• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سن ساٹھ(٦٠) ہجری اور بچوں کی امارت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سن ساٹھ(٦٠) ہجری اور بچوں کی امارت


امام أبو العباس الأصم محمد بن يعقوب بن يوسف النيسابوري (المتوفی346)نے کہا:
أخبرنا العباس بن الوليد أخبرني أبي حدثني ابن جابر عن عمير بن هانئ أنه حدثه قال كان أبوهريرة يمشي في سوق المدينة وهو يقول اللهم لا تدركني سنة الستين ويحكم تمسكوا بصدغي معاوية اللهم لا تدركني إمارة الصبيان [الثاني من حديث ابی العباس الاصم :ق 169 - 1702 - 1 واسنادہ صحیح و اخرجہ البیھقی فی دلائل النبوة للبيهقي: 6/ 466 وابن عساکر فی تاريخ دمشق : 59/ 217 من طریق ابی العباس بہ ونقلہ ابن کثیر فی البداية والنهاية : 6/ 256 و المقريزي فی إمتاع الأسماع 12/ 232 بھذاللفظ و واخرجہ ایضا ابو زرعة الدمشقي فی تاریخہ ص: 231، بدون لفظ امارۃ الصبیان]۔
عمربن ہانی کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ کے بازار میں چلتے اورکہتے اے اللہ ! مجھے سن ساٹھ کا زمانہ نہ ملے ، اورکہتے اے لوگو ! تمہارا ستیاناس ہو ! امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی کو لازم پکڑو نیز یہ بھی کہتے کہ اے اللہ ! مجھے بچوں کی امارت کادور نہ ملے ۔

مذکورہ روایت موقوف ہے یعنی ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دعاء ہے ۔
اس روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء سے متعلق دوباتیں ہیں۔
  • اول: ابوہرہ رضی اللہ عنہ نے سن ساٹھ(٦٠) ہجری کادور نہ پانے کی دعاء کی ہے۔
  • دوم:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بچوں کی امارت کادور نہ پانے کی دعاء کی ہے۔

چونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول میں مذکورہ دونوں باتیں ایک ساتھ مذکورہیں اس لئے بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ دونوں باتیں ایک ہی دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔
حالانکہ یہ سمجھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اورصریح حدیث کی روشنی میں قطعی طورپرغلط ہے۔

ذرا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو غورسے پڑھیں:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلاَءِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ رَأْسِ السَّبْعِينَ وَمِنْ إمْرَةِ الصِّبْيَانِ[مصنف ابن أبي شيبة: 15/ 49 واسنادہ صحیح ومن طریق وکیع اخرجہ احمد فی مسندہ 15/ 486 و اخرجہ ایضا البزار 16/ 249 وابن عدی فی الکامل6/2101 و ابو أحمد الحاكم فی الأسامي والكنى : 5/ 169 وابویعلی کمافی البداية والنهاية 11/ 647 کلھم من طریق کامل بہ ، و اخرجہ ایضا احمدبن منیع فی مسندہ قال البوصیری فی إتحاف الخيرة المهرة:8/ 41 رواه أحمد بن منيع، ورواته ثقات ، والحدیث صححہ الالبانی فی الصحیحہ رقم 3191
ترجمہ :صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سن ستر (٧٠) کے اوائل سے پناہ طلب کرو اور بچوں کی امارت سے پناہ طلب کرو۔
یہ کسی صحابی کا قول نہیں بلکہ مرفوع حدیث ہے یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
اس فرمان رسول میں بھی دوباتیں ہیں:
اول:
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سن ستر(٧٠) کے دور سے پناہ طلب کرنے کاحکم دیاہے۔
ستر(٧٠) سے مراد ہجری تاریخ نہیں ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں ہجری تاریخ کا رواج ہی نہ تھا ،اس لئے اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے ستر سال ہیں اورہجری سال کے اعتبارسے یہ سن اسی (٨٠) ہجری کا دور ہوگا جیساکہ ہم نے اس کی پوری تٍفصیل اپنے مضمون ’’سن ستر (٧٠) سے پناہ مانگنے کا حکم اورامارت یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ‘‘ میں پیش کی ہے ۔

