• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلسلہ تفسیر القرآن

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 1

القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 82

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ۞(النسا ۸۲)
ترجمہ:
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بھی کچھ اختلاف پاتے ۔
تیسیر القرآن ۔

تفسیر:
114 قرآن میں اختلاف نہ ہونا ہی منزل من اللہ ہونے کی دلیل ہے :۔ منافقوں کی جن باتوں پر انہیں تنبیہ کی گئی ہے ان کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں بھی شک تھا۔ اس آیت میں اس شک کو دور کرنے کی عقلی دلیل پیش کی گئی ہے جو یہ ہے، کہ انسان کی حالت یہ ہے کہ بچپن میں اس کی عقل ناپختہ ہوتی ہے۔ جوانی میں قدرے ترقی کر جاتی ہے اور پختہ عمر میں عقل بھی پختہ ہوجاتی ہے اور اس کے ان تینوں ادوار کے کلام میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ پھر زندگی بھر اس کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ بچپن میں خیالات و نظریات اور طرح کے ہوتے ہیں، جوانی میں اور طرح کے اور بڑھاپے میں اور طرح کے۔ پھر انسان جس شہر یا ملک میں جاتا ہے تو وہاں کے معاشرتی ماحول کا اثر قبول کرلیتا ہے۔ پھر کبھی انسان غصہ کی حالت میں ہوتا ہے تو سب مخاطبوں کو دہشت زدہ بنا دیتا ہے۔ یہی افراط وتفریط کی کیفیت اس کے ہر قسم کے جذبات میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے۔ گویا اگر کسی بھی ایک انسان کے زندگی بھر کے کلام کا مجموعہ تیار کیا جائے تو اس میں سینکڑوں اختلافات اور تضادات آپ کو مل جائیں گے اس کے برعکس اب اللہ کے کلام پر نظر ڈالیے جو 23 سال تک مختلف اوقات اور مختلف پس مناظر اور مختلف مواقع پر نازل ہوتا رہا۔ جو آخر میں ترتیب پا کر ایک مجموعہ بن گیا۔ اب دیکھیے ادبی لحاظ سے اس کی فصاحت و بلاغت میں کہیں کوئی فرق ہے ؟ یا اس کے نظریات میں، اس کی اخلاقی اقدار کی تعیین میں کوئی اختلاف آپ دیکھتے ہیں ؟ یا ایسی صورت ہے کہ مثلاً اگر یہود پر عتاب نازل ہوا ہو تو سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا ہو۔ اور اس میں سے ان کے اچھے لوگوں کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو۔ اور ان کی خوبیاں الگ بیان نہ کردی گئی ہوں ؟ غرض جتنے بھی پہلو آپ سامنے لائیں گے آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اور اس کو نازل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے۔
سرسری نظر دیکھنے سے اگرچہ قرآن میں کچھ اختلافات نظر آتے ہیں لیکن اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہوتا ہے اور اس قسم کے اختلافات کا جواب بھی قرآن ہی سے مل جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے :
قرآن میں اختلاف معلوم ہو تو اس کی وجہ نافہمی ہے۔ سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا ابن عباس (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں تو قرآن میں کئی اختلافات کی باتیں پاتا ہوں۔ مثلاً
1۔ ایک آیت میں ہے (فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ 101۔ ) 23 ۔ المؤمنون :101) (قیامت کے دن ان میں کوئی رشتہ حائل نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے) اور دوسرے مقام پر ہے ( وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ 27 ؀) 37 ۔ الصافات :27) ان میں سے کچھ ان کے سامنے آ کر ایک دوسرے سے سوال کریں گے)

