• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سنن النسائی

تالیف​
امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی (۲۱۵-۳۰۳ھ)
( سنن نسائی عربی متن، اردوترجمہ ، تخریج وتحشیہ )

تیار کردہ​
مجلس علمی دارالدعوۃ​
اشراف ، مراجعۃ وتقدیم​
ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی
استاذ حدیث جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ ، ریاض​
ناشر: دار الکتب السلفیۃ ، دہلی (انڈیا)​

۱-کتاب: طہارت کے احکام ومسائل
۲-کتاب: پانی کے احکام ومسائل
۳-کتاب: حیض اور استحاضہ کے احکام ومسائل
۴-کتاب: غسل اور تیمم کے احکام ومسائل
۵-کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
۶-کتاب: اوقاتِ صلاۃ کے احکام ومسائل
۷-کتاب: اذان کے احکام ومسائل
۸- کتاب: مساجد کے فضائل ومسائل
۹- کتاب: قبلہ کے احکام ومسائل
۱۰-کتاب: امامت کے احکام ومسائل
۱۱-کتاب: صلاۃ شروع کرنے کے مسائل واحکام
۱۲- کتاب: تطبیق کے احکام ومسائل
۱۳-کتاب: صلاۃ میں سہو کے احکام ومسائل
۱۴-کتاب: جمعہ کے فضائل ومسائل
۱۵-کتاب: سفر میں قصرِ صلاۃ کے احکام ومسائل
۱۶-کتاب: (چاند، سورج) گرہن کے احکام ومسائل
۱۷-کتاب: بارش طلب کرنے کے احکام ومسائل
۱۸-کتاب: صلاۃ خوف کے احکام ومسائل
۱۹-کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی صلاۃ کے احکام ومسائل
۲۰-کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل صلاتوں کے احکام ومسائل
۲۱-کتاب: جنازہ کے احکام ومسائل
۲۲-کتاب: صیام کے احکام ومسائل وفضائل
۲۳- کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل
۲۴- کتاب: حج کے احکام ومناسک
۲۵-کتاب: جہاد کے احکام، مسائل وفضائل
۲۶-کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام ومسائل
۲۶/أ-کتاب: عورتوں کے ساتھ معاشرت (یعنی مل جل کر زندگی گذارنے) کے احکام ومسائل
۲۷-کتاب: طلاق کے احکام ومسائل
۲۸-کتاب: گھوڑوں سے متعلق احکام ومسائل
۲۹-کتاب: اللہ کی راہ میں مال وقف کرنے کے احکام ومسائل
۳۰-کتاب: وصیت کے احکام ومسائل
۳۱-کتاب: ہبہ اور عطیہ کے احکام ومسائل
۳۲- کتاب: ہبہ کے احکام ومسائل
۳۳- کتاب: رقبیٰ (یعنی زندگی سے مشروط ہبہ) کے احکام ومسائل
۳۴- کتاب: عمریٰ کے احکام ومسائل
۳۵-قسم اور نذر کے احکام ومسائل
۳۷- کتاب: قتل وخون ریزی کے احکام و مسائل
۳۸- کتاب: مالِ فی ٔ ۱؎ کی تقسیم سے متعلق احکام و مسائل
۳۹- کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
۴۰- کتاب: عقیقہ کے احکام و مسائل
۴۱- کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل
۴۲- کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
۴۳- کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
۴۴- کتاب: خرید وفروخت کے احکام و مسائل
۴۵- کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
۴۶-کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
۴۷- کتاب: ایمان اور ارکان ایمان
۴۸- کتاب: زیب و زینت اور آرایش کے احکام و مسائل
۴۸/أ- کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
۴۹-کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
۵۰-کتاب: استعاذہ (بری چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگنے) کے آداب واحکام
۵۱- کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کلمہ تشکر و امتنان

از مجلس علمی دار الدعوۃ دہلی​
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين. أما بعد:
احادیث نبویہ زادہا اللہ شرفا وکرامۃ سے متعلق زیر نظر سنن نسائی کا اردوترجمہ مجلس دار الدعوۃ دہلی کی چوتھی پیش کش ہے جسے ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہوئے اللہ رب العزت کے بے پایاں شکر گزار ہیں کہ اسی نے ہمیں اس اہم کام کی تکمیل کی توفیق وسعادت بخشی۔
یہ در اصل'' حدیث انسائیکلو پیڈیا اردو'' کی اشاعت کے اس عظیم منصوبہ کا ایک حصہ ہے جو مجلس علمی دار الدعوۃ دہلی کے پیش نظر ہے اس کتاب کی اشاعت کے بعد سنن اربعہ کا یہ سلسلہ مکمل ہوجاتا ہے اس کے بعدصحیحین (بخاری، مسلم)، موطأ إمام مالک اورسنن دارمی کے تراجم کی اشاعت کا مرحلہ باقی رہ جاتا ہے ۔اللہ کی ذات سے ہمیں امید ہے کہ وہ ان کتابوں کی اشاعت کی راہ کی دشواریاں بھی آسان فرمائے گا اور ہم جلد اس لائق ہو سکیں گے کہ ان کتابوں کو بھی منظر عام پر لا سکیں إنہ ولی التوفیق۔
سنن نسائی کے مؤلف تیسری صدی ہجری کے نامور اور بلند پایہ محدث إمام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی (۲۱۵-۳۰۳ھ) ہیں امام نسائی کواللہ نے فہم حدیث میں مہارت ورسوخ اور دقت نظری کے ساتھ فقہی بصیرت اور قوت استنتاج کا بھی حصۂ وافر عطا کیا تھا ۔ان کے کمال تفقہ کی بہترین دلیل اس کتاب کے تراجم ابواب ہیں ۔احادیث کے علل کی معرفت میں وہ بلند مقام پر فائز تھے ،رواۃ کی جانچ وپڑتال میں کمال احتیاط سے کام لیتے تھے ۔اس باب میں ان کا شمار متشددناقدین حدیث میں ہوتا ہے ان کی شرط اس معاملہ میں امام ابو داود، اور امام ترمذی سے سخت ہیں اسی وجہ سے ان کی اس کتاب میںسنن اربعہ میں سب سے کم ضعیف احادیث ہیں۔اس کتا ب کی عظمت وشرف کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض محدثین نے اسے سنن ابی داود اور سنن ترمذی پر فوقیت دی ہے اورصحاح ستہ کے نام سے مشہور دواوین حدیث میں صحیحین کے بعد اسے تیسرے درجہ پر رکھا ہے۔
زیر نظر مجموعہ عربی متن کے ساتھ آسان اور سلیس اردو ترجمہ ،تخریج،صحت وضعف کے حکم ، اس کی تعلیل وتوجیہ اور مفید ،جامع اورمختصر تعلیقات وحواشی پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کی تخریج مولانا احمد مجتبیٰ مدنی اور مولانا عبد المجید مدنی کی ہے اور جلد اول (از تا کتاب الجہاد) کا ترجمہ راقم نے اور جلد ثانی(از کتاب النکاح تا اخیر کتاب)کے ترجمے مولانا محمد مستقیم سلفی ،مولانا خالد عمری،مولانا محمد بشیر تیمی اور مولانا ابو البرکات اصلاحی نے کئے ہیں۔اور پہلی جلد کے تمام حواشی راقم نے اور بقیہ کے حواشی مولانااحمد مجتبی مدنی اورمولانا محمد مستقیم سلفی کے قلم سے ہیں جن پر نظر ثانی اور بہت سے حواشی کا اضافہ راقم نے کیا ہے اور اخیر میں پورے مسودے کا مراجعہ اور بہت سی خامیوں کی اصلاح اور مناسب حذف واضافہ برادر گرامی ڈاکٹر عبد الرحمن عبد الجبار الفریوائی استاذ حدیث جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیہ ریاض اور رئیس مؤسسہ دار الدعوۃ دہلی نے کیا ہے موصوف نے گراں قدر اور جامع مقدمہ لکھ کر اس مجموعہ کو وقار اور اعتماد بھی بخشا ہے ۔جس پر ہم اراکین مجلس علمی انکے بے حد ممنون ومشکور ہیں۔
بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اس موقع پر ہم مولانا محمد ایوب عمری ناظم اعلی مؤسسہ دار الدعوۃ دہلی کا شکریہ ادا نہ کریں جنہوں نے اس اہم کام کی تکمیل کے جملہ انتظامات کئے اور ہم کار کنان مجلس علمی کے لئے ہر طرح کی آسانیاں اور سہولتیں فراہم کیں۔
اخیر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس مجموعہ کو شرف قبولیت سے نوازے اوراسے امت کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رفیق احمد سلفی
رکن مجلس علمی دار الدعوۃ دہلی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تقديم