دوم:
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی امارت کے دور سے پناہ طلب کرنے کاحکم دیاہے۔

یعنی اس حدیث رسول میں بھی اسی طرح دو باتیں ایک ساتھ مذکورہیں جس طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول میں ہیں، لیکن حدیث رسول میں سن ساٹھ(٦٠) ہجری نہیں ، بلکہ سن ستر(٧٠) کاذکرہے، جس سے سن اسی (٨٠) ہجری مراد ہے کمامضی۔

اب اگر اس حدیث سے بھی اسی طرح استدلال کیا جائے جس طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا جاتا ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ فرمان رسول کے مطابق کم عمربچوں کی امارت کا دور اسی(٨٠) ہجری کاہے۔
پھرایسی صورت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول فرمان رسول کے خلاف ہونے کی صورت میں غیرمسموع ہوگا، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی مقدم ہوگا یعنی کم عمربچوں کی امارت کا دور اسی(٨٠) ہجری ہوگا نہ کہ ساٹھ(٦٠) ہجری اورایسی صورت میں یزیدرحمہ اللہ کی امارت کو کم عمربچوں کی امارت قراردینا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ہوگی، کیونکہ یزیدرحمہ اللہ اس دور سے بہت ہی قبل اس دنیاسے رحلت فرماگئے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ فرمان میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ ان دونوں میں کم عمر بچوں کی امارت کے دور کی تحدید نہیں کی گئی ہے بلکہ دو الگ الگ باتوں کا بیان ہے ، ایک بات کا تعلق محدود دور میں رونماہونے والے مخصوص فتنہ سے ہے اوردوسری بات کا تعلق کم عمربچوں کی امارت سے ہے لیکن یہ امارت کس زمانہ میں ہوگی اس کا بیان مذکورہ دونوں روایات میں سے کسی میں نہیں ، اورمذکورہ دونوں باتوں کے درمیان عربی کا جو ’’و‘‘ ہے یہ واو مغایرت کے لئے ہے جیسا کہ تعوذ کی دعاؤں کا معاملہ ہے۔

شیخ عبدالرحمن العقبی سبعین والی روایت سے متعلق لکھتے ہیں :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : "تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ رَأْسِ السَّبْعِينَ وَمَنْ إِمَارَةِ الصِّبْيَانِ"، فإن إمارة الصبيان غير رأس السبعين، وليس المعنى أن إمارة الصبيان تكون على رأس السبعين، وذلك لأن الواو للمغايرة كقول القائل: أعوذ بالله من الاشتراكية والرأسمالية ۔۔۔۔۔۔۔[مسائل سلطانية للشيخ: عبد الرحمن العقبي (ص: 8) ترقيم الشاملة].
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سن ستر (٧٠) کے اوائل سے پناہ طلب کرو اور بچوں کی امارت سے پناہ طلب کرو۔ یہاں بچوں کی امارت کا دور سن ستر (٧٠) میں نہیں بتایا گیا ہے اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کی امارت ستر (٧٠) کے اوائل ہی میں ہوگی کیونکہ یہاں ’’واؤ‘‘ مغایرت کے لئے ہے ، جیسے کوئی یہ کہے کہ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام سے ۔۔۔۔
اس تطبیق سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا ہے۔
اگرکوئی اس تطبیق سے راضی نہیں ہے تو اس پرلازم ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول پرمقدم کرے اوریہ تسلیم کرے وفات رسول کے سترسال بعد تک یعنی اسی (٨٠) ہجری کے اوائل تک بچوں کا امارت کا وجود ناممکن ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وجود اپنی وفات کے ستر سال بعد بتایاہے۔

