• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اما م ترمذی نے اس وہم والی ، اس خطاء ، غلط حدیث کوکیوں ذکر کیا َ؟؟؟
ضعیف روایات کو بیان کرنےکی حقیقت
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 17 August 2014 01:49 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احادیث کی اکثر کتب میں صحیح احادیث کے ساتھ ضعیف احادیث بھی شامل ہیں۔ایسا کیوں ہوا؟ جب کہ محدثین کو ان کے ضعف کا پتہ تھا۔ پھر انہوں نے ضعیف روایات کو شامل رکھا کیا حکمت تھی؟ کیوں کہ آج کے زمانے میں باطل فرقے ان ہی ضعیف ر وایات سے دلیل لیتے ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہوکہ ضعف کے مختلف درجات کے اعتبار سے ضعیف روایات کی پچاس سے زائد اقسام ہیں جن کی تفصیل ''توضیح الافکار'' میں موجود ہے۔ ہر قسم کے قبول ورد کا تعلق ضعف کی حیثیت کے ساتھ ہوتا ہے جو تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔
المختصر بعض ضعیف روایات ایسی ہیں جو کثرت طرق کی بناء پر کسی نہ کسی انداز میں قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں۔انور کچھ ضعیف ایسی بھی ہیں۔جن کے مدلول (مفہوم) پر عمل کرنے میں اہل علم کااتفاق ہے اور انہیں قبول کرکے ان پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔مثالوں کے لئے ملاحظہ ہو(توضیح الافکار 1/254)
احادیث بیان کرنے کے اصول(علم المصطلح) اسماء الرجال اور علم جرح وتعدیل تو محدثین کرام کی مساعی جمیلہ کا عظیم امتیاز ہے فرق باطلہ چونکہ ان کےسمجھنے سے قاصر ہیں۔لہذا ان کامعترض ہونا کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ مقولہ مشہور ہے کہ آدمی ہمیشہ اس چیز کا دشمن ہوتا ہے جس سے وہ ناواقف ہو۔رب العزت ہم سب کی راہنمائی فرمائے۔آمین!
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج1ص297​

محدث فتویٰ​
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا صحابہ کرام (نعوذ باللہ) بدعتی تھے؟
ہم نے تو نہیں کہا ، لیکن آپ کی فقہ میں صحابی کو بدعتی بلکہ بدعت کا آغاز کرنے والا قرار دیا گیا ہے!
وَذَكَرَ فِي الْمَبْسُوطِ أَنَّ الْقَضَاءَ بِشَاهِدٍ وَيَمِينٍ بِدْعَةٌ، وَأَوَّلُ مَنْ قَضَى بِهِ مُعَاوِيَةُ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 08 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني (المتوفى: 793هـ) – دار الكتب العلمية
یہاں بدعت حسنہ کی تاویل بھی ممکن نہیں کیونکہ فقہ حنفی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی بھی منکر ہے، اور ایک گواہ اور قسم پرفیصلہ کرنے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو بھی قبول نہیں کرتی!
آپ کے کچھ بڑے بھائی پہلے ہی بغیر تنبیہ کے ایسا کر رہے ہیں آپ بھی کریں گے تو نقصان کس کا ہوگا؟؟؟
جو مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ (القرآن)ثابت ہوگا۔
who used to prevent (others) from good (behavior), who transgressed all bounds, who cast doubts (in true faith),
اب آپ اپنی ہفوات کو خیر سمجھتے ہو ں، اور خود کو فرعون کا پیروکار بنایا ہوا ہے تو الگ بات ہے!
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
اسی طرح کے نعرہ لگا کر خوارج و معتزلی بھی لوگوں کو گمراہ کیا کرتے تھے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک تو جہاں اس کا امکان ہے کہ راوی سے سہو ہو گئی اور کتاب میں درست ہو وہیں اس کا بھی اتنا ہی امکان ہے کہ لکھنے والا جلدی یا کسی وجہ سے لکھنے سے رہ گیا ہو۔ کتاب میں تو تحریف (اصطلاحی) بھی بہت ہوتی ہے۔
امکان در امکان تو بہت ہو سکتے ہیں، یہ بھی امکان ہو سکتا ہے دونوں کو غلطی ہوئی ہو اور ایک رفع الیدین کا ذکر بھی نہ کیا ہو! غلطی تو بہرحال ہو سکتی ہے نا!
لیکن ایسے امکانات کشید کرنا مناسب بات نہیں۔
جب ایک راوی ثقہ ہو، تو اس کی روایت یہ کہہ کر مشکوک باور نہیں کروائی جا سکتی، ممکن ہے اس سے غلطی ہو گئی ہو، جبکہ یقیناً کوئی بھی راوی غلطی سے پاک نہیں!
ہاں! اگر کسی ثقہ راوی کی روایت کے برخلاف ایسے قرائن موجود ہوں، کہ اس راوی کی روایت کو شاذ اور معلول قرار دیں، تو ایسی صورت میں اس روایت کو اس ثقہ راوی کا وہم ، غلطی و خطا قرارد یا جاتا ہے۔
رہی بات کہ غلطی تو لکھنے میں بھی ہو سکتی ہے! تو یہ بات علم الحدیث کو درست طرح نہ سمجھنے کی بناء پر ہے۔ حالانکہ اس مسئلہ کو امام احمد بن حنبل نے بیا ن بھی کیا۔مگر آپ کو امام احمد بن حنبل کے بیان پر اشکال ہے۔ آپ کے اشکال کو آگے رفع کرتے ہیں ان شاء اللہ! پہلے وہ الفاظ دہرا دیتا ہوں کہ امام احمد بن حنبل نے روایت کے مقابل ہونے کی صورت میں کسے محفوظ اور کسے شاذ قرار دینے کے لئے ایک قاعدہ بتلایا ہے۔

وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اور احمد بن حنبل نے کہا: ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے، ۔۔۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت

اب یا تو علم الحدیث میں امام احمد بن حنبل کا بیا ن کیا ہوا قاعدہ تسلیم کیا جائے، یا پھر علم الحدیث کی رو سے ہی امام احمد بن حنبل کے بیان کئے ہوئے قاعدہ کو غلط ثابت کیا جائے!
دوسرا کام ممکن نہیں، کیونکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ جب کسی ثقہ راوی کی روایت کردہ حدیث کے مقابل کوئی دوسرا ثقہ روای اسے سے مختلف روایت کرتا ہے تو ایسی صورت میں اگر اوثق یا ثقہ جماعت کی روایت کو محفوظ قرار پاتی ہے اور اس کے مخالف کو شاذ قرار دیا جاتا ہے! اور اگر دو ہی رواة کی روایات کا تقابل کیا جائے ، اور دونوں ہی ایک ہی درجہ کے ثقہ رواة ہوں تو ایسی صورت میں کتاب کی روایت محفوظ قرار پائے گی اور حافظہ کی شاذ و معلول!
یہ وہ قاعدہ ہے جسے امام احمد بن حنبل نے بیان کیا ہے۔
دوسرا ایک جانب بیان کرنے والے سفیان ثوری ہیں اور دوسری جانب دیکھا عبد اللہ بن ادریس کی کتاب میں گیا ہے۔ ظاہر یہی کہ عاصم بن کلیب نے جب حدیثیں بیان کیں تو سفیان نے یاد کیں اور ابن ادریس نے لکھیں۔ دونوں افراد الگ الگ ہیں۔ پھر "اپنی کتاب" میں دیکھنے کا قاعدہ یہاں کیسے لگتا ہے؟ "اپنی کتاب" تو وہ ہے ہی نہیں دوسرے کی کتاب ہے۔
یہاں ایک مغالطہ ہوا ہے کہ امام احمد بن حنبل کے مذکورہ الفاظ ایک قاعدہ ہے اور اس کا انطباق امام احمد بن حنبل نے سفیان ثوری کی روایت کو شاذ قرار دینے میں کیا ہے:

وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.
کیونکہ آدمی بعض أوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب (اپنی کتاب) کی طرف رجوع کرتا ہے تو (صحیح) وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت

امام احمد بن حنبل نے یہاں صرف یہ بات صرف یہ بتلانے کے لئے کی ہے کہ کتاب کی روایت محفوظ ہوتی ہے، جیسے کہ ایک روای خود اگر کبھی خطا کرتا ہے اور وہ جب وہ اپنی ہی کتاب میں اسے اپنی حافظہ سے روایت کے خلاف پاتا ہے تو وہ بھی اپنی کتاب کو ہی محفوظ قرار دیتا ہے وہ اپنے حافظہ سے روایت کو وہم!
امام احمد بن حنبل یہاں صرف کتاب کی رایت کا حافظہ کی روایت سے محفوظ ہونا سمجھا رہے ہیں، امام احمد بن حنبل ''اپنی کتاب '' میں دیکھنے کا قاعدہ نہیں بیان کر رہے اور نہ ہی اس ''اپنی کتاب'' میں دیکھنے کے قاعدہ کا اطلاق کر رہے ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے اسی قاعدہ کا اطلاق کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا وہ ہے:

وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اور احمد بن حنبل نے کہا: ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے،
تیسرا اصول حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کہ ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے (یعنی اگر شذوذ کی حد میں نہ آئے)۔ تو اگر یہ سفیان کی زیادتی ہے تب بھی معتبر ہی ہونی چاہئے۔
یہ ہے در اصل عجیب و غریب بات!
کہ امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کو زیادتی ثقہ کے مقبول ہونے کا أصول بتلایا جائے! ابتسامہ
میرے بھائی! امام احمد بن حنبل اور امام بخاری بخوبی اس سے واقف تھے، کہ ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے!
مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ امام احمد بن حنبل اور امام بخاری اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہاں ثقہ کی زیادتی نہیں، بلکہ ایک ثقہ راوی کی مخالفت ہے!
کیونکہ ''ثم لا یعود'' سے ایسے فعل کی نفی ہو رہے ہے جو دوسری راوی کی روایت سے نفی نہیں ہو رہی!
حتی کہ بہت سے لوگ اس روایت سے رفع الیدین عند الرکوع کے منسوخ ہونے پر دلیل لینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ہمارے پیارے بھائی کہتے ہیں کہ ''ثقہ کی زیادتی'' ہی تو تھی یہ تو معتبر ہونی چاہئے!
نہیں میرے بھائی! اسے ثقہ کی زیادتی نہیں کہتے ، یہ معاملہ محفوظ اور شاذ و معلول کا ہے!
چوتھا یحیی بن آدم کہتے ہیں کہ "میں نے ابن ادریس کی کتاب میں دیکھا" اب یحیی بن آدم نے ابن ادریس سے اس کے بارے میں پوچھا بھی نہیں۔ اگر پوچھ لیتے تو وہ وضاحت کر دیتے کہ یہ لفظ تھا ہی نہیں یا میں نے لکھا نہیں۔ کیا احتمال آنے کی وجہ سے یہ استدلال باطل نہیں ہو جاتا؟ جس روایت کو عبد اللہ بن ادریس نے خود املاء کرایا ہے وہ آگے آ رہی ہے۔ اس میں اور اس اوپر والی روایت میں فرق ہے۔
آپ نے یحیی بن آدم کو اتنے مشورے دے دئیے کہ ابن ادریس پوچھ کیوں نہ لیا، جناب جب انہوں نے خود املا کروایا ہے، تو پوچھنے کی کیا حاجت رہی؟ اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا، تو پھر بھی کتاب کی روایت کی مستحکم ٹھہرتی!
آپ نے فرمایا کہ ان دو روایتوں میں فرق ہے؟ وہ کون سا فرق ہے جو ابن ادریس اور سفیان ثوری کی روایت کو الگ الگ احادیث ثابت کرتا ہے؟

وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَصَلَّى وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.

سفیان (الثوری) سے عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمٰن بن الأسود عن علقمہ (کی سند) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ابن مسعود نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی تو ایک دفعہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا۔
اور احمد بن حنبل نے یحییٰ بن آدم سے بیان کیا کہ: میں نے عبد اللہ بن ادریس کی عاصم بن کلیب سے کتاب میں دیکھا ہے۔ اس میں پھر دوبارہ نہیں کیا، کے الفاظ نہیں ہیں۔ اور (عبد اللہ بن ادریس کی) یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے، کیونکہ آدمی بعض أوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب (اپنی کتاب) کی طرف رجوع کرتا ہے تو (صحیح) وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت


714 - حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ مِنْ كِتَابِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ سَعْدًا فَقَالَ صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ ثُمَّ أَمَرَنَا بِهَذَا وَأَخَذَ بِرُكْبَتَيْهِ حَدثنِي عَاصِم بن كُلَيْب هَكَذَا قَالَ أبي هَذَا لفظ غير لفظ وَكِيع، وَكِيع يثبج الحَدِيث لِأَنَّهُ كَانَ يحمل نَفسه فِي حفظ الحَدِيث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 369 – 371جلد 01 العلل ومعرفة الرجال - أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) - دار الخاني، الرياض

