• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سود کی حرمت اور اس کی مختلف شکلیں

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
سود کی حرمت اور اس کی مختلف شکلیں
مولانامحمد انور محمد قاسم سلفی (کویت)​

سود کی تعریف:
سود کو عربی زبان میں " ربا"کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : " کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا "۔ مثلاً کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100روپئے قرض دئے ، تو اس سے یہ شرط کرلی کہ وہ 100 روپے کے 120روپے لے گا ، مہلت کے عوض یہ جو 20روپے زیادہ لیے گئے ہیں ، یہ سود ہے "۔

سود کی حرمت:
اللہ تعالی کا فرمان ہے :"اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے پاس باقی رہ گیا ہے اگر ایمان والے ہو تو اسے چھوڑ دو ، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبر دار ہوجاو .... " ( البقرہ :275)
نیز فرمان باری ہے : " اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا کر سود نہ کھاو ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاو ، اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ، اور اﷲ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے"۔ ( آل عمران :(132-131)
حجة الوداع کے موقع پر، جس میں تقریباً سارے صحابہ کرام عرب کے چپے چپے سے امنڈ آئے تھے ، اس میں بھی خصوصیت کے ساتھ آپ انے تجارتی اور مہاجنی ہر طرح کے سود کی حرمت کا اعلان فرمایا :"سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاوں تلے روند دی گئی ، .... اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا ، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے ۔ اب یہ سارا سود ختم ہے "۔( بخاری )
حضرت عبد اﷲ بن حنظلہ رضى الله عنه کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : "سود کا ایک درہم ، جسے انسان جانتے بوجھتے کھاتا ہے ، وہ 36 مرتبہ زنا کاری سے بھی بدتر ہے "۔ ( صحیح : مسنداحمد ، طبرانی )
سیدنا عبد اﷲ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:" سود کے 73 دروازے ہیں ، ان کا سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے ، سب سے بدترین سود کسی مسلمان کی عزت سے کھلواڑ کرنا ہے "۔ (صحیح :مستدرک حاکم ، بیہقی )
سیدنا جابر کہتے ہیں : رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے سود کھانے والے ، اور اسے کھلانے والے ، اور اس (دستاویز)کے لکھنے والے ،اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور پھر فرمایا کہ یہ تمام کے تمام گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔"( مسلم ۸۹۵۱)
سیدنا عبد اﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:" جس گاوں میں زنا اور سود رواج پاگیا ، تو وہاں کے باشندوں نے اپنے اوپر اﷲ کے عذاب کو حلال کرلیا ۔" ( صحیح ،المستدرک للحاکم)
سود بڑھتا نہیں گھٹتا ہے
سود کو بڑھتا اور پروان چڑھتا سمجھنا ، سود کھانے والوں کی خام خیالی ہے ، جب کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد کریم انے اس کے کم ہونے اور تباہ وبرباد ہونے کی پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
ترجمہ :"اﷲ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے ، اور اﷲ کسی ناشکرے (سود خور) اور گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے اور نماز قائم کی، اور زکاة ادا کی ،ان کا اجر ان کے رب کے پاس ثابت ہے ، اور ان پر نہ خوف طاری ہوگا ، اور نہ انہیں کوئی غم لاحق ہوگا "۔( البقرہ :277-276)
"یَمحَقُ اﷲُ الرِّبَا"کی تفسیر کرتے ہوئے سیدناعبد اﷲ بن عباس فرماتے ہیں : "محق" ( گھٹانا ) یہ ہے کہ اﷲ سود خور بندے کا نہ حج قبول کرتا ہے ، نہ صدقہ ، نہ جہاد ، اور نہ صلہ رحمی ۔( یعنی اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ) ۔ ( تقسیر قرطبی :۲/۴۳۲)
سیدنا ا بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : "جس شخص نے سودکے ذریعہ زیادہ (مال ) حاصل کیا ، اس کا انجام کمی پر ہی ہوگا "۔(صحیح ، ابن ماجہ )
ایک اور روایت میں ہے : "سود اگرچہ بظاہر زیادہ نظر آتا ہے لیکن اس کا انجام کمی اور قلت ہے "۔(مستدرک حاکم )
دنیا دار انسان سود کو نفع بخش اور زکاة کو مال میں کمی کرنے والا سمجھتا ہے، جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے، ایسے خام خیال افراد کی ہدایت کےلئے ،سود کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ نے زکاة کا نظام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مال کو بڑھانا ہو تو اسے رب کی بارگاہ میں زکاةاور صدقات کی شکل میں پیش کرو:
"اور تم لوگ جو سود دیتے ہو ، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھتا ، اور تم لوگ جو زکاة دیتے ہو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کےلئے،ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں"۔ (الروم :39)