بچوں کی امارت کا دورکب ؟؟؟

گذشتہ سطورمیں یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ روایات میں صرف یہ ملتا ہے کہ بچوں کی امارت کا دورآئے گا مگر یہ دور کب آئے گا اس بارے میں کوئی صریح روایت نہیں ۔
بچوں کی امارت سے متعلق اوربھی معتدد روایات ہیں لیکن کسی ایک میں بھی سرے سے کسی خاص زمانہ کا ذکر ہی نہیں ہے۔
البتہ ایک موقوف روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سن ساٹھ سے قبل وفات کی دعاء کررہے ہیں اوراسی روایت میں بچوں کی امارت کو بھی نہ پانے کی دعاء کررہے ہیں لیکن دوسری طرف ایک مرفوع حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے ستر سال بعد یعنی سن اسی (٨٠) ہجری سے پناہ مانگنے کا حکم دیے رہے ہیں اورساتھ ہی میں بچوں کی امارت سے بھی پناہ مانگنے کا حکم دے رہے ہیں ، یہ مرفوع روایت سامنے آنے کی بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت میں یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث میں بچوں کی امارت والے دور کی تحدید نہیں ہے۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا تسامح

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بچوں کے امارت کے دور کی شروعات یزیدبن معاویہ سے مانی ہے چنانچہ کہا:
أَنَّ الْمَذْكُورِينَ مِنْ جُمْلَتِهِمْ وَأَنَّ أَوَّلَهُمْ يَزِيدُ [فتح الباري لابن حجر: 13/ 10]۔
یعنی مذکورہ بچے بھی انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کی امارت کی طرف حدیث میں اشارہ ہے اوران میں سے پہلا شخص یزید ہے ۔
حافظ موصوف اپنی اس بات کی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں:
كَمَا دَلَّ عَلَيْهِ قَوْلُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَأْسُ السِّتِّينَ وَإِمَارَةُ الصِّبْيَانِ [فتح الباري لابن حجر: 13/ 10]۔
جیساکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس پردلالت کرتا ہے کہ اے اللہ ! مجھے سن ساٹھ کا زمانہ نہ ملے ، اے اللہ ! مجھے بچوں کی امارت کادور نہ ملے ۔
معلوم ہواکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے یزید بن معاویہ کی امارت کو بچوں کی امارت کہنے کے لئے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت کو دلیل بنایا ہے لیکن ہم عرض کرچکے ہیں ایک صحیح مرفوع روایت میں بچوں کی امارت کے ساتھ ساتھ سن (٨٠) ہجری کا تذکرہ ہوا ہے ، اب اگرحافظ ابن حجررحمہ اللہ کے طریقہ استدلال کو بروئے کار لایاجائے تو کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کی امارت کی ابتداء سن اسی ٨٠ ھجری سے ہوگی ، اور ایسی صورت میں ابوہریرہ رضی اللہ کا قول ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف ہونے کے سبب غیرمسموع ہوگا۔

لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث ، دونوں میں محدود سن والے جملے اور بچوں کی امارت والے جملہ کو الگ الگ سمجھا جائے ، جیساکہ گذشتہ سطور میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔

یادرہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا یزید کی امارت کو بھی بچوں کی امارت میں شمارکرنا واضح حقائق کے خلاف ہے کیونکہ یزید رحمہ اللہ امارت سنبھالتے وقت بچے تھے ہی نہیں ، حافظ موصوف کو بھی یہ اشکال محسوس ہوا اس لئے انہوں نے یہ تاویل پیش کی :
وَقَدْ يُطْلَقُ الصَّبِيُّ وَالْغُلَيِّمُ بِالتَّصْغِيرِ عَلَى الضَّعِيفِ الْعَقْلِ وَالتَّدْبِيرِ وَالدِّينِ وَلَوْ كَانَ مُحْتَلِمًا وَهُوَ الْمُرَادُ هُنَا فَإِنَّ الْخُلَفَاءَ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ مَنِ اسْتُخْلِفَ وَهُوَ دُونَ الْبُلُوغِ وَكَذَلِكَ مَنْ أَمَّرُوهُ عَلَى الْأَعْمَالِ[فتح الباري لابن حجر: 13/ 9]۔
صبی اور غلیم کا اطلاق کم عقل و کم فہم پربھی ہوتا ہے گرچہ وہ بالغ ہی کیوں نہ ہو اوراس حدیث میں بچوں سے یہی مراد ہے کیونکہ بنوامیہ میں کوئی بھی خلیفہ نابالغ نہیں گذرا ہے اسی طرح ان کے عمال بھی سب کے سب بالغ تھے۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ تاویل بے سود ہے کیونکہ یزید رحمہ اللہ کم عقل بھی نہ تھے ، ان کے ظالم ہونے کا پروپیگنڈا تو کچھ لوگوں نے کیا ہے لیکن ان پرکم عقلی کا الزام تو کسی ایک نے بھی نہیں لگایا ، معلوم نہیں حافظ موصوف نے انہیں کم عقل کیسے باورکرلیا۔