اس روایت کے نقل سے کیا مقصود ہے میں سمجھا نہیں۔ سمجھا دیجیے۔
ظاہراً تو اس روایت میں عبد اللہ بن مسعود رض کے یہ الفاظ ہیں: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز سکھائی تو۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس روایت کے لیے اسے پیش کیا گیا ہے اس میں علقمہ کے الفاظ اور عبد اللہ بن مسعود رض کا فعل ہے۔ تو اس روایت کے محفوظ ہونے کا تعلق اس روایت سے کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو دونوں الگ الگ روایات ہیں۔
آپ تو۔۔۔۔۔۔سے آگے کا ترجمہ کردیں!
یہ روایت آپ کو اس لئے پیش کی گئی تھی کہ آپ نے سوال کیا تھا:
یہ بھی بتا دیجیے گا کہ وہ طویل حدیث کون سی ہے اور کس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے اور کس لفظ کے ساتھ صحیح ہے؟ اور صحیح نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟
آپ کو بتلایا گیا کہ یہ ہے وہ مکمل حدیث ابن مسعود جس میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نماز کے آغاز میں رفع الیدین کرنے کا اور رکوع میں تطبیق کرنے کا ذکر ہے!

امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اس حدیث کو ایک حدیث قرار دیتے ہوئے اسے شاذ و محفوظ کا معاملہ قرار دے رہے ہیں۔
میرے بھائی! آپ کو یہ دونوں احادیث بلکل جداگانہ کیوں معلوم ہو رہی ہیں! شاید اس لئے کہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ابن ادریس کی روایت :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ
میں فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل سمجھ رہے ہو! حالانکہ ایسا نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ جس کا فعل قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ ہے اسی کا فعل فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ ہے، یعنی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا!

یہاں تو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں روایات میں بہت فرق ہے۔ اگر امام احمد کی " غیر لفظ وکیع" سے مراد اوپر والی حدیث ہی ہے تو پھر تو دونوں روایات میں فرق نظر آ رہا ہے۔ اور اگر امام احمد کی مراد کوئی اور روایت ہے تو پھر بات ہی ختم ہو جاتی ہے۔
اگر مگر کی ویسے اب کوئی گنجائش رہتی تو نہیں ہے۔ پھر بھی آپ کو جو فرق نظر آرہا ہے، اسے بیان کیجئے!
آپ کا یہ کلام کہ ''واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے''، '' فرق نظر آرہا ہے'' اس کے بجائے آپ اس فرق کو جو آپ کو نظر آرہا ہے دم تحریر میں لائیں!
اشجعی کون ہیں اور ان کی روایت کون سی ہے؟
ملاحظہ فرمائیں: أبو عبد الرحمن عبيد الله بن عبيد الرحمن الأشجعى
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
ہم نے تو نہیں کہا ، لیکن آپ کی فقہ میں صحابی کو بدعتی بلکہ بدعت کا آغاز کرنے والا قرار دیا گیا ہے!
جناب نے دیگر مسائل کو اس عنوان میں گھسیڑنے کی کوشش کی ہے تاکہ خلط مبحث سے اصل موضوع سے ہٹایا جا سکے۔ اس کے لئے الگ تھریڈ شروع کرلیں۔ یہا رفع اکیدین ہی سے متعلق بحث کی جائے اور اسی کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
اصل موضوع کی تفہیم میں پیش کردہ تحاریر کی طرف آتے ہیں۔

میں نے لکھا تھا؛
تسلیم میں بھی ”سلام“ کے صیغہ کے ساتھ رفع الیدین ہے اور اس میں بھی ”سلام“ کے صیغہ کے ساتھ رفع الیدین ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول (جو آپ کو بھی مسلم ہے کہ اہلحدیث کہلانے والوں کی اکثر نماز کی کتب کے سرورق پر یہ اصول لکھا ہوتا ہے) کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
صحابہ کرام کا سلام کے وقت رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔

سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام نے یہ کہاں سے اخذ کیا؟
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہیں سے بھی اخذ کیا ہو، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس ''اخذ'' کرنے کو غلط قرار دے دیا! کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بہر حال یہ غلط اخذ کیا تھا۔
جناب کی ساری تحریر سے بات بالکل واضح ہے کہ آپ کے بقول صحابہ نے یہ عمل نہ تو قرآن سے لیا اور نہ ہی سنت سے۔

