ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 583
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
سعودی حکمرانوں کی رضاجوئی کے لیے پوری پاکستانی قوم کو نمک حرام کہنا، یہی مدخلیت ہے!
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یہ مدخلی فکر اور سوچ کے حامل ایک انڈین مولانا صاحب ہیں جو پوری پاکستانی قوم کو نمک حرام کہہ رہے ہیں۔ ہم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ مدخلیت کیا ہے، تو نیچے لگا اسکرین شاٹ دیکھ لیں، یہی مدخلیت ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مدخلیت سعودی حکمرانوں کے "اٹھانے" کا نام ہے لیکن یہ غیر مناسب زبان ہے، ایسے نہیں کہنا چاہیے۔ اشارے کنایے میں بھی ایسی بات کیوں کریں کہ جس سے آپ کا مسلمان بھائی ام بیلیسمینٹ فیل کر سکتا ہو۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مدخلیت پالش کرنے کا دوسرا نام ہے کہ معاصر مدخلیت سعودی حکمرانوں کے بوٹ پالش کرنے میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہے جیسا کہ ملحق اسکرین شاٹ میں واضح ہے۔
بلاشبہ سعودی عرب کے چندے سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن پوری پاکستانی قوم نے نہیں بلکہ اہل حدیث حضرات کے ایک گروہ نے جیسا کہ امریکی امداد سے پاکستانی حکمرانوں اور اسٹیبلشمینٹ نے فائدہ اٹھایا، اب اس کی گالی پوری پاکستانی قوم کو کس خوشی میں دے رہے ہیں؟ سعودی ریال اور امریکی امداد سے فائدہ اٹھانے والا یہ مخصوص اور چھوٹا سا طبقہ جو کہ قوم کا ایک فی صد بھی نہیں ہے، اگر جواب میں بوٹ پالش کریں تو یہ احسان کا بدلہ ہے جو وہ اتار رہے ہیں۔
لیکن پوری قوم کو طعنہ دینا کہ وہ نمک حرام ہے تو بھائی جس نے سعودی چندے کھائے ہیں، وہ اس قوم کا ایک فی صد بھی نہیں ہے۔ باقی ساری قوم اس معاملے میں بالکل انجان اور بری الذمہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سعودی حکمران مدخلی گروہ کا عقیدہ بن چکے ہیں، یہ ان کے دفاع میں کسی بھی غیر اخلاقی حد کو نہ صرف کراس کر سکتے ہیں بلکہ اس کی مذہبی دلیل بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
باقی آپ اردوغان کو گالیاں دیں، خوشی سے دیں، ہمارا کوئی چاچا ماما نہیں ہے۔ لیکن یہ جو ایک حضرت صاحب فرما رہے ہیں کہ امیر محمد بن سلمان کے مجسمے پر تنقید کرنے والو، کان کھول کر سن لو، اس کا جواب یہ ہے کہ اردوغان کا بھی مجسمہ ہے، اور قائد اعظم کا بھی ہے، تو ان کے خلاف کیوں نہیں بولتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر مجسمے کے خلاف بولنا چاہیے۔ مجسمہ سازی بت پرستی کا آغاز ہے۔ اردوغان کے مجسمے کے علاوہ محمد بن سلمان کے مجسمے کے خلاف بھی بولیں، ہم یہی کہتے ہیں اور یہی اعتدال کی راہ ہے۔
ابھی یو ٹیوب پر آپ کو ایسے مدخلی مل جائیں گے جو اپنے آپ کو دھڑلے سے صیہونی مسلم کہتے ہیں اور ساتھ میں کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی سلفی بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے مدخلی بھی ہیں جو اسرائیل کے بائیکاٹ اور فلسطین کی آزادی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ واقعی میں ایسے بد بخت موجود ہیں تو یو ٹیوب پر سرچ کر لیں، آپ کو ویڈیوز مل جائیں گی۔
ٹائمز آف اسرائیل میں آرٹیکلز پبلش ہو رہے ہیں کہ کیا مدخلی سلفی، اسرائیل کے دوست ہیں؟ اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ یہ سب کچھ تو دیکھ کر لگتا ہے، یہ کسی اور ریوڑ کا حصہ تھے جو غلطی سے اس امت کے گروہ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ہم نے انہیں امت سے نہیں کاٹا، انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو پوری امت سے کاٹ کر علیحدہ کر لیا ہے۔
قرآن مجید نے سورۃ توبہ میں ایک گروہ منافقین پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ اے مسلمانو، تمہارے لیے بھی یہی بہتر تھا کہ وہ تمہارے ساتھ غزوہ تبوک میں نہیں نکلے۔ اگر وہ نکلتے تو فتنہ وفساد ہی برپا کرتے۔ تو اس میں امت کے لیے ایک خیر کا پہلو ہے کہ یہ کفر وایمان اور خیر وشر کے اس معرکے میں امت مسلمہ کی بجائے ملت کفر کی سائیڈ پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس پر حسرت نہیں کرنی چاہیے، اس امت کے حق میں یہ بہتر ہی ہو گیا ہے۔ الحمد للہ علی ذالک۔ باقی اگر یہ رجوع کر لیں اور اپنے آپ کو امت میں شامل کرنا چاہیں تو ان کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ یہی قرآن سے سمجھ آتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
از قلم: حافظ محمد زبیر