• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوال: ہندستان کے یا مغربی ممالک کے سکول و کالجز اور یونیورسٹیز میں علم حاصل کرنا کیسا ہے؟

شمولیت
اپریل 10، 2021
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
21
سوال نمبر#0194
سوال: ہندستان کے یا مغربی ممالک کے سکول و کالجز اور یونیورسٹیز میں علم حاصل کرنا کیسا ہے؟


جواب:


(1) کافروں سے یا ان کے ساتھ پڑھنا شرعی حدود میں ہو تو جائز ہے جیسے غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے وہ قیدی جو اپنی رہائی کے لیے پیسے ادا نہیں کرسکتے تھے ان پر صحابہ اکرام کے دس بیٹوں کو پڑھنا لکھنا سیکھانا فدیہ مقرر کیا تھا۔ لیکن اس انداز تعلیم میں مسلمان کسی بھی قسم کے منکر اور شر سے محفوظ تھے کیونکہ پڑھانے والے مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی تھے اور ان کے زیر تسلط تھے، لہذا وہ کفر و شرک، فسق و فجور کی تعلیم و ترویج نہیں دے سکتے تھے۔

لیکن آج حال یہ ہے کہ دار الکفر (خواہ دار الکفر اصلی ہو یا دار الکفر طاری) میں چلنے والے اسکول اور کالیجیز میں نصاب کفر و شرک کی تعلیم و ترویج پر تیار کیا جاتا ہے۔

جہاں بچے کو ہر روز صبح صبح اپنے دن کا آغاز وطن پرستی اور قوم پرستی سے کرنا ہوتا ہے، یعنی وہ جھنڈے کو سلامی پیش کرتا ہے، وطن پرستی کے ترانی پڑھتا ہے، اور کہیں تو طاغوتی افواج کو ہی سلامی پیش کرتا ہے۔ پھر دن بھر اسے مختلف موضوعات کے نام پر ڈیموکراسی (جمہوریت)، وطن پرستی، مذہب انسانیت، بین المذاہب ہم آہنگی، کفار و مرتدین سے محبت اور ان سے مرعوب ہونا، کفریہ قوانین ( یو این، نیٹو وغیرہ) سے محبت اور اسے ہی انسانوں کی پریشانی کا حل بتلانا، اور ایسے علوم انگریزی، اردو، ہندی زبان سیکھانے کے بہانے سیکھانا جو اسلامی اصولوں، عقیدہ الولاء و البراء، اخلاق و تہذیب، شرم وحیا کے منافی ہوں۔ ڈارون کے کفری نظریات سے لے کر کفار کے جنگجووں کے واقعات پڑھانا جس سے مسلمانوں کے دلوں میں ان کا رعب، تعجب بیٹھ جائے، اور دنیا میں ہر کامیابی، شجاعت و حکمت کو کفر و الحاد پھیلانے والوں کی طرف مںسوب کرنا, وطن پرست، ڈیموکریٹک، انسانی حقوق کے علمبردار افراد کی تعظیم و تکریم اور انہیں ہی اسوہ حسنہ کے طور پر پڑھانا وغیرہ ذلک

خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی اولاد کو کسی کافر کے پاس پڑھانے بھیجے اس شرط پر کہ وہ شر و فتنے سے محفوظ علم حاصل کرسکے ( جو کہ جائز امر بھی ہے)۔۔۔۔تو اس دور میں یہ کام ناممکن یے الا یہ کہ جب اللہ چاہے اور اسلام غالب آجائے ۔

اور اگر تعلیمی ادارے بیان کردہ کفر و شرک سے محفوظ نہیں ہیں تو ایسے تعلیمی اداروں میں اپنی اولاد کو تعلیم دلانا جائز نہیں ہے۔

یہ اسلیے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کو کفریہ عقیدہ سیکھانا ہوا، اسے اسلام سے نکال کر کفری نظریات کا حامل بنانا ہوا۔ اور اسی ضمن میں شیخ بکر ابو زید فرماتے ہیں:

"جو شخص اپنے بیٹے کو اپنی مرضی اور اختیار سے کسی اسکول میں داخل کرتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنے نصاب اور سرگرمیوں کے ذریعے، مسلمان بچوں کو ان کے مذہب سے نکالتے ہیں اور ان کے عقیدہ پر سوال اٹھاتے ہیں، تو وہ اسلام سے مرتد ہے* جیسا کہ علماء کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے"

پس مسلمانوں کو اس معاملے میں اللہ سے خوف رکھنا چاہیے اور اپنی اولاد کو شرک و کفر سے پاک تعلیم دلانا چاہیے۔

