• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سن ساٹھ(٦٠) ہجری اور بچوں کی امارت وضاحت درکار ہے

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
1- الصِّبْيَانِعربی قواعد میں اس لفظ سے مراد کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی عمر ہوتی ہے

عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی ، کہا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھ سے ہو گی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کس کس خاندان سے ہوں گے۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں(عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو ) اپنے دادا (سعيد بن عمرو)کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں (سعيد بن عمرو) نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔[صحيح البخاري: 9/ 47]۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے حضرت ابو ھریرہ قریش کے ان لونڈو کے نام بھی جانتے تھے جن کے ہاتھوں امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تباہی ہونی ہے اور یقینی طور سے یہ نام اوران کے قبیلے کے نام ابوھریرہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے ہوں گے لیکن وہ مروان کے آگے ان قریشی لونڈو کے نام نہیں بتانا چاہتے تھے لیکن ایک حدیث میں ابو عبیدہ بن جراح نے ان قریشی لونڈو میں سے اولین لونڈے کا نام ضرور ذکر کیا اور ساتھ ہی اس کے قبیلے کا نام بھی بتایا ہے
لسان الميزان میں یزید کے ذکر کے ضمن میں ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ
قال أبو يعلى في مسنده حدثنا الحكم بن موسى قال حدثنا الوليد عن الأوزاعي عن مكحول عن أبي عبيدة بن الجراح رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لا يزال أمر أمتي قائماً بالسوي حتى يكون أول من يثلمه رجل من بني أمية يقال له يزيد
ابی عبیدہ بن جراح سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا معاملہ اس وقت تک صحیح چلتا رہے گا جب تک بنی امیہ کا ایک شخص جسے یزید کہتے ہیں، اس میں رخنہ نہ پیدا کر دے۔
ابوھریرہ والی حدیث میں ابوھریرہ نے جانتے بوجھتے جس اولین امت محمدی کی تباہی کا سامان پیدا کرنے والے کا نام نہیں بتایا ابی عبیدہ بن جراح نے اس کا نام اور اس کے قبیلے کا نام بتادیا
کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یزید ہی وہ پہلا لونڈہ ہے جس کے دور حکومت سے ابوھریرہ پناہ مانگا کرتے تھے ؟؟؟
کیونکہ حضرت ابوھریرہ کو ان قریشی لونڈو اور ان کے قبیلے کے نام معلوم تھے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کہا گیا کہ
"اگرکوئی کہے کہ یہ فتنہ دور یزید میں تو ہوا ، تو عرض ہے کہ اس سے بڑے فتنے علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئے ، جنگ جمل اورجنگ صفین میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی ، بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جس قدر صحابہ کرام کا خون بہا اتنا خون یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پورے دور میں نہیں بہا اوران فتنوں کی طرف اشارہ صرف صحیح ہی نہیں بلکہ صحیح ومرفوع روایات میں ہے ، تو کیا ان تمام صحابہ کے خون کی ذمہ داری علی رضی اللہ عنہ پرہوگی ۔"

نہیں ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ حضرت علی اس وقت خلیفہ وقت تھے اور جو لوگ ان کے خلاف ہوئے وہ باغی تھے
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " افسوس عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا " اور حضرت عمار جنگ صفین میں معاویہ کی باغی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے اور پھر ان جنگوں میں حضرت علی کے حق پر ہونے کی بھی بہت دلیلیں ہیں اس کے علاوہ یہ جنگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کے عین مطابق ہیں
البانی کہتے ہیں

كنا جلوسًا ننتظرُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فخرج علينا من بعضِ بيوتِ نسائِه قال فقُمْنا معه فانقطعتْ نعلُه فتخلَّفَ عليها عليٌّ يخصِفُها فمضى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ومضَينا معه ثم قام ينتظرُه وقُمْنا معه فقال إنَّ منكم مَن يقاتلُ على تأويلِ هذا القرآنِ كما قاتلْتُ على تنزيلِه فاستشرفْنا وفينا أبو بكرٍ وعمرُ فقال لا ولكنَّه خاصفُ النَّعلِ قال فجِئْنا نُبشِّرُه فلم يرفعْ رأسَه كأنه قد كان سمعهُ من رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 5/639
خلاصة حكم المحدث: على شرط مسلم

