• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سفيد داڑھى كو خضاب لگانے كا حكم ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سفيد داڑھى كو خضاب لگانے كا حكم ؟

سفيد داڑھى كو خضاب لگانے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

داڑھى كو سرخ يا زرد خضاب لگانا سنت ہے، اور صحيح يہى ہے كہ سياہ خضاب لگانا حرام ہے، اور ايك قول مكروہ بھى ہے، اس ميں مرد اور عورت سب برابر ہيں، صرف مجاہد يعنى جہاد كرنے والا مرد اس سے خارج ہے.
الماوردى كہتے ہيں:

" مجاہد فى سبيل اللہ كے حق ميں سياہ خضاب لگانا حرام نہيں "
صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ جب ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے والد ابو قحافہ كى داڑھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سفيد ديكھى تو فرمانے لگے:
" اس كو تبديل كر دو، اور سياہ سے اجتناب كرو "
امام نووى كى كلام ختم ہوئى.

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اپنى داڑھى زرد كرتے ہوئے ديكھا "
اور ايك روايت يہ الفاظ زيادہ ہيں كہ:
" ميں بھى ايسا كرنا پسند كرتا ہوں "
اور امام احمد اور ابن ماجہ نے وہب رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال مبارك نكالے تو وہ مہندى اور كتم سے خضاب شدہ تھے "

اور كتم تاء پر فتح كے ساتھ، ايك پودا ہے جو مہندى ميں ملا كر خضاب لگايا جاتا ہے، تو اس كا رنگ باقى رہتا ہے، القاموس ميں ايسے ہى ہے، اور الكتم ممنوع الصرف نہيں ہے، قسطلانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ سرخى مائل سياہ كرتا ہے.

جو لوگ حالت امن ميں صرف خالص سياہ خضاب استعمال كرتے ہيں ان كےليے شرعا ايسا كرنا جائز نہيں، اس سے شادى كا پيغام بھيجا جانےوالى عورت اور اس كے گھر والوں كو دھوكہ و فراڈ ميں مبتلا كرنا ہے، جب منگيتر سياہ خضاب لگائے گا تو وہ انہيں يہ باور كرا رہا ہے كہ وہ قوى اور نوجوان ہے، حالانكہ وہ كمزور اور بوڑھا تھا.

ديكھيں: فتاوى الامام النووى تعليق الحجار صفحہ ( 23 ).
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بالوں كو سرخ اور زرد خضاب لگانے كا حكم

كيا بالوں كو سرخ يا زرد رنگ لگانا جائز ہے، اور كونسے رنگ لگانے ممنوع ہيں ؟

كيا جن نوجوانوں كے بال ابھى سفيد نہيں ہوئے وہ صرف بطور زيبائش ايسا كر سكتے ہيں، اور اگر كوئى نوجوان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا كرتے ہوئے اپنے بال رنگے چاہے اس كے بال سفيد نہ بھى ہوئے ہوں تو كيا اسے اجروثواب حاصل ہو گا ؟

الحمد للہ:

اول:

بالوں كو سياہ رنگ كے علاوہ باقى سب رنگ لگانا جائز ہے، اس ميں كسى بوڑھے اور نوجوان كا كوئى فرق نہيں، اور بال سفيد ہونے سے قبل ہى بالوں كو رنگنے ميں كوئى حرج نہيں.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل سوال مذكور ہے:
ميں نے كچھ لوگوں كو ديكھا ہے كہ وہ بالوں كا رنگ تبديل كرنے كے ليے كريم وغيرہ استعمال كرتے ہيں، يا تو بال سياہ يا سرخ ہوتے ہيں، اور يہ بھى ديكھا ہے كہ وہ ايك اور چيز استعمال كرتے ہيں جن سےگھنگھريالے بال نرم و ملائم ہو جاتے ہيں، تو كيا ايسا كرنا جائز ہے، اور كيا نوجوان بھى بوڑھے كے حكم ميں آتا ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

الحمد للہ والصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ و بعد:

سياہ رنگ كے علاوہ كسى اور رنگ كے ساتھ بالوں كو رنگنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح گھنگھريالے بالوں كو نرم اور ملائم كرنے كے ليے كريم وغيرہ استعمال كرنى جائز ہے.

اور اس ميں نوجوان اور بوڑھے شخص كا حكم ايك ہى ہے، ليكن ايك شرط ہے كہ اگر رنگنے اور بال نرم كرنے والا مادہ استعمال كرنے ميں كوئى نقصان و ضرر نہ ہو، اور وہ چيز طاہر و پاك اور مباح بھى ہو.

