنصب ہو یاحکومت وسطوت ہو سب قادر مطلق اللہ کی طرف سے ہے اور فانی ہے، وہ جب چاہتا ہے انسان کو طاقت دیتا ہے اور جب چاہتا اسکی طاقت چھین لیتا ہے ۔ موت انسانی غرور وطاقت کا آخری انجام ہے ، اس سے پہلے نہ جانے کتنی عبرت ونصیحت اور عروج وزوال کی داستانیں ہیں ۔
ضعف وکمزوری کے مقابلہ میں قوت وطاقت ہے اور اللہ ہی سارے جہاں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے ۔ اس کا مشاہدہ اپنی تخلیق کے شروع دن سے اولاد آدم کرتی آرہی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ (محمد:13)
ترجمہ:ہم نے کتنی بستیوں کو جو طاقت میں تیری اس بستی سے زیادہ تھیں جس سے تجھے نکالا گیا ہم نے انہیں ہلاک کر دیا ہے جن کا مددگار کوئی نہ اٹھا ۔
اس آیت میں اللہ نے علی الاطلاق ان طاقتور اقوام کی تباہی کا ذکر کیا جنہوں نے ظلم وکفر کیا جبکہ قرآن میں کئی مقامات پرچند ظالم اقوام اور طاقتور افراد کا بھی ذکر کیا ہے جن کی قوت چکناچور ہوگئی اور وہ خود دنیا کے لئے نشان عبرت بن گئے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ
ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (الروم:9)
ترجمہ:کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا ؟ وہ ان سے بہت زیادہ طاقتور تھے اور انہوں نے بھی زمین بوئی جوتی تھی اور ان سے زیادہ آباد کی تھی اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالٰی ان پر ظلم کرتا لیکن دراصل وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔
مال ودولت سے مغروروطاقتورحاکم قارون کا ذکرکرتے ہوئے اللہ فرماتاہے:
إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ
ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ (القصص:76)
ترجمہ:قارون تھا تو قوم موسیٰ سے لیکن ان پر ظلم کرنے لگا تھا۔ ہم نے اسےاس قدرخزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بہ مشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے ایک بار اس کی قوم نے کہا کہ اترا مت !اللہ تعالٰی اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا ۔
دنیا کے ایسے طاقتورآدمی جس کے خزانے کی چابھیاں کئی کئی طاقتورلوگ بمشکل اٹھاپاتے تھے آخر اس کا انجام کیا ہوا؟ اس کے انجام کے متعلق اللہ نے دوسری جگہ بتلایا کہ قارون سے بھی زیادہ مال اور طاقتوروالے لوگوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں ، ارشاد ربانی ہے :
أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا
ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ (القصص:78)
ترجمہ:کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالٰی نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی ۔
ملکہ سبا بلقیس(جب حالت کفر میں تھی) کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط پہنچتا ہے کہ اسلام قبول کرلو تو اس کے ساتھیوں نے طاقت وجنگ جوئی کا رعب ظاہرکیا اور کہا: قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ (النمل:33)
ترجمہ:ان سب نے جواب دیا کہ ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں ۔
مگراللہ کے رسول سلیمان علیہ السلام کے سامنے بلقیس کا عظیم تخت، اس کے لشکر اورقوت کام نہ آئے اوراسلام قبول کرنا پڑا اور کہہ اٹھیں"أَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ " اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بنتی ہوں۔
بہرکیف! قوت وطاقت والے اقوام وافراد کے عروج وزوال اور ان کی تباہیوں کی طویل داستانیں ہیں ، یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ انسان کو بدن یا زمین کی قوت ملتی ہے وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے اور اس وقت تک رہتی ہے جب تک اللہ چاہتا ہے ۔ اللہ ہی قوت وطاقت والا ہے ، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اسے تھکان لاحق نہیں ہوتی، اسے اونگھ نہیں آتی ، اسے کھانے پینے کی حاجت نہیں ،اس میں کوئی نقص وعیب نہیں ، وہ سب سے بلند اور سب سے زیادہ قوت وطاقت والا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ (البقرۃ:165)
ترجمہ:تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے۔إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (66)
ترجمہ: یقینا تیرا رب ہی طاقتور اور غالب ہے۔
ایک جگہ یوں ارشاد ہے : إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ(الذاریات:58)
ترجمہ:اللہ تعالی تو خود ہی سب کا روزی رساں ، طاقت والا اور زبردست زورآور ہے۔
ظاہر سی بات ہے جو ہم کو پیدا کرے، جو ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کرے، جوہماری زندگی اور موت پر قادر ہو اصل طاقت والا تو وہی ہے ، اوپری آیات میں القوی (قوت والا) اور المتین (زبردست قوت والا) کا ذکر ہے ، یہ دونوں اللہ کے اسمائے حسنی ہیں ۔
آج مسلمان کیوں کمزورہے ؟ ایمان لانے کے باجودہرجگہ مسلمان ہی کیوں مظلوم ومقہور ہے ؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لئے جاننا ہوگا کہ مسلمانوں کی اصل قوت کیا ہے ؟ مسلمان کی قوت اللہ پر کامل ایمان جو شرک سے پاک ہو اور اعمال صالحہ ہے ۔ مومن کی قوت اللہ کا ساتھ ہے اور اللہ کا ساتھ ایمان وعمل کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ روئے زمین کا سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اس گناہ میں مبتلا ہے پھر کیوں نہ مسلمان پریشان ہو؟
اگرمسلمان غیراللہ سےاستغاثہ اور قبروں کو سجدہ کرنا چھوڑکر عقیدہ وایمان درست کرلے اور سچی توبہ کےساتھ اعمال صالحہ کی طرف لوٹ جائے تو اللہ قوت درقوت سے ہمکنار فرمائے گا ، یہ اس کا وعدہ ہے چنانچہ ارشاد باری ہے :
وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ (ھود:52)
ترجمہ: اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت بڑھا دے اورتم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو ۔
اللہ نے مدد کرنا اپنے اوپر فرض کرلیاہے ، مطالبہ بس صحیح ایمان کاہے ، اللہ کا فرمان ہے : وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ(الروم:47)
ترجمہ:ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔
اے کاش مسلمان شرک کی خطرناکی کو سمجھیں اور اس سے توبہ کرکے خالص ایمان وصحیح عقیدہ پر کاربند ہوجائیں۔
 
Top