• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ستر ہزار فرشتے اور قبر نبوی ؟

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شیخ محترم اس روایت کی تحقیق درکار ہے

شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی مایہ ناز کتاب ”جذب القلوب اِلیٰ دیار المحبوب“ میں ایک حدیث شریف نقل کرتے ہیں جو حضرت کعبؓ سے روایت ہے کہ :
وہ (حضرت کعب) اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس آئے‘ ان کی مجلس میں رسول اللہ کا ذکر جاری تھا ‘ حضرت صدیقہؓ نے فرمایا کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو ستر ہزار فرشتے قبرِ مطہر حضور کے گرد اگرد آ جاتے ہیں اور صلوٰة (درود) بھیجتے ہیں اور جب شام ہوتی ہے تو چلے جاتے ہیں اور دوسرا گر وہ فرشتوں کا اسی تعداد میں آ جاتا ہے اور جس طرح انہوں نے درود بھیجا تھا یہ بھی وہی کرتے ہیں، جس وقت تک آپ روضہ (قبر) سے نکلیں گے اس وقت تک یہی سلسلہ جاری رہے گا۔“
پھرامام احمد رضا ان ملائکہ کی تڑپ اور آس کا ذکرکرتے ہیں کہ جو ملائکہ ایک بار درِ اقد س پر حاضر ی کا شرف پا لیتے ہیں وہ دوبارہ حاضر ی کے لےے تڑپتے رہتے ہیں مگر کس کی مجال کہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کرے، وہاں سے تو صرف ایک بار ہی حاضر ی کا اذن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی اپنے حبیب سے محبت کا دخل کارفرما نظر آتا ہے کہ کثرت ملائکہ کے سبب کوئی محروم نہ رہے، سب درِ محبوب کی حاضری کا شرف پا لیں .... بروز حشر تک تمام فرشتے باری باری یہ سعادت حاصل کر لیں۔ فرشتے یونہی صبح سے شام اور شب سے سحر دوبارہ کی آس میں گزار رہے ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شیخ محترم اس روایت کی تحقیق درکار ہے

شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی مایہ ناز کتاب ”جذب القلوب اِلیٰ دیار المحبوب“ میں ایک حدیث شریف نقل کرتے ہیں جو حضرت کعبؓ سے روایت ہے کہ :
وہ (حضرت کعب) اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس آئے‘ ان کی مجلس میں رسول اللہ کا ذکر جاری تھا ‘ حضرت صدیقہؓ نے فرمایا کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو ستر ہزار فرشتے قبرِ مطہر حضور کے گرد اگرد آ جاتے ہیں اور صلوٰة (درود) بھیجتے ہیں اور جب شام ہوتی ہے تو چلے جاتے ہیں اور دوسرا گر وہ فرشتوں کا اسی تعداد میں آ جاتا ہے اور جس طرح انہوں نے درود بھیجا تھا یہ بھی وہی کرتے ہیں، جس وقت تک آپ روضہ (قبر) سے نکلیں گے اس وقت تک یہی سلسلہ جاری رہے گا۔“
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ روایت امام عبداللہ بن مبارک کی (الزہد والرقائق ) اور سنن الدارمی میں مروی ہے ،
حدثنا الحسين، أخبرنا ابن المبارك، أخبرنا ابن لهيعة، عن خالد بن يزيد، عن سعيد بن أبي هلال، عن نبيه بن وهب، عن كعب الأحبار قال: ذكروا النبي صلى الله عليه وسلم، عند عائشة، فقال كعب: «ما من فجر يطلع إلا هبط سبعون ألف ملك، يضربون القبر بأجنحتهم، ويحفون به، فيستغفرون له» وأحسبه قال: «ويصلون عليه حتى يمسوا، فإذا أمسوا عرجوا، وهبط سبعون ألف ملك، يضربون القبر بأجنحتهم، ويحفون به، ويستغفرون له» وأحسبه قال: «ويصلون عليه حتى يصبحوا، وكذلك حتى تكون الساعة، فإذا كان يوم القيامة خرج النبي صلى الله عليه وسلم في سبعين ألف ملك»
اس کا درست ترجمہ :
(جناب کعب) اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس آئے‘ ان کی مجلس میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر جاری تھا ‘ جناب کعب نے فرمایا کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو ستر ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں اور قبرِ مطہر پر اپنے پر رکھتے ہیں اور قبر کو گھیر لیتے ہیں ،اور استغفار کرتے ہیں صلوٰة (درود) بھیجتے رہتے ہیں اور جب شام ہوتی ہے تو چلے جاتے ہیں اور دوسرا گر وہ فرشتوں کا اسی تعداد میں آ جاتا ہے وہ بھی قبرِ مطہر پر اپنے پر رکھتے ہیں اور قبر کو گھیر لیتے ہیں ،اور استغفار کرتے ہیں صلوٰة (درود) بھیجتے رہتے ہیں حتی کہ صبح ہوجاتی ہے ،اور جس دن قیامت قائم ہوگی اورآپ (قبر) سے نکلیں گے تو اس وقت بھی ستر ہزار فرشتے ساتھ ہوں گے ۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ ستر ہزار فرشتے نازل ہونے کا قول سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا نہیں ، بلکہ ایک مشہور تابعی جناب کعب احبار کا ہے ،
جو نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اسلام لائے ، یمن کے رہنے والے تھے ، اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ آئے ،
لیکن یہ روایت دو علتوں کے سبب ضعیف ہے ،
سنن الدارمی کی تخریج میں علامہ حسین سلیم اسد فرماتے ہیں :
في إسناده علتان: الأولى ضعف عبد الله بن صالح فهو سيئ الحفظ جدا وكانت فيه غفلة والانقطاع أيضا فإن نبيه بن وهب لم يدرك كعبا ‘‘
یعنی اس میں دو علتیں ہیں ، ایک یہ کہ اس کا راوی عبداللہ بن صالح ضعیف ہے کیونکہ وہ بہت خراب حافظہ والا ہے ، اور دوسری علت اس میں یہ ہے کہ : نبیہ بن وہب نے کعب احبارؒ کو نہیں پایا ، اسلئے یہ منقطع ہے ،
اسی طرح جلاء الافہام کے محقق نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ملحوظ رہے کہ :
بریلی کے مولوی احمد رضا خان بدعتوں کے موجد ،بلکہ بدعت کی فیکٹری تھے ،اسلئے انہیں امام کہنے کا کوئی جواز نہیں ، ہاں اہل بدعت کا امام کہہ سکتے ہیں ،
 
Last edited:
Top