• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلام کرنے کا صحیح طریقہ

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
سام عليكم ... تم برباد ہو۔
أسام عليكم ... تم کو موت آئے۔
سلالیکم ... تم پر لعنت ہو۔
أساعكم ... تم خوشی کو ترسو۔

؟؟؟؟؟ .... ؟؟؟؟؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فرمان الٰہی ہے :
’’ فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ‘‘ (النور:۶۱)
’’پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کہا کرو ، ( سلام ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے ۔‘‘

’’ایک آدمی رسول اللہﷺکے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا : السلام علیکم۔
تو آپﷺنے اس کا جواب دیا ، پھر وہ بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کیلئے دس نیکیاں ہیں ۔ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمةاللہ ۔
تو آپ ﷺ نے اس کا جواب دیا پھر وہ بھی بیٹھ گیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا : اس کیلئے بیس نیکیاں ہیں۔ پھر ایک اور آدمی آیااور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔ تو آپﷺ نے اس کا جواب دیاپھر وہ بھی بیٹھ گیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا : اس کیلئے تیس نیکیاں ہیں۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی : حسن )
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
اور جو شخص صرف آنے سے پہلے کہے٭٭٭٭٭سلام ٭٭٭ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اور جو شخص صرف آنے سے پہلے کہے٭٭٭٭٭سلام ٭٭٭ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی !
سلام کا سب سے افضل صیغہ تو ’‘ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ’‘ ہے، اور افضل جواب ہے ’‘ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ’‘
اور ’’ الف لام ‘‘ کے بغیر ۔۔یعنی ۔۔سلام علیکم ۔۔بھی جائز و صحیح ہے ۔۔
اور صرف لفظ ۔۔سلام ۔۔ابتداً اور جواباً کچھ اہل علم کے نزدیک جائز ہے؛
اور شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ ۔فتاوى نور على الدرب۔فرماتے ہیں :
السلام عليكم، اور۔۔ السلام عليك،دونوں ہی طرح سے سلام ہوسکتا ہے ،اور۔۔سلام عليك۔۔بھی جائز ہے ۔
اور اگر صرف لفظ ۔۔السلام ۔۔ہی کہا تو بھی جائز ہے ۔۔کیونکہ قرآن مجید میں سیدنا ابراہیم کے واقعہ میں جب فرشتوں نے انہیں ’‘ سلاماً ’‘ کہا ،تو جواب
میں انہوں نے بھی صرف ’‘ سلام ’‘ کہا ۔۔انکا مطلب تھا سلام علیکم ۔۔یعنی تم پر بھی سلام ہو ۔۔
لہذا صرف لفظ ۔۔سلام ۔۔کہنے میں کوئی حرج نہیں’‘


’’ حكم إلقاء السلام بكلمة سلام فقط ‘‘
رقم الفتوى: 162637
التصنيف: آداب السلام والمصافحة

ا
لسؤال
وفقكم الله، بعض الناس إذا ألقيت عليه السلام يرد بقوله: السلام ورحمة الله وبركاته، وبعضهم إذا ألقي السلام يقول كلمة سلام فقط، فما الحكم؟ وجزاكم الله خيرا.
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:

