میرب فاطمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 06، 2012
- پیغامات
- 195
- ری ایکشن اسکور
- 218
- پوائنٹ
- 107
کل ابو بتا رہے تھے کہ آپ کے خالو کی طبیعت بہت خراب ہے،آئی سی یو میں ہیں۔کیا بنا انکا؟ اب کیسی طبیعت ہے؟
دفع کرو خالو کو، جینا بھی تو حرام کیا ہوا تھا ہمارا، بھگتیں اب سزا۔۔۔۔۔
ایسے کتنے ہی الفاظ ہیں جو ہمیں روز روز سننے میں آتے ہیں کہ فلاں فلاں بیمار ہوا،مر رہا ہے ،کاروبار تباہ ہو گیا، حالات خراب ہو گئے یا کوئی مصیبت آگئی وغیرہ اور ہمارا جواب ہوتا ہے کہ بھاڑ میں جائے ہمیں کیا لگے اس کے اپنے ہی کرتوتوں کا بدلہ ہے۔ ہم کیوں ترس کھائیں اس چّول آدمی پر۔ اچھا ہوا اس کے ساتھ ، سیاپا ڈالا ہوا تھا اس نے ہمیں۔۔۔۔
یا پھر ہم کہہ دیتے ہیں کہ اِسی نے کچھ کیا ہوگا جس کی سزا مل رہی ہے اِسکو۔۔۔
صحیح بات ہے سزا تو ملتی ہے انسانوں کو،کرتوتوں کا بدلہ بھی ملتا ہے۔۔۔۔
مگر ہمیں ہر کسی پر آنے والی مصیبت سزا ہی کیوں لگتی ہے؟ ہمیں ایسا کیوں نہیں لگتا کہ ہو سکتا ہے اس نے توبہ کر لی ہو اور اب اللہ رب العزت اسے آزما رہا ہو؟اور اس آزمائش کا بدلہ جنت ہو؟
اب ملحدین اور دین بیزار بھی تو سوال کرتے ہیں کہ کافر بڑے خوش ہیں،تم ہی مر رہے ہو،آخر وجہ کیا ہے؟
ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں، نہ مدد کرتے ہیں نہ بدلے میں مدد ملتی ہے۔قدرت کا تو قانون ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، اور ہمارا دستور ہے کسی کو پریشان دیکھنا،اس کی بدحالی کے پیچھے من گھڑت وجوہات تلاش کرنا انہی وجوہات پر مفروضے قائم کرنا اور تکیہ لگا کر تماشبینوں کی طرح بس تماشا دیکھنا۔۔۔اور سوچنا کہ ہم تو محفوظ ہیں ناں؟ہمیں اس سے کیا لگے۔جو بھُکت رہا ہے بھُگتتا رہے۔اور جب ہم مبتلاِ کرب وبلا ہوں تو پھر ہمارے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسا ہم نے کیا تھا۔
کیا اسلام ہمیں ایسی سوچ کا حق دیتا ہے؟اگر کوئی ملحد ایسا سوچے تو سمجھ بھی آتی ہے کوئی کافر کوئی دین سے بیزار ایسا سوچے تو اسکا ایسا سوچنا بنتا بھی ہے۔مگر ہمیں تو یہ حق ہے ہی نہیں۔اسلام تو کہتا ہے:
جو کسی مومن سے دنیا کی کوئی تکلیف ہٹائے گا تو اللہ اس سے روز محشر کی کوئی تکلیف ہٹا دے گا۔
جو کسی تنگ حال پر آسانی کرے گا اللہ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔
اللہ تب تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
(رواہ مسلم)
جو اپنے بھائی(کے عیبوں )کی ستر پوشی کرے گا اللہ روزمحشر اس کے عیبوں کی ستر پوشی کرے گا۔
(بخاری ومسلم)
مسلمان ، مسلمان کے لیئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو وقت پہنچاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دورے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا۔
(بخاری و مسلم )
اور تو اور وہ شخص مومن ہی نہیں جو اپنے بھائی کے لیئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیئے پسند کرتا ہے۔
(بخاری)
