• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی عرب کے شیعہ اوران کی ملک دشمنی : فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
سعودی عرب کے شیعہ اوران کی ملک دشمنی
شیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)​
۲جنوری ۲۰۱۶ء کی تاریخ کو سعودی عرب کے ایک ملک دشمن باغی فردکو پھانسی دیدی گئی۔ اس کے ساتھ دیگر ۴۶لوگوں کو بھی پھانسی کی سزا دی گئی ۔ یہ سب ملک دشمن تھے اورملک کے دشمنوں کے آلہ کار تھے۔ ان پھانسی پانے والوں میں تین رافضی ہیں اور۴۴؍خارجی ابوبکر بغدادی کے دم چھلے جو IS اوراس کے یرغمال باشندوں کے سوا سارے مسلمانوں کو کافر اور قتل کا مستحق گردانتے ہیں۔ شرق اوسط میں عموما اورگلف میں خاص کر ، رافضی اورخارجی دہشت گردی زوروں پر ہے ، یہ دونوں دہشت گردیاں شدت سے جاری ہیں اور ان کا سب سے بڑا نشانہ سعودی عرب ہے۔
النمر باقر النمر(۱۹۵۹۔۲۰۱۶) ایک سعودی باغی رافضی تھا۔ جس طرح وہ سعودی عرب میں ایک دہے سے حزب اللہ اور ایران کی شہ پر بغاوت کی آگ بھڑکائے ہوئے تھا، اگراس کی اس بغاوت کا پانچ فیصد ایران میں نمایا ں ہوتا توایرانی ملالی اسے پانچ منٹ نہیں برداشت کرتے اسے فورا تختۂ دار پر کھینچ دیتے، لیکن یہ سعودی عرب کی دینی روا داری کی پالیسی ہے کہ ملک کے غداروں کے نکھرے برداشت کئے جاتے ہیں۔ ایران کے رافضی کینہ کا یہ حال ہے کہ طہران میں ایک سنی مسجد نہیں ہے۔ ایک آخری بچی ہی ہوئی مسجد کو بھی گذشتہ سال ڈھادیا گیا۔ اس کے مقابلے میں صرف مدینہ منورہ میں ایک محلہ العوالی میں رافضیوں کی بیس حسینیات اور کئی مسجدیں ہیں۔ طہران کی اکلوتی مسجد گراکر رافضی ماہرین تقیہ ونفاق اپنی بربریت تسلیم نہیں کرتے بلکہ تھوک کے حساب سے جھوٹ بولتے ہیں اورخمینی ایران سے قبل شاہ کے وقفے کی مساجد کی فہرست پیش کرتے ہیں جنھیں خمینی ایران ڈھاچکا ہے۔
آج ہم اس محفل میں دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب کے شیعہ کس قدر سعودی عرب کے خلاف سازش میں ایران اور کویت کے رافضیوں، لبنان کے حزب اللہ رافضیوں ، یہود ونصاری اور امریکہ ویورپ کے سازشیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ اپنی حقیر تعداد کے باوجود ایسا ناٹک کرتے ہیں جیسے سعودی عرب میں شیعہ بڑی تعداد میں ہیں اوران کے ساتھ بڑا ظلم ہورہاہے ۔یہ رونے والی قوم دوسروں کو قتل کرتی ہے اورخود ہی رونے بیٹھ جاتی ہے ۔ ایک حیران کن بات ہے کہ ایک حقیر سی تعداد کس طرح جھوٹ بول کر دنیا کو اپنی مظلومیت باور کراتی ہے۔
سعودی عرب میں روافض فی الواقع ڈیڑھ دوفیصد سے زیادہ نہیں ہیں، اوراصلا ان کی آبادی صرف دوخطوں میں ہے۔مشرقی ژون میں الاحساء اورقطیف میں اورحجاز میں مدینہ منورہ میں، مشرقی زون میں قطیف کے علاقے میں ان کی اصل آبادی ہے، قطیف کے تابع چھ گاؤں سیہات، جزیرہ تاروت، القوامیۃ، الجارودےۃ، ام الحمام اور الجیش میں یہ آباد ہیں۔ الاحساء کے علاقے میں ان کی چار بستیاں ہیں۔ الہفوف، المجد، القارۃ، المنصورۃ۔ مدینہ طیبہ کے محلہ العوالی میں ان کی مختصر سی آبادی ہے، مدینۃ الرسول کے مضافات میں ان کی تین بستیاں ہیں، ابو ضباع، السویرقیہ، المھد، یہاں کے شیعوں کو النخاولہ کہا جاتا ہے یہ ہے ان کی کل آبادی۔ ان تینوں علاقوں کے شیعہ ہی سعودی عرب کے دوسرے علاقوں میں نوکری یا تجارت کے لیے آباد ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چند دیہاتوں میں ان کی کتنی آبادی ہوسکتی ہے ۔لیکن چونکہ یہ پاکٹ سائزمیں اکٹھا بستے ہیں روتے دھوتے اورشورمچاتے زیادہ ہیں اس لیے ایسا لگتاہے جیسے ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
سعودی عرب میں شیعوں کی یہ مختصر ترین آبادی عموما اسماعیلی شیعہ ہے اوراب توسارے شیعہ برابر ہیں ۔ سونے پر سہاگہ سیاست اور دولت کا انھیں چسکا لگا رہتا ہے، خیر سے حزب اللہ، ایران، یورپ اور امریکا کے یہ چہیتے ہیں، سرخے بھی انھیں بھائی مانتے ہیں اس لئے جی بھر کریہ ہنگامہ آرائی کرتے ہیں ۔ اورآگ لگاتے رہتے ہیں۔
اس کم تعداد کے باوجود انھیں سعودی عرب میں کس قدر سہولیتیں ملی ہوئی ہیں انھیں کوئی رافضی اپنے ملک میں سوچ نہیں سوچ سکتا ، شیعہ آبادیوں کے آس پاس سنی خستہ حالت میں ہیں اور یہ محلات میں عیش کرتے ہیں۔
دینی سرگرمیاں:
ساری کفریات اور ضلالتوں کے باوجود اورساری بغاوتوں اور غداریوں کے باوجود اورنہایت قلیل تعداد ہونے کے باوجود انھیں سعودی باشندہ ہونے کے سارے حقوق ملے ہوئے ہیں حتی کہ یہ اپنے سارے عقائد واعمال کی بجاآوری کے لئے آزاد ہیں۔ان کی دینی رونے دھونے کی سرگرمیاں سال بہ سال جاری رہتی ہیں۔ ان کی اپنی مساجداورحسینیات ہیں اور ان کی اذانوں میں (اشہد ان علیا وصی اللہ) کی ندابھی جاری ہے اور اور (حی علی الخیر) بھی۔
