• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلام کی اہمیت

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اسلام علیکم
پیش کردہ: مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنور​

سلام کی اہمیت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
نحمدہ نصلی علیٰ رسولہ الکریم مابعد!


اَبْخَلُ النَّاسِ مَن بَخِلَ بِالسَّلَامِ
سب سے بڑا بخیل وہ ہے جوسلام میں بخل کرے (طبرانی، بیہقی،)
اس وجہ سے کہ سلام کرنے میں نہ کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ کچھ مشقت ہوتی ہے اور نہ کوئی اذیت بس صرف زبان کو حرکت دینی ہوتی ہے ۔ اس لیے جو انسان اتنا عمل بھی نہ کرسکے اس سے بڑا بخیل کون؟ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے ،قرآن پاک میں سلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَــيُوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا۝۸۶ [٤:٨٦]
اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سلام بھی چونکہ دعاء ہے اس لیے جب کوئی سلام کرے تو سلام کرنے والے کو اس سے بہتر جواب دینا چاہئے’’ یعنی وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘‘ کہنا چاہئے
فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُبٰرَكَۃً طَيِّبَۃً۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۶۱ۧ [٢٤:٦١]
اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں کو) سلام کیا کرو۔ (یہ) خدا کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے موقعہ پر بشارت دینے والے فرشتے حاضر ہوئے تو سلام عرض کیا
وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰہِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا۝۰ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ۝۶۹ [١١:٦٩]
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
صالحین کی روحیں قبض کرتے وقت پیغام مسرت سناتے وقت کہتے ہیں:
الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ طَيِّبِيْنَ۝۰ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ۝۰ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۳۲ [١٦:٣٢]
(ان کی کیفیت یہ ہے کہ) جب فرشتے ان کی جانیں نکالنے لگتے ہیں اور یہ (کفر وشرک سے) پاک ہوتے ہیں تو سلام علیکم کہتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں بہشت میں داخل ہوجاؤ ( نحل:۳۲)
جنت میں اہل جنت سے فرشتے بطور مبارک باد کہیں گے :
وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَـــتُہَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِيْنَ۝۷۳
تو اس کے داروغہ ان سے کہیں کہ تم پر سلام تم بہت اچھے رہے۔ اب اس میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ (زمر:۷۳)
بہشتی ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت کہیں گے:
دَعْوٰىھُمْ فِيْہَا سُبْحٰنَكَ اللّٰہُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْہَا سَلٰمٌ۝
(جب وہ) ان میں (ان نعمتوں کو دیکھوں گے تو بےساختہ) کہیں گے سبحان الله۔ اور آپس میں ان کی دعا سلامٌ علیکم ہوگی ( یونس: ۱۰)
اللہ تعالیٰ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمانا:
وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ
اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) سلام علیکم کہا کرو ( انعام:۵۴)
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اس طرح سرفرازی عطا فرمائیں گے:
لَہُمْ فِيْہَا فَاكِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ۝۵۷ۚۖ
وہاں ان کے لئے میوے اور جو چاہیں گے (موجود ہوگا) (یٰسین:۵۷)
سلام کی اس سے بڑی اہمیت اور کیا ہوگی کہ نماز کی تکمیل ہی سلام پر ہوتی ہے:
السَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہ۔اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْن
ان حقائق کے پیش نظر معلوم ہوا کہ’’ سلام ‘‘ ایک خوشگوار اسلامی شعار ہے اس لیے ہر مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو ممنونیت کے ساتھ بہتر سے بہتر طریقہ پر سلام و جواب کرے ۔اس کے برخلاف ہاتھ کے اشارے سے گردن یا چشم یا ابرو کے اشا رے سے سلام کرنا ،یہ سلام کرنے والے بے حرمتی اور دل شکنی اور ناشکری ہے ،اس لیے کہ یہ:
ہَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۝۶۰ۚ
نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے (رحمٰن: ۶۰)
کی منفی مثال ہوگی،اور گناہ کا مرتکب الگ سے ہوگا، اس لیے کہ ’’سلام ‘‘کرنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا منفرد پرواجب عین ہے ،اور جماعت پر واجب کفایہ،ایک فرد بھی سلام کا جواب دیدے تو سب کی طرف سے کافی ہوجائیگا،وگرنہ سب عاصی ہوں گے۔
سلام کرنا منع ہے ایسے آدمی کو:
جس وقت وہ گناہ میں ملوث ہو
شرابی کو جب وہ نشہ میں ہو
پاخانہ پیشاب اور غسل کرنے والے کو
جس کا ستر عورت کھلا ہوا ہو
کھانا کھانے والے کو
وضو کرنے والے کو
مسجد میں آکر جہراً سلام کرنا اس وقت کے کوئی ذکر وغیرہ میں یا نماز میں مشغول ہو
قرآن پاک تلاوت کرنے والے کو
مجلس وعظ میں
ایسے عالم کو جو تصنیف و تالیف میں مشغول ہو
فقط واللہ اعلم بالصواب
دعاء کا طالب
احقر عابدالرحمٰن غفر لہ بجنوری
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم ورحمہ اللہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو مجھے یاد ہے
سلام ٌعَلَیکُم بِما صَبَرْتُم فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار
اللہ حافظ
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