سود کھانے والوں کی حالت زار:
قیامت کے دن سود خور ایک خاص کیفیت سے دوچار ہونگے ، جس سے لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ یہ دنیا میں سود کھاتے تھے ۔ ارشاد باری ہے :ترجمہ :"جو لوگ سود کھاتے ہیں ، وہ اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے ، جس طرح وہ آدمی جسے شیطان اپنے اثر سے دیوانہ بنا دیتا ہے ، یہ ( سزا انہیں ) اس لیے ملی کہ وہ کہا کرتے تھے کہ خرید وفروخت بھی توسود ہی کی مانند ہے ، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو حلال کیا ہے ، اور سود کو حرام قرار دیا ہے ، پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہنچ گئی ، اور وہ (سود لینے سے ) باز آگیا ، تو ماضی میں جو لے چکا ہے وہ اس کا ہے ، اور اس کا معاملہ اﷲ کے حوالے ہے ، اور جو اس کے بعد لے گا ، تو وہی لوگ جہنمی ہوں گے ، اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے "۔ ( البقرہ :275)

سیدنا عوف بن مالک ص سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : "تم ان گناہوں سے بچو جو ( بغیر توبہ کے ) بخشے نہیں جاتے :۱) خیانت : جس نے کسی چیز میں خیانت کی، اس چیز کے ساتھ اسے قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا ۔ ۲) سود خوری : اسلئے کہ جو شخص سود کھائے گا قیامت کے دن پاگل شخص کی طرح جھومتے ہوئے اٹھے گا پھر آپ انے یہ آیت تلاوت فرمائی :
ترجمہ : "جو لوگ سود کھاتے ہیں ، وہ اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے ، جس طرح وہ آدمی جسے شیطان اپنے اثر سے دیوانہ بنا دیتا ہے"۔ ( ترغیب وترہیب )

سود خوری ایک ایسا سنگین جرم ہے کہ عالم برزخ اور قبر میں بھی عذاب کا باعث ہوگا ، اور آخرت میں بھی موجب سزا ہوگا ۔سیدنا سمرہ بن جندب صکہتے ہیں کہ رسول اﷲ ا نے فرمایا:" رات میں میرے پاس دو فرشتے(حضرت جبریل ں اورحضرت میکائیل ں)آئے ، وہ مجھے اٹھا کر پاک سرزمین کی طرف لے گئے ،آپ نے کئی چیزیں ملاحظہ فرمائیں ،جن میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ ا نے ایک خون کا دریا دیکھا ، جس میں ایک آدمی (تیر رہا ) ہے ، اس نہر کے ایک کنارے ایک آدمی کھڑا ہے ، اس کے پاس پتھروں کا ایک ڈھیر ہے ، خون کے دریا میں جو آدمی ہے ، وہ کوشش کرتا ہے کہ اس دریا سے باہر نکل جائے ، جب وہ کنارے کے قریب آتا ہے، تو کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ میں زور سے پتھر دے مارتا ہے ، پھر وہ شخص خون کے دریا کے وسط میں چلا جاتا ہے ،پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ باہر نکل جائے ، لیکن کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ پر پھر زور سے ایک پتھر مارتا ہے ۔ اس کے ساتھ مسلسل یہی سلوک ہورہا ہے ۔ رسول اﷲا فرماتے ہیں : میں نے ان دونوں سے پوچھا :"اس آدمی کو یہ سزا کیوں مل رہی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : یہ سود خور ہے ، سودی کاروبار کیا کرتا تھا، اس لیے اس کو یہ سزا مل رہی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا :" جو سزا آپ نے اس کو ملتے دیکھی ، وہ اسے قیامت تک ملتی رہے گی" ۔(بخاری)

سود کی بعض قسمیں
سود ایک چیز کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دے کر فروخت کرناہے ۔ فقہاءنے اس کا قاعدہ کلیہ یہ بتایا ہے کہ وہ تمام اجناس، جن میں " ناپ ، وزن اور خوراک " تینوں صفات میں سے کوئی دو صفتیں پائی جائیں ، ان کا آپس میں لین دین یا خرید وفروخت کسی ایک کو زیادہ کرکے جائز نہیں۔ جن چیزوں میں یہ تینوں صفات معدوم ہوں ، یا ان کی جنس مختلف ہو ، تو پھر کسی کی زیادتی سود نہیں ہوگی ، جیسا کہ سیدنا عبادہ بن صامت صسے مروی ہے کہ رسول اکرم انے فرمایا :
" سونا سونے کے بدلے ،چاندی چاندی کے بدلے ، گیہوں گیہوں کے بدلے ، جو جو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے ، برابر بیچنا جائز ہے ، لیکن ان میں سے کسی ایک کو گھٹا بڑھا کر بیچنا یا دینا سود ہے "۔ ( مسلم ، احمد )
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز جتنی دی جائے اتنی ہی واپس لینی چاہئے ،جتنا سونا یا چاندی دی ہو ، یا جتنا روپیہ دیا ہو، اتنا ہی واپس لینا چاہئے ،اصل مال پر کچھ زائد رقم کا لینا ، چاہے وہ رقم کم ہو یا زیادہ ، سود ہے ۔