ان کی مشہور مسجدیں ہیں ۔ الزہراء ، عمار بن یاسر، الامام حسین ، الامام علی، القلعہ، العباس، الامام حسن ان کی مشہور حسینات ہیں: الزہراء، الامام المنتظر، الناصر، الزائر، الامام زین العابدین، الرسول الأعظم، الراشد، العامرۃ، یہ حسینیات اورمساجد سعودی عرب میں ان کی بستیوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔
صرف مدینہ منورہ میں ان کی بیس مجلسیں اورحسینات ہیں جن میں مستقلا ان کے رونے دھونے اور سازش کرنے کے پروگرام برابر چلتے رہتے ہیں، اور بغیر کسی رکاوٹ کے کثرت سے دروس اورلکچرز ہوتے رہتے ہیں ۔ اعلانات کثرت سے ہوتے ہیں ۔ ان کے برعکس ان کے پڑوسی اہل سنت امارت او رمرکز الدعوۃ سے اجازت کے بغیر کوئی پروگرام نہیں کرسکتے۔
الاحساء اورقطیف کے علاقوں میں ان کی رافضی ثقافتی سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری رہتی ہے یعنی خلفاء راشدین پر طنز وتعریض ، امہات المومنین پر طنزوتعریض شرکیہ ادعیہ، یہی رافضیوں کا ثقافتی سرمایہ ہے۔
ان کی دینی سرگرمیوں کا سب سے ہم حصہ ان کے تہواراور عزاکی مجلسیں ہیں ۔ سب کو معلوم ہے ان کی ماتمی بزم آرائیاں بکثرت ہوتی ہیں اورسال بہ سال چلتی ہیں۔ اورجب بحیثیت حقیر اقلیت کو بڑی اقلیت دکھلانے کا وہم سروں پر سوار ہوتورات دن عزا ہی عزاء کا کام رہ جاتاہے۔ یہ ایک ہفتہ مسلسل اپنی مرکزی مسجدوں میں عیدمیلاد النبی مناتے ہیں اور محرم عاشوراء اور دیگر ایام سوگ توجتنا بھی طویل کریں کم ہے۔
دینی سرگرمیو ں کے ضمن میں ان کی زیارت حج اورعمرہ کے قافلے بکثرت نکلتے ہیں اور ان کے اعلانات ہوتے ہیں۔ روضہ رسول کی زیارت کے لئے قافلے نکلتے ہیں۔ رجبی قافلے نکلتے ہیں ۔ ایام حج اور چھٹیوں کے ایام میں ان کے قافلے نکلتے ہیں۔ ان زیارتوں اورقافلوں کوکلی طورپر رافضی شدت پسندی اور شکراء کو مکروفریب میں پختہ بنانے کے لئے بھرپور طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ان میں رافضی علماء ساتھ نکلتے ہیں، ان کی مشہور ٹورسٹ کمپنیاں یہ ہیں ۔
حملۃ الامام زین العابدین: مالک حسن مکی الخویلدی۔
حملۃ علی احمد العبد العال الخویلدیۃ القطیف: مالک حسین صالح آل صویلح۔
حملۃ احمد خمیس آل عطےۃ برائے زیارت مسجد نبوی اورمزارت مقدسہ۔
شیعوں کے وقف ومیراث کا ایک الگ محکمہ ہے جو وزارت عدل کے تابع ہے، اس کا سربراہ ایک رافضی ہے قطیف میں ان کا ایک قاضی ہوتاہے، یہ روایت شاہ عبدالعزیز کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔
سعودی شیعہ اپنے مال کا پانچواں حصہ آل بیت کے نام سے نکالتے ہیں، یہ شیعوں اور تشیع کے بقاء کی بہت بڑی قوت ہے۔ اس کا اکثر حصہ ایران عراق اورلبنان جاتاہے، تاکہ اہل سنت کے خلاف رافضی دہشت گردی میں استعمال ہو۔
تعلیم وتربیت:
سعودی عرب میں شیعہ اپنے علاقے اوربستیوں میں تعلیم وثقافت میں بہت سرگرم ہیں۔ قلیل تعداد کے باوجود ان کے ڈھیرسارے ادارے ہیں اورمختلف مراحل کے اسکول ہیں جورافضی طلباء سے بھرے رہتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں شیعہ خاص کرنوکری کرنا پسند کرتے ہیں۔ صرف مدینہ کے تعلیمی اداروں میں (۳۰۰) تین سو سے زیادہ شیعہ استانیا ں کام کرتی ہیں اورمشرقی ژون قطیف اوراحساء میں شیعہ استانیو ں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ اہل سنت کے بچے ان کے سلبی عقائد سے دوچار بھی ہوتے ہیں لیکن سعودی باشندہ ہونے کے سبب رافضی استانیاں آزادی سے نوکری کرتی ہیں۔ جبکہ ایران ایک سکنڈ کے لئے ایسی صورت حال برداشت نہیں کرسکتا۔
ان مدارس کے سوا جامعہ الملک فیصل احساء اوراس کی شاخ دمام اورجامعۃ الملک فہد برائے پٹرول اورمعدنیات ظہران میں شیعہ بڑی چاہت سے نوکری کرتے ہیں ، اسی طرح دیگر صناعتی اورسائنسی کالجوں اوراداروں میں شیعہ نوکری کرنے میں خاص دلچسپی لیتے ہیں، جبکہ سائنس اورٹکنالوجی کے تعلیمی اداروں میں اہل سنت ان کے مقابلے میں سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
شیعہ تعلیمی وثقافتی نمائشوں، اورکتاب میلوں میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں اوربک اسٹال لگاتے ہیں، اسلامی عقیدے کے خلاف کتابیں بیچتے ہیں شرکیہ اورکفریہ کتابیں جیسے (التوحید) ابن بابویہ قمی (الآیات البینات) محمدحسین کا شف الغطاء کی بکتی ہیں۔ یہ ان کے مذہب کا معاملہ ہے اورملک کا باشندہ ہونے کے ناطے قانونی حق رکھتے ہیں ۔ سعودی شیعہ اخباروں اور سالوں میں اپنے آفکار وآراء کوپیش کرتے ہیں ۔ ثقافتی بزم کا انعقاد کرتے ہیں ثقافتی پرچے نکالتے ہیں۔
سماجی سرگرمیاں :