نیزاصول یہی ہے کہ اصلا نصوص شریعت کو حقیقت پرمحمول کیا جائے لہٰذا بچوں کی امارت والی حدیث حقیقت ہی پر محمول ہوگی کیونکہ اس کی تاویل کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے مزید یہ کہ سلف میں سے کسی نے بھی اس حدیث کی تاویل نہیں کی ہے بلکہ خود حافظ ابن حجر(المتوفى852) رحمہ اللہ کے بقول الفاظ حدیث کے معانی پر کتاب لکھنے والے امام ابن الأثير (المتوفى: 606) رحمہ اللہ نے اس طرح کے الفاظ کو حقیقت پر محمول کیا ہے ، حافظ موصوف فرماتے ہیں:
وَقَالَ بن الْأَثِيرِ الْمُرَادُ بِالْأُغَيْلِمَةِ هُنَا الصَّبِيَّانِ وَلِذَلِكَ صَغَّرَهُمْ[فتح الباري لابن حجر: 13/ 9 وانظر:النهاية في غريب الحديث لابن الاثیر: 3/ 382]۔
امام ابن الاثیر رحمہ اللہ نے کہا کہ یہاں ’’أغيلمة‘‘ سے مراد چھوٹے بچے ہیں اسی لئے اس کی تصغیر لائی گئی ہے۔
اسی طرح سلف میں سے کسی نے بھی یزید رحمہ اللہ کو اس حدیث کا مصداق نہیں بتلایا ہے بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق سعيد بن عمرو رحمہ اللہ نے اس کا مصداق دوسرے ایسے بچوں کو بتلایا ہے جن کا زمانہ عہد یزید سے بہت بعد کا زمانہ ہے، چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو بن سعيد، قال: أخبرني جدي، قال: كنت جالسا مع أبي هريرة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة، ومعنا مروان، قال أبو هريرة: سمعت الصادق المصدوق يقول: «هلكة أمتي على يدي غلمة من قريش» فقال مروان: لعنة الله عليهم غلمة. فقال أبو هريرة: لو شئت أن أقول: بني فلان، وبني فلان، لفعلت. فكنت أخرج مع جدي إلى بني مروان حين ملكوا بالشأم، فإذا رآهم غلمانا أحداثا قال لنا عسى هؤلاء أن يكونوا منهم؟ قلنا: أنت أعلم[صحيح البخاري: 9/ 47]۔
عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی ، کہا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھ سے ہو گی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کس کس خاندان سے ہوں گے۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں(عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو ) اپنے دادا (سعيد بن عمرو)کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں (سعيد بن عمرو) نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔
اورمسند احمد کی روایت میں ہے:
فَإِذَا هُمْ يُبَايِعُونَ الصِّبْيَانَ مِنْهُمْ، وَمَنْ يُبَايِعُ لَهُ، وَهُوَ فِي خِرْقَةٍ [مسند أحمد: 14/ 58واسنادہ صحیح]۔
وہ لوگ بچوں سے بھی بیعت لے رہے تھے ، اور ایسے بچے سے بھی بیعت لے رہے تھے جو کپڑے میں لپٹا ہوا تھا ۔
اس حدیث میں غورکریں کہ سعيد بن عمرو رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کا مصداق یزید رحمہ اللہ کے بجائے دوسرے بچوں کو بتلایا ہے اوریزید کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا ہے اور ان کے پوتے نے بھی اس موقع پر یزید رحمہ اللہ کا کوئی حوالہ نہ دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ تک کسی نے بھی بچوں کی امارت والی حدیث کو یزید رحمہ اللہ پرفٹ ہی نہیں کیا تھا ۔