لترجمة سنن الإمام النسائي إلى اللغة الأردية معالي الشيخ الدكتورعبدالله بن عبدالمحسن التركي


الحمد لله الذي أنزل علينا خير كتبه، وأرسل إلينا أفضل رسله، والصلاة والسلام على إمام الأنبياء والمرسلين نبينا وحبيبنا محمد صلى الله عليه وعلى آله وصحبه ومن تبعهم إلى يوم الدين. أما بعد:
فإن من مفاخر هذه الأمة أنها أمة الإسناد، وليس في التاريخ أمة حفظت أقوال نبيها وأفعاله وتقريراته وأحداث سيرته وأيامه كأمة محمد ﷺ؛ فقد خُصت بهذه الميزة التي حفظ الله بها السنة النبوية المطهرة.
والحديث عن السنة حديث عن الإسلام كله، فحجية السنة من ثوابت الملة، قال الله تعالى: {فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَيَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا} (النساء:65) وقال سبحانه: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} (الحشر:7).
وأمر رسول الله ﷺ ونهيه شرعٌ يجب الانقياد له في كل زمان ومكان، لا يُقبل من مسلم غير ذلك، ولا خيرة لأحد بعد قول الله وقول رسوله ﷺ. قال تعالى: {قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ} (آل عمران:32)، وقال سبحانه: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْئٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً} (النساء:59).
هذا هو دين الله الذي بلغه رسوله محمد ﷺ وبه آمن الصحابة رضي الله عنه، ونهضوا بواجب البلاغ؛ فعلَّموا السنة ورووها، ووقفوا عند أمرها ونهيها، وهذا طريق أهل التوحيد لا يشك في صحته إلا منافق معلوم النفاق.
وفي طريق خدمة السنة سار رجال أعلام قيَّضهم الله لحفظها والمحافظة عليها، أحبوا سنة رسول الله ﷺ حق المحبة، وفي سبيل حفظها تغرَِّبوا عن الأوطان، وفارقوا الأهل والولدان حتى نحلت أجسادهم، واصفرّت ألوانهم، ووجدوا من المشقة والعناء والضيق والبلاء ما لا يعلم قدره إلا الله سبحانه وتعالى وكان لهم عظيم البلاء في حفظ السُّنة فبلَّغها كلُّ جيلٍ إلى مَنْ بعدَه، فحُفِظت سُنَّة رسول الله ﷺ على أكمل وأجمل ما يكون عليه الحفظ، حُفظت أسماء الرواة الذين نقلوا حديث رسول الله ﷺ وأنسابهم وديارهم، وعُرفت أحوالهم، مع دقةٍ في تمييز من اشتبه مع غيره في اسمه أو نسبه.
وكلُّ مَنْ نظر في علم الرجال والجرح والتعديل أدرك عظيم بلائهم، وَعَلِمَ جليل ما قدَّموا لهذه الأمة من العلم النافع مِمَّا نفع اللهُ به القرون من بعدِهم.
وبجهودهم وصلتنا هذه المنصنفات الخالدة، وما تزال هذه الأمة محفوظة من الهوى والردى ما حفظت حديث رسول الله ﷺ، وما حفظت من هديه الكريم ﷺ. فرحم الله أئمتنا أئمة الهدى وأجزل لهم الثواب على ما قدموا.
ومن أولئك الأعلام الحافظ الناقد أبو عبدالرحمن بن شعيب بن علي النسائي المتوفى سنة (303هـ)، صاحب كتاب المجتبى الذي اشتهر بسنن النسائي.
والكتاب سِفرٌ عظيم حوى ما يُقارب (5757) حديث، وهو من السنن الأربعة، وواحد من الكتب الستة، وترجمته إلى اللغة الأردية- والتي أقدم لها- عملٌ مباركٌ حظيت بشرفه مؤسسة دار الدعوة في نيو دلهي بالهند، وسبق لها في هذا المضمار ترجمة سنن أبي داود وسنن ابن ماجه، وهي اليوم تواصل عطائها في ترجمة سنن النسائي مع جامع الترمذي.
وأدعو الله -عزوجل- للقائمين عليها بمزيد التوفيق والرشاد، شاكراً جميعاً ما يبذلون، وفي مقدمتهم الأخ الفاضل الدكتور/عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي. وأسأل الله أن يجعله في ميزان حسناتهم، والحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات.
أ.د/عبدالله بن عبدالمحسن التركي
الأمين العام لرابطة العالم الإسلامي
مكة المكرمة