شیعہ سعودی عرب میں بہت سے رفاہی اداروں اورانجمنوں کے مالک ہیں ۔ قریباً ان کے ہرگاؤں میں ان کے رفاہی ادارے ہیں، انھیں وزارت عمل اورسماجی امور سے تعاون ملتا ہے اورکچھ اہل سنت بھی ان کا تعاون کرتے ہیں۔ ان کے مشہور رفاہی ادارے ہیں۔ (جمعیۃ العمران الخیریۃ)، (جمعےۃ المواساۃ الخیریۃ) ، (جمعیۃ البطالیۃ)، ان رفاہی اداروں سے سعودی روافض کو اپنی بستیوں اورعلاقوں میں بھرپور تعاون ملتا ہے ۔ ان کے خاص کام ہوتے ہیں، حسینیات کی تعمیر ، کفن دفن میں تعاون دینا، مقابر کی دیکھ ریکھ ، کمپیوٹر سکھلانا، پریس کے کام سکھلانا، خیاطت کی تربیت ، مریضوں کی دیکھ بھال، شادی میں تعاون دینا، اجتماعی نکاح کروانا، اکثر شیعہ شادی بیاہ میں اجتماعی نکاح کرتے ہیں اور رفاہی عمل پرانحصار کرتے ہیں ۔
اقتصادی سرگرمیاں:
شیعہ اپنے علاقوں اوربستیوں میں معاشی امورمیں بڑے سرگرم ہیں خاص کر پٹرول کی کمپنیوں میں، زراعت، ماہی گیری اورمختلف پیشوں میں، ان کی مہارت اورسرگرمی مشہورہے۔ ان کے مشہور تاجر اور مشہور کمپنیاں ہیں۔
(السیہاتی ٹرانسپورٹ) (ابوالخمسین ملٹی پربزنس) (المرہون) ہرقسم کے گھر یلو سامان کے لئے مدینہ منورہ اور مشرقی ژون میں شیعہ زیورات کی تجارت پرکنٹرول بنائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سبزی ، پھل ، مچھلی اور کھجور کی مارکیٹ ان کے ہاتھوں میں ہے اوران کی دونوں خطوں میں دیگر مشہور کمپنیاں ہیں ۔
سیاسی سرگرمیاں:
سعودی عرب کے روافض کی سیاسی سرگرمیاں حدسے زیادہ تھیں اورہیں اوران کی کل کی کل سیاسی سرگرمیاں ملک کے ساتھ دھوکہ غداری، ابن الوقتی، دباؤ پروپیگنڈہ اورمکاری کے برابرہیں۔ انھوں نے جب بھی مقامی خلیجی اورعالمی سیاست میں اتار چڑھاؤ کے سبب سعودی عرب کو الجھن میں پایا اس پر دباؤ بنانے اسے بدنام کرنے اوراس کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے بازنہیں آئے اور اس کے ساتھ غداری کرنے سے بھی نہ شرمائے۔
سعودی شیعہ اصلااسماعیلی ہیں اوران کی اصل قرامطہ سے وابستہ ہے۔اس لئے ان کے سیاسی عزائم ہمیشہ بلند ہوتے ہیں اورموامرت ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ ان کے تعلقات ہمیشہ سری طورپر قومیت پرستوں، بعثیوں، کمیونسٹوں، مصری ناصرازم سے رہے، ان کے سری تعلقات کی حقیقت اور تمام تباہ کن نظریات سے وابستگی ماہرین کی کتابوں میں مدون ہیں(النشاط السیاسی للشیعہ فی السعودےۃ) خاص کر قابل ذکرہے۔ تمام ابناء یہود(ابن سبا، شیعہ، یہودی، کمیونسٹ، اورمارکس) کے باہمی قریبی تعلقات میں کس کو شک ہے؟
سعودی حکومت کے باغی روافض کے ان گنت ویب سائٹس ہیں جن سے حکومت پر ہرطرح یلغارکرنے کا کام لیا جاتاہے ۔ ان لوگوں نے سعودی عرب کو احساء وقیف، نجد، حجاز اورعسیر چار حصوں میں بانٹنے کا مطالبہ کیا اورمختلف مواقع پر انہوں نے ہنگامہ آرائی کی، الگ شعبہ نظام قائم کرنے کا مطالبہ کیا، فرقہ وارانہ شناخت بنانے کی کوشش کی۔
سری تنظیمیں:
سعودی شیعوں نے سب سے پہلے ۱۹۶۸ میں سری تنظیم بنائی (حرکۃ طلائع الرسالیین) پھر ۱۹۷۹میں خمینی انقلاب کے بعداسے عیاں کیاگیا اوراس کا نام رکھا گیا (منظمۃ الثورۃ الاسلامےۃ ) اور۱۹۹۰میں اسے حالات کے دباؤ کے تحت(الحرکۃ الاصلاحےۃ الشیعےۃ) بنادیا گیا۔ پھر بھی ساری سری ملک دشمن سرگرمیاں جاری رہیں، بلکہ بڑھ گئیں لوگوں کوبے وقوف بنانے اورہرطرح سیاسی سماجی اقتصادی مقاصد حاصل کرنے کے لئے صرف نام اور ٹیکنک بدلے۔ اس تنظیم کا تعلق ایران کے ساتھ رہا اوراسے خمینی انقلاب کا جزمانا گیا ۔ اسے خمینی انقلاب کا سعودی عرب میں ہراول دستہ بنایا گیا اورساری سہولتیں فراہم کی گئیں۔ حسن الصفار سعودی شیعہ نے اس بات کا کھلے طورپر اعتراف کیا ہے۔ منظمۃ الثورۃ الاسلامیہ پر اس کے کارکنوں کی تحریری کارروائیوں کے سبب پابندی لگی۔ اس تخریبی تنظیم کے بعد گلف میں دیگر تخریبی تنظیمیں وجودمیں آئیں۔ جیسے (الجبہۃ الاسلامےۃ) بحرین، (منظمۃ العمل الاسلامی) عراق، اس تخریبی تنظیم نے ۱۹۷۹ء ؁ میں ایک کتاب شائع کی تھی (انتفاضۃ المنطقۃ الشرقےۃ) تیارکردہ ، عبدالرحمن الشیخ، صالح الدخیل ، عبداللہ الزائر۔ اس کا انتساب تھا (نقدم ہذا الکتاب ہدےۃ متواضعۃ تسہم فی کشف زیف الحکم السعودی الکافر ) یہ کتاب ایک حقیر تحفہ ہے سعودی عرب کافر حکومت کے کھوٹ کو نمایاں کرنے میں شرکت داری کے لیے۔
دوسری شیعہ سری تنظیم سعودی عرب میں (حزب اللہ، الحجاز) کے نام سے قائم ہوئی، اس کا مقصد تھا حجاز میں انقلاب لانا ۔اس کا ایک ترجمان ہے (مجلۃ الجزیرۃ العربےۃ) ۱۹۹۱ میں اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ اس کی ترجمانی ان الفاظ میں پڑھئے(تعبر عن المعارضۃ السیاسےۃ فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ بمختلف اتجہاہھا....ان الہدف المرکزی الذی تتوجہ المجلۃ الی تحقیقہ ہو خلق رای عام داخلی وخارجی یدفع بعجلتہ لتغییر الھیکل النظام السعودی المتخلف) مجلہ ترجمان ہے سعودی عرب کی حکومت کی اپوزیشن سیاست کا جس طرح بھی ہوسکے اوراس کا اہم ہدف اس بات کا حصول ہے کہ داخلی وخارجی رائے عامہ بیدار کی جائے تاکہ پچھڑے پن کے شکار سعودی نظام ہیکل میں تبدیلی کا عمل آگے بڑھ سکے۔ بدبختی دیکھیے ایک اصولی حکومت کوگرانے کی سازش ملک کے غدار کرتے ہیں اوررافضی انقلابی ولولہ دیکھیے کہ پھکڑپن کے سوا کچھ نہیں اورشرق وغرب کے اعداء اسلام کے سہارے بیرون ملک لمبی پھینکنے کی عادت۔