لامحالہ جس عمل کی سند نہ قرآن سے ہو اور نہ ہی سنت سے تو وہ بدعت ہی کہلائے گا۔ اسی لئے میں نے کہا؛
کیا صحابہ کرام (نعوذ باللہ) بدعتی تھے؟
وضاحت فرما دیں افادہ کے لئے نہ کہ فسادہ کے لئے ۔۔۔ ابتسامہ!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
سنن النسائي - (ج 4 / ص 146)
1016 - أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ
أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ
تحقيق الألباني: صحيح
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی خبر نہ دوں کہ کیسے پڑھتے تھے؟ راوی کہتا ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے نماز میں تکبیر تحریمہ کے سوا کہیں بھی بعد میں رفع الیدین نہ کی۔

دراصل پہلے رفع الیدین سجود میں بھی کی جاتی تھیں جسے منع کردیا گیا (ٍصحیح بخاری)۔ اسی طرح نماز میں رکوع اور سجود کی رفع الیدین بھی منع ہو گئیں جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے؛
صحيح مسلم : كِتَاب الصَّلَاةِ
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ ــــــــــــــــــــــــــ الحدیث
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمایا کہ یہ کیا ہے کہ میں تمہیں شریر گھوڑوں کی طرح رفع الیدین کرتے دیکھ رہا ہوں نماز میں سکون سے رہو ـــــــــ الحدیث۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث کے طرق ملاحظہ فرمائیں؛
المعجم الكبير للطبراني - (ج 2 / ص 284)
1795- حَدَّثَنَا حَفْصُ بن عُمَرَ بن الصَّبَّاحِ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بن عُقْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بن رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بن طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بن سَمُرَةَ ، قَالَ : دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، الْمَسْجِدَ فَرَآهُمْ رَافِعِي أَيْدِيهِمْ . قَالَ : " مَا لَهُمْ رَافِعِي أَيْدِيهِمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلاةِ
1797- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بن يَعْقُوبَ بن سَوْرَةَ الْبَغْدَادِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بن رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بن طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بن سَمُرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، رَأَى قَوْمًا قَدْ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلاةِ ، فَقَالَ : " قَدْ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلاةِ " .

المعجم الكبير للطبراني - (ج 2 / ص 285)
1798- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بن النَّضْرِ الأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بن عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بن رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بن طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، الْمَسْجِدَ فَرَآهُمْ رَافِعِي أَيْدِيهِمْ فِي الصَّلاةِ ، فَقَالَ : " مَا لِي أَرَاهُمْ رَافِعِي أَيْدِيهِمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلاةِ ".
1799- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بن عَمْرِو بن خَالِدٍ الْحَرَّانِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بن رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بن طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بن سَمُرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَيْهِمْ ، أُرَاهُ قَالَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُمْ رَافِعُوا أَيْدِيهِمْ ، وَقَالَ : " مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ ؟ ، اسْكُنُوا فِي الصَّلاةِ ".
1800- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بن عَبْدِ الْعَزِيزِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن رَجَاءٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ بن يُونُسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ تَمِيمِ بن طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ ، قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَرَأَى النَّاسَ رَافِعِي أَيْدِيهِمْ ، فَقَالَ : " مَا لِي أَرَى النَّاسَ رَافِعِي أَيْدِيهِمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلاةِ " .

المعجم الكبير للطبراني - (ج 2 / ص 286)
1801- حَدَّثَنَا مُعَاذُ بن الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بن رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بن طَرَفَةَ، عَنْ جَابرِ بن سَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا قَدْ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ، فَقَالَ: " كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلاةِ "
حَدَّثَنَا أَبُو حُصَيْنٍ الْقَاضِي ، حَدَّثَنَا يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بن رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بن طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بن سَمُرَةَ ، قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ .

نماز میں رکوع کو جاتے، رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت کے لئے اٹھ کر رفع الیدین کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے منع فرما دیا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