تقدیم

ازعزت مآب ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی -حفظہ اللہ -​
جنرل سکریٹری رابطہ عالم اسلامی ، مکہ مکرمہ
ممبر سربرآوردہ علماء بورڈ ، سعودی عرب
الحمد لله الذي أنزل علينا خير كتبه، وأرسل إلينا أفضل رسله، والصلاة والسلام على إمام الأنبياء والمرسلين نبينا وحبيبنا محمد صلى الله عليه وعلى آله وصحبه ومن تبعهم إلى يوم الدين. أما بعد:
ہرطرح کی تعریف وتوصیف اور حمد وثنا اللہ رب العزت کے لیے ہے جس نے ہم پر سب سے بہترین کتاب نازل فرمائی اور ہمارے پاس سب سے افضل رسول بھیجا، صلاۃ (درود) وسلام ہو انبیاء ورسل کے امام وسردار ہمارے نبی اور حبیب محمد بن عبداللہ اور آپ کے آل واصحاب پر اور ان لوگوں پر جو تاقیامت صحابہ اور آل رسول کے طریقے پر ہوں۔
امابعد؛ امت محمد یہ کے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ یہ اسناد والی امت ہے، تاریخ میں کوئی دوسری قوم اور امت ایسی نہیں پائی جاتی جس نے اپنے نبی کے اقوال وافعال اور تقریرات نیز اس کی زندگی سے متعلق واقعات کواس طرح محفوظ رکھاہو، جیسا کہ امت محمد یہ نے اپنے نبی کے اقوال وافعال اور تقریرات اور سیرت مبارکہ کو محفوظ رکھا، یہ امت اسناد کے امتیاز کی حامل امت ہے جس سے اللہ تعالی نے سنت مطہرہ کی حفاظت فرمائی۔
سنت نبویہ کے بارے میں گفتگو سارے اسلام کے بارے میں گفتگو ہے، سنت کی حجیت ملت اسلامیہ کا مسلمہ اصول ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَيَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا} (النساء:65).(پس قسم ہے تیرے رب کی یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام لوگ آپس کے اختلاف میں آپ کو حکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں وہ کسی طرح کی تنگی اور ناراضگی نہ پائیں، اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کرلیں)۔
نیز ارشاد ہے :{وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} (الحشر:7) (اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو ، اور جس سے روکیں رک جاؤ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو، یقینا اللہ تعالیٰ سخت عذاب والاہے )۔
نبی اکرمﷺکے اوامر واحکام اور نواہی وممنوعات شریعت ہیں، ہر زمانے اور جگہ میں جن کی پابندی واجب ہے، مسلمان سے اس کے علاوہ اور کوئی چیز مقبول نہیں ہوگی ، اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے بعدکسی کو کوئی اختیار نہیںرہ جاتا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :{قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ} (آل عمران:32) (کہہ د یجئے اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیرلیں تو بیشک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا)۔
نیز ارشاد ہے :{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْئٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً} (النساء:59) (اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری کرو، اور رسول کی اور تم میں سے جو اختیار والے ہیں ان کی اطاعت کرو، پھراگرکسی چیز میں اختلاف کروتو اسے اللہ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہترہے اور انجام کے اعتبار سے بہت اچھاہے)۔
یہ ہے وہ اللہ کا دین جس کی تبلیغ اس کے رسول محمدﷺ نے کی اور جس کی تصدیق صحابہ کرام نے کی، اور تبلیغ کی ذمہ داری کو اداکیا اور سنت کو سیکھااور ا س کی روایت کی اور سنت میں موجود احکام واوامر اور ممنوعات ومنہیات کے آگے سرتسلیم خم کیا،یہی اہل توحید کا نہج اور طریقہ ہے، اس کی صحت میں صرف پکا منافق ہی شک کرسکتا ہے ۔
سنت نبویہ کی خدمت کے راستے میں مشاہیر علماء نے قدم رکھا اللہ رب العزت نے انہیں سنت کی حفاظت اور اس پر پابند رہنے کے لیے منتخب کیا، جنہوں نے محبت کے جذبے سے سنت رسول کو زندہ کیااور اس کی حفاظت کے راستے میں اپنے وطن کو خیرباد کہا، اہل وعیال سے جدائی اختیار کی حتی کہ اس راہ میں ان کے جسم کمزور اور دبلے ہوگئے،ان کے رنگ پیلے پڑگئے، اس راہ میں جس تکلیف ومشقت اور تنگی اور آزمائش کا ان لوگوں نے سامنا کیا اس کا اندازہ صرف اللہ رب العزت ہی کو ہے، ان حضرات نے سنت کی حفاظت میں بڑی قربانیاں دیں اوراپنے بعد کی نسلوں تک اس کو منتقل کیا اس طرح سے مکمل اورخوبصورت انداز سے سنت رسو ل کی حفاظت ہوئی، رواۃ حدیث کے اسماء محفوظ ہوئے، ان کے حسب ونسب اور شہروں سے متعلق معلومات کی تدوین عمل میں آئی اور ان کے احوال سے معرفت حاصل ہوئی ،رواۃ حدیث کے نام ونسب میں جو اشتباہ تھا اس کو بھی بڑی باریک بینی سے مدون کیا گیا،جس نے بھی فن رجال حدیث اور فن جرح وتعدیل پر غورکیا اس کو محدثین کرام کی عظیم جدوجہد کا اندازہ ہے اور اس امت کے لیے انہوں نے جو مفید علم محفوظ کیا جس کا نفع بعد کی صدیوں میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پہنچایا، اس عظیم خدمت کا ادراک ہے ۔
محدثین کی انہی کوششوں کے نتیجے میں ہم تک یہ زندہ وتابندہ تصنیفات پہنچیں ، جب تک امت حدیث رسول اور ہدایت رسول کی حفاظت کرے گی اس وقت تک وہ بدعت اور ہلاکت سے محفوظ رہے گی ، اللہ رب العزت ہمارے ان امامانِ ہدیٰ پر اپنارحم فرمائے اور ان کی ان خدمات پر ان کو بہترین اجر عطاکرے۔
انہی مشاہیر محدثین میں سنن صغریٰ کے نام سے مشہور کتاب ''المجتبیٰ'' کے مؤلف حافظ حدیث ناقد امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی نسائی (ت:۳۰۳ھ) ہیں ۔
یہ کتاب ایک عظیم مجموعہ حدیث ہے جس میں تقریباً (۵۷۵۷) احادیث ہیں، یہ سنن اربعہ اور صحاح ستہ کی ایک کتاب ہے ،زیر نظر کتاب کا اردو ترجمہ جس کے لیے یہ مقدمہ لکھا جارہا ہے ایک مبارک کام ہے، جس کی تکمیل کا شرف دار الدعوۃ ،نئی دہلی کو حاصل ہے ، اس ادارے نے اس سے پہلے اس سلسلہ کی کتابوں میں سے سنن ابی داود اور سنن ابن ماجہ کے تراجم شائع کئے ہیں، سنن نسائی اور سنن ترمذی کے اردو تراجم بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
میں اللہ تعالیٰ سے دارالدعوۃ کے ذمہ داران کے لیے دعا گو ہوں کہ وہ انہیں مزید اپنی توفیق وہدایت سے نوازے، میں ان تمام حضرات کا ان کی اس جدوجہد پرشکریہ اداکرتا ہوں جن سرفہرست برادرم ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالجبارالفریوائی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اس عمل کو ان کے میزان حسنات میں جگہ دے، والحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات.
ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی
جنرل سکریٹری رابطہ عالم اسلامی ، مکہ مکرمہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوانح حیات

امام نسائی رحمۃاللہ علیہ
( ۲۱۴ ،۲۱۵ھ-۳۰۳ھ)​
نام ونسب اور کنیت:
آپ کا نام احمد اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے، سلسلہ نسب یہ ہے : احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینا ر بن نسائی الخراسانی (التذکرہ:۲/ ۲۴۱، طبقات الشافعیہ۲/۸۳)۔
ولادت: آپ کے سن پیدائش میں اختلاف ہے ، بعض نے (۲۱۴ھ) اور بعض نے (۲۱۵ھ) بیان کیا ہے (التذکرہ ، التہذیب ، طبقات الشافعیہ )
خود امام نسائی سے منقول ہے کہ میری پیدائش اندازاً (۲۱۵ھ) کی ہے ، اس لیے کہ (۲۳۰ھ) میں ،میں نے پہلا سفر قتیبہ بن سعید کے لیے کیااور ان کے پاس ایک سال دومہینے اقامت کی (تہذیب الکمال ۱/۳۳۸، سیر أعلام النبلاء ۱۴/۱۲۵) ، ابن یونس مصری کہتے ہیں: نسائی بہت پہلے مصر آئے ، وہاں پر علماء سے احادیث لکھیں، اور طلبہ نے آپ سے احادیث لکھیں ، آپ امام حدیث، ثقہ ، ثبت اور حافظ حدیث تھے، مصر سے ماہ ذی القعدۃ (۳۰۲ھ) میں نکلے اور دوشنبہ کے دن (۱۳) صفر(۳۰۳ھ) فلسطین میں آپ کی وفات ہوئی (تہذیب الکمال ، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۱، السیر۱۴/۱۳۳، الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ۴۵۸)۔
امام ذہبی دول الاسلام میں کہتے ہیں: امام نسائی کی عمر (۸۸)سال تھی ،(۲۱۵ھ) کی تاریخ پیدائش کی بناپر یہ ایک اندازہ ہے، اکثر علماء نے امام نسائی کی عمر (۸۸) سال بتائی ہے(البدایۃ والنہایۃ ۱۱/۱۲۴، توضیح المشتبہ لابن ناصر الدین الدمشقی ۵/۱۸ ، تہذیب التہذیب ۱/۳۶، ۳۷، شذرات الذہب) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے امام نسائی کی پیدائش (۲۲۵ھ) لکھی ہے، جو صحیح نہیں ہے ، چنانچہ ابن العماد نے امام نسائی کی وفات (۳۰۳ھ) ذکرکرتے ہوئے کہا : وله ثمان وثمانون سنة.اس لحاظ سے بعض مورخین کا یہ کہنا کہ نسائی کی پیدائش (۲۲۵ھ) میں ہوئی صحیح نہیں ہے(شذرا ت الذہب)
وطن: آپ کی پیدائش خراسان کے مشہور شہر نساء میں ہوئی جو صرف نون اور سین کی فتح کے ساتھ اور ہمزہ کے کسر اور مد کے ساتھ پڑھاجاتا ہے ، کبھی عرب اس ہمزہ کو واو بدل کر نسبت کرتے وقت ''نسوی '' بھی کہاکرتے ہیں اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے لیکن مشہور نسائی ہے ۔لیکن واضح رہے کہ امام نسائی نے مصر میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علمی اسفار