2۔ ایک آیت میں ہے (وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا 42؀ ) 4 ۔ النسآء :42) (وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے) اور دوسری آیت میں ہے کہ قیامت کے دن مشرکین کہیں گے (وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ 23؀) 6 ۔ الانعام :23) (اللہ کی قسم ! ہم شرک نہیں کیا کرتے تھے) گویا وہ اصل بات چھپائیں گے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ( ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا 27؀۪) 79 ۔ النازعات :27) تک۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی پیدائش زمین سے پہلے ہوئی اور سورة حٰم السجدہ میں فرمایا ( قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادًا ۭذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ۚ ) 41 ۔ فصلت :9) ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی۔
4۔ نیز فرمایا (وَکَان اللّٰہُ غَفُوْراً رَّحِیْماً ۔۔ عَزِیْزاً حَکِیْماً ۔۔ سَمِیْعاً بَصِیْراً ) ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا مگر اب نہیں۔
سیدنا ابن عباس (رض) نے ان سوالوں کے جواب میں فرمایا :
1۔ (فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ 101۔ ) 23 ۔ المؤمنون :101) میں اس وقت کا ذکر ہے جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بےہوش ہوجائیں گے اس وقت نہ کوئی رشتہ ناطہ رہے گا اور نہ ایک دوسرے سے کچھ بھی پوچھنے کا ہوش ہوگا۔ اور دوسری آیت میں جو ایک دوسرے سے سوال کرنے کا ذکر ہے یہ دوسرے نفخہ ئصور کے بعد ہوگا۔
2۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اخلاص والوں (موحدین) کے گناہ بخش دے گا تو مشرک آپس میں صلاح کریں گے کہ چلو ہم بھی جا کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں بولنا شروع کردیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپائی نہیں جاسکتی۔ یہی وہ وقت ہوگا کہ جب کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ (دنیا میں) مسلمان ہوتے۔
3 آسمان اور زمین کی تخلیق میں ترتیب :۔ اللہ تعالیٰ نے (پہلے) زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو اگلے دو دنوں میں ان کو (سات آسمان) بنایا۔ اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور زمین کا پھیلانا یہ ہے کہ اس سے پانی نکالا، گھاس، چارہ پیدا کیا۔ پہاڑ، جانور اور ٹیلے وغیرہ اگلے دو دنوں میں بنائے۔ اس طرح زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں مکمل ہوئی اور چار دن (دو ابتدائی، دو آخری) زمین کی پیدائش اور اسے سنوارنے میں لگے۔
4۔ کَانَ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات ازلی ہیں اور یہ سب اس کے نام ہیں یعنی وہ ہمیشہ سے ان صفات کا ملک ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ جو چاہے وہ کرسکتا ہے۔۔ گویا اب کوئی اختلاف نہ رہا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ یہ سارا قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے (بخاری، کتاب التفسیر سورة حٰم السجدہ)
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 2

القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران
آیت نمبر 101

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَكَيۡفَ تَكۡفُرُوۡنَ وَاَنۡـتُمۡ تُتۡلٰى عَلَيۡكُمۡ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَفِيۡكُمۡ رَسُوۡلُهٗ ‌ؕ وَمَنۡ يَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ هُدِىَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ  ۞
ترجمہ:
اور تم کیسے کفر کرتے ہو، حالانکہ تم پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول (موجود) ہے اور جو شخص اللہ کو مضبوطی سے پکڑلے تو یقینا اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی گئی۔ ؏
تفسیر:
وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ ۔۔ : ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” جاہلیت میں اوس اور خزرج کے درمیان لڑائی رہی تھی، اب ایک دفعہ وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے آپس میں جو کچھ ہوا تھا اس کا ذکر کیا تو دونوں غصے میں آگئے اور ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے اسلحہ لینے کے لیے اٹھے، تو اس پر یہ آیت اتری : ( وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ ۭ ) [ ابن أبی حاتم : ٣؍١١٠، ح : ٣٩٤٨ طبری ]
2 وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ ۭ: یعنی تمہاری طرف سے کفر کا ارتکاب بہت بعید ہے، کیونکہ اللہ کی آیات تم پر پڑھی جا رہی ہیں، اس کا رسول بنفس نفیس تم میں موجود ہے اور جو شخص اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے تو یقیناً اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت کی گئی۔ اس کے مخاطب صحابہ کرام (رض) ہیں، لیکن نصیحت کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ آج گو ہمارے درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنفس نفیس موجود نہیں ہیں، مگر اللہ کی کتاب، یعنی قرآن کریم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت موجود ہے، جن پر عمل پیرا ہو کر موجودہ دور کے فتنوں اور ہر قسم کی بدعت و ضلالت سے مسلمان محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اب بغیر دیکھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور کتاب و سنت پر عمل کرنا بہت بڑے اجر کا باعث ہے۔ ابن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے ابو جمعہ (رض) سے کہا : ” ہمیں کوئی حدیث سناؤ جو تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو “ انھوں نے کہا : ” ہاں، میں تمہیں ایک جید حدیث سناؤں گا، ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ناشتہ کیا اور ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح (رض) بھی تھے، انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! کیا ہم سے بھی کوئی بہتر ہے ؟ ہم آپ کے ساتھ اسلام لائے اور آپ کے ساتھ جہاد کیا ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں، وہ لوگ جو تمہارے بعد ہوں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انھوں نے مجھے دیکھا نہیں۔ “ [ أحمد : ٤؍١٠٦، ح : ١٦٩٧٨، ١٦٩٧٩، و سندہ صحیح ]
امام احمد کے علاوہ ابو نعیم، حاکم اور ابو یعلی الموصلی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ سورة بقرہ کی شروع کی آیات ( يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ ) کی تفسیر میں اس مفہوم کی کئی احادیث حافظ ابن کثیر (رض) لائے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں موجود نہیں، بلکہ اب ہم ایمان بالغیب لا کر قرآن و سنت پر عمل کریں گے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة حجرات (٧)
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 3

القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 31

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا كَبٰٓئِرَ مَا تُنۡهَوۡنَ عَنۡهُ نُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَنُدۡخِلۡـكُمۡ مُّدۡخَلًا كَرِيۡمًا ۞

اشرف الحواشی - سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 31

ترجمہ:
اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جو تم کو منع ہوئے یعنی کبیرہ گناہوں سے اور نیکیاں کرتے رہو گے تو ہم چھوڑ یعنی صغیرہ گناہ تم پر سے اتاردیں گے 10 اور آبرو کی جگہ میں تم کو لے جائیں گے 11

تفسیر:
ف 10 یعنی اگر تم کبا ئر سے اجتناب کرتے رہو گے تو صغیرہ گناہ تمہارے تمہارے نیک اعمال کی وجہ سے ہم معاف کردیں گے بعض روایات کبائر کا شمار بھی آیا ہے مثلا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا کسی جان کو ناحق قتل کرنا قمار بازی شراب خوای پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا وغیرہ مگر ان کی کوئی تہدید نہیں ہے اس لیے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ من اسبع الی السبعین بل الی سبعما ئتہ (رازی) اور روایات میں ہے کہ اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں ہے اور تو بہ کے بعد کوئی کبیرہ نہیں ہے۔ (قرطبی کبیر)11 یعنی بہشت میں ( وحیدی)
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 4

القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 75

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا لَـكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡـقَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَا‌ ۚ وَاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙۚ وَّاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًا ۞ /ARB]
اشرف الحواشی - سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 75

ترجمہ:
اور مسلمانو تم کو کیا ہوگیا ہے تم اللہ کی راہ میں کافروں سے نہیں لڑتے اور بےبس مرد اور عورتوں اور بچوں کے چھڑانے کے لیے کافروں کی قید میں ہیں اور سختی اور تکلیف اٹھا رہے ہیں جو کہہ رہے ہیں تنگ آکر یہ دعا کر رہے ہیں مالک ہمارے ہم کو اس بستی سے نکال جہاں کے یہ لوگ ظالم ہیں یعنی کافر اور مشرک یا ہمارے اوپر ظلم کر ہے اور ہماری حمایت پر کسی کو اپنی طرف سے کھڑا کر اور ہماری مدد کے لیے کسی کو اپنی طرف سے مقرر کر