اسلام ہم پر ہمارے مسلمان بھائیوں تو کیا کافروں تک کے حقوق عائد کرتا ہے۔اور ہم کافروں کے تو دور اپنوں کے بھی حقوق ادا نہیں کرتے۔نہ حق دیتے ہیں نہ حق ملتا ہے۔اسلام تو کہتا ہے نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو اور ہم ظلم کرتے بھی ہیں ظلم سہتے بھی ہیں۔کوئی کیسا ہے کیوں ہے ہمیں اس سے کیا لگے؟ ہمارا کام تو یہ ہے کہ جیسا شریعت نے حکم دیا بس کر گزریں۔خود بھی بچیں اس کو بھی بچا لیں۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ سزا کیا ہے اور آزمائش کیا ہے؟ اور اگر سزا ہے تو سزا کیوں ملی ہے؟ کیسے ختم کیا جائے اس سزا کو؟ اور اگر آزمائش ہے تو کیسے معلوم ہو اور اس میں ثبات کیسے ممکن ہے؟
ایک تو یہ ہے کہ مصیبت اللہ سے دور کرے تو سزا ہے قریب کر دے تو آزمائش۔حق اور دین کی راہ میں مشکل آئے تو آزمائش ورنہ سزا۔اسی طرح اور بھی کچھ نشانیاں ہیں اور ان سے بچنے کا راستہ علم کا حصول ،دعا و ازکار کی کثرت اور ایمان وتقوی سے مدد طلب کرنا ہے۔اور ان سب میں کمی سزا کا باعث ہے اور جس پر جتنی ذمہ داری عائد ہو ،جس کا درجہ جتنا بلند ہو اس کو غفلت برتنے پر اسی قدر اسی شدت سے سزا ملتی ہے۔جیسا آج امت مسلمہ کا حال ہے۔
پھر اگر انسان حق پر ہو تو آزمائش کیوں آتی ہے؟ آزمائش پر صبر کا بدلہ کیا ہے؟
فرمان باری تعالی ہے:
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا- بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔
(العنکبوت۲۔۳)
اور فرمایا:
اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائيں گے اور صبر کرنے والوں کو (جنت کی)خوشخبری دے دو۔
(البقرہ:۱۵۵)
اب چند فرامین رسول صل اللہ علیہ وسلم بھی ملاحظہ ہوں:
کسی مومن آدمی کو جو کوئی بھی مصیبت پہنچتی ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلہ میں اس لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے یا اس کا کوئی گناہ مٹا دیتا ہے۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2070 )
دوزخ شہوتوں سے ڈھانکی گئی ہے اور جنت مصیبتوں سے چھپی ہوئی ہے۔
(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1408)
اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 604)
مومن آدمی کے جب بھی کوئی تکلیف یا ایذاء یا کوئی بیماری یا رنج یہاں تک کہ اگر اسے کوئی فکر ہی ہو تو اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیا جاتا ہے۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2071)
اور ایک جگہ ایسا بھی ہے کہ تکالیف سہتا سہتا مر ہی جاتا ہے اور جب اللہ سے ملتا ہے تو کوئی گناہ اس پر نہیں ہوتا۔سیدھا جنت میں جاتا ہے۔۔
اور تو اور ان تکالیف ومصائب میں مبتلا کر کے شہادت تک بانٹی جارہی ہے۔فرمان ِ رسول صل اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
جو اللہ کے راستہ میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔
اور جو اللہ کے راستہ میں مر گیا وہ بھی شہید ہے۔
اور جو طاعون میں مرا وہ بھی شہید ہے۔
اور جو پیٹ کی بیماری میں مر گیا وہ بھی شہید ہے۔
ابن مقسم نے اس حدیث میں یہ بھی کہا ڈوب کر مر جانے والا بھی شہید ہے۔
( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 444)