امام نسائی نے پہلے اپنے شہر کے اساتذہ سے علم حاصل کیا، پھر علمی مراکز کا سفر کیا، سب سے پہلے آپ نے خراسان میں بلخ کے ایک شہر بغلان (۲۳۰ھ)کا رخ کیا، وہاں قتیبہ بن سعید کے پاس ایک سال دوماہ طلب علم میں گزارا ، اور اُن سے بکثرت احادیث روایت کیں، نیز طالبان حدیث کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، طلب حدیث کے لیے دوردر از علاقوں کا قصدکیا، حجاز (مکہ ومدینہ) عراق (کوفہ وبصرہ) شام ، جزیرہ،خراسان اور سرحدی علاقوں کے مراکز حدیث جن کو'' ثغور'' (سرحدی علاقے) کہا جاتا ہے وغیرہ شہروں کا سفر کیا، اور مصر میں سکونت اختیار کی( طبقات الشافعیہ ۸۴، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۸،مقدمہ تحفۃ: ۶۶)۔
مورخین نے آپ کے علمی اسفار کا ذکرکیاہے، حافظ ابن کثیر آپ کے علمی اسفار کے بارے میں لکھتے ہیں:رحل إلى الآفاق واشتغل بسماع الحديث والاجتماع بالأئمة الحذاق (البدایہ: ۱۲۳) یعنی نسائی نے دوردراز کا سفر کیا، سماع حدیث میں وقت گزارا اور ماہر ائمہ سے ملاقاتیں کیں ۔
اساتذہ : امام نسائی نے علماء کی ایک بڑی جماعت سے علم حدیث حاصل کیا، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام نسائی نے بے شمار لوگوں سے احادیث سنیں (تہذیب التہذیب ) جن میں سے چند اہم ائمہ اور رواۃ حدیث کا ذکر ذیل میںکیا جاتا ہے:
۱-ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی،۲- ابوداود سلیمان بن اشعث السجستانی،۳- احمد بن بکار ،۴- احمد بن حنبل،۵-اسحاق بن راہویہ ،۶- الحارث بن مسکین ،۷- زیاد بن یحیی الحسّائی النکری البصری ،۸-عباس بن عبدالعظیم العنبری،۹- عبداللہ بن احمد بن حنبل،۱۰-عبداللہ بن سعید الکندی ،۱۱-علی بن حجر،۱۲- علی بن خشرم ،۱۳- عمرو بن بن علی الفلاس ، ۱۴-عمروبن زرارہ ،۱۵-قتیبہ بن سعید ،۱۶- محمد بن اسماعیل بخاری ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : (حافظ مزی کی تحقیق میں امام نسائی کا سماع امام بخاری سے نہیں ہے، وہ بعض شیوخ کے واسطے سے بخاری سے روایت کرتے ہیں(تہذیب الکمال ۲۴/۴۳۷) لیکن صحیح اورتحقیقی بات یہی ہے کہ امام نسائی امام بخاری کے شاگرد ہیں، حافظ ابن حجر نے مقدمۃ الفتح میں لکھاہے کہ بخاری سے احادیث روایت کرنے والے بڑے حفاظ حدیث مسلم ، نسائی ، ترمذی ، ابوالفضل احمد بن سلمہ اور ابن خزیمہ ہیں(۴۹۲)، نیز تہذیب التہذیب میں امام بخاری کے ترجمے کے آخر میں (۹/۵۵) اور ایسے ہی محمد بن اسماعیل عن حفص بن عمر بن الحارث کے ترجمے میں (۹/۶۳) یہ مسئلہ صاف کردیا ہے کہ بلا شک وشبہ امام بخاری نسائی کے استاذ ہیں، اور حافظ مزی کی بات صحیح نہیں ہے (ملاحظہ ہو: سیرۃ البخاری ۲/۷۴۸)
۱۷-محمد بن المثنی ،۱۸-محمد بن بشار،۱۹-محمد عبدالاعلی ،۲۰-یعقوب بن ابراہیم الدورقی ، ۲۱ہشام بن عمار،۲۲-ہناد بن السری ، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