تفسیر:
ف 4 اس کا تعلق بھی ترغیب جہاد سے ہے یعنی دو وجوہ کی بنا پر تمہیں کفار سے لڑنا ضروری ہے اول اعلائے کلمتہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے دوم ان مظلوم مسلمانوں کے نجات دلانے کے لیے جو کفار کے چنگل میں بےبس پڑئے ہیں (قرطبی) مکہ معظمہ میں بہت سے ایسے لوگ رہ گئے تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت نہ کرسکے تھے اور ان کے تعارب ان پر تشدد کرنے لگے تھے نانہ اسلام سے پھیر کر ان کو پھر سے کافر بنالیں پس القریتہ الظالم اھلھا سے مکہ مراد ہے۔ اور مشرک ہونے کی وجہ سے یا مظلوم مسلمانوں کی ستانے کی وجہ سے اس کے باشندوں کو ظالم فرمایا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میر والدہ بھی ان بےبس مسلما نوں شامل تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے (رازی۔ ابن کثیر) مدینہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مستضعفین کے حق میں نام لے لیکر دعا فرمایا کرتے تھے اللھم انج الوالید بن الولید وسلم تہ بن ہشام و عیاش بن ابی ربعیہ والمستضعفین من المو منین۔ یا اللہ ولید بن ولید بن ہشام، عیاش، بن ابی ربیعہ اور مکہ میں گھرے ہوئے دوسرے بےبس مسلمانوں کو رہائی دلا (بخاری )
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 5

القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 79

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَاۤ اَصَابَكَ مِنۡ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ‌ وَمَاۤ اَصَابَكَ مِنۡ سَيِّئَةٍ فَمِنۡ نَّـفۡسِكَ‌ ؕ وَاَرۡسَلۡنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا‌ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًا ۞
اشرف الحواشی - سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 79

ترجمہ:
اے بندے تجھ کو کو پہچنے وہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھ کو پہچنے وہ بھی اللہ کی طرف سے لیکن تیرے گناہوں کی شامت سے 8 اور اسے پیغمبر ہم نے تجھ کو اللہ کا پیغام لوگوں کو پہنچانے والا بناکر بھیجا اور اللہ کی گواہی تیری پیغمبری پر بس کرتی ہے

تفسیر:
ف 8 اس میں برائی اور بھلائی کا ایک قانون بیان فرمادیا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور جو برائی پہنچتی ہے اس کا بھیجنے والا بھی گو اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس کا سبب تمہارے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔ (دیکھئے سورت شوریٰ آیت 3) اس لیے سلف صالحین کا خام قاعدہ تھا کہ جن کوئی اجتہادی رائے ئ پیش کرتے تو کہتے کہ اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کے طرف سے اور اسی کی توفیق سے اور اگر غلط ہے تو ہماری طرف سے اور شیطان کی طرف سے (ابن کثیر) اوپر کی آیت میں خلق وایجاد کے اعتبار سے حسنتہ اور سیئہ دونوں کو من عند اللہ قرار دیا ہے اور اس آیت میں باعتبار کسب وسبب کے سیئہ کو انسان کی طرف منسوب کردیا ہے لہذا تعارض نہیں ہے۔ کذافی الکبیر) موضح میں ہے بندہ کو چاہیے نیکی اللہ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تصصیر سے۔ تصصیروں سے اللہ تعالیٰ واقف ہے اور وہی خبر دیتا ہے۔9 یعنی آپ کا اصل منصب رسالت اور تبلیغ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس امانت کے ادا کرنے میں کسی قسم کی تقصیر نہیں کی پھر اس کے بعد بھی اگر کسی کو ہدایت نہیں ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ (کبیر) نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمومی رسالت کا بیان ہے (دیکھیے اعراف 58 اسبا 128)
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 6

القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف
آیت نمبر 40

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسۡمَآءً سَمَّيۡتُمُوۡهَاۤ اَنۡـتُمۡ وَ اٰبَآؤُكُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ‌ؕ اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ‌ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ‌ؕ ذٰلِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞
تفسیر السعدی - سورۃ نمبر 12 يوسف
آیت نمبر 40

ترجمہ:
جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں خدا نے انکی کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سن رکھو کہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نہ ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جا نتے۔