للّٰہ اپنی انا اور تکبر کو احکامات پر فوقیت نہ دیجئے۔انکا انجام محض خسارہ ہے۔اللھم لا تکِلنٓا الٰی آنفُسنٓا طٓرفٓة عین۔
(میرب فاطمہ)
دفع کرو خالو کو، جینا بھی تو حرام کیا ہوا تھا ہمارا، بھگتیں اب سزا۔۔۔۔۔
ایسے کتنے ہی الفاظ ہیں جو ہمیں روز روز سننے میں آتے ہیں کہ فلاں فلاں بیمار ہوا،مر رہا ہے ،کاروبار تباہ ہو گیا، حالات خراب ہو گئے یا کوئی مصیبت آگئی وغیرہ اور ہمارا جواب ہوتا ہے کہ بھاڑ میں جائے ہمیں کیا لگے اس کے اپنے ہی کرتوتوں کا بدلہ ہے۔ ہم کیوں ترس کھائیں اس چّول آدمی پر۔ اچھا ہوا اس کے ساتھ ، سیاپا ڈالا ہوا تھا اس نے ہمیں۔۔۔۔
یا پھر ہم کہہ دیتے ہیں کہ اِسی نے کچھ کیا ہوگا جس کی سزا مل رہی ہے اِسکو۔۔۔
صحیح بات ہے سزا تو ملتی ہے انسانوں کو،کرتوتوں کا بدلہ بھی ملتا ہے۔۔۔۔
مگر ہمیں ہر کسی پر آنے والی مصیبت سزا ہی کیوں لگتی ہے؟ ہمیں ایسا کیوں نہیں لگتا کہ ہو سکتا ہے اس نے توبہ کر لی ہو اور اب اللہ رب العزت اسے آزما رہا ہو؟اور اس آزمائش کا بدلہ جنت ہو؟
اب ملحدین اور دین بیزار بھی تو سوال کرتے ہیں کہ کافر بڑے خوش ہیں،تم ہی مر رہے ہو،آخر وجہ کیا ہے؟
ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں، نہ مدد کرتے ہیں نہ بدلے میں مدد ملتی ہے۔قدرت کا تو قانون ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، اور ہمارا دستور ہے کسی کو پریشان دیکھنا،اس کی بدحالی کے پیچھے من گھڑت وجوہات تلاش کرنا انہی وجوہات پر مفروضے قائم کرنا اور تکیہ لگا کر تماشبینوں کی طرح بس تماشا دیکھنا۔۔۔اور سوچنا کہ ہم تو محفوظ ہیں ناں؟ہمیں اس سے کیا لگے۔جو بھُکت رہا ہے بھُگتتا رہے۔اور جب ہم مبتلاِ کرب وبلا ہوں تو پھر ہمارے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسا ہم نے کیا تھا۔
کیا اسلام ہمیں ایسی سوچ کا حق دیتا ہے؟اگر کوئی ملحد ایسا سوچے تو سمجھ بھی آتی ہے کوئی کافر کوئی دین سے بیزار ایسا سوچے تو اسکا ایسا سوچنا بنتا بھی ہے۔مگر ہمیں تو یہ حق ہے ہی نہیں۔اسلام تو کہتا ہے:
جو کسی مومن سے دنیا کی کوئی تکلیف ہٹائے گا تو اللہ اس سے روز محشر کی کوئی تکلیف ہٹا دے گا۔
جو کسی تنگ حال پر آسانی کرے گا اللہ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔
اللہ تب تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
(رواہ مسلم)
جو اپنے بھائی(کے عیبوں )کی ستر پوشی کرے گا اللہ روزمحشر اس کے عیبوں کی ستر پوشی کرے گا۔
(بخاری ومسلم)
مسلمان ، مسلمان کے لیئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو وقت پہنچاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دورے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا۔
(بخاری و مسلم )
اور تو اور وہ شخص مومن ہی نہیں جو اپنے بھائی کے لیئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیئے پسند کرتا ہے۔
(بخاری)