حزب اللہ الحجاز نے ملک وبیرون ملک دوالگ گروپ قائم کئے، بیرون ملک (الف) لندن گروپ (۲) واشنگٹن گروپ اوراندرون ملک (الحرکۃ الاصلاحےۃ) لندن گروپ نے (التحالف الوطنی من اجل الدیموقراطیۃ) کے اسٹیج سے برطانیہ میں کام کرنا شروع کیا۔
اس کے سربراہوں میں تھے توفیق السیف ، حمزہ آل حسن، جعفر الشایب، د۔ محمد جعفرہاشم آل حسن انہوں نے ۲۰۰۳فروری میں ایک میگزین نکالنا شروع کیا (شؤون سعودےۃ) اس کی ادارت فوادابراہم اورحمزہ حسن کرتے تھے ۔واشنگٹن میں اس سے وابستہ صادق الجبران اور عیسی المزمل تھے۔ یہ برطانیہ اورامریکہ میں کیا کرتے تھے آگے تفصیل پڑھیے۔
الحرکۃ الاصلاحےۃ کو سعودی حکومت سے مذاکرات کے لیے سیاسی ونگ کی حیثیت سے قائم کیا گیا تھا، حزب اللہ الحجاز نے سعودی عرب میں سیاسی انقلابی عسکری ہرتخریبی کام کا بھرپور انتظام کیا اور سعودی عرب جیسی اصول پسند حکومت کو دھوکہ دینے اور اس پردباؤ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ حزب اللہ الحجاز کی ساری سری عسکری انقلابی اورسیاسی سرگرمیوں کاذمہ دار سعودی عرب میں سیاسی دینی مرشد حسن الصفارہے ۔ جوپہلے دمشق میں رہتا تھا اب الاحساء کے علاقے میں رہتاہے۔
اعداء اسلام سے سعودی شیعوں کے تعلقات: (الرافضۃ فی المدینۃ المنورۃ)کے مصنف نے اعداء اسلام سے ان کے سری تعلقات کے متعلق تفصیل بیان کی ہے۔ (حزب اللہ الحجاز) نے یورپ اورامریکا کی ساری دشمن پارٹیوں انجمنوں اور تحریکوں سے تعلق قائم کررکھا تھا جو پریشر گروپ کی حیثیت سے ڈیموکریسی کے نام پردوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت کرتی ہیں اوراپنے چہیتے اسلام دشمنوں سیاست کاروں کو بھرپور مالی تعاون دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی یہودی انجمنیں خاص کر متحرک ہوتی ہیں۔ (حزب اللہ الحجاز) بھی ان کی چہیتی تھی اورہے۔
حزب اللہ الحجاز نے اپنے امریکی گروپ کے ذریعہ واشنگٹن میں (اللجنۃ الدولےۃ لحقوق الانسان فی الخلیج والجزیرۃ العربےۃ) کے عنوان سے دفتر کھولا یہ گروپ اور سعودی عرب کے خلاف امریکی حکومت اوریہودی جماعتوں کی توجہ کا مرکز بنا اورایمنسٹی انٹرنیشنل، لیبرٹی نیز دیگر پریشرگروپ کا منظور نظر بن گیا۔ اس گروپ نے (عربیہ مونیٹر) کے نام سے اپنے منشورات نکالنے شروع کئے اورامریکا کے یہودیوں اورصلیبیوں کے سیکڑوں مشہور صحافیوں مشہور شخصیات اور تنظیمات تک انھیں پہنچایا ، اور ان کی ہمدردیاں بٹوریں۔ معاندانہ رپورٹیں پوری دنیا میں کثرت سے پھیلیں۔ کسی بھی ملک کی اپوزیشن کو تعاون دینے والے ایک امریکی ادارے سے اسے سالانہ پچاس ہزارڈالر مددملنے لگا۔
ان شیعہ بدبختوں نے ’’مظلوم عیسائی‘‘ کی مددکے لئے انٹرنیشنل ڈے کی کانفرنس میں سعودی عرب میں موجود کام کرنے والے عیسائیوں کی مظلومیت کی جھوٹی داستان پیش کی اور سعودی عرب کو مفت میں بدنام کیا، چال دیکھیے اعداء اسلام ان کے لیے ہمدردی کا کیس۔ اور عالم اسلام میں مسلمانوں کے سامنے ان کا کیس زبردستی کا۔
حزب اللہ حجاز کے کارندوں نے امریکا اوریورپ میں صلیبی وصیہونی پریشرگروپ اوران کی تنظیمات اور حقوق انسانی کو تحفظ دینے والی انجمنوں اورامریکی ویورپی میڈیا سے ایسے تعلقات استوار کئے کہ ملک کے غداروں کی جھوٹی باتیں امریکی میڈیا میں سعودی عرب اورگلف سے متعلق حقیقت بن گئیں۔ اس سے ملک کو کافی زک اٹھانی پڑی۔ یہی جھوٹی تحریریں دنیا کے میڈیا میں پھیل گئیں۔ اورتحریکی بھی اس کاورد کرنے لگے انہوں نے یہود ونصاری اورمجوس کی باتوں کو سعودی عرب اور گلف کے خلاف وحی والہام کا درجے دے لیا اورمسلسل یہودونصاری اورروافض کی ذہنی غلامی میں مبتلا چلے آرہے ہیں ۔ ’’یادحرم‘‘ جہنمی کتاب شیعہ اکاذیب کا ایڈیشن ہے۔
سعودی عرب کے روافض کا ایران سے تعلق :
مذکورہ کتاب میں اس کی بھی تفصیل ہے ۔ایران کے روسا ء اوروزراء نے سعودی عرب کے شیعوں کے گھروں پر جاکر سعودی شیعوں سے ملاقات کرنی شروع کردی اورانھیں سعودی عرب حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی تلقین کرنے لگے۔ ہاشمی رفسجانی بحیثیت صدر، سعودی عرب کے دورے پرآیا اس نے مدینہ کے شیعہ قائد حسینیہ العمری سے اس کے مزرع پر جاکر اس سے ملاقات کی۔