تفسیر:
بنا بریں یوسف نے فرمایا : (ماتعبدون من دونہ الا اسما سمیتموھا انتم وباء کم ) ” تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کترے ہو، وہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں “ یعنی تم نے ان کو معبود کا نام دے دیا ہے حالانکہ یہ کچھ بھی نہیں اور نہ ان میں الوہیت کی صفات میں سے کوئی صفت ہے۔ (ما انزل اللہ بھا من سلطن) ” اللہ نے ان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی “ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت کی ممانعت نازل کر کے ان کا باطل ہونا واضح کیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے ان معبود ان باطل کے حق میں کوئی دلیل نازل نہیں کی اس لئے کوئی طریقہ، کوئی وسیلہ اور کوئی دلیل ایسی نہیں جس سے ان کا استحقاق عبودیت ثابت ہوتا ہو۔
(ان الحکم الا للہ) ’ اللہ اکیلے کے سوا کسی کا حکم نہیں، وہی ہے جو حکم دیتا ہے اور منع کرتا ہے، وہی ہے جو تمام شرائع اور احکام کو مشروع کرتا ہے اور وہی ہے (امر الا تعبدوآ الا ایاہ ذلک الدین القیم) ” جس نے حکم دیا کہ عبادت صرف اسی کی کرو، یہی سیدھا مضبوط دین ہے “ یہی صراط مستقیم ہے جو ہر بھلائی کی منزل تک پہنچاتا ہے، دیگر تمام ادیات سیدھی راہ سے محروم ہیں، بلکہ یہ ٹیڑھے راستے ہیں اور ہر برائی تک پہنچاتے ہیں۔ (ولکن اکثر الناس لایعلمون) مگر اکثر لوگ اشیاء کے حقائق کو نہیں جانتے۔ ورنہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے ساتھ شرک میں فرق سب سے زیادہ واضح اور نمایاں چیز ہے۔ مگر اکثر لوگ علم سے محروم ہونے کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 7

القرآن - سورۃ نمبر 52 الطور
آیت نمبر 35

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَيۡرِ شَىۡءٍ اَمۡ هُمُ الۡخٰلِقُوۡنَؕ ۞
تفسیر السعدی - سورۃ نمبر 52 الطور
آیت نمبر 35

ترجمہ:
کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں

تفسیر:
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ ) کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خوداپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں ؟ یہ ان کے سامنے ایک ایسی چیز کے ذریعے سے استدلال ہے جس میں حق کو تسلیم کیے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ کار نہیں یا اس سے ان کا عقل ودین کی موجبات سے نکلنا ثابت ہوجائے گا اس کی توضیح یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کرتے ہیں اور نبی اء ورسل کو جھٹلاتے ہیں اور یہ اس حقیقت کے انکار کو مستلزم ہے کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے شریعت کے ساتھ ساتھ عقل میں بھی یہ چیز متحقق ہے کہ ان کی تخلیق تین امور میں سے کسی ایک سے خالی نہیں۔
١۔ ان کو کسی چیز کے بغیر پیدا کیا گیا ہے یعنی ان کا کوئی خالق نہیں جس نے ان کو تخلیق کیا ہو بلکہ وہ کسی ایجاد اور موجد کے بغیر وجود میں آئے ہیں اور یہ عین محال ہے۔
٢۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے اور یہ بھی محال ہے کیونکہ اس بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی اپنے آپ کو بذات خود وجود بخشے۔
٣۔ جب مذکورہ بالادونوں امور باطل ہوگئے اور ان کا محال ہونا ثابت ہوگیا تو تیسری بات متعین ہوگئی کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کو تخلیق کیا۔ جب یہ بات متعین ہوگئ تو معلوم ہوا کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے جس کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت مناسب ہے نہ درست۔
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 8

القرآن - سورۃ نمبر 87 الأعلى
آیت نمبر 3

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِىۡ قَدَّرَ فَهَدٰى ۞
تفسیر السعدی - سورۃ نمبر 87 الأعلى
آیت نمبر 3