البانی صاحب نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر کہا ہے ۔
اس کے علاوہ ایسی مضمون کی متعدد صحیح احادیث دیگر محدثین نے بھی بیان کی ہیں جن کے حوالے درجہ ذیل ہیں
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2487 ،خلاصة حكم المحدث:صحيح
المحدث:الطحاوي - المصدر:شرح مشكل الآثار - الصفحة أو الرقم:10/237 ،خلاصة حكم المحدث:رواته عدول أثبات
المحدث:ابن حبان - المصدر:صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 6937 ،خلاصة حكم المحدث:أخرجه في صحيحه
المحدث:الهيثمي - المصدر:مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 5/189 ،خلاصة حكم المحدث:رجاله رجال الصحيح
المحدث:العيني - المصدر:نخب الافكار - الصفحة أو الرقم: 16/496 ،خلاصة حكم المحدث:إسناده صحيح
المحدث:الشوكاني - المصدر:در السحابة - الصفحة أو الرقم: 167 ،خلاصة حكم المحدث:إسناده رجاله رجال الصحيح غير فطر بن خليفة وهو ثقة

اس لئے اس طرح کی باتیں کرنا ان احادیث صحیحہ کے خلاف ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
1- الصِّبْيَانِعربی قواعد میں اس لفظ سے مراد کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی عمر ہوتی ہے

عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی ، کہا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھ سے ہو گی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کس کس خاندان سے ہوں گے۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں(عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو ) اپنے دادا (سعيد بن عمرو)کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں (سعيد بن عمرو) نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔[صحيح البخاري: 9/ 47]۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے حضرت ابو ھریرہ قریش کے ان لونڈو کے نام بھی جانتے تھے جن کے ہاتھوں امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تباہی ہونی ہے اور یقینی طور سے یہ نام اوران کے قبیلے کے نام ابوھریرہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے ہوں گے لیکن وہ مروان کے آگے ان قریشی لونڈو کے نام نہیں بتانا چاہتے تھے لیکن ایک حدیث میں ابو عبیدہ بن جراح نے ان قریشی لونڈو میں سے اولین لونڈے کا نام ضرور ذکر کیا اور ساتھ ہی اس کے قبیلے کا نام بھی بتایا ہے
لسان الميزان میں یزید کے ذکر کے ضمن میں ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ
قال أبو يعلى في مسنده حدثنا الحكم بن موسى قال حدثنا الوليد عن الأوزاعي عن مكحول عن أبي عبيدة بن الجراح رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لا يزال أمر أمتي قائماً بالسوي حتى يكون أول من يثلمه رجل من بني أمية يقال له يزيد
ابی عبیدہ بن جراح سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا معاملہ اس وقت تک صحیح چلتا رہے گا جب تک بنی امیہ کا ایک شخص جسے یزید کہتے ہیں، اس میں رخنہ نہ پیدا کر دے۔
ابوھریرہ والی حدیث میں ابوھریرہ نے جانتے بوجھتے جس اولین امت محمدی کی تباہی کا سامان پیدا کرنے والے کا نام نہیں بتایا ابی عبیدہ بن جراح نے اس کا نام اور اس کے قبیلے کا نام بتادیا
کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یزید ہی وہ پہلا لونڈہ ہے جس کے دور حکومت سے ابوھریرہ پناہ مانگا کرتے تھے ؟؟؟
کیونکہ حضرت ابوھریرہ کو ان قریشی لونڈو اور ان کے قبیلے کے نام معلوم تھے
السلام علیکم -