ایران کے حجاج کے قافلے آتے ہیں تومدینہ کے شیعوں کے ساتھ ان کا رابطہ رہتا ہے، کوشش کرتے ہیں ان کے محلوں میں اتریں، ان کے فلیٹس کرائے پرلیں ان کے ساتھ بقیع میں شوروشغب کریں۔ احتجاج ونعروں میں شریک ہوں،ان سے رابطہ مضبوط کریں، ان کو ہنگامی آرائی کا پلان دیں، ان کی اقتصادی مددکریں، ان کی تخریبی ٹریننگ کریں، ان کو اپنے شرک و بدعات کے پروگراموں میں شریک کریں۔
سعودی عرب کے شیعہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے قم اور طہران کی یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ پکے اور مضبوط شیعہ بن کر لوٹیں، پہلے ایسا کام چھپ کر ہوتا تھا اور یورپ میں ایران سفارت خانوں کے ذریعے ہوتا تھا اب کھل کر براہ راست ہوتا ہے، یہ تو بیرون ملک سے سعودی عرب کے شیعوں کی اپنے ملک کے خلاف سازشی تعلقات ہوئے۔
اندرون ملک سعودی شیعوں کی تخریبی اور انفصالی حرکتیں:
سعودی شیعہ چونکہ ملک دشمن انجمنوں اور قائدین کے اشاروں پر چلتے ہیں اس لیے ملک و بیرون کے سیاسی حالات سے حصول مفادات کی خاطر بہت جلد اور گہرا سلبی اثر لیتے ہیں۔ سعودی عرب کے شیعوں نے سعودی حکومت کی مخالفت اول دن سے کی ہے۔ ۱۹۲۵ء ؁ میں محمد الجیش رافضی نے حکومت کی مخالفت میں ایک تنظیم بنائی جسے غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ ۱۹۴۸ء ؁ میں محمد بن حسین الھراج نے قطیف میں حکومت کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور سعودی حکومت سے الگ انفصالی حکومت کی مانگ کی۔ پٹرول نکلنے اور ملک کی اقتصادی حالت سدھرنے کی امید ہو چلی تھی یہ مظاہرے اور تقسیم ملک کی مانگ اس کے نتیجے میں تھی،۔۱۹۴۹ء ؁ میں کمیونسٹ لیڈر عبدالرؤف الخنیزی مارا گیا، یہ تحریک ۱۹۵۰ء ؁ میں جبیل تک پہنچ گئی۔ مشرقی ژون الاحساء کے صوبے میں شیعہ ہنگامہ پروروں اور سعودی اتھارٹی کے درمیان ۱۹۵۳، ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۸ء میں مڈبھیڑ ہوئی۔
فروری ۱۹۷۹ء ؁ میں جب خمینی انقلاب آیا تو سارے عالم کے شیعہ اس کے باج گزار بن جائے اور اس کی آقائی تسلیم کر لی اور اس کے احکام وصولنے لگے اور ہر جگہ اتھل پتھل مچانے لگے۔ ۱۹۷۹ء ؁ کے اخیر میں قطیف اور سیہات میں زبردست ہنگامے ہوئے، شیعوں کا عاشوراء ، امریکن ایمبیسی طہران میں امریکیوں کی یرغمالی اور مکہ مکرمہ میں جیجان اور اس کے خارجی ساتھیوں کا ہنگامہ ان کے لیے مہمیز ثابت ہوا۔ خمینی نے بھی آل سعود کی حکومت پلٹ دینے کا رافضیوں کو پیغام دیا۔ ۱۹؍نومبر ۱۹۷۹ء ؁ میں سعودی نیشنل گارڈ نے شیعوں کے فسادات اور مظاہروں کو کچل کر رکھ دیا، شیعوں کے مظاہرے دو ماہ تک چلتے رہے۔ ایران کے حکم پر سعودی شیعہ گردی تقریبا دس سالوں تک جاری رہی۔ ان دس سالوں کے اندر ایران کے زیر اثر سعودی شیعہ ملک میں تخریب کاری میں لگے رہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ایران کا معاندانہ رویہ ہمیشہ سعودی شیعوں کو سعودی عرب کے خلاف بھڑکاتا رہا اور سعودی عرب میں ایران کی تخریب کاری میں سعودی عرب شیعہ برابر شریک رہے۔۱۹۷۸ء اور ۱۹۸۹ء ؁ میں جب سعودی عرب اور حرمین شریفین میں ایران کی دہشت گردی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی سعودی شیعہ بھی برابر ایرانی ایجنٹون اور تخریب کاروں کا ساتھ دے رہے تھے تھے اور ایران میں جب بھی سعودی عرب کے سفارت خانہ پر حملہ ہوا یا اسے جلایا گیا سعودی شیعوں نے جشن منایا۔
خمینی کے ہلاک ہونے اور عراق ایران کی تباہ کن ناکام جنگ بند ہونے کے بعد جب ایران کے فریب خوردہ لیڈروں کی عقل ٹھکانے آئی اور خمینیت کا نشہ کم ہوا تو اس کے بین الأقوامی تعلقات میں سدھار آیا۔ سعودی عرب سے بھی اس کے تعلقات سدھرے اور نسبتاً ایک دہے ملک میں اندرونی و بیرونی شیعہ دہشت گردی تھمی رہی اور شاہ عبداللہ کے معاہدے کے تحت جو سعودی حکومت اور سعودی شیعہ حزب اختلاف کے درمیان ہوا سعودی حزب اللہ الحجاز نے واشنطن اور لندن میں اپنے دفاتر بند کر دیے اور سارے حکومت مخالف شیعہ اپنے ملک میں واپس آگئے۔
۲۰۰۱ء میں عراق کی صورت حال بگڑی، امریکی جارحیت کا ملک شکار ہوا، رافضی عناصر نے امریکی جارحیت کے لیے ہراول دستے کا کام کیا۔ صدام کا زوال ہوا اور رافضی سازش سے عراق شیعہ اکثریت کا ملک بن گیا۔ اس وقت شیعوں کا غرور بڑھ گیا، دنیا کی استعماری طاقتوں نے اسے شرق اوسط کے خطے میں اپنا ایجنٹ اور پولیس بناکر متعین کیا۔ اس استعماری سازش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری دنیا کے شیعہ اپنی ہرزہ سرائیوں حماقتوں اور غرور میں ساری حدوں سے آگے نکل گئے، عراق کے شیعہ اکثریتی ملک بننے کے بعد شیعوں نے پر پرزے نکالے اور دس سال کا قدرے پر امن رویہ بالکل بدل گیا۔ ۲۰۰۳ء ؁ کے آس پاس شیعوں نے مدینہ طیبہ میں بغاوت کی، بقیع کے مقبرے اور حرمین کو انٹرنیشنل قرار دینے کی مانگ کی۔ ایرانی شیعوں نے ان کا ساتھ دیا، شیعوں کی اس بغاوت کو سنی عوام نے ہی کچل کر رکھ دیا۔ پھر پولیس آئی اور حالات کنٹرول میں کیا۔ اس حادثے میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے اور انتشار پسندی آئی۔