ليكن بالوں كو خالص سياہ كرنا جائز نہيں ہے، نہ تو مردوں كے ليے اور نہ ہى عورتوں كے ليے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اس سفيدى كو تبديل كرو اور سياہى سے اجتناب كرو "
اللہ تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے. انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 168 ).
فتوى ميں مذكورہ حديث صحيح مسلم كى روايت كردہ ہے ديكھيں صحيح مسلم حديث نمبر ( 2102 ).



بالوں كو سياہ كرنے كى ممانعت كى دليل ابو داود كى درج ذيل حديث بھى ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" آخرى زمانے ميں ايك قوم سياہ خضاب استعمال كرينگے جس طرح كہ كبوتر كا سينہ ( پوٹا ) ہوتا ہے وہ جنت كى خوشبو تك بھى نہيں پائينگے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4212 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.



سرخ اور زرد رنگ كا خضاب لگانے كى دليل ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سے ايك شخص گزرا جس نے مہندى سے اپنے بال رنگے ہوئے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ كتنا ہى اچھا اور بہتر ہے.
وہ بيان كرتے ہيں كہ ايك اور شخص گزرا جس نے مہندى اور وسمہ ملا كر بال رنگے ہوئے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ اس سے بہتر ہے، اور پھر ايك اور شخص گزرا جس نے اپنے بالوں كو زرد رنگ كا خضاب لگا ركھا تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: يہ ان سب سے اچھا اور بہتر ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4211 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے مشكاۃ المصابيح ميں اس حديث كو جيد كہا ہے.



اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ سفيدى كو كسى اور رنگ سے بدلا جائے، اس ميں مطلقا رنگنے كا ذكر نہيں، چاہے بغير سفيدى آئے ہى بالوں كو رنگ ليا جائے.

دوم:
يہاں زيبائش و زينت وغيرہ ميں ايك عمومى قاعدہ اور اصول كى طرف متنبہ رہنا ضرورى ہے كہ اس ميں وہ چيز ممنوع ہوگى جو حرام كے مشابہ ہو، مثلا كفار يا فاسق و فاجر لوگوں كے ساتھ مشابہت اختيار كرنا كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے يہ ضرورى ہے كہ جس خضاب يا رنگ كے جواز كے متعلق يہاں سوال كيا جارہا ہے كہيں وہ كفار يا فاسق قسم كے لوگوں كى تقليد كرتے ہوئے تو نہيں كيا جاتا، يا وہ كام كسى اداكار اور موسيقار يا پھر كسى كھلاڑى وغيرہ كا طريقہ تو نہيں جنہيں آج كل كے نوجوان اپنا آئيڈيل سمجھتے ہيں .؟

اسى طرح وہ خضاب يا بالوں كو رنگنا بھى منع ہے جو عورتوں سے مشابہت ركھتا ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس مشابہت سے منع كيا ہے اور ايسا كرنے والے پر لعنت كى ہے.
ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 5435 ).

سوم:
رہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنے بالوں كو رنگنے اور خضاب لگانے كا تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے بالوں كو رنگا تھا يا نہيں ؟

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خضاب كے متعلق صحابہ كرام كا اختلاف ہے، انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے بالوں كو خضاب نہيں لگايا، اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے خضاب لگايا.

اور حماد بن سلمہ نے حميد سے بيان كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال رنگے ہوئے ديكھے.
حماد كہتے ہيں: اور مجھے عبد اللہ بن محمد بن عقيل نے بتايا كہ ميں نے انس رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال ديكھے وہ رنگے ہوئے تھے "

اور ايك گروہ كا كہنا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خوشبو بہت زيادہ استعمال كرتے تھے جس كى بنا پر آپ كے بال سرخ ہوگئے اس ليے ايسا گمان ہوتا تھا كہ انہيں خضاب لگا كر رنگا گيا ہو، حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خضاب نہيں لگايا.

اور ابو رمثہ كہتے ہيں ميں اپنے ايك بيٹے كے ساتھ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا: كيا يہ تيرا بيٹا ہے ؟
ميں نے عرض كيا جى ہاں ميں اس كى گواہى ديتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اس پر زيادتى نہ كرو، اور نہ يہ تم پر زيادتى كرے.
راوي كہتے ہيں: ميں نے سرخ بال ديكھے "

ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس باب ميں سب سے بہتر يہى روايت كيا گيا ہے، اور ميں اس كى تفسير اور تاويل كرتا ہوں كيونكہ صحيح احاديث سے ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال سفيد نہيں ہوئے تھے.