تلامذہ

امام نسائی سے علماء اور رواۃکی ایک بڑی تعداد نے علم حاصل کیا،اور آپ سے احادیث روایت کیں، جن کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ بے شمار لوگ ہیں(تہذیب التہذیب ) امام نسائی علم ودین کی امامت کی شہرت کے ساتھ معمر شیخ الحدیث تھے، اس لیے آپ کے علوم وفنون سے استفادہ کے ساتھ ساتھ طلبہ آپ کے پاس اس واسطے بھی بکثرت آتے تھے تاکہ اُن کی سند عالی ہوجائے، اس لیے کہ قتیبہ بن سعید اور اُن کے طبقہ سے امام نسائی نے احادیث روایت کی تھیں اور تیسری صدی کے خاتمے اور چوتھی صدی کی ابتداء میں اس سندعالی کا کوئی راوی آپ کے علاوہ نہ پایا جاتاتھا، اس لیے رواۃ نے آپ سے بڑھ چڑھ کر احادیث روایت کیں ، مشاہیر رواۃ تلامذہ کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
سنن نسائی کے رواۃ
امام نسائی کے تلامذہ میں سے جن لوگوں نے آپ سے سنن کی روایت کی ہے، حافظ ابن حجر نے ان میں سے دس رواۃ کا تذکرہ کیاہے ،جو حسب ذیل ہیں:
۱- عبدالکریم بن احمدبن شعیب النسائی (ت:۳۴۴ھ): عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی ، ایوب بن حسین قاضی ثغر اور خصیب بن عبداللہ نے عبدالکریم سے سنن روایت کی ، ابن خیرکہتے ہیں: ابومحمد بن اسد کے پاس کتاب الطب (دوجزء میں) تھی جس کی روایت میں وہ ابوموسیٰ عبدالکریم بن احمد بن شعیب نسائی سے منفرد تھے۔ ( فہرست ابن خیر ۱۱۳، تہذیب التہذیب ۱/۳۷) ابن خیر فہرست میں لکھتے ہیں کہ ابوعلی غسانی کہتے ہیں:کتاب المجتبیٰ کی روایت نسائی سے سے ان کے لڑکے عبدالکریم اور ولید بن القاسم الصوفی نے کی ہے(فہرست ابن خیر ۱۱۶، ۱۱۷)
۲- ابوبکر احمد بن محمد بن اسحاق ابن السنی الدینوری (ت:۳۶۴ھ): حافظ ابن حجر نے ان کو سنن صغری کے رواۃ میں لکھاہے ، لیکن ابن خیرنے اپنی فہرست میں ان کا تذکرہ سنن کے رواۃ میں نہیں کیاہے، المجتبی یعنی نسائی کی سنن صغریٰ کے یہ راوی ہیں، (سیر أعلام النبلاء ۱۶/۲۵۵)موجودہ سنن صغریٰ کے متداول نسخے ابن السنی ہی کی سندسے ہیں، واضح رہے کہ تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ سنن صغریٰ (المجتبیٰ ) کے مؤلف امام نسائی ہی ہیں، ابن السنی صرف اس کے راوی ہیں،بعض لوگوں نے سنن صغریٰ میں ابن السنی کی بعض زیادات اور افادات سے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ ابن السنی کی تالیف ہے، جب کہ اہل علم کے یہاں یہ بات معروف ومشہور ہے کہ رواۃ اپنے شیوخ کی کتابوں میں اضافے کرتے رہے ہیں، مثال کے طور پر مسند احمد، اور فضائل صحابہ میں عبداللہ بن احمد اور قطیعی کی زیادات ہیں،اور سنن ابن ماجہ میں راوی کتاب ابو الحسن القطان کی زیادات ہیں۔ایک قوی دلیل سنن صغریٰ کی نسائی کی تالیف ہونے کی یہ ہے کہ نسائی نے سنن کبریٰ سے انتخاب کے ساتھ ساتھ سنن صغریٰ میں بہت ساری ایسی احادیث ذکرکی ہیں، جو کبریٰ میں نہیں پائی جاتیں ۔
۳-ابوعلی الحسن بن الخضر الاسیوطی (ت:۳۶۱ھ): ابوالحسن علی بن محمد بن خلف القابسی اور ابوالقاسم عبدالرحمن بن محمد بن علی ادفوی نے ان سے سنن کی روایت کی (فہرست ابن خیر ۱۱۲)
۴- حسن بن رشیق ابومحمد العسکری (ت:۳۷۰ھ): احمد بن عبدالواحدبن الفضل ابوالبرکات الفراء اور ابوالقاسم حسن بن محمد انباری نے ان سے سنن کی روایت کی ۔
۵-ابوالقاسم حمزہ بن محمد بن علی کنانی مصری الحافظ صاحب مجلس البطاقہ (ت: ۳۵۷ھ): ان سے سات رواۃ نے سنن کی روایت کی ، ابن خیر کہتے ہیں: ابومحمد عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی کی حمزہ سے روایت والے نسخے میں چند اسمائے کتب ایسے ہیں جو ابومحمداصیلی کی روایت میں نہیں ہیں،ان میں سے مناقب الصحابۃ (۴/جزء ) ، کتاب النعوت (۱/جزء) کتاب البیعۃ (۱/جزء) کتاب ثواب القرآن (۱/جزء) کتاب التعبیر (۱/جزء) کتاب التفسیر (۵/جزء) ہیں، اوران کتابوں کی قاضی حمزہ سے روایت ابوعبداللہ محمد بن احمد بن یحیی بن مفرج اور ابوالقاسم احمد بن محمد بن یوسف المعافری نے کی ہے ، اور یہ دونوں رواۃ محمد بن اسد کے ساتھی ہیں،محمد بن قاسم نے بھی ان کتابوں کی روایت نہیں کی ہے، اور نہ ہی ابوبکر بن الاحمر نے ، ہاں ابن قاسم کے پاس کتاب الاستعاذۃ اور فضائل علی بن ابی طالب ان سے مستثنیٰ ہیں،ابن خیر مزید کہتے ہیں: اس تصنیف کے علاوہ مجھے ابومحمد بن یربوع کے خط سے کتاب الإ یمان وکتاب الصلح ملی ہے، کتاب الإیمان بروایت ابوعلی حسین بن محمد الغسانی عن ابی عمر ابن عبدالبر عن أبی القاسم أحمد بن فتح التاجر عن حمزۃ بن محمد کنانی ہے، اور ابوعلی الغسانی بھی اسے اس سند سے روایت کرتے ہیں: ابومروان عبدالملک بن زیادۃ اللہ التمیمی عن أبی إسحاق إبراہیم بن سعید بن عبداللہ الحبال عن أبی الفرج محمد بن عمر الصدفی عن حمزۃ الکنانی فی رجب ۳۵۴ھ) قال: حدثنا أبوعبدالرحمن النسائي قرائة بلفظه (فہرست ابن خیر ۱۱۵)،حافظ مزی تحفۃ الأشراف میں ایک سے زیادہ بارکہتے ہیں کہ کتاب المواعظ کی روایت صرف ابوالقاسم حمزہ کنانی نے کی ہے۔
۶- ابن حیویہ : ابوالحسن محمد بن عبدالکریم بن زکریابن حیویہ نیساپوری مصری(ت:۳۶۶ھ): ابوالحسن قابسی فقیہ ، ابوالحسن علی بن منیر الخلال اور ابوالحسن علی بن ربیعہ البزار نے ان سے سنن کی روایت کی (فہرست ابن خیر ۱۱۵) حافظ مزی نے تحفۃ الأشراف میں ابن حیویہ کی روایت پر اعتماد کیاہے۔
۷- محمد بن معاویہ بن الاحمر الاندلسی القرطبی (ت:۳۵۸ھ): (سنن کبری )کے سماع کے بعد ا سے لے کر آپ اندلس گئے، اور لوگوں نے یہ کتاب آپ سے سنی ، اس وقت سنن کبریٰ کا مطبوعہ نسخہ ابن الاحمر اور ابن سیار کی روایت سے ہے۔ ابن الاحمرسے سنن کی روایت درج ذیل رواۃ نے کی ہے: ۱-ابوالولید یونس بن عبداللہ بن مغیث القاضی ، ۲-سعید بن محمد ابوعثمان القلاس ،۳- محمد بن مروان بن زہر ابوبکر الإیادی ،۴- عبداللہ بن ربیع بن بنوس ابو محمد (فہرست ابن خیر۱۱۰)۔