فإن الصيغة الأفضل في السلام أن يقول المسلم: السلام عليكم ورحمة الله، وفي صيغة الرد أن يقول: وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته، ويصح أن يقول: سلام عليكم بتنكير السلام وتقديمه، وبدون واو، جاء في حاشية العدوي على الرسالة: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَيَقُولَ الرَّادُّ وَعَلَيْكُمْ السَّلَامُ وَيَجُوزُ الِابْتِدَاءُ بِلَفْظِ الرَّدِّ وَالرَّدُّ بِلَفْظِ الِابْتِدَاءِ وَلَا يجزئ السَّلَامُ فَقَطْ بدءا وَرَدًّا كَالصَّلَاةِ، لِأَنَّهُ عِبَادَةٌ فَتُتْبَعُ كَالصَّلَاةِ. اهـ
وذهب بعض أهل العلم إلى جواز الاقتصار على قوله: السلام، أو سلام، في الابتداء والرد، قال الشيخ ابن باز ـ رحمه الله ـ في فتاوى نور على الدرب: ويكون السلام بلفظ التعريف: السلام عليكم، أو السلام عليك، ويجوز أن يكون بلفظ سلام عليك، وإن اقتصر على قوله: السلام، فلا بأس، فإن إبراهيم عليه الصلاة والسلام لما رد السلام على الملائكة حين قالوا: سلاما، قال: سلام أي عليكم سلام، وكذلك الابتداء يقول المسلم: سلام يعني سلام عليكم، أو السلام، يعني السلام عليكم، ولا بأس في هذا.
وانظر الفتاوى التالية أرقامها: 129927، 46745، 117883، للمزيد من الفائدة.
والله أعلم.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
صحیح البخاری ، باب بدء السلام:
باب: سلام کے شروع ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 6227
عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعا فلما خلقه قال اذهب فسلم على اولئك النفر من الملائكة جلوس فاستمع ما يحيونك فإنها تحيتك وتحية ذريتك. فقال السلام عليكم. فقالوا السلام عليك ورحمة الله. فزادوه ورحمة الله فكل من يدخل الجنة على صورة آدم فلم يزل الخلق ينقص بعد حتى الآن».

سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا: السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ، انہوں نے آدم کے سلام پر ”ورحمۃ اللہ“ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔“ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد و قامت کم ہوتا گیا، اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Allah created Adam in His picture, sixty cubits (about 30 meters) in height. When He created him, He said (to him), "Go and greet that group of angels sitting there, and listen what they will say in reply to you, for that will be your greeting and the greeting of your offspring." Adam (went and) said, 'As-Salamu alaikum (Peace be upon you).' They replied, 'AsSalamu-'Alaika wa Rahmatullah (Peace and Allah's Mercy be on you) So they increased 'Wa Rahmatullah' The Prophet added 'So whoever will enter Paradise, will be of the shape and picture of Adam Since then the creation of Adam's (offspring) (i.e. stature of human beings is being diminished continuously) to the present time."
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سنن ابی داود ، باب كيف السلام
باب: سلام کس طرح کیا جائے؟

حدیث نمبر: 5195

عن عمران بن حصين ، قال:‏‏‏‏ " جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ، فرد عليه السلام ، ثم جلس ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ عشر ، ثم جاء آخر ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ورحمة الله ، فرد عليه ، فجلس ، فقال:‏‏‏‏ عشرون ، ثم جاء آخر ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، فرد عليه ، فجلس ، فقال:‏‏‏‏ ثلاثون ".


عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے ”السلام علیکم“ کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ“ کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اس کو بیس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ“ کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اسے تیس نیکیاں ملیں“۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الاستئذان ۳ (۲۶۸۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۹، ۴۴۰)، سنن الدارمی/الاستئذان ۱۲ (۲۶۸۲) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح

Narrated Imran ibn Husayn: A man came to the Prophet ﷺ and said: Peace be upon you! He responded to his salutation. He then sat down. The Prophet ﷺ said: Ten. Another man came and said: Peace and Allah's mercy be upon you! He responded to his salutation when he sat down. He said: Twenty. Another man came and said: Peace and Allah's mercy and blessings be upon you! He responded to him and said when he sat down: and blessings be upon you! He responded to him and said when he sat down: Thirty.
English Translation Reference:, Book 42, Number 5176
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
ہاتھ ملانے کا صحیح سنت طریقہ اگر کوئی بھائی رہنمائی کردے تو،،،،،،،،،،،،،جزاک اللہ
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
السلام علیکم