امکان در امکان تو بہت ہو سکتے ہیں، یہ بھی امکان ہو سکتا ہے دونوں کو غلطی ہوئی ہو اور ایک رفع الیدین کا ذکر بھی نہ کیا ہو! غلطی تو بہرحال ہو سکتی ہے نا!
لیکن ایسے امکانات کشید کرنا مناسب بات نہیں۔
جب ایک راوی ثقہ ہو، تو اس کی روایت یہ کہہ کر مشکوک باور نہیں کروائی جا سکتی، ممکن ہے اس سے غلطی ہو گئی ہو، جبکہ یقیناً کوئی بھی راوی غلطی سے پاک نہیں!
ہاں! اگر کسی ثقہ راوی کی روایت کے برخلاف ایسے قرائن موجود ہوں، کہ اس راوی کی روایت کو شاذ اور معلول قرار دیں، تو ایسی صورت میں اس روایت کو اس ثقہ راوی کا وہم ، غلطی و خطا قرارد یا جاتا ہے۔
رہی بات کہ غلطی تو لکھنے میں بھی ہو سکتی ہے! تو یہ بات علم الحدیث کو درست طرح نہ سمجھنے کی بناء پر ہے۔ حالانکہ اس مسئلہ کو امام احمد بن حنبل نے بیا ن بھی کیا۔مگر آپ کو امام احمد بن حنبل کے بیان پر اشکال ہے۔ آپ کے اشکال کو آگے رفع کرتے ہیں ان شاء اللہ! پہلے وہ الفاظ دہرا دیتا ہوں کہ امام احمد بن حنبل نے روایت کے مقابل ہونے کی صورت میں کسے محفوظ اور کسے شاذ قرار دینے کے لئے ایک قاعدہ بتلایا ہے۔

وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اور احمد بن حنبل نے کہا: ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے، ۔۔۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت

اب یا تو علم الحدیث میں امام احمد بن حنبل کا بیا ن کیا ہوا قاعدہ تسلیم کیا جائے، یا پھر علم الحدیث کی رو سے ہی امام احمد بن حنبل کے بیان کئے ہوئے قاعدہ کو غلط ثابت کیا جائے!
دوسرا کام ممکن نہیں، کیونکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ جب کسی ثقہ راوی کی روایت کردہ حدیث کے مقابل کوئی دوسرا ثقہ روای اسے سے مختلف روایت کرتا ہے تو ایسی صورت میں اگر اوثق یا ثقہ جماعت کی روایت کو محفوظ قرار پاتی ہے اور اس کے مخالف کو شاذ قرار دیا جاتا ہے! اور اگر دو ہی رواة کی روایات کا تقابل کیا جائے ، اور دونوں ہی ایک ہی درجہ کے ثقہ رواة ہوں تو ایسی صورت میں کتاب کی روایت محفوظ قرار پائے گی اور حافظہ کی شاذ و معلول!
یہ وہ قاعدہ ہے جسے امام احمد بن حنبل نے بیان کیا ہے۔

یہاں ایک مغالطہ ہوا ہے کہ امام احمد بن حنبل کے مذکورہ الفاظ ایک قاعدہ ہے اور اس کا انطباق امام احمد بن حنبل نے سفیان ثوری کی روایت کو شاذ قرار دینے میں کیا ہے:

وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.
کیونکہ آدمی بعض أوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب (اپنی کتاب) کی طرف رجوع کرتا ہے تو (صحیح) وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت

امام احمد بن حنبل نے یہاں صرف یہ بات صرف یہ بتلانے کے لئے کی ہے کہ کتاب کی روایت محفوظ ہوتی ہے، جیسے کہ ایک روای خود اگر کبھی خطا کرتا ہے اور وہ جب وہ اپنی ہی کتاب میں اسے اپنی حافظہ سے روایت کے خلاف پاتا ہے تو وہ بھی اپنی کتاب کو ہی محفوظ قرار دیتا ہے وہ اپنے حافظہ سے روایت کو وہم!
امام احمد بن حنبل یہاں صرف کتاب کی رایت کا حافظہ کی روایت سے محفوظ ہونا سمجھا رہے ہیں، امام احمد بن حنبل ''اپنی کتاب '' میں دیکھنے کا قاعدہ نہیں بیان کر رہے اور نہ ہی اس ''اپنی کتاب'' میں دیکھنے کے قاعدہ کا اطلاق کر رہے ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے اسی قاعدہ کا اطلاق کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا وہ ہے:

وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اور احمد بن حنبل نے کہا: ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے،

یہ ہے در اصل عجیب و غریب بات!
کہ امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کو زیادتی ثقہ کے مقبول ہونے کا أصول بتلایا جائے! ابتسامہ
میرے بھائی! امام احمد بن حنبل اور امام بخاری بخوبی اس سے واقف تھے، کہ ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے!
مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ امام احمد بن حنبل اور امام بخاری اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہاں ثقہ کی زیادتی نہیں، بلکہ ایک ثقہ راوی کی مخالفت ہے!
کیونکہ ''ثم لا یعود'' سے ایسے فعل کی نفی ہو رہے ہے جو دوسری راوی کی روایت سے نفی نہیں ہو رہی!
حتی کہ بہت سے لوگ اس روایت سے رفع الیدین عند الرکوع کے منسوخ ہونے پر دلیل لینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ہمارے پیارے بھائی کہتے ہیں کہ ''ثقہ کی زیادتی'' ہی تو تھی یہ تو معتبر ہونی چاہئے!
نہیں میرے بھائی! اسے ثقہ کی زیادتی نہیں کہتے ، یہ معاملہ محفوظ اور شاذ و معلول کا ہے!