اسلام ہم پر ہمارے مسلمان بھائیوں تو کیا کافروں تک کے حقوق عائد کرتا ہے۔اور ہم کافروں کے تو دور اپنوں کے بھی حقوق ادا نہیں کرتے۔نہ حق دیتے ہیں نہ حق ملتا ہے۔اسلام تو کہتا ہے نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو اور ہم ظلم کرتے بھی ہیں ظلم سہتے بھی ہیں۔کوئی کیسا ہے کیوں ہے ہمیں اس سے کیا لگے؟ ہمارا کام تو یہ ہے کہ جیسا شریعت نے حکم دیا بس کر گزریں۔خود بھی بچیں اس کو بھی بچا لیں۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ سزا کیا ہے اور آزمائش کیا ہے؟ اور اگر سزا ہے تو سزا کیوں ملی ہے؟ کیسے ختم کیا جائے اس سزا کو؟ اور اگر آزمائش ہے تو کیسے معلوم ہو اور اس میں ثبات کیسے ممکن ہے؟
ایک تو یہ ہے کہ مصیبت اللہ سے دور کرے تو سزا ہے قریب کر دے تو آزمائش۔حق اور دین کی راہ میں مشکل آئے تو آزمائش ورنہ سزا۔اسی طرح اور بھی کچھ نشانیاں ہیں اور ان سے بچنے کا راستہ علم کا حصول ،دعا و ازکار کی کثرت اور ایمان وتقوی سے مدد طلب کرنا ہے۔اور ان سب میں کمی سزا کا باعث ہے اور جس پر جتنی ذمہ داری عائد ہو ،جس کا درجہ جتنا بلند ہو اس کو غفلت برتنے پر اسی قدر اسی شدت سے سزا ملتی ہے۔جیسا آج امت مسلمہ کا حال ہے۔
پھر اگر انسان حق پر ہو تو آزمائش کیوں آتی ہے؟ آزمائش پر صبر کا بدلہ کیا ہے؟
فرمان باری تعالی ہے:
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا- بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔
(العنکبوت۲۔۳)
اور فرمایا:
اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائيں گے اور صبر کرنے والوں کو (جنت کی)خوشخبری دے دو۔
(البقرہ:۱۵۵)
اب چند فرامین رسول صل اللہ علیہ وسلم بھی ملاحظہ ہوں:
کسی مومن آدمی کو جو کوئی بھی مصیبت پہنچتی ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلہ میں اس لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے یا اس کا کوئی گناہ مٹا دیتا ہے۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2070 )
دوزخ شہوتوں سے ڈھانکی گئی ہے اور جنت مصیبتوں سے چھپی ہوئی ہے۔
(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1408)
اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 604)
مومن آدمی کے جب بھی کوئی تکلیف یا ایذاء یا کوئی بیماری یا رنج یہاں تک کہ اگر اسے کوئی فکر ہی ہو تو اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیا جاتا ہے۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2071)
اور ایک جگہ ایسا بھی ہے کہ تکالیف سہتا سہتا مر ہی جاتا ہے اور جب اللہ سے ملتا ہے تو کوئی گناہ اس پر نہیں ہوتا۔سیدھا جنت میں جاتا ہے۔۔
اور تو اور ان تکالیف ومصائب میں مبتلا کر کے شہادت تک بانٹی جارہی ہے۔فرمان ِ رسول صل اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
جو اللہ کے راستہ میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔
اور جو اللہ کے راستہ میں مر گیا وہ بھی شہید ہے۔
اور جو طاعون میں مرا وہ بھی شہید ہے۔
اور جو پیٹ کی بیماری میں مر گیا وہ بھی شہید ہے۔
ابن مقسم نے اس حدیث میں یہ بھی کہا ڈوب کر مر جانے والا بھی شہید ہے۔
( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 444)
للّٰہ اپنی انا اور تکبر کو احکامات پر فوقیت نہ دیجئے۔انکا انجام محض خسارہ ہے۔اللھم لا تکِلنٓا الٰی آنفُسنٓا طٓرفٓة عین۔
(میرب فاطمہ)