الغرض یہ کہ بچوں کی امارت والی حدیث کو حقیقت ہی پر محمول کیا جائے اس کی تاویل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، نیز سلف میں سے بھی کسی نے نہ تو اس کی تاویل کی ہے اورنہ ہی اسے یزید پرفٹ کیا ہے اس لئے اسے یزید رحمہ اللہ پر فٹ کرنا انصاف کے خلاف ہے۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے مذکورہ تاویل کے ساتھ ایک بات یہ بھی کہی ہے کہ :
فَإِنَّ يَزِيدَ كَانَ غَالِبًا يَنْتَزِعُ الشُّيُوخَ مِنْ إِمَارَةِ الْبُلْدَانِ الْكِبَارِ وَيُوَلِّيهَا الْأَصَاغِرَ مِنْ أَقَارِبِهِ[فتح الباري لابن حجر: 13/ 10]۔
کیونکہ یزید عام طور شہروں کے بڑے امراء کو معزول کرکے ان کی جگہ اپنے اقرباء میں سے چھوٹے چھوٹے لوگوں کو بٹھا دیتا تھا۔
عرض ہے کہ یہ بات محض افواہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے معلوم نہیں حافظ موصوف نے یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے ، علاوہ ازیں یزید رحمہ اللہ کو چھوٹا امیر ثابت کرنے کے لئے یہ بہت دور کی کوڑی ہے اگر چھوٹے امراء یزید کے ماتحت تھے خود یزید نہیں تھا تو پھر حدیث مذکورکو صرف انہیں چھوٹے امراء ہی پرفٹ کرنا چاہے ، خواہ مخواۃ یزید رحمہ اللہ کو اس بیچ میں کیوں لایا جارہا ہے، گرچہ ایسا یزید رحمہ اللہ کے حکم سے ہوا ہو لیکن یہ حکم صادر کرنے سے یزید رحمہ اللہ کی عمر تو چھوٹی نہیں ہوجائے گی ، نیزاگر دور کی کوڑی سے یزید چھوٹا امیر ثابت ہوا کیونکہ اس نے چھوٹے امرا متعین کئے تو کیا اس فلسفہ کی رو سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شماربھی چھوٹے امراء میں ہوگا؟؟ کیونکہ انہوں نے بھی یزید رحمہ اللہ کو خلافت کے لئے نامزد کیا ؟؟؟ معلوم نہیں حافظ موصوف ان تکلفات سے کیوں کام لے رہے ہیں ، غالبا حافظ موصوف رحمہ اللہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی سن ساٹھ والی روایت کی وجہ سے ان تکلفات پرمجبور ہوئے ہیں لیکن اس روایت کی وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔


سن ساٹھ کے فتنے کا ذمہ دارکون ؟

رہی بات یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سن ساٹھ سے قبل موت کی دعاء کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ اس دور میں کوئی فتنہ ہوگا۔
عرض ہے کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء سے اس دور میں کسی فتنہ کی طرف اشارہ ملتاہے مگر یہ فتنہ یزید بن معاویہ کی طرف سے ہوگا ، اس جانب کوئی ادنی اشارہ بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس دعاء میں نہیں ہے ، لہٰذا اس سے یزید بن معاویہ رحمہ اللہ پرکوئی حرف نہیں آتا۔
اگرکوئی کہے کہ یہ فتنہ دور یزید میں تو ہوا ، تو عرض ہے کہ اس سے بڑے فتنے علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئے ، جنگ جمل اورجنگ صفین میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی ، بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جس قدر صحابہ کرام کا خون بہا اتنا خون یزیدبن معاویہ کے پورے دور میں نہیں بہا اوران فتنوں کی طرف اشارہ صرف صحیح ہی نہیں بلکہ صحیح ومرفوع روایات میں ہے ، تو کیا ان تمام صحابہ کے خون کی ذمہ داری علی رضی اللہ عنہ پرہوگی ۔
ہرگز نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری تو اس سازشی ٹولہ کے سر جاتی ہے جس نے صحابہ کے بیچ خونریز جنگ کرائی ۔