عابد بھائی!۔۔۔ میں سوال عادت پر نہیں پوچھا تھا۔۔۔ بس اس لفظ کے معنی پوچھے تھے۔۔۔
السلام علیکم
جناب عالی !
جہاں تک میری معلومات ہیں" احقر " ناچیز ،کمترین ، یعنی بطور عاجزی کے استعمال کیا جاتا ہے
فقط والسلام
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
وضو کرنے والے کو
مسجد میں آکر جہراً سلام کرنا اس وقت کے کوئی ذکر وغیرہ میں یا نماز میں مشغول ہو
قرآن پاک تلاوت کرنے والے کو
مجلس وعظ میں
ایسے عالم کو جو تصنیف و تالیف میں مشغول ہو۔۔
اس پر آپ نے کوئی دلیل نہیں دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن مسلمان کا کام ہی تو یہی ہے کہ وہ یا تو قرآن پڑھے گا یا نمازیا وضو، یا واعظ ونصیحت کرے گا یا تصنیف وتالیف کرے گا ۔
جب ایسے شخص پر سلام منع ہے تو پھر کیسے شخص پر سلام کہا جائے گا ۔
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻋﻤﻮﻣﯽ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ: )) ﺃَﻓْﺸُﻮﺍ ﺍﻟﺴَّﻠَﺎﻡَ ﺑَﯿْﻨَﮑُﻢْ ] ((ﻣﺴﻠﻢ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻹﯾﻤﺎﻥ،)’ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﻋﺎﻡ ﮐﺮﻭ۔‘
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺩﻟﯿﻞ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺴﺠﺪ ﻗﺒﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺼﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ، ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﻤﻞ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺒﺎﺀ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮑﻠﮯ، ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﻧﺼﺎﺭ ﺁﺋﮯ، ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ،ﺟﺒﮑﮧ ﺁﭖ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ:’’ﺗﻢ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﺣﺎﻟﺖ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ؟‘‘ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﮭﯿﻼ ﮐﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ’’ :ﺍﺱ ﻃﺮﺡ۔‘‘
]ﺃﺑﻮﺩﺍﻭٗﺩ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻼۃ، ﺑﺎﺏ ﺭﺩ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﯽ ﺍﻟﺼﻼۃ )۹۲۷ (،
ﺗﺮﻣﺬﯼ،ﺃﺑﻮﺍﺏ ﺍﻟﺼﻼۃ، ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ
ﻓﯽ ﺍﻻﺷﺎﺭۃ ﻓﯽ ﺍﻟﺼﻼۃ )۳۶۸[(
ﺍﻣﺎﻡ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ:
’’ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺣﺴﻦ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ۔‘‘ ﺍﺱ
ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﺋﻤﮧ ﻧﮯ ﻧﻤﺎﺯ
ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ
ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ
ﻋﺎﺭﺿۃ ﺍﻻﺧﻮﺫﯼ ) ۲/۱۶۲ ( ﺍﻭﺭ
ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﺣﻤﺪ )ﺹ ۲۲ ( ﺑﺮﻭﺍﯾۃ
ﺍﻟﻤﺮﻭﺯﯼ۔
ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ
ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﺣﺎﻟﺖ ﻧﻤﺎﺯ
ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ، ﺍﺱ ﺳﮯ
ﻣﻨﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔ ﺗﻮ ﺟﺐ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﮐﻮ
ﺟﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ،
ﺍﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ
ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ؟
ﺍﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﻻﻭﻟﯽٰ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ،
ﺗﺎﮨﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ
ﻟﻔﻈﺎً ﮨﻮﮔﺎ، ﺍﺷﺎﺭﺗﺎً ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺩﻟﯿﻞ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻘﺒﮧ
ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺟﮩﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ
ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ
ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺩﺍﺧﻞ
ﮨﻮﺋﮯ، ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ، ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
’’ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺳﯿﮑﮭﻮ ﺍﻭﺭ
ﺍﺳﮯ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺫﺧﯿﺮﮦ ﺑﻨﺎﺋﻮ ﺍﻭﺭ
ﺍﺳﮯ ﻏﻨﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮍﮬﻮ، ﺍﺱ ﺫﺍﺕ
ﮐﯽ ﻗﺴﻢ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ
ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ
ﺟﺎﻥ ﮨﮯ! ﻗﺮﺁﻥ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺳﮯ
ﺑﮭﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺋﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺳﯽ ﭼﮭﮍﺍ ﮐﺮ
ﺑﮭﺎﮒ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﮯ۔‘‘
]ﻣﺴﻨﺪ ﺃﺣﻤﺪ ) ۴/۱۵۰ ، ﺡ : ۱۷۴۹۵ (،
ﺍﻻﻣﺎﻟﯽ ﻟﻠﺸﺠﺮﯼ ) ۱/۷۳ (، ﺍﻟﺴﻨﻦ
ﺍﻟﮑﺒﺮﯼٰ ﻟﻠﻨﺴﺎﺋﯽ ) ۵/۱۸ ، ۱۹ ( ﻁ
ﻗﺪﯾﻢ[
ﺍﺱ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﯾﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ
ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ
ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ
ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ
ﺩﻻﺋﻞ ﻋﺎﻣﮧ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﺻﮧ ﮨﺮ ﺩﻭ ﻃﺮﯾﻖ
ﺳﮯ
ﻗﺎﺭﯼ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﺎ
ﮨﮯ۔
 
Top