اس رافضی جرأت اور شرارت کو دیکھیے، کیا ایران اہل سنت کے کسی ایسے رویے کو ایک سیکنڈ کے لیے برداشت کر سکتا تھا، لیکن تحریکیوں کے لیے یہ ایک تماشا ہے کیوں کہ ۴ سال کی لڑکی سے متعہ کرنے والے خمینی کو انھوں نے اپنے ضمیر عقل اور فکر و فہم کا مالک تسلیم کر لیا ہے اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالی دینے والے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کو جبت و طاغوت کہنے والے ملعونوں کے ہاتھوں میں اپنی حماقتوں کا لگام سونپ دیا ہے۔
اسی حادثے کے آس پاس ۴۵۰؍نمایاں سعودی شیعہ افراد نے ملک کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیااور شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو مطالبات کی ایک فہرست پیش کی۔ انھوں نے مانگ کی کہ ان کے حالات میں بہتری لائی جائے، ان کے لیے ترقی کے مواقع مہیا کیے جائیں، وزارت اور سفارت میں انھیں اعلی عہدے دیے جائیں، پولیس اور فوج میں ان کو اعلی مناصب سے سرفراز کیا جائے۔ مجلس شوری میں ان کی نمائندگی بڑھائی جائے، ان پر کفر اور ضلالت کے فتوی سے احتراز کیا جائے، رافضی کتابوں اور مطبوعات کو ملک میں لانے کی اجازت ملے، بحرین کی طرح وزارت اوقاف کے ماتحت اوقاف کا حکومت سے منظور شدہ شعبہ قائم کیا جائے۔
ان مطالبات کی فہرست پر صرف رافضی علماء نے ہی نہیں دستخط کیا اس پر رافضی کمیونسٹوں، رافضی سیکولرسٹوں اور عام لوگوں نے دستخط کیا اور پہلی بار مدینہ کے شیعوں کے مطالبات کے ساتھ یہ مطالبہ بھی سامنے آیا۔ عراق کی صورت حال نے مدینہ کے شیعوں کے ساتھ سعودی عرب کے دیگر علاقوں کے شیعہ کو باغی بنا دیا تھا۔
مطالبات کی فہرست میں یہ مطالبات بھی شامل تھے کہ حکومت شیعی مذہب کو دیگر مسالک کا درجہ دے اور حکومت کے تحت چلنے والے اداروں میں ان کو نمائندگی ملے جیسے رابطہ عالم اسلام،ھیءۃ الاغاثۃ العالمیۃ اور المجلس الأعلی للمساجد۔ مطالبات کے عریضے پر دستخط کرنے والوں کے اہم نام یہ تھے۔ محمد سلیمان الہاجری، قاضی محکمہ، اوقاف و میرات الاحساء، علی ناصر السلمان، حسن الصفار، ہاشم السلمان، یہ علماء کے زمرے کے لوگ ہیں، زکی المیلاد رئیس تحریر مجلۃ ’’الکلمۃ‘‘ اور اصحاب مناصب میں سے دستخظ کرنے والوں کے اہم نام یہ ہیں، جعفر الشایب، حسین النمر، احمد النخلی، رضا المدلوح۔
۱۹۹۹ء ؁ میں بحرین میں حمد بن عیسی نے زمام اقتدار سنبھالا، انھوں نے باغی شیعوں کو جیلوں سے نکالا، ملک سے باہر بھگوڑے شیعوں کو ملک کے اندر بلایا، سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی، پارٹیاں تشکیل ، اخبارات شائع ہونے لگے، انجمنیں قائم ہوئیں، پارلیامنٹ میونسپل کمیٹیاں قائم ہوئیں، پارلیامنٹ قائم ہوئی، میونسپل کمیٹیاں قائم ہوئیں، اتنی آزاد ی کو پاکر بحرین کے شیعہ پگلا گئے اور ان کے پاگل پن کا اثر سعودی شیعوں خصوصا الاحساء کے شیعوں پر پڑا اور ان کی باغیانہ سرگرمیاں بڑھیں اور وہ بھی یہی سب کچھ مانگنے لگے۔
۹؍۱۱ کے حادثے کا زبردست اثر سعودی عرب پر پڑا، امریکہ اور اس کے ہم نواؤں کا بھاری دباؤاس پر بنا، اس موقع پر سعودی شیعہ ابن الوقتوں نے استعماری ملکوں کی ہاں میں ہاں ملا کر سعودی عرب پر دباؤ بڑھایا، انھوں نے اسے انسانی حقوق کا مخالف بتانے کی ہر ممکن کوشش کی، ان کا دباؤ بڑھتا گیا، مطالبات بڑھنے لگے، سازشیں بڑھتی گئی، آخر سعودی حکومت نے پہلی بار مجبوراً ۲۰۰۳ میں سنی علماء اور شیعہ اسماعیلی آیات کے درمیان مذاکرات کرنے کی اجازت دی۔ ان مذاکرات کا بڑا شور رہا لیکن ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ لیکن ان غداروں نے سعودی عرب بنے پر عالمی دباؤ کا زبردست استحصال کرنا چاہااور سعودی عرب کو ظالموں کا منھ بند کرنے کے لیے اور دشمنان اسلام کی بگاڑی ہوئی اپنی شبیہ درست کرنے کے لیے مجبورا جھکنا پڑا، ایسے مواقع پر یہ غدار ملک کے دشمنوں کے چمپین بن گئے اور عالمی میڈا کی نگاہ میں مظلوم بن گئے یہ سب ان کی آواز میں آواز ملانے لگے۔
سعودی عرب کے متعلق صہیونی رافضی اور صلیبی آواز، اغراض و اکاذیب بر صغیر کے الھڑ اور بے شعور تحریکیوں کے لیے وحی کا درجہ لیے ہوئے ہیں اور یہی جاہلوں اور عارف اقبال جیسے پھکڑوں کے لیے ’’یاد حرم‘‘ بنے ہوئے ہیں اور وقت کا ’’صحیفۂ حق‘‘اہل سنت کو تباہ کرنے کے لیے یہی خارجی تحریکی کافی ہیں۔