آپ نے یحیی بن آدم کو اتنے مشورے دے دئیے کہ ابن ادریس پوچھ کیوں نہ لیا، جناب جب انہوں نے خود املا کروایا ہے، تو پوچھنے کی کیا حاجت رہی؟ اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا، تو پھر بھی کتاب کی روایت کی مستحکم ٹھہرتی!
آپ نے فرمایا کہ ان دو روایتوں میں فرق ہے؟ وہ کون سا فرق ہے جو ابن ادریس اور سفیان ثوری کی روایت کو الگ الگ احادیث ثابت کرتا ہے؟

وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَصَلَّى وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.

سفیان (الثوری) سے عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمٰن بن الأسود عن علقمہ (کی سند) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ابن مسعود نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی تو ایک دفعہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا۔
اور احمد بن حنبل نے یحییٰ بن آدم سے بیان کیا کہ: میں نے عبد اللہ بن ادریس کی عاصم بن کلیب سے کتاب میں دیکھا ہے۔ اس میں پھر دوبارہ نہیں کیا، کے الفاظ نہیں ہیں۔ اور (عبد اللہ بن ادریس کی) یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے، کیونکہ آدمی بعض أوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب (اپنی کتاب) کی طرف رجوع کرتا ہے تو (صحیح) وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت


714 - حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ مِنْ كِتَابِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ سَعْدًا فَقَالَ صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ ثُمَّ أَمَرَنَا بِهَذَا وَأَخَذَ بِرُكْبَتَيْهِ حَدثنِي عَاصِم بن كُلَيْب هَكَذَا قَالَ أبي هَذَا لفظ غير لفظ وَكِيع، وَكِيع يثبج الحَدِيث لِأَنَّهُ كَانَ يحمل نَفسه فِي حفظ الحَدِيث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 369 – 371جلد 01 العلل ومعرفة الرجال - أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) - دار الخاني، الرياض

آپ تو۔۔۔۔۔۔سے آگے کا ترجمہ کردیں!
یہ روایت آپ کو اس لئے پیش کی گئی تھی کہ آپ نے سوال کیا تھا:

آپ کو بتلایا گیا کہ یہ ہے وہ مکمل حدیث ابن مسعود جس میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نماز کے آغاز میں رفع الیدین کرنے کا اور رکوع میں تطبیق کرنے کا ذکر ہے!

امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اس حدیث کو ایک حدیث قرار دیتے ہوئے اسے شاذ و محفوظ کا معاملہ قرار دے رہے ہیں۔
میرے بھائی! آپ کو یہ دونوں احادیث بلکل جداگانہ کیوں معلوم ہو رہی ہیں! شاید اس لئے کہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ابن ادریس کی روایت :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ
میں فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل سمجھ رہے ہو! حالانکہ ایسا نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ جس کا فعل قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ ہے اسی کا فعل فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ ہے، یعنی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا!


اگر مگر کی ویسے اب کوئی گنجائش رہتی تو نہیں ہے۔ پھر بھی آپ کو جو فرق نظر آرہا ہے، اسے بیان کیجئے!
آپ کا یہ کلام کہ ''واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے''، '' فرق نظر آرہا ہے'' اس کے بجائے آپ اس فرق کو جو آپ کو نظر آرہا ہے دم تحریر میں لائیں!