حماد بن سلمہ سماك بن حرب سے بيان كرتے ہيں كہ: جابر بن سمرہ سے دريافت كيا گيا كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سر ميں سفيد بال تھے؟
تو ان كا جواب تھا: آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے سر ميں سفيد بال نہيں تھے، صرف مانگ كے درميان چند ايك بال سفيد تھے جو خوشبو اور تيل كى بنا پر تھے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 169 ).

چہارم:
رہا يہ مسئلہ كہ سفيد بال نہ ہوتے ہوئے بھى بالوں كو رنگنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى واقتدا كى نيت كرنا، تو اس كے متعلق آپ يہ معلوم كر چكے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خضاب لگانے ميں قوى اختلاف موجود ہے.

پھر سنت ميں بالوں كے رنگنے كا مقصد يہ نہيں كہ انہيں بغير سفيدى كے ہى خضاب لگا ليا جائے، بلكہ سنت ميں جو حكم وارد ہے اس سے مراد تو يہ ہے كہ سفيدى كو تبديل كيا جائے، اور اس ميں يہوديوں اور عيسائيوں كى مخالف كى جائے، كيونكہ حديث
ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" سفيدى كو تبديل كرو اور يہوديوں كى مشابہت نہ كرو "
سنن نسائى حديث نمبر ( 4986 ) جامع ترمذى حديث نمبر (1674)
اور مسلم شريف ميں حديث ہے كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے والد كے سفيد بال ديكھے تو فرمانے لگے:
" اسے كسى چيز كے ساتھ تبديل كر دو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 3924 )

اور بخارى شريف كى روايت ميں ہے:
" بلا شبہ يہودى خضاب نہيں لگاتے لہذا تم ان كى مخالفت كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5448 ).

اس ليے اگر بال سفيد نہ ہوں تو پھر بالوں كو رنگنا اور خضاب لگانا سنت نہيں، اور نہ ہى اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا و پيروى شمار كيا جائيگا، كيونكہ يہ بغير كى كسى وجہ سے كيا گيا ہے اور اس كا كوئى متقاضى ہى نہيں، اور اس ليے بھى سفيد بالوں كو رنگ كر جو شرعى مصلحت حاصل ہوتى ہے وہ سفيد بالوں كے بغير حاصل نہيں ہوتى.

اور اگر اس ميں كفار يا فاسق لوگوں سے مشابہت اور پھر كوئى صحت كو نقصان و ضرر نہ ہو تو پھر يہ زيادہ سے زيادہ مباح ہوگا، ليكن اگر اس ميں كفار كى مشابہت يا ضرر ہو تو يہ حرام ہوگا.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سياہ رنگ كے علاوہ بالوں كو كوئى اور رنگ كرنا

كيا بالوں كو سرخ يا نيلا رنگ كرنا جائز ہے، اور كيا يہ بھى مشابہت ہے ؟

الحمد للہ:

عورت كے ليے بالوں كو سياہ كى بجائے كوئى اور رنگ كرنا جائز ہے، جبكہ ايسا كرنے ميں كفار عورتوں سے مشابہت نہ ہو، مثلا يہ وہ كسى كافرہ عورت يا كافرہ عورتوں كى جماعت كا مخصوص رنگ اور بال رنگنے كا مخصوص طريقہ ہو، يا صرف ايك چٹيا كو رنگ كيا جائے تو اس وقت ان كفار عورتوں كے ساتھ مشابہت جائز نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا بالوں كا كچھ حصہ مثلا بالوں كے كنارے يا صرف اوپر كا حصہ رنگنا جائز ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" اگر بالوں كو سياہ كيا جائے تو يہ جائز نہيں، كيونكہ اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے، اور سفيد بالوں كو رنگ كرنے اور سياہ كرنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" اس بڑھاپے ( سفيد بالوں ) كو تبديل كرو اور سياہ رنگ سے اجتناب كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 5476 ).
اور بالوں كو سياہ كرنے والے كے ليے وعيد بھى وارد ہے، جو كہ درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ميں پائى جاتى ہے:
" آخرى زمانے ميں كچھ لوگ ايسے ہونگے جو سياہ خضاب لگائينگے، جيسے كبوتر كى پوٹ ہوتى ہے، وہ جنت كى خوشبو تك حاصل نہيں كرينگے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4212 ) سنن نسائى ( 8 / 138 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 8153 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور يہ حديث سفيد بالوں كو سياہ ميں تبديل كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، ليكن سياہ كے علاوہ باقى رنگ كے متعلق تو اصل جواز ہى ہے، ليكن اگر يہ كافرہ اور فاجرہ عورتوں كے طريقہ اور ا نكى اشكال و انواع ميں ہو تو پھر اس اعتبار سے يہ بھى حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 5 / 109 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے " انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 11 / 120 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
Top