امام ابن الاثیر رحمہ اللہ نے کہا کہ یہاں’’أغيلمة‘‘سے مراد چھوٹے بچے ہیں اسی لئے اس کی تصغیر لائی گئی ہے۔اسی طرح سلف میں سے کسی نے بھی یزید رحمہ اللہ کو اس حدیث کا مصداق نہیں بتلایا ہے بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق سعيد بن عمرو رحمہ اللہ نے اس کا مصداق دوسرے ایسے بچوں کو بتلایا ہے جن کا زمانہ عہد یزید سے بہت بعد کا زمانہ ہے، چنانچہ:امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو بن سعيد، قال: أخبرني جدي، قال: كنت جالسا مع أبي هريرة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة، ومعنا مروان، قال أبو هريرة: سمعت الصادق المصدوق يقول: «هلكة أمتي على يدي غلمة من قريش» فقال مروان: لعنة الله عليهم غلمة. فقال أبو هريرة: لو شئت أن أقول: بني فلان، وبني فلان، لفعلت. فكنت أخرج مع جدي إلى بني مروان حين ملكوا بالشأم، فإذا رآهم غلمانا أحداثا قال لنا عسى هؤلاء أن يكونوا منهم؟ قلنا: أنت أعلم [صحيح البخاري: 9/ 47]
عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی ، کہا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھ سے ہو گی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کس کس خاندان سے ہوں گے۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں(عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو ) اپنے دادا (سعيد بن عمرو)کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں (سعيد بن عمرو) نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔(اس روایت کے یہ الفاظ " ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو ان کے نام لوں "حافظ عمر صاحب نے بھی پیش کیئے ہیں لیکن پوری روایت نہیں پڑھی کیونکہ اس سے ہی یہ واضح ہو جاتا کہ یزید پر یہ روایت فٹ نہیں ہوتی۔)اورمسند احمد کی روایت میں ہے:فَإِذَا هُمْ يُبَايِعُونَ الصِّبْيَانَ مِنْهُمْ، وَمَنْ يُبَايِعُ لَهُ، وَهُوَ فِي خِرْقَةٍ [مسند أحمد: 14/ 58واسنادہ صحیح]

وہ لوگ بچوں سے بھی بیعت لے رہے تھے ، اور ایسے بچے سے بھی بیعت لے رہے تھے جو کپڑے میں لپٹا ہوا تھا اس حدیث میں غورکریں کہ سعيد بن عمرو رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کا مصداق یزید رحمہ اللہ کے بجائے دوسرے بچوں کو بتلایا ہے اوریزید کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا ہے اور ان کے پوتے نے بھی اس موقع پر یزید رحمہ اللہ کا کوئی حوالہ نہ دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ تک کسی نے بھی بچوں کی امارت والی حدیث کو یزید رحمہ اللہ پرفٹ ہی نہیں کیا تھا ۔الغرض یہ کہ بچوں کی امارت والی حدیث کو حقیقت ہی پر محمول کیا جائے اس کی تاویل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، نیز سلف میں سے بھی کسی نے نہ تو اس کی تاویل کی ہے اورنہ ہی اسے یزید پرفٹ کیا ہے اس لئے اسے یزید رحمہ اللہ پر فٹ کرنا انصاف کے خلاف ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ یزید بن معاویہ ریزید بن معاویہ رحمہ اللہ جب مسند خلافت پر برجمان ہوے تو آپ کی عمر تقریباً ٤٧-٤٨ سال تھی - اور کوئی بھی زی ہوش انسان ایک ٤٨ سال کے انسان کو نوجوان (لونڈا نہیں گردانتا )-
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
السلام علیکم -

امام ابن الاثیر رحمہ اللہ نے کہا کہ یہاں’’أغيلمة‘‘سے مراد چھوٹے بچے ہیں اسی لئے اس کی تصغیر لائی گئی ہے۔اسی طرح سلف میں سے کسی نے بھی یزید رحمہ اللہ کو اس حدیث کا مصداق نہیں بتلایا ہے بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق سعيد بن عمرو رحمہ اللہ نے اس کا مصداق دوسرے ایسے بچوں کو بتلایا ہے جن کا زمانہ عہد یزید سے بہت بعد کا زمانہ ہے، چنانچہ:امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو بن سعيد، قال: أخبرني جدي، قال: كنت جالسا مع أبي هريرة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة، ومعنا مروان، قال أبو هريرة: سمعت الصادق المصدوق يقول: «هلكة أمتي على يدي غلمة من قريش» فقال مروان: لعنة الله عليهم غلمة. فقال أبو هريرة: لو شئت أن أقول: بني فلان، وبني فلان، لفعلت. فكنت أخرج مع جدي إلى بني مروان حين ملكوا بالشأم، فإذا رآهم غلمانا أحداثا قال لنا عسى هؤلاء أن يكونوا منهم؟ قلنا: أنت أعلم [صحيح البخاري: 9/ 47]
عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی ، کہا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھ سے ہو گی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کس کس خاندان سے ہوں گے۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں(عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو ) اپنے دادا (سعيد بن عمرو)کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں (سعيد بن عمرو) نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔(اس روایت کے یہ الفاظ " ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو ان کے نام لوں "حافظ عمر صاحب نے بھی پیش کیئے ہیں لیکن پوری روایت نہیں پڑھی کیونکہ اس سے ہی یہ واضح ہو جاتا کہ یزید پر یہ روایت فٹ نہیں ہوتی۔)اورمسند احمد کی روایت میں ہے:فَإِذَا هُمْ يُبَايِعُونَ الصِّبْيَانَ مِنْهُمْ، وَمَنْ يُبَايِعُ لَهُ، وَهُوَ فِي خِرْقَةٍ [مسند أحمد: 14/ 58واسنادہ صحیح]