۸- محمد بن قاسم بن محمد بن سیار القرطبی الاندلسی ، ابوعبداللہ (ت:۳۲۷ھ): ابومحمد عبداللہ بن محمد بن علی الباجی ،اور ابوبکرعباس بن اصبغ الحجازی نے ان سے سنن کی روایت کی ، ابن خیر کہتے ہیں: محمد بن قاسم اورابوبکر بن الاحمرکا سماع ایک ہی تھا، محمد بن قاسم کے نسخے میں ''فضائل علی وخصا ئصہ'' اور ''کتاب الاستعاذۃ'' تھیں، یہ دونوں کتابیں ابن الأحمر کے نسخے میں نہیں تھیں(فہرست ابن خیر۱۱۱،۱۱۲، تہذیب الکمال ۱/۳۷)
۹- علی بن ابی جعفر احمد بن محمد بن سلامہ ابوالحسن الطحاوی (ت: ۳۵۱ھ) (تہذیب التہذیب ۱/۳۷)
۱۰- ابوبکر احمد بن محمد بن المہندس(ت:۳۸۵ھ): یہ سب نسائی سے سنن کی روایت کرنے والے حضرات ہیں (تہذیب التہذیب ۱/۳۷)، ابن المہندس سے ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بن عابد المعافری نے سنن کی روایت کی(فہرست ابن خیر۱۱۵)
سنن نسائی کے ان دس رواۃ کاتذکرہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں کیاہے،لیکن ابوبکر احمد بن محمد بن المہندس کے بارے میں حافظ ذہبی کہتے ہیں: ان کے بارے میں جس نے یہ کہاہے کہ انہوں نے نسائی سے سناہے، اس سے غلطی ہوئی ہے(سیر أعلام النبلاء ۴۶۲)۔
۱۱- ابوالقاسم مسعود بن علی بن مروان بن الفضل البجّانی: (سفر حج کے دوران مصرمیں نسائی سے اخذ کیا، اور سنن کی روایت کی (تاریخ ابن الفرضی ،رقم الترجمہ ۲۱۴۶، اللباب فی الانساب لابن الاثیر ،مادہ : البجانی ، والمشتبہ للذہبی ص:۵۱، وتوضیح المشبہ لابن ناصرالدین الدمشقی ۱/۳۷۰، ۳۷۱، و حاشیہ تہذیب الکمال ۱/۳۳۳) ۔
۱۲- ابوہریرۃ بن ابی العصام : احمد بن عبداللہ بن الحسن بن علی العدوی : عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی نے ان سے سنن کی روایت کی ، (فہرست ابن خیر ۱۱۴)
۱۳- ابن ابی التمام :احمد بن محمد بن عثمان بن عبدالوہاب بن عرفہ بن ابی التمام ،امام جامع مسجد مصر: ابومحمد أصیلی اور حافظ ابوالقاسم خلف بن القاسم نے ان سے سنن کی روایت کی ،ابن خیر کہتے ہیں: سنن نسائی کی ''کتاب الصلح'' کی روایت ابوعلی الغسانی ابو شاکر عبدالواحد بن محمدبن موہب الأصیلی سے کرتے ہیں، اور ابوعلی اسے بسند ابن عبدالبر عن ابی القاسم خلف بن القاسم روایت کرتے ہیں، پھر أصیلی اور ابوالقاسم دونوں ابوالحسن ابن عرفۃ عن النسائی اسے روایت کرتے ہیں(فہرست ابن خیر ۱۱۳)، واضح رہے کہ سنن صغریٰ اور کبریٰ دونوں میں ''کتاب الصلح'' موجود نہیں ہے،حافظ مزی اور حافظ ابن حجر نے بھی اس کی طرف کہیں اشارہ نہیں کیاہے۔
۱۴- ابوعلی حسن بن بدر بن ابی ہلال : ابوالحسن علی بن محمد بن خلف قابسی نے ان سے سنن روایت کی ہے(فہرست ابن خیر ۱۱۲)
۱۵- ابواحمد حسین بن جعفر بن محمد الزیات : خلف بن قاسم بن سہل الدباغ الحافظ نے ان سے سنن کی روایت کی (فہرست ابن خیر ۱۱۴)
۱۶- ابومحمد عبداللہ بن حسن المصری (تحفۃ الأشراف ۱۱۱۳۱)
۱۷- ابوالطیب محمد بن فضل بن عباس (تحفۃ الأشراف ۵۳۱۸)
۱۸- ابوالحسن علی بن الحسن الجرجانی (تاریخ جرجان ۳۱۷)
۱۹- ولید بن القاسم الصوفی: ابن خیر فہرست میں لکھتے ہیں کہ ابوعلی غسانی کہتے ہیں:کتاب المجتبیٰ کی روایت نسائی سے سے ان کے لڑکے عبدالکریم اور ولید بن القاسم الصوفی نے کی ہے(فہرست ابن خیر ۱۱۶، ۱۱۷)
مزید بعض مشاہیر تلامذہ درج ذیل ہیں:
۲۰- ابوالقاسم سلیمان بن احمدطبرانی
۲۱- ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق الاسفرایینی
۲۲- ابوبشر الدولابی
۲۳- ابوجعفر محمد بن عمرو العقیلی
۲۴- احمد بن محمد بن سلامہ ابوجعفر الطحاوی
۲۵- ابراہیم بن محمد بن صالح
۲۶- ابوعلی حسین بن محمد نیسا پوری
۲۷- ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی
۲۸- ابوسعید عبدالرحمن بن احمد بن یونس بن عبدالاعلی الصدفی صاحب تاریخ مصر
۲۹-محمد بن سعد السعدی الباوردی
۳۰- ابوعبداللہ محمد بن یعقوب بن یوسف الشیبانی الحافظ المعروف بالاخرم
۳۱- منصور بن اسماعیل المصری الفقیہ
۳۲- ابوبکر محمد بن احمد بن الحداد الفقیہ
مؤخر الذکر ابوبکر بن الحداد ایسے شخص ہیں جنہوں نے امام نسائی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں کی، امام دارقطنی فرما تے ہیں: كان ابن الحداد كثير الحديث ولم يحدث عن غير النسائي وقال: جعلته حجة بيني وبين الله تعالى (ابن الحداد کثیر الحدیث تھے، نسائی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں کی ، کہتے ہیں کہ میں نے نسائی کواپنے اور اللہ کے درمیان حجت بنایاہے) (طبقات الشافعیہ ۲/۱۱۳، تذکرۃ الحفاظ۲/۷۰۰، البدایۃ ۱۱/۱۲۳) ۔
حفظ واتقان
اللہ تعالیٰ نے امام نسائی کو غیر معمولی قوت حفظ سے نوازاتھا ، یہاں تک کہ ذہبی نے انہیں امام مسلم سے بڑا حافظ حدیث کہا۔
ابن یونس مصری کہتے ہیں: كان النسائي إماما في الحديث ثقة ثبتا حافظا (البدایہ ۱۲۳) (نسائی امام حدیث ، ثقہ ، عادل اور حافظ تھے۔
سبکی کہتے ہیں: سألت شيخنا أبا عبدالله الذهبي الحافظ وسألته أيهما أحفظ مسلم بن الحجاج صاحب الصحيح أو النسائي فقال: النسائي (طبقات الشافعیہ ۲/۸۴) (میں نے اپنے استاذ حافظ ذہبی سے پوچھا کہ صاحب صحیح مسلم بن الحجاج اورنسائی میں سے کون زیادہ حدیث کاحافظ ہے، توانہوں نے جواب میں کہا: نسائی)۔
حافظ سیوطی کہتے ہیں:الحافظ أحد الحفاظ المتقنين(حسن المحاضرۃ ۱/۱۴۷ ) (نسائی ایک پختہ حافظ حدیث ہیں) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام المسلمین اورامام الحدیث