اگر کوئی اس نصاب سے کفریات کو کاٹ کر باقی فنون پڑھانا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نصاب سے تمام کفریات و حرام چیزوں کو پوری طرح کاٹ کر اور مسخ کرکے نکال دیا جائے۔

آج کے دور میں یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ خود بچوں کو گھر میں تعلیم دیں اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ انہیں کتابوں میں موجود تمام کفریہ، شرکیہ (وطن پرستی، قوم ہرسےی، شخصیت پرستی، مذھب انسانیت، حب کفار و مرتدین وغیرہ ذلک) نظریات کو حذف کر کے اسلامی حدود کے دائرے میں پڑھائیں تو جائز ہے۔

اور جان لو کہ دنیاوی علوم میں جہالت کفر اور دین کے نقصان کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتی
اڈید: حسین بن محمد
 
شمولیت
اپریل 10، 2021
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
21
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال نمبر#0245
=========================
سوال:
As wr wb ...bhaijaan ek behan hai..jo ahlus sunnah ki aqeedah ki hain ..unka beta 6 saal ka hai,abhi tak vo uski home schooling krwa rahi thin aur barak Allah uska aqeedah bhi sahi hai lekin ab vo apni ammi ki baat nhi sunta,to isliye woh apney bachay ki admission kissi aise school mai kr warahi hai jo ki central govt. hai ...lekin us school me majority musalman ki hai.Unhe lagta hai ke unke bete ko taghut aur dusri cheezen maloom hn aqeedey se mutalliq to is trha ke school me dalne par bche pr asar nhi pdega.aur jb vo apne dosto ko dekhega deen ke arkan krte huye to vo bhi krega...kyunke apni ammi ki baat vo ab sunta nhi h


Us behen ko hum kaise samjhaee ...


Guide us in the light of quran and sunnah....

Jazak Allah u khair

جواب:


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

موجودہ زمانے کے اسکولز اور ان کے نصاب کے بارے میں دیکھیے فتوی #194۔ جس میں ایسے اسکولز میں پڑھانے کا حکم درج ہے۔

رہی بات یہ کہ بچے کو توحید و طاغوت کا علم دیا جا چکا ہے اور اس پر اسکول کا ماحول و نصاب اثر نہیں کرے گا، یہ ایک غلط فہمی ہے جو انہیں سمجھ نہیں آرہی۔ جب بچے کو اسکول میں داخل کروایا جائے گا، کیا وہ اتنی استطاعت رکھتا ہے کہ جب اسے قوم پرستی کے خرافات (قومی ترانہ پڑھنا، جھنڈے کو سلام و تعظیم دینا وغیرہ ذلک) کو ادا کرنے کہا جائے گا تو وہ اس سے انکار کرے گا؟ یا یہ ماں اسکول جا کر ببانگ دھل کہہ سکتی ہے کہ میرا بیٹے ان خرافاتی سر گرمیوں میں حصہ نہیں لے گا؟ یا اس نصاب کے ملحدانہ موضوعات و مضامین کو نہیں پڑھے گا؟

یہ تو گویا ایسی بات ہوگئی کہ بچے کو سیکھایا ضرور ہے بیٹا بت اور صلیب کو سجدہ کرنا شرک ہے، لیکن ایسے ادارے میں داخل کردیا جائے جہاں پڑھنے اور تعلیم حاصل۔کرنے کی شرط ہی پہلے بت و صلیب کو سجدہ کرنا ہے۔ اب بھلے دل میں اس کا انکار موجود ہے لیکن تب بھی اپنے اعمال سے شرکیہ عمل کرتا ہے کیونکہ ادارے کا تقاضا ہے تو کیا اس کا ایمان بچے گا؟ جبکہ اس پر کوئی مجبوری بھی نہ تھی، وہ کسی اکراہ کی حالت میں بھی نہ تھا بلکہ خود ماں باپ اپنے ہاتھوں سے اسے شرکیہ اداروں میں داخل کر آتے ہیں تاکہ ان کے بچے ہر روز اپنی صبح خرافات سے کریں! کیا علم صرف جان لینے کانام ہے اور اس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں؟
واللہ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ بچے کو تیراکی سیکھا کر اسے خود اپنے ہاتھ سے موج کھاتے بیچ سمندر میں پھینک دیا جائے کہ میں نے تو اسے تیراکی سیکھائی ہے!

یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے کہ اسکول میں داخل کرنے کی وجہ بچے کی نافرمانی یا ماں کی بات نہ سننا بتائی جارہی ہے، اور بیٹے کے سدھارنے کی امید ایسے اداروں سے لگائی جارہی جن کا مقصد ہی مسلمان نسلوں کو اپنے دین کا باغی بنانا اور مغربی رسم و رواج کا شیدائی بنانا ہے ۔ یا للعجب!

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 
Top