یہی معاملہ دور یزید کے فتنہ سے بھی ہے یعنی اس دور کے فتنہ کی ذمہ داری یزید رحمہ اللہ کے سرنہیں جاتی بلکہ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کے خلاف سازشیں کیں تاکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر انہیں تباہ و برباد کیا جائے پہلے اس سازشی ٹولے نے امت مسلمہ کے خون سے ہولی کھیلنے کے لئے حسین رضی اللہ عنہ کا استعمال کرنا چاہا لیکن اس میں کامیاب نہ ہوا توخود حسین رضی اللہ عنہ ہی کو شہید کرڈالا ، اس کے بعد اسی سازشی ٹولے نے اہل مکہ ومدینہ کے سامنے یزید رحمہ اللہ پر شراب نوشی ، ترک صلاۃ اورنہ جانے کیسے کیسے جھوٹھے الزامات لگائے تاکہ انہیں یزید کے خلاف ورغلائے ، ظاہر ہے کہ جن کی سازشوں سے اجلہ صحابہ رضی اللہ عنہم تک محفوظ نہ رہ سکے اورجمل و صفین کے معرکے وقوع پذیر ہوئے ، کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اہل مکہ ومدینہ کے بعض افراد ان کی سازشوں کے شکار ہوکر اپنوں ہی کے خلاف برسر پیکار ہوجائیں۔

الغرض یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو سن ساٹھ میں فنتہ کی طرف اشارہ کیا ہے تو اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جنہوں نے یہ فتنے برپا کئے ، ہم بغیر کسی ثبوت کے اس کی ذمہ داری یزید رحمہ اللہ پر قطعا نہیں ڈال سکتے بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اشارہ یزید رحمہ اللہ کی طرف نہیں ہے کیونکہ یزید رحمہ اللہ کی پیشگی بیعت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی ہوگئی تھی اور اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ باحیات تھے لیکن کسی ایک بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یزید رحمہ اللہ کو ولی عہد بنانے پر کوئی اعترض کیا ہو اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس حکمت عملی کے خلاف کوئی بات اشارہ و کنایہ میں بھی کہی ہو بلکہ اس کے برعکس ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ وہ جب سن ساٹھ سے قبل فوت ہونے کی دعاء کرتے تو ساتھ ہی میں امیر معایہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی کو لازم پکڑنے کی وصیت بھی کرتے تھے۔
چنانچہ اوپر جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل ہوئی ہے اسے پھر سے پڑھیں اس میں یہ بھی ملتا ہے کہ:
وهو يقول اللهم لا تدركني سنة الستين ويحكم تمسكوا بصدغي معاوية [حوالہ مذکور]۔
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے اے اللہ ! مجھے سن ساٹھ کا زمانہ نہ ملے ، اورکہتے اے لوگو ! امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی کو لازم پکڑو
ان الفاظ پر غورکریں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سن ساٹھ سے قبل فوت ہونے کی دعاء کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے یہ بھی فرمارہے ہیں کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی کو لازم پکڑو ۔
اوریزید رحمہ اللہ کی ولیعہدی اوربعد میں ان کا خلیفہ بننا بھی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی ہے ، جس سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ واقف تھے گویا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نظر میں اس فتنہ کے وقت یزید رحمہ اللہ کی بیعت کو لازم پکڑنے ہی میں عافیت ہے، اوربعد میں جب یہ دور آیا تو دیگر صحابہ نے بھی اس وقت کے لوگوں کو یہی نصیحت کی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top