اہل علم نے امام نسائی کی ممتاز دینی خدمات، علمی تبحر ، تصنیف وتالیف میں شہرت اور مہارت کا اعتراف اس طور پر کیا کہ آپ کو مسلمانوں کے امام اور فن حدیث کے امام کے لقب سے ملقب کیا ، اور آ پ کو مسلمانوں کا مقتدیٰ وامام تسلیم کیا، گویا آپ دینی قیادت اور علمی سیادت دونوں وصف کے جامع تھے۔
محمد بن سعد الباوردی کہتے ہیں : میں نے قاسم مطرز سے ابوعبدالرحمن النسائی کا ذکر کیا ، تو انہوں نے کہا: نسائی امام ہیں، یا امامت کے درجے کے مستحق ہیں، یااس طرح کا کوئی جملہ کہا(تہذیب الکما ل ۱/۳۳۳)
امام حاکم کہتے ہیں کہ میں نے حافظ دارقطنی کو کئی مرتبہ یہ کہتے سنا: أبو عبدالرحمن مقدم على كل من يذكر بهذا العلم من أهل عصره (اپنے قابل شمار معاصر علمائے حدیث میں آپ سب پر مقدم ہیں ( معرفۃ علوم الحدیث ۸۳، التقیید ۱۴۰، تہذیب الکمال ۱/۳۳۴، التذکرہ ، البدایہ والنہایۃ ۱۴/۷۹۳، والسیر ۱۴/۱۳۱،طبقات الشافعیہ )
امام حاکم کہتے ہیں: میں نے ابوعلی حسین بن علی کو کئی بار چار ائمہ اسلام کا نام لیتے سنا، جن میں سب سے پہلے ابوعبدالرحمن نسائی کا نام لیتے ( معرفۃ علوم الحدیث۸۲، تہذیب الکمال ۱/۳۳۳)۔
امام حاکم کی روایت ہے کہ حافظ ابوعلی حسین بن علی فرماتے ہیں: میں نے ابوعبدالرحمن نسائی سے سوال کیا، آپ ائمہ اسلام میں سے ایک امام تھے، نیز کہتے ہیں: هو الإمام في الحديث بلا مدافعة.(یعنی ابوعبدالرحمن نسائی بلا نزاع متفقہ طور پر امام حدیث ہیں (تہذیب الکمال ۱/۳۳۳،سیر أعلام النبلاء ۱۴/۱۳۱، تاریخ الاسلام ، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۹)۔
امام حاکم ایک دوسری جگہ کہتے ہیں: میں نے ابوعلی حسین بن علی حافظ کو یہ کہتے سنا:میں نے اپنے وطن اور اپنے سفر میں چار ائمہ حدیث کو دیکھا ، دونیساپورکے، یعنی محمد بن اسحاق ابن خزیمہ، اور ابراہیم بن ابی طالب ، تیسرے ابوعبدالرحمن نسائی مصر میں اور چوتھے عبدان اہواز میں(تہذیب الکمال ۱/۳۳۳)۔
حاکم مزید کہتے ہیں:میں نے جعفر بن محمد بن الحارث کو کہتے سناکہ میں نے حافظ مامون ابوالقاسم (حسین بن محمد بن داود مصری) کو یہ کہتے سنا : ہم فداء (جنگ) والے سال ابوعبدالرحمن نسائی کے ساتھ طرطوس گئے تو وہاں مشائخ اسلام کی ایک جماعت کا اجتماع ہوا، حفاظ حدیث میں سے عبداللہ بن احمد بن حنبل ، محمد بن ابراہیم مربی ، ابوالاذان (عمربن ابراہیم) اور( محمد بن صالح بن عبدالرحمن )کیلجہ وغیرہ حاضرہوئے، سبھوں نے مشورہ کیا کہ شیوخ حدیث کی روایات کا انتخاب ان کے لیے کون کرے تو سب کا ابوعبدالرحمن نسائی پر اتفاق ہوا اور سبھوں نے آپ کی منتخب کردہ احادیث لکھیں (معرفۃ علوم الحدیث ۸۲،تہذیب الکمال ۱/۳۳۳، السیر ۱۴/۱۳۰، الحطۃ ۴۵۸)۔
آگے امام حاکم کہتے ہیں: میں نے حافظ ابوالحسین محمد بن المظفر کو کہتے سنا:میں نے مصر میں اپنے شیوخ کو ابوعبدالرحمن نسائی کی امامت اور پیشوائی کا اعتراف کرتے سنا اور یہ کہ رات دن آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے، اور برابر حج کرتے تھے، آپ والی مصرکے ساتھ فداء (جنگ)کے لیے گئے، تو مسلمانوں میں احیاء سنت اور تیز فہمی کی صفت سے متصف ہوئے گرچہ بادشاہ کے ساتھ نکلے تھے لیکن ان کی مجالس سے دور رہتے تھے،اپنے سفر میں فراوانی کے ساتھ کھاتے پیتے تھے، آپ اسی حال پر تھے کہ دمشق میں خوارج (نواصب) کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا (تہذیب الکمال ۱/۳۳۴، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰)۔
حاکم کہتے ہیں:میں نے حافظ علی بن عمردار قطنی کو ایک سے زیادہ بار یہ کہتے سنا : سارے معاصرعلمائے حدیث میں ابوعبدالرحمن نسائی سب پر مقدم ہیں (تہذیب الکمال ۱/۳۳۳)۔
ابوعبدالرحمن محمد بن حسین سلمی صوفی کہتے ہیں: میں نے حافظ دار قطنی سے پوچھا کہ ابن خزیمہ اور نسائی جب کوئی حدیث روایت کریں تو آپ کس کو مقدم رکھیں گے ؟ کہا: نسائی کو اس لیے کہ وہ بڑے مسندہیں، لیکن یہ بات بھی ہے کہ میں نسائی پر کسی کو بھی فوقیت نہیں دیتا گرچہ ابن خزیمہ بے مثال امام اور پختہ عالم ہیں(تہذیب الکمال ۱/۳۳۳، ۳۳۴)۔
حمزہ بن یوسف سہمی کہتے ہیں: دارقطنی سے سوال ہوا کہ جب نسائی اور ابن خزیمہ روایت کریں تو کس کی حدیث کو مقدم رکھیں گے؟ جواب دیا کہ نسائی کی احادیث کو اس لیے کہ ان کی کوئی مثال موجود نہیں ہے، میں ان پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا، آپ ورع وتقویٰ میں بے مثال تھے چنانچہ آپ نے ابن لہیعہ سے احادیث روایت نہیں کی جب کہ سند عالی سے قتیبہ کے واسطے سے یہ احادیث ان کے پاس تھیں(تہذیب الکمال ۱/۳۳۵)۔
ابوطالب احمد بن نصرکہتے ہیں: ابوعبدالرحمن نسائی سے زیادہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کون کرسکتا ہے ،آپ کے پاس ابن لہیعہ سے مروی ہر باب میں احادیث تھیں(یعنی عن قتیبہ عن ابن لہیعہ) لیکن آپ نے ان احادیث کی روایت نہیں کی ، کیوں کہ آپ ابن لہیعہ کی احادیث کی روایت کو جائز نہیں سمجھتے تھے(تہذیب الکمال ۱/۳۳۵، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۹)۔
ابوبکربن الحداد صاحب علم وفضل واجتہاد تھے، دارقطنی کہتے ہیں کہ ابن الحداد کثیر الحدیث تھے، لیکن نسائی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں کی ،اور کہاکہ میں نسائی کی روایت پر راضی ہوں ،یہ میرے اور اللہ کے درمیان حجت ہے ۔
ابن عدی کہتے ہیں: میں نے منصور الفقیہ اور احمد بن محمدبن سلامہ طحاوی سے سنا: ابوعبدالرحمن نسائی ائمہ اسلام میں سے ایک امام ہیں(تہذیب الکمال ۱/۳۳۳)۔
الغرض امام موصوف کے فضل وکما ل اور دینی قیادت اور علمی سیادت کا اعتراف سارے محدثین اور اصحاب طبقات وتراجم کے یہاں مسلم ہے ، حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: وكذلك أثنى عليه غير واحد من الأئمة وشهدوا له بالفضل والتقدم في هذا الشأن.(بہت سارے ائمہ نے نسائی کی تعریف کی ہے، اور علم حدیث میں آپ کی فضلیت وپیشوائی کی شہادت دی ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام نسائی کا عقیدہ

اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کا وعدہ فرمایاہے ،اور مادی اسباب کی دنیا میں گروہ محدثین کواس بات کی توفیق دی کہ وہ کتاب وسنت کی محبت سے سرشار ہوکر اُس کی ممکن خدمت کریں، چنانچہ طلب علم سے لے کر تدوین حدیث کے مختلف مراحل تک کتاب وسنت کو صحیح سندوں کے ساتھ روایت کرنے اوراُن کے صحیح معانی ومفاہیم کو محفوظ رکھنے کی جد وجہد میں اس گروہ کو نمایاں مقام حاصل ہے، آیت کریمہ: {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} کی عملی تفسیر ائمہ اسلام کی حفاظتِ حدیث کی یہی جد وجہد ہے، جس کے نتیجے میں دینی نصوص صحیح سندوں اور سلف صالحین کی تعبیرات کے ساتھ محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچے، امام نسائی سلسلہ محدثین کی اہم کڑی ہیں، آپ نے حدیث کی حفاظت وتدوین کے ساتھ ساتھ جرح وتعدیل رواۃ پر بھی بڑا سرمایہ چھوڑا اور فہم حدیث کے سلسلہ میں بھی آپ کی کوششوں سے مسلک سلف ہم تک پہنچا ، صحیح اسلامی عقائد کو بھی آپ نے امت تک پہنچا یا ، اسی وجہ سے سنن نسائی کی افادیت مسلم ہے،اور عقیدئہ سلف کی اشاعت اور رد بدعت کی شہرت کی وجہ سے آپ کو امام دین اورامام المسلمین کے لقب سے ملقب کیاگیا، جیسا کہ اوپر کے اقوال میں گزرا ، جن محدثین کے ساتھ آپ کی امامت کا ذکرآیاہے، وہ صرف محدث اور فقیہ ہی نہ تھے ، بلکہ وہ عقائد ومنہج کے باب میں بھی امام ہدایت ، حامی سنت اورماحی بدعت تھے، اور اصطلا حِ علماء میں آپ ''صاحب سنت'' کے لقب یافتہ عالم تھے، جس کو علماء نے دین کی امامت سے بھی تعبیر کیا ہے ، خلاصہ یہ کہ امام نسائی عقائدکے باب میں بھی امام ہدیٰ تھے، چنانچہ آپ نے اپنے شیوخ کے نقش قدم پر صحیح اور سنی عقائد کا برملا اظہار کیا، اور اپنی کتابوں میں ان مسائل کو جگہ دی۔
مسئلہ خلق قرآن:
قرآن اللہ کا کلام ہے، جوحکم اللہ تعالیٰ کی ذات کا ہے وہی اس کی صفات کا ہے ، سلف صالحین کے نزدیک اس بارے میں اجماع ہے ، عقیدئہ سلف کے مخالفین جو قرآن کو مخلوق کہتے ہیں کی اجماعی طور پر سلف نے مذمت کی ،بلکہ ان کا یہ فتویٰ مشہور ہے کہ جس نے اللہ کے کلام کو مخلوق کہا وہ کافرہے، اس اہم مسئلہ پر امام نسائی کا فتویٰ بھی موجود ہے، آپ کے ایک شاگر قاضی مصر ابوالقاسم ابوعبداللہ بن ابی العوام السعدی کہتے ہیں: ہم سے نسائی نے اور نسائی سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا کہ محمد بن اعین کا بیان ہے کہ میں نے ابن مبارک سے کہا کہ فلاں آدمی یہ کہتاہے کہ جس شخص نے اللہ کے قول إنني أنا الله لا إله إلا أنا فاعبدني کے بارے میں مخلوق ہو نے کا اعتقاد رکھا وہ کافر ہے، تو ابن مبارک نے کہا:اس نے سچ کہا، نسائی کہتے ہیں:میرا بھی یہی مذہب ہے(تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰)۔
فضائل صحابہ اور مشاجرات صحابہ میں زبان بندی
اسی طرح سے فضائل صحابہ کا اعتراف اور مشاجرات صحابہ کے بارے میں کف لسان سلف کا عقیدہ ہے اسی لیے عقائد کی کتابوں کے علاوہ حدیث کی کتابوں میں صحابہ کرام کے مناقب وفضائل کو کثرت سے بیان کیا گیاہے ، امام نسائی نے بھی اس باب کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ، یہی نہیں بلکہ بعض صحابہ کے خلاف موقف رکھنے والے لوگوں کی اصلاح کی طرف عملی اقدام بھی کیا ، چنانچہ دمشق پہنچنے پر علی رضی اللہ عنہ سے منحرف لوگوں کو صحیح عقیدہ سمجھانے کے لیے آپ نے خصائص علی نامی کتاب لکھی ، جس سے وہاں کے منحرفین کے عتاب کا شکارہوئے،بلکہ زدو کوب اورایذا رسانی کی شدت نہ برداشت کرسکے، اور اس راہ میں اپنی جان کانذرانہ پیش کردیا، اللہ رب العزت آپ کو شہادت کا درجہ عطافرمائے، آمین۔
شروع ہی سے عقائد کے باب میں انحراف کی روش رکھنے والوں کی کج فکری اور اعتقادی گمراہیوں پر نقد ونظر ائمہ دین کے یہاں بہت معروف ومشہور بات ہے ،بلکہ راہ اعتدال سے ہٹ جانے والے حضرات پر تنقید سلف صالحین کا شعار اور منہج رہا ہے ، بلکہ ان کے نزدیک عقیدہ اور منہج کے مخالفین کا رد وابطال ایک اہم اصول رہاہے، بالخصوص محدثین عظام نے یہ کام بڑی ذمہ داری سے انجام دیا ، گمراہ فرقوں اور اُن کے ائمہ اور ان کے مقالات واعتقادات پر کھل کر تنقید کی ، سلفی عقائد واصول اور اتباع سنت کے مضامین کو خوب اچھی طرح سے بیان کیا،خوارج ، روافض، نواصب ، معتزلہ ، جہمیہ ، قدریہ ، جبریہ وغیرہ ، گمراہ فرقوں کے خلاف ائمہ حدیث کے مقدس گروہ نے شروع ہی سے جنگ چھیڑی، معتزلہ اور جہمیہ کے رد کے نام سے مستقل کتابیں لکھیں اور عقائدکی کتابوں میں ان گمراہ عقائد پر کھل کرتنقید کی ، امام احمد بن حنبل تو مسئلہ خلق قرآن کے خلاف فتوے پر ڈٹے رہنے کی بناپر ''امام اہل سنت والجماعت'' کے لقب سے مشہور ہوئے ،ان کے شاگرد رشید امام بخاری نے ''خلق أفعال العباد'' نامی مستقل رسالہ لکھا، اور صحیح بخاری میں کتاب العلم، کتاب الإیمان، کتاب التوحید والرد علی الجہمیہ ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ وغیرہ وغیرہ کتب میں اتباع سنت اور عقیدہ سلف کی خوب خوب وضاحت کی ، اور غیر سلفی عقائد اور ان کے حاملین کا رد وابطال کیا، اور امام احمد کے تلامذہ میں امام ابوداود نے اپنی سنن میں کتاب السنہ کے نام سے یہ خدمت انجام دی۔اور یہ کام امام ابن ماجہ نے سنن کے مقدمہ میں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسائل ایمان اور ایمان کے گھٹنے اور بڑھنے کا اعتقاد
ائمہ اسلام بالخصوص امام بخاری نے مسائل ایمان بالخصوص اطاعت سے ایمان بڑھنے اور معصیت سے ایمان گھٹنے کے سلفی عقیدہ کو کتاب وسنت اوراجماع کے دلائل سے ثابت کیا ، اور اس باب کے سارے منحرفین کا رد وابطال کیا ، امام بخاری کے طرز پران کے تلمیذ رشید امام نسائی نے بھی سنن میں باقاعدہ کتاب الإیمان وشرائعہ میں (۳۳) باب کے تحت (۴۹۸۵-۵۰۳۹) (۵۴) احادیث کی تخریج فرمائی، جو سب کی سب صحیح ہیں، اور اس طرح ایمان میں زیادتی اور کمی اور ایمان سے متعلق دوسرے عقائد سلف کی وضاحت فرمائی،ایک نظر ابواب پر ہوجائے جس سے آپ کی مسائل ایمان پر ترجیحات کا اندازہ ہوجائے گا : 1-ذكر أفضل الأعمال، 2- طعم الإيمان، 3-حلاوة الإيمان، 4-حلاوة الإسلام، 5-نعت الإسلام، 6-صفة الإيمان والإسلام، 7- تأويل قوله عزوجل: {قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا} (الحجرات:14) 8-صفة المؤمن، 9-صفة المسلم، 10- حسن إسلام المرء، 11- أي الإسلام أفضل، 12-أي الإسلام خير، 13- على كم بني الإسلام، 14- البيعة على الإسلام، 15- على ما يقاتل الناس؟، 16- ذكر شعب الإيمان، 17- تفاضل أهل الإيمان، 19- علامة الإيمان، 20- علامة المنافق، 21- قيام رمضان، 22- قيام ليلة القدر، 23- الزكاة، 24-الجهاد، 25- أداء الخمس، 26- شهود الجنائز، 27- باب الحياء، 28- الدين يسر، 29- أحب الدين إلى الله-عزوجل-، 30- الفرار بالدين من الفتن، 31- مثل المنافق، 32- مثل الذي يقرأ القرآن من مؤمن ومنافق، 33- علامة المؤمن.
امام ترمذی نے سنن صغریٰ میں کتاب العلم ، کتاب الإیمان ،کتاب القدراورکتاب صفۃ القیامۃ وغیرہ عناوین میں ان مسائل پر روشنی ڈالی ، اگر ائمہ حدیث کی عقائد سلف کی شرح وتفصیل اور منحرفین کے رد وابطال سے متعلق کتب ورسائل کی محض فہرست ذکر کی جائے تو یہ مقدمہ طویل ہوجائے گا، میں نے امام وکیع بن الجراح کی کتاب الزہد کی تحقیق میں ائمہ دین کی ان کتابوں کا تذکرہ کیاہے،اس موضوع پرمولانا عبدالسلام محدث مبارکپوری کی سیرۃ البخاری کے ساتویں باب :''عقائد اور علم کلام'' کا مطالعہ مفید ہوگا۔
سلف صالحین کتاب وسنت کے صحیح دلائل کی روشنی میں عقیدہ کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو سمجھتے، اس پر ایمان رکھتے ، اس کی دعوت دیتے تھے، اس کے خلاف ہر رائے اور عقیدے کا رد وابطال کرتے تھے، اور فلاسفہ اور متکلمین کی موشگافیوں کو سخت ناپسندکرتے تھے ، اس سلسلے میں امام مالک کے اقوال کافی مشہور ہیں، جن میں سے آپ کا یہ قول عقیدئہ سلف کی نمائندگی واضح طور پر کرتا ہے :الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة.یعنی اللہ رب العزت نے قرآن میں جو اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے ، تو استواء کا معنی ومفہوم معلوم ومشہور بات ہے ، لیکن یہ استواء کیسے ہوگا ، اس کی کیفیت کا علم نہیں ہے، اس پر ایمان لانا واجب اورفرض ہے، اور اس سلسلے میں سوال وجواب کرنا بدعت ہے ۔امام مالک نے یہ بات اس وقت کہی جب ایک آدمی نے آپ سے اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا ، اسی طرح سے امام بخاری کو خلق قرآن کے مسئلہ پر نیساپور میں جب کچھ کہنے کے لیے مجبور کیا گیا تو آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: القرآن كلام الله غير مخلوق وأفعال العباد مخلوقة والامتحان بدعة. یعنی قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، مخلو ق نہیں ہے ،اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں، یعنی ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیاہے ، اور اس مسئلے پر کسی کو امتحان میں ڈالنا اور اس سے پوچھ گچھ کرنا بدعت ہے۔(مقدمۃ فتح الباری :۴۹۰)۔
سلف کا منہج عقائد کے بارے میں یہ تھا کہ وہ علم کلام کے مسائل میں زیادہ غور وخوض اور کرید کو سخت ناپسندکرتے تھے، اور ان مسائل میں سوال وجواب کو بدعت کہتے تھے، امام احمد بن حنبل اس باب میں بہت سخت موقف رکھتے تھے، چنانچہ خلق قرآن کے مسئلے میں کتاب وسنت کے علاوہ اور کسی بات کے سننے کے قائل نہ تھے، احادیث رسول سے اس مسلک کی تقویت ہوتی ہے ، چنانچہ امام ترمذی نے كِتَاب الْقَدَرِ، بَاب مَا جَائَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْخَوْضِ فِي الْقَدَرِ: 2133 میں نیز امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کی ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ & وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: " أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ؟ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الأَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تَتَنَازَعُوا فِيهِ ". (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث ومباحثہ کررہے تھے، آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کاچہرئہ مبارک سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگاگویاآپ کے گالوں پر انارکے دانے نچوڑدئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا:'' کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یامیں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بناکربھیجاگیا ہوں؟ بے شک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوگئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتاہوں کہ اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ نہ کرو)۔
تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء وقدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے،اوراس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتاہے، اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسندکرتاہے، اور برے اعمال کو ناپسندکرتاہے، اسی اختیار کی بنیاد پر پر انسانوں کو جزا اورسزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں کتاب وسنت کے دلائل سے اعراض کرکے اور محض اپنی عقل پر اعتماد کرکے بحث ومباحثہ جائز نہیں، کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
اوپر کی گزارشات سے یہ واضح ہوگیا کہ سلف صالحین کے نزدیک باطل عقائد کا رد وابطال کتاب وسنت کے دلائل اور سلف کے اقوال سے ہوتا ہے ، اور یہی صحیح علم کلام ہے ،صحابہ کرام کے زمانے میں خوارج ، قدریہ اور روافض جیسے فرقوں کا فتنہ موجودتھا، خود صحابہ کرام نے تمام مسائل پر کتاب وسنت کی روشنی میں کلام کیا، محدثین کرام نے اسی اسلوب کو آگے بڑھا کر ہرطرح کے منحرف فرقو ں اور ان کے آراء واقوال کا رد وابطال کیا ، ساتھ ہی غیرسلفی منہج وفکر پر مبنی علم کلام اور اس سے تعلق رکھنے والوں سے خود دور رہے، دوسروں کو ان سے دوررہنے کی تلقین اور وصیت فرمائی تاکہ نہ خود ان کے میل جو ل سے متاثرہوکر اُن کے باطل افکار وخیالات کا شکار ہوں اور نہ ہی اہل بدعت اہل سنت سے تعلقات استوار کر کے دوسروں کی نظر میں اپنی شبیہ کو اچھی بنائیں ، اور اس کے ذریعے افراد امت کو گمراہ کرسکیں۔
 
Top