دنیا کے ہر مذہب کے لوگ جب آپس میں ملتے ہیں تو کچھ مخصوص الفاظ ادا کرتے ہیں ۔ ہندو ملاقات کے وقت رام رام ، نمسکار یا نمستے ، سکھ جئے گرو اور انگریز گڈ مورننگ ، گڈ ایوننگ یا گڈ نائٹ وغیرہ کہتے ہیں ۔ جبکہ مسلمان ایک ، دوسرے سے ملتے ہوئے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہتے ہیں ۔ یہ ایک عمدہ ( Excellent ) اور جامع دعا ہے ، جس کی اہمیت قرآن و حدیث سے واضح ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے سلام کہنے اور اسکا جواب دینے کی تاکید کی ہے ۔ رب رحمن فرماتے ہیں : ’’ اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو ، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ‘‘ ، ( النساء : ۸۶ ) ۔ اور فرمایا: ’’ پس جب تم گھروں میں جاؤ ، تو اپنے گھر والوں کو سلام کر لیا کرو، دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالیٰ کی طر ف سے نازل شدہ ، یوں ہی اللہ تعالیٰ کھول کھول کر تم سے اپنے احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو ‘‘ ، ( النور : ۶۱ ) ۔ اور مزید فرمایا : اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سو ا پرائے گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو ، یہی تمہارے لیے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ‘‘ ، ( النور : ۲۷ ) ۔ سلام کرنے سے اخوت و ہمدردی اور محبت و مروت بڑھتی ہے ۔

سید المر سلین ﷺ نے بھی سلام کرنے کی بہت اہمیت و فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ سید نا عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے ، ایک آدمی نے نبی پاک ﷺ سے سوال کیا کہ : ’’ اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے ؟ ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم کھانا کھلاؤ اور سب کو سلام کرو ( چاہے ) تم اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو ‘‘ ، ( بخاری : ۱۲ ) ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ‘‘ ، پوچھا گیا : ’’ اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون سے حقوق ہیں ؟ ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم کسی مسلمان سے ملو تو اس کو سلام کرو ۔ جب وہ تم کو دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو ۔ جب وہ تم سے نصیحت ( یعنی مشورہ ) طلب کرے تو اس کو اچھی نصیحت کرو ۔ جب وہ چھینک کے بعد الحمداللہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب یر حمک اللہ کہو ۔ اور جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو ۔ اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ میں جاؤ ‘‘ ، ( مسلم : ۵۳۷۹ ) ۔ اور سیدنا ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ لوگوں میں اللہ کے ہاں سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو انہیں سلام کہنے میں پہل کرے ‘‘ ، ( ابو داؤد : ۵۱۹۷ ) ۔ سلام میں پہل کرنے والا غرور و تکبر سے پاک ہوتا ہے ۔

ہر مسلمان کو سلام کے احکام و مسائل کا علم ہونا چاہیے ۔ چھوٹا ، بڑے کو ، گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو ، تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کو ، سوار پیدل کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے ۔ اگر ایک مرتبہ ملنے کے بعد درمیان میں کوئی دیوار ، پتھر یا درخت آ جائے تو دوبارہ ملاقات کے وقت سلام کرنا چاہیے ۔ کسی مجلس میں جاتے اور رخصت ہوتے وقت سلام کرنا چاہیے ۔ غائبانہ سلام کے جواب میں : ’’ علیک و علیہ السلام و رحمۃ اللہ و بر کاتہ ‘‘ ، کہہ دینا چاہیے۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور دوران ملاقات گفتگو سے پہلے سلام کرنا چاہیے ۔ پیشاب کرنے والا کسی کے سلام کا جواب نہ دے ۔ شرابی کو سلام نہیں کرنا چاہیے ۔ صرف ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا جائز نہیں ۔ جب غیر مسلم سلام کہیں تو جواب میں و علیکم کہہ دینا چاہیے ۔ کوئی بھی مسلمان جب اپنی زندگی کتاب و سنت کے مطابق گزارے گا تو اسے ایمان کی حلاوت نصیب ہو گی ۔

ہمیں چاہیے کہ : ’’ ہیلو ، ہائے ، بائے بائے ، گڈ بائے اور ٹا ٹا کی بجائے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جیسی عظیم سنت عام کریں ‘‘ ۔ جو ہمیں پالنے والے کا حکم اور سید المرسلین ﷺ کا طریقہ بھی ہے ۔ سلام ایسی دعا ہے جس سے محبت و بھائی چارہ بڑھتا ہے ، جو صدقہ اور مسلمان کا حق بھی ہے ۔
از: عبداللہ امانت محمدی
 
Top