وہ لوگ بچوں سے بھی بیعت لے رہے تھے ، اور ایسے بچے سے بھی بیعت لے رہے تھے جو کپڑے میں لپٹا ہوا تھا اس حدیث میں غورکریں کہ سعيد بن عمرو رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کا مصداق یزید رحمہ اللہ کے بجائے دوسرے بچوں کو بتلایا ہے اوریزید کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا ہے اور ان کے پوتے نے بھی اس موقع پر یزید رحمہ اللہ کا کوئی حوالہ نہ دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ تک کسی نے بھی بچوں کی امارت والی حدیث کو یزید رحمہ اللہ پرفٹ ہی نہیں کیا تھا ۔الغرض یہ کہ بچوں کی امارت والی حدیث کو حقیقت ہی پر محمول کیا جائے اس کی تاویل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، نیز سلف میں سے بھی کسی نے نہ تو اس کی تاویل کی ہے اورنہ ہی اسے یزید پرفٹ کیا ہے اس لئے اسے یزید رحمہ اللہ پر فٹ کرنا انصاف کے خلاف ہے۔
وعلیکم السلام
حضرت ابو ھریرہ ان لونڈو کے نام اور ان کے قبیلے کے نام جانتے تھے یہ اس حدیث میں صراحت سے بیان ہوا لیکن انھوں نے نام نہیں بتائے لیکن ابو عبیدہ والی روایت میں ان میں سے اولین کا نام ذکر ہوا ہے
یہ بھی یاد رہے کہ یزید بن معاویہ ریزید بن معاویہ رحمہ اللہ جب مسند خلافت پر برجمان ہوے تو آپ کی عمر تقریباً ٤٧-٤٨ سال تھی - اور کوئی بھی زی ہوش انسان ایک ٤٨ سال کے انسان کو نوجوان (لونڈا نہیں گردانتا )-
اس بات کی کوئی مستند دلیل بھی عنایت فرمادیں شکریہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کہا گیا کہ
"اگرکوئی کہے کہ یہ فتنہ دور یزید میں تو ہوا ، تو عرض ہے کہ اس سے بڑے فتنے علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئے ، جنگ جمل اورجنگ صفین میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی ، بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جس قدر صحابہ کرام کا خون بہا اتنا خون یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پورے دور میں نہیں بہا اوران فتنوں کی طرف اشارہ صرف صحیح ہی نہیں بلکہ صحیح ومرفوع روایات میں ہے ، تو کیا ان تمام صحابہ کے خون کی ذمہ داری علی رضی اللہ عنہ پرہوگی ۔"

نہیں ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ حضرت علی اس وقت خلیفہ وقت تھے اور جو لوگ ان کے خلاف ہوئے وہ باغی تھے
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " افسوس عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا " اور حضرت عمار جنگ صفین میں معاویہ کی باغی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے اور پھر ان جنگوں میں حضرت علی کے حق پر ہونے کی بھی بہت دلیلیں ہیں اس کے علاوہ یہ جنگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کے عین مطابق ہیں
البانی کہتے ہیں

كنا جلوسًا ننتظرُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فخرج علينا من بعضِ بيوتِ نسائِه قال فقُمْنا معه فانقطعتْ نعلُه فتخلَّفَ عليها عليٌّ يخصِفُها فمضى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ومضَينا معه ثم قام ينتظرُه وقُمْنا معه فقال إنَّ منكم مَن يقاتلُ على تأويلِ هذا القرآنِ كما قاتلْتُ على تنزيلِه فاستشرفْنا وفينا أبو بكرٍ وعمرُ فقال لا ولكنَّه خاصفُ النَّعلِ قال فجِئْنا نُبشِّرُه فلم يرفعْ رأسَه كأنه قد كان سمعهُ من رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 5/639
خلاصة حكم المحدث: على شرط مسلم