ترجمہ:
اور جس نے اس کا اندازہ ٹھیرایا (پھر اسکو) راستہ بتایا

تفسیر:
(وَالَّذِيْ قَدَّرَ ) اس نے اندازہ مقرر کردیا جس کی تمام مقدرات پیروی کرتی ہیں ( فَهَدٰى) اور اس کی طرف تمام مخلوقات کی راہنمائی کی یہ ہدایت عام ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو اس کے مصالح کی راہ دکھائی ہے اس میں اس کی تمام دنیاوی نعمتوں کا ذکر کیا جاتا ہے اس لیے اس کے بارے میں فرمایا۔ (وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى) یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس پانی سے نباتات اور سرسبز گھاس کی مختلف اصناف اگائیں جنہیں انسان چوپائے اور تمام حیوانات کھاتے ہیں پھر اس نباتات وغیرہ کا جتنا جو بن مقدر ہوتا ہے۔ اس کے مکمل کرلینے کے بعد نباتات اور سبز گھاس کو خشک کرد یتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 9


سورۃ النساء


وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا[115]

[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے
[115]۔
تفسیر:
۱:
آیت کا خطاب اسی منافق سے ہے جس نے چوری کی تھی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی الٰہی کی بنا پر مذکورہ مقدمہ کا فیصلہ بے گناہ یہودی کے حق میں دے دیا۔ تو اس منافق کو سخت صدمہ ہوا۔ وہ مدینہ سے نکل کراسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں کے پاس مکہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر اتر آیا۔ لیکن حکم کے لحاظ سے یہ خطاب سب لوگوں کے لیے ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے۔ یعنی جو شخص بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے طریق زندگی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریق اختیار کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا اور جس قدر زیادہ مخالفت کرے گا اسی قدر گمراہی میں بڑھتا چلا جائے گا۔ اس کی یہ ذہنی اور عملی مخالفت اسے جہنم میں پہنچا کے چھوڑے گی۔(تیسیر القران)
۲:جو شخص غیر شرعی طریق پر چلے یعنی شرع ایک طرف ہو اور اس کی راہ ایک طرف ہو۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ہو اور اس کا مقصد عمل اور ہو۔ حالانکہ اس پر حق واضح ہو چکا ہو دلیل دیکھ چکا ہو پھر بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے مسلمانوں کی صاف راہ سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی اور بری راہ پر ہی لگا دیتے ہیں اسے وہی غلط راہ اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ بیچوں بیچ جہنم میں جا پہنچتا ہے۔ (ابن کثیر)
۳:مومنین سے مراد صحابہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے صحابہ کرام (رض) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رض) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔(تفسیر مکہ)
۴: اجماع امت یا صحابہ کرام کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا منجملہ ادلہ شرعیہ ایک قابل حجت امر ہے اور اس اجماع کی مخالفت کرنے والا اور اجماع کو تسلیم نہ کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے تاہم اس سلسلہ میں دو باتوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ صحابہ کرام کے اجماع کے حجت ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں لیکن مابعد کے ادوار کا حجت ہونا بذات خود مختلف فیہ مسئلہ ہے اور راجح قول یہی ہے کہ مابعد کا اجماع امت کے لیے قابل حجت نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ صحابہ کا اجماع تو ثابت کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کا زمانہ بھی محدود اور علاقہ بھی محدود تھا۔ لیکن مابعد کے ادوار میں اجماع امت کا ثابت کرنا ہی بہت مشکل ہے جبکہ امت اقصائے عالم میں پھیل چکی ہے اور علماء بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ دور صحابہ کے بعد جتنے مسائل کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان پر امت کا اجماع ہے، ان میں سے زیادہ ایسے ہیں کہ ان کو فی الواقع ثابت نہیں کیا جا سکتا۔(تیسیر القران)
۵: اجماع کی مخالفت بھی کبیرہ گناہ ہے امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی آیت سے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے، اور کہا ہے کہ چونکہ مومنوں کے طریقہ کی مخالفت کا انجام جہنم بتایا گیا ہے، اس لیے یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ ان کی اتباع کرنا فرض ہے ۔(تیسیر الرحمان)
۶: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے لیے رہنما اور مقتدا بنا کر بھیجا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اور اتباع کو اپنی اتباع قرار دیا، اپنی محبت اور بخشش کو رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔ اس لیے جلوت اور خلوت میں رسول کی اتباع ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو شخص یا جماعت رسول کی ہدایت اور سنت سامنے ہونے کے باوجود رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی سے انحراف اور صحابہ کرام کے طریقہ کو چھوڑتے ہیں وہ لوگ جدھر چاہیں اور جس طرح چاہیں منہ اٹھا کر چل نکلیں وہ جہنم میں ہی گرنے والے ہیں جو بدترین جائے قرار ہے۔(فہم القران)
 