ملاحظہ فرمائیں: أبو عبد الرحمن عبيد الله بن عبيد الرحمن الأشجعى
محترم بھائی! آپ کی مکمل تحریر پڑھی۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دیں کہ آپ نے اتنا وقت لگایا اور اتنا لکھا۔ اللہ پاک آپ کے وقت میں برکت دیں۔
تحریر کا مجموعی تاثر یہی نکلا کہ یہ ایک قول میں امام احمدؒ کی تقلید (یا اتباع کہہ لیں) ہے اور باقی دفاع مسلک۔ ورنہ میرے سوالات بالکل درست ہی ہیں۔ میں نے ایک بار پھر غور کیا ہے۔
اگر آپ اپنی تحریر سے خود مطمئن ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔
اور اگر آپ اپنی تحریر سے خود مطلئن نہیں تو پھر نظر ثانی فرما لیجیے گا۔ بندہ کا مقصود بحث کرنا نہیں ہے۔ ایک اشکال پیش کرنا تھا جو یا حل ہو جاتا یا مخاطبین کو دعوت فکر دے جاتا۔
و اللہ الموفق۔۔۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تحریر کا مجموعی تاثر یہی نکلا کہ یہ ایک قول میں امام احمدؒ کی تقلید (یا اتباع کہہ لیں)
ہم نے یہ عرض کیا تھا:
اب یا تو علم الحدیث میں امام احمد بن حنبل کا بیا ن کیا ہوا قاعدہ تسلیم کیا جائے، یا پھر علم الحدیث کی رو سے ہی امام احمد بن حنبل کے بیان کئے ہوئے قاعدہ کو غلط ثابت کیا جائے!
لہٰذا اسے تقلید تو آپ نے بھی مذاق میں ہی کہا ہو گا! اس لئے خیر کوئی بات نہیں!
اور اگر آپ اپنی تحریر سے خود مطلئن نہیں تو پھر نظر ثانی فرما لیجیے گا۔
ہم نظر ثانی ضرور کریں مگر ہمیں یہ بتلایا تو جائے کہ کسے مد نظر رکھیں:
آپ نے فرمایا کہ ان دو روایتوں میں فرق ہے؟ وہ کون سا فرق ہے جو ابن ادریس اور سفیان ثوری کی روایت کو الگ الگ احادیث ثابت کرتا ہے؟
اگر مگر کی ویسے اب کوئی گنجائش رہتی تو نہیں ہے۔ پھر بھی آپ کو جو فرق نظر آرہا ہے، اسے بیان کیجئے!
آپ کا یہ کلام کہ ''واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے''، '' فرق نظر آرہا ہے'' اس کے بجائے آپ اس فرق کو جو آپ کو نظر آرہا ہے دم تحریر میں لائیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میرے بھائی! آپ کو یہ دونوں احادیث بلکل جداگانہ کیوں معلوم ہو رہی ہیں! شاید اس لئے کہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ابن ادریس کی روایت :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ
میں فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل سمجھ رہے ہو! حالانکہ ایسا نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ جس کا فعل
قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ ہے اسی کا فعل فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ ہے، یعنی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا!
بھائی جان! حقیقت یہی ہے کہ میں اسے نبی کریم ﷺ کا فعل سمجھ رہا ہوں۔
میں دونوں روایات کا ترجمہ بغیر ضمیر لوٹائے کر دیتا ہوں:
عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَصَلَّى وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً
علقمہ سے روایت ہے کہ فرمایا: ابن مسعود رض نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھی، اور انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے مگر ایک مرتبہ۔

حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ
علقمہ نے حدیث بیان کی عبد اللہ سے کہ انہوں نے فرمایا: ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز سکھائی، تو انہوں نے تکبیر کہی، اور انہوں نے ہاتھ اٹھائے، پھر انہوں نے رکوع کیا، اور انہوں نے ہاتھوں کو ملایا، اور انہوں نے انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔
اس دوسری روایت میں جن ضمائر کو ہائلائیٹ کیا ہے یہ ضمائر کس کی طرف لوٹ رہی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کی طرف یا ابن مسعود رض کی طرف؟ اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف تو وہ تو قریب ہونے کی وجہ سے ہوگا کیوں کہ ضمیر کا مرجع قریب اولی ہوتا ہے (یہ نحو میں معروف ہے)۔
لیکن اگر عبد اللہ بن مسعود رض کی طرف تو کیوں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اب یا تو علم الحدیث میں امام احمد بن حنبل کا بیا ن کیا ہوا قاعدہ تسلیم کیا جائے، یا پھر علم الحدیث کی رو سے ہی امام احمد بن حنبل کے بیان کئے ہوئے قاعدہ کو غلط ثابت کیا جائے!
اسی کی وجہ سے میں نے اسے تقلید کا نام دیا تھا۔
امام احمدؒ بڑے عالم اور امام ہیں لیکن یہ قاعدہ انہوں نے کس دلیل کی بنیاد پر نکالا ہے؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top