سعودی عرب کے خلاف عالمی پروپیگنڈہ اور عالمی دباؤ کا استحصال کرنے والے غدار شیعہ اور ان کے ساتھی تحریکی اعداء اسلام سے زیادہ سعودی عرب کے دشمن ہیں اور برابر سعودی عرب پر دباؤبنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اسی خارجیت اور اباحیت پسندانہ دباؤ کا نتیجہ تھا کہ ۲۰۰۸ء ؁ میں آیت اللہ باقر النمر نے انتہا پسندانہ اور باغیانہ مطالبات کی ایک طویل فہرست سعودی حکومت کو پیش کی۔ مطالبات کی فہرست پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ رافضی اگر کسی جگہ چار مرغوں کی طرح ہوں تب بھی سنی وجود کے خلاف ککڑکوں کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ اتنے خود غرض، مکار اور ہوائی قلعہ بنانے والے ہوتے ہیں کہ کسی جگہ کہیں کسی سنی معاشرے کو چین سے بیٹھنے نہیں دے سکتے، ان کے لیے نہ کوئی ضابطہ ہے نہ دستور، نہ اکثریت نہ اقلیت، نہ حق نہ انصاف، نہ غداری نہ وفاداری یہ صرف اور صرف ابن الوقتی اور خود غرضی جانتے ہیں۔ یہ لوگ صرف نفاق زدہ سازش کر سکتے ہیں اور اپنے کو مظلوم بنا کر سنیوں کو ٹھگنا اور برباد کر دینا جانتے ہیں انھوں نے الھڑ تحریکیوں کو اپنے جال میں ایسا پھنسایا ہے کہ تحریکیوں نے اپنی عقل و شعور کو رافضیوں کے یہاں گروی رکھ دی ہے۔ والعیاذ باللہ۔
اب ذرا اس آیت اللہ النمر باقر النمر کی ملک دشمن مطالبات کی فہرست دیکھیے:
اس فہرست میں ۲۰؍مطالبات ہین اور اس کا کل حاصل یہ ہے کہ سعودی حکومت اس باغی شیعہ مولوی کو مل جائے اور آل سعود و سنی اپنے کو کلیتاً کالعدم سمجھ لیں۔ ایسے ظالم اور وحشی رافضی آیت اللہ کو اگر سنی ہوتا اور خمینی ایران میں ہوتا تو ایرانی حکومت اسے پھانسی چڑھانے میں سعودی عرب کی طرح ۷؍سال نہ لگاتی اسے سات سیکنڈ میں پھانسی پر چڑھا دیتی۔ سعودی عرب میں ڈیڑھ دو فیصد شیعوں کی اعداء اسلام کی شہ پر ہیکڑی دیکھیے کہ یہ جھوٹے اپنی اصل تعداد کو دس گنا بڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ایسے مطالبات کرتے ہیں کہ کسی ملک میں اتنی کم تعداد میں اہل سنت ایسے مطالبات کی سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن پاجیوں کے لیے بدمعاشی کی ساری راہیں کھلی ہوئی ہیں، النمر الباقر النمر کے مطالبات کی فہرست دیکھیں۔
۱۔ دستوری طور پر شیعہ مذہب کو تسلیم کرنا اور اس کی تفصیلات کو مدون کرنا، اس کا اعتراف کرنا اور سرکاری طور پر اس کا اعلان کرنا اور حکومت کے تمام اداروں اور نظاموں میں عملی طور پر اس کا احترام کرنا اور اس کے ساتھ انصاف کرنا۔
۲۔ ان تمام قوانین ضابطوں، نظاموں، اوامر اور تنفیذی امور کو ختم کر دینا جو شیعی مذہب اور شیعوں پر زیادتی حق تلفی یا انہیں الگ رکھنے کا سبب ہوں۔
۳۔ مدارس اور یونیورسٹیوں میں تمام مناہج کو درج ذیل کسی ایک تجویز کے ذریعہ بدل دینا۔
(الف) ایک نئے متفق علیہ منہج کا اختیار کرنا، اس کے مطابق مذاہب کے مشترک امور پر انحصار کرنا اور خلافی مسائل سے احتراز کرنا۔
(ب) ہر مسلک کے لیے الگ مناہج طے کرنا۔
(ج) آبادی کی اکثریت کے مطابق منہج تعلیم طے کرنا اس کا مطلب ہوگا کہ قطیف اور شیعہ اکثریت آبادی میں تعلیم شیعہ مذہب کے مطابق ہو۔
(د) طلباء مدارس کی اکثریت کے اعتبار سے مناہج تعلیم طے ہوں، اس کا مطلب ہوا قطیف وغیرہ شیعی علاقوں کے مدارس میں تعلیم شیعی نصاب کے مطابق ہو۔
۴۔ بقیع میں ائمہ کے مقابر کی اس طرح تعمیر جس طرح ایران وعراق میں بقیہ مزارات اور عتبات ہیں بلکہ حکومت کے اوپر لازم ہے کہ پرانی غلطی اور خطا سے عہد برآ ہونے کے لیے ان کے بناء اور تعمیر اور پختہ کرنے کے لیے سارے خرچے خود برداشت کرے۔
۵۔ جس طرح عراق، ایران،شام، لبنان اور دیگر عالم اسلام کے ملکوں میں ہے اسی طرح سعودی حکومت شیعوں کو سعودی عرب میں حوزات، کالج اور دینی ادارے بنانے کی اجازت دے۔
۶۔ جعفری عدالتوں کو کامل آزادی ملے۔
۷۔ ’’مجلس فقہاء اہل البیت‘‘ کے عنوان سے شیعہ علماء کی ایک انجمن قائم کرنے کے لیے حکومت اجازت دے۔ اس کی ممبر شپ ہر اس شخص کو ملے جو درجۂ فقاہت (اجتہاد) کو پہونچ چکا ہو۔ اور آزاد انجمن ہو اندرونی اور بیرونی مداخلت سے پاک۔
۸۔ مساجد، حسینیات، مراکز اور دینی اداروں کے بنانے اور کھولنے کی اجازت ملے اور اس راہ میں موجود ساری رکاوٹیں دور کی جائیں۔
۹۔ ہر قسم کے سرکاری میڈیا میں شیعوں کو اپنے مذہبی امور کے بیان کے لیے حصہ ملنا چاہیے۔
۱۰۔ مسجد مکی اور مسجد نبوی میں امامت صلوۃ میں شیعوں کی حصہ داری ہونی چاہیے۔
۱۱۔ شیعہ کتابوں8 کو ملک میں آنے اور ملک کے اندر انھیں چھاپنے کی اجازت ملے۔
۱۲۔ وہ ادارے جو حکومت کی زیر نگرانی ہیں جیسے رابطہ عالم اسلامی وغیرہ ان میں شیعوں کو نمائندگی ملے۔
۱۳۔ وزارت سفارت کے اعلی مناصب اور مجلس شوری کی ممبری میں شیعوں کو حصہ ملے۔
۱۴۔ادارہ تعلیم البنات میں شیعوں کی حصہ داری طے ہو اور پرنسپلی سے لے کر اوپر کے عہدے انھیں ملیں۔
۱۵۔ آرامکو اور دیگر نفع بخش سرکاری کمپنیوں کو چلانے اور اعلی مناصب کے حصول میں شیعوں کا حصہ طے ہو اور ملے۔