البانی صاحب نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر کہا ہے ۔
اس کے علاوہ ایسی مضمون کی متعدد صحیح احادیث دیگر محدثین نے بھی بیان کی ہیں جن کے حوالے درجہ ذیل ہیں
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2487 ،خلاصة حكم المحدث:صحيح
المحدث:الطحاوي - المصدر:شرح مشكل الآثار - الصفحة أو الرقم:10/237 ،خلاصة حكم المحدث:رواته عدول أثبات
المحدث:ابن حبان - المصدر:صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 6937 ،خلاصة حكم المحدث:أخرجه في صحيحه
المحدث:الهيثمي - المصدر:مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 5/189 ،خلاصة حكم المحدث:رجاله رجال الصحيح
المحدث:العيني - المصدر:نخب الافكار - الصفحة أو الرقم: 16/496 ،خلاصة حكم المحدث:إسناده صحيح
المحدث:الشوكاني - المصدر:در السحابة - الصفحة أو الرقم: 167 ،خلاصة حكم المحدث:إسناده رجاله رجال الصحيح غير فطر بن خليفة وهو ثقة

اس لئے اس طرح کی باتیں کرنا ان احادیث صحیحہ کے خلاف ہے
السلام علیکم -

محترم علی بہرام صاحب -

اگر واقعی میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا گروہ باغی تھا - بوجہ حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو شہید کرنے کی بنا پر تو حضرت حسین رضی الله عنہ کے بڑے بھائی حضرت حسن رضی الله عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله سے مصالحت کی بیت کیوں کی - جب کہ وہ جانتے تھے کہ یہ باغی گروہ کے سرغنہ ہیں - ؟؟

پھر یہ کہ حضرت علی رضی الله عنہ کے اپنے سگے بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ جنگ میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے گروہ میں شامل تھے -اور جنگ ختم ہونے کے بعد بھی انہی کے ساتھ رہے - یہ ان کی کیسی اسلام پسندی تھی کہ امیر معاویہ رضی الله عنہ جنگ کے بعد باغی گروہ کے سربراہ ثابت ہو جاتے ہیں - اور ان کے ساتھی ان کے باغی ہونے کے باوجود ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے -

یہ بات بھی مشہور ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے جنگ سے اپنا ہاتھ روک لیا تھا - جب کہ قران کی نص صریح سے ثابت ہے کہ بغاوت کو کچلنا حاکم وقت پر فرض ہے جب تک کہ فتنہ باقی نہ رہے -

کیا کہتے ہیں آپ ؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام
حضرت ابو ھریرہ ان لونڈو کے نام اور ان کے قبیلے کے نام جانتے تھے یہ اس حدیث میں صراحت سے بیان ہوا لیکن انھوں نے نام نہیں بتائے لیکن ابو عبیدہ والی روایت میں ان میں سے اولین کا نام ذکر ہوا ہے

اس بات کی کوئی مستند دلیل بھی عنایت فرمادیں شکریہ
السلام علیکم -

ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں یزید بن معاویہ رح مسند خلافت پر برجمان ہونے کی عمر ٤٧ ٤٨ سال لکھی ہے (دیکھئے مقدمہ ابن خلدون)-

اس کے علاوہ ایک روایت پڑھی تھی (جس کی تخریج ابھی میرے پاس نہیں) - جس میں ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اپنی رحلت سے قبل کچھ شیر خوار بچوں کو اپنے مبارک ہاتھوں سے گھٹی دی تھی- جن میں حضرت حسن و حسین ، مروان بن الحکم ، یزید بن معاویہ بھی شامل تھے - آگر روایت کی تخریج ملی تو حاضر کردوں گا -

ظاہر ہے کہ اگر یزید بن معاویہ رح نبی کریم کی رحلت کے وقت شیر خوار بچے تھے تو سن ٦٠ ہجری میں خلافت سنبھالنے کے وقت ان کی عمر لگ بھگ ٤٨-٤٩ سال ہونی چاہیے -(واللہ ا علم)-

ایک اور روایت میں خلافت سنبھالنے کے وقت ان کی عمر ٣٧ لکھی ہے - اس روایت کی رو سے بھی وہ نوجوان (لونڈوں ) کی صف میں نہیں آتے -
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
باغی اسے کہتے ہیں جو خلیفہ کی بیعت کرنے کے بعد بیعت توڑ دے۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ہی نہیں تو وہ باغی کیسے ہوئے ؟

ہاں کچھ لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور بعد میں نہ صرف یہ کہ بیعت توڑدی بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل بھی کردیا یہی باغی گروہ ہے۔
 
Top