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
درس نمبر 10


إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا(17-الإسراء:9)

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بلاشبہ یہ قرآن اس (راستے) کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ (17-الإسراء:9)
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے (17-الإسراء:9)
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] یہ قرآن وہ رستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لئے اجر عظیم ہے (17-الإسراء:9)
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا [9] وَأَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا [10] بلاشبہ یہ قرآن اس (راستے) کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ [9] اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ [10] تشریح ❀ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب کی تعریف میں فرماتا ہے کہ یہ قرآن بہترین راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔یعنی یہ قرآن تمام دینی اور دنیوی معاملات میں سب سے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنے کا وہ طریقہ سکھایا گیا ہے جس سے اچھا کوئی طریقہ نہیں، مگر ترک دنیا اور رہبانیت اختیار کرنے اور انسانی فطرت کے تقاضوں کو پامال کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے، بلکہ اس کے بجائے دنیا میں باعزت اور غالب ہو کر رہنے کا اور انسان کے فطری تقاضوں اور دنیا کی آسائشوں سے بہرہ ور ہونے کا بھی ایسا عمدہ طریقہ سکھایا گیا ہے جو ہر قسم کی زیادتی، سرکشی اور ہوس پرستی سے پاک ہے اور دنیا میں ہر مسلم اور غیر مسلم کے لیے امن و سلامتی کا ضامن ہے۔ ہاں جو لوگ اس پر ایمان لے آئیں اور اس کے مطابق عمل صالح کری
ں انھیں وہ اجر کبیر کی بھی بشارت دیتا ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہ لائیں انھیں اس بات سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ دنیا میں وہ بظاہر کتنے ہی خوش حال اور صاحب مال و اولاد ہوں دنیا میں بھی ان کے لیے عذاب ہے (دیکھیے توبہ: 55۔ طٰہٰ: 124 تا 127) اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب الیم ہے جو دنیا کے عذاب سے کہیں زیادہ سخت ہے، جیسا کہ سورة طٰہٰ کی مذکورہ آیات کے آخر میں فرمایا: (وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَاَبْقی) ”اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔“ مسلمانوں کے لیے ان دو آیتوں میں دو بشارتیں ہیں، ایک ان کے لیے اجر کبیر کی، دوسری ان کے دشمنوں کا عذاب الیم میں مبتلا ہونا بھی ان کے لیے خوشی کی خبر ہے۔ نوٹ ❀ یاد رکھو! اب راہ ہدایت وہی ہوگی جس کی نشان دہی یہ کتاب کرے گی جسے ہم اپنے آخری رسول پر نازل کر رہے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے قصر رحمت میں داخل ہونے کا ”شاہدرہ“ ایک ہی ہے اور وہ ہے یہ قرآن۔ اب اگر تم اللہ کے دامن رحمت میں پناہ لینا چاہتے ہو تو اس قرآن کے راستے سے ہو کر آؤ۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ کی رحمت کے دروازے ایک بار پھر تمہارے لیے کھل جائیں گے اور جو رفعتیں اور برکتیں اس آخری نبی کی امت کے لیے لکھی گئی ہیں تم بھی ان میں حصہ دار بن جاؤ گے۔ خلاصہ تفسیر ❀ بلاشبہ یہ قرآن ایسے طریقہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے (یعنی اسلام) اور (اس طریقہ کے ماننے اور نہ ماننے والوں کی جزاء وسزا بھی بتلاتا ہے کہ) ان ایمان والوں کو جو نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان کو بڑا بھاری ثواب ملے گا اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لئے ایک درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے اور (بعض) انسان (جیسے کفار ہیں) برائی (یعنی عذاب) کی ایسی دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کی دعاء (کی جاتی ہے) اور انسان کچھ (کچھ طبعاً ہی) جلد باز (ہوتا) ہے۔
 
Top