۱۶۔ تمام حکومتی اداروں کمپنیوں حکومتی امور میں شیعہ کو حسب تعداد حصہ ملے اور نوکری کے مواقع مہیا ہوں۔
۱۷۔ قطیف میں ایک مکمل شہر آباد کیا جائے۔
۱۸۔ ۱۴۰۰ھ ؁ اور اس کے بعد جیل جانے کے سبب وہ تمام شیعہ جو نوکریوں سے برخواست کر دیے گئے تھے ان کو دوبارہ کام پر لیا جائے اور ان کے سارے مستحقات ادا ہون اور ماضی کی غلطیوں کو ختم کرنے کے لیے ان کو معاوضہ دیا جائے۔
۱۹۔ تمام باشندگان ملک اور ان کے مسالک کے ساتھ حکومت یکساں سلوک کرے۔
۲۰۔ تمام سیاسی قیدیوں کو آزاد کیا جائے۔
یہ مطالبات ہیں نمر باقر النمر کے جس کو ۲؍جنوری کی تاریخ میں پھانسی دے دیا گیا۔ ڈیڑھ دو فیصد رافضیوں کے آیت اللہ کے تیور دیکھیے ایسا لگتا ہے جیسے وہ ایک اسلامی نہیں کسی رافضی ملک میں ہے۔ اس کی باغیانہ و غدارانہ و تحکمانہ لب و لہجے کو دیکھیے، یہ جرأت اور بغاوت کی لے اسے کہاں سے ملی تمام اعداء اسلام کی شہ سے۔دنیا کے کسی ملک میں ڈیڑھ دو فیصد کے لیے مجال ہے کہ ایسے مطالبات رکھے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے جمہوری ملک میں ایسا تیور دکھلانے والے احمق کو انٹلیجنس کے ذریعہ جلد از جلد ٹھکانے لگا دیا جاتا۔ یہ سعودی حکمرانوں کا یارا ہے کہ ایسے احمقوں، غداروں اور دہشت گردوں کو بھی دیرتک انگیز کر لیا۔
اس باغی کے ملک دشمن مطالبات کی لمبی فہرست ہی اس کو مجرم بنانے کے لیے کافی تھی۔ اس کے برعکس وہ بغاوت کی آگ شیعوں میں ہمیشہ لگاتا رہتا تھا اور خمینی ایران کی شہ پر ہمیشہ شیعوں کمیونسٹوں سیکولر پسندوں اباحیت پسندوں اور ملک دشمنوں کو اپنی بدبودار تقریروں سے ملک کے خلاف بھڑکاتا رہتا تھا اور تشد د پر آمادہ کرتا رہتا تھا، اس کی سرکشیاں اور دہشت گردانہ سرگرمیاں اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ سعودی حکومت نے مجبور ہو کر اسے گرفتار کیا اور سالوں مقدمہ چلا اس کے بعد اسے پھانسی دی گئی۔
۴۷؍لوگوں کو ۲؍جنوری ۲۰۱۶ء ؁ کو پھانسی دی گئی جن میں صرف تین شیعہ تھے بقیہ خارجی تھے۔ تین رافضی گندے انڈوں کے لیے دنیا بھر میں شیعوں نے ہنگامہ کیا اور ایران میں سعودی سفارت خانہ میں دہشت گردی ہوئی اسے جلایا گیا اور پولیس اس میں شریک ہوئی۔ وقت کا قارون علی خامنہ ای جس نے شیعوں کے خمس سے اپنے ذاتی خزانے میں ۷۶؍ارب ڈالر اکٹھا کر لیا ہے سعودی عرب کو عذاب الٰہی سے ڈرایا ہے اور اللہ کے انتقام سے آگاہ کیا ہے، کفر و شرک کے یہ بندے اور اصحاب کرام کو گالی دینے والے امہات المؤمنین کو بدنام کرنے والے اعداء اسلام کی دلالی کرنے والے ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے یہ اللہ تعالی کے کتنے چہیتے ہیں۔ یہ ابلیسی تقوی ہے جو میدان بدر میں مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دے کر پیٹھ پھیر کر بھاگا تھا اور کہا تھا ’’انی اخاف اللہ‘‘
سعودی عرب میں ساری سہولتیں پانے اور غداری کرنے کے باوجود شیعہ مزے لے رہے ہیں اور انھیں برداشت کیا جا رہا ہے اور مجرموں کی حمایت میں سارے رافضی اعداء کھڑے رہتے ہیں اور قطعا نہیں سوچتے کہ ایران میں انھوں نے سنیوں کے ساتھ کیا کیا ہے۔
ایران کو ۴۴؍فیصد سنیوں کے لیے خمینی ایران نے جیل خانہ بنا دیا ہے۔ ان کی مسجدیں ڈھا دی گئی، ان کے سارے حقوق سلب کر لیے گئے، یہود و نصاری اور کفار کو کھلی چھوٹ ملی ہے کہ اپنے عبادت خانے تعمیر کر سکیں لیکن اہل سنت کو نہیں۔ اہل سنت کو جہالت اور غربت کے ظلمت کدے میں ڈھکیل دیا گیا۔ اہواز عرب سنیوں کا خطہ ہے ۵؍لاکھ مربع کلو میٹر میں پھیلا ہوا دو کروڑ کی آبادی، ایران کو ۹۰؍فیصد تیل اور ۹۵؍فیصد گیس وہیں سے ملتا ہے، لیکن اس خطے کے سنی باشندوں کو مدرسہ کھولنے، مساجد بنانے، اخبار نکالنے کی اجازت نہیں۔ ایران کے دوسرے خطوں مثلا بلوچستان اور خراسان میں ان کے حالات بندھوا مزدوروں جیسے ہیں اگر تفصیل چاہیے تو ’’وجاء دور المجوس‘‘ کا تیسرا حصہ ’’احوال اہل السنۃ فی الایران‘] تالیف د۔ عبداللہ محمد الغریب کا مطالعہ کریں۔
ڈیڑھ دو فیصد سعودی شیعوں کو سعودی عرب میں جو حقوق اور تسہیلات آزادی اور مواقع ملے ہوئے ہیں ۴۴؍فیصد سنیوں کو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملا ہے، بلکہ ان کی ناکہ بندی ہے اور ان کا وجود ختم کرنے کی طویل منصوبہ بندی ہے اور اس پر شدت سے عمل ہو رہا ہے تاکہ ایران سے سنیوں کا نام و نشام مٹ جائے لیکن افسوس تحریکی اپنے تعصب اور جذبات کے گھوڑے پر ہر دم سوار رہتے ہیں، رافضیت سے انھیں عشق ہو گیا ہے اس لیے اپنا دین، اپنی غیرت اور اپنی سنی حمیت و آبرو کو رونے والی متعہ کرنے والی قوم کے حوالے کیے ہوئے ہیں۔ والعیاذباللہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
زبردست معلوماتی ، اور فکر انگیز تحریر ۔
 
Top