مہاجنی سود :وہ یہ کہ لوگ اپنی ذاتی ضرورت کےلئے سرمایہ دار افراد سے قرضے لیتے ، اور انہیںان کی دی ہوئی رقم پرماہانہ مشروط سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں ۔
بینک کا سود : کچھ لوگ بینکوں سے تجارت یا زراعت کےلئے قرضے حاصل کرتے ہیں اور مقررہ میعاد پر متعین شرح سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔
فکس ڈپازٹ :کچھ لوگ سودی بینکوں میں روپیہ کچھ مدت ( مثلاً پانچ یا دس سال ) کےليے جمع (Deposit ) کردیتے ہیں ، جو انہیں %12 یا %15 فیصد سود دیتے ہیں ، اس مخصوص مدت کے اختتام پر ان کی رقم دگنی یا تگنی ہو کر ملتی ہے ۔ یہ سب سود ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اپنی رقم ایسی بینک میں جمع (Deposit ) کرتا ہے جو سودی نہیں ، یا اسلامی بینک ہیں ، اور وہ اسے متعین فیصد سود کے بجائے نفع اور نقصان کی شراکت پر فائدہ یا نقصان دیتا ہے تو اس طرح کی بینکوں سے ملنے والی زائد رقم سود متصور نہیں ہوگی ۔

لائف انشورنس :یہ ہے کہ کمپنی اپنے کسی معتمد ڈاکٹر سے کسی شخص کا طبّی معائنہ کراتی ہے ، اور وہ ڈاکٹر کمپنی کو اس شخص کی صحت کے متعلق رپورٹ پیش کرتا ہے کہ اس شخص کی صحت سے امید ہے کہ وہ بیس سال تک زندہ رہے ،اس پر کمپنی اس شخص سے دس یا پندرہ سال کے لیے معاہدہ کرتی ہے کہ مثلاً : وہ شخص دس سال تک ماہانہ قسطوں میں انشورنس کمپنی کودس لاکھ روپیہ ادا کرے گا ، دس سال پورے ہونے کے بعد کمپنی اسے پچیس لاکھ دے گی ۔ اگر وہ شخص دو سال میں ہی فو ت ہوجاتا ہے تو کمپنی کو لازمی طور پر اپنے اس گاہک(Client) کے ورثاءکو پچیس لاکھ روپیے ادا کرنے ہوں گے ۔ اگرگاہک (Client)نے کمپنی کو دو ڈھائی سال تک قسطوں میں رقم ادا کیا ، لیکن پھر کسی سبب سے اس نے قسطیں مکمل نہیں کیں ، تو کمپنی اسے ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرتی ، بلکہ اسکی جمع کردہ ساری رقم بھی ڈوب جاتی ہے۔
لائف انشورنس میں بے شمار خامیاں اور خرابیاں ہیں ، مندرجہ ذیل چند اہم اسباب کی وجہ سے اکثر علماءنے اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے :
-1 یہ اﷲ پر بندے کے توکل کے خلاف ہے ۔
-2اس میں بسا اوقات یا تو کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے یا کلینٹ کو ، اور اسلام میں خود نقصان اٹھانا یا دوسروں کو نقصان پہنچاناجائز نہیں۔
-3بسا اوقات ورثاءکے دل میں مال کی حرص پیدا ہوجاتی ہے ، کئی واقعات میں ورثاءنے ہی کلینٹ کا قتل کردیا اور کمپنی سے انشورنس کی رقم ہتھیالی ۔

غیر منقولہ مرہون چیز سے استفادہ : عام لوگوں میں سود کی جو قسمیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی آدمی کسی غریب کو کچھ رقم بطور قرض دیتا ہے ، اور رہن میں اس کا گھر رکھ لیتا ہے ، پھر اس میں یا تو خود رہتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے یا کسی کو کرایہ پر دے کر اس کا کرایہ خود کھاتا ہے ، اس طرح کے کاروبار میں صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور دینی مزاج رکھنے والے لوگ تک بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔

کمیٹی وغیرہ کا سود:عام لوگوں میں رائج سود کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم ہے کہ دس آدمی مل کر ہر ماہ دس دس ہزار جمع کرتے ہیں ، اور پھر اس ایک لاکھ روپئے کی بولی لگتی ہے ، کوئی کہتا ہے : میں اسے نو ّے ہزار میں لوں گا ۔ دوسرا کہتا ہے ، میں اسے اسّی ہزار میں لوں گا ، تیسرا کہتا ہے کہ میں اسے ستّر ہزار میں لوں گا ۔ غرضیکہ جو سب سے زیادہ کم بولی لگاتا ہے ، اسے اتنی رقم دے دی جاتی ہے ، باقی ماندہ تیس یا چالیس ہزار روپئے تمام لوگ آپس میں بانٹ لیتے ہیں ، اور جس نے بولی کی رقم لی ہے اسے پورے ایک لاکھ روپئے ہی بھرنے پڑتے ہیں ۔ یہ بھی سود کی ایک اہم قسم ہے ، اسے کہیں" کمیٹی" اور کہیں" چیٹی" وغیرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
ان کے علاوہ کئی ایسے راستے اور طریقے ہیں جو کہ سود تک لے جاتے ہیں ۔

بینکوں سے لین دین:
آج ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر بینکوں سے
واسطہ پڑہی جاتا ہے بالخصوص وہ لوگ جو کسبِ معاش کے لیے بیرون ملک رہتے ہیں ، انہیں اپنی رقوم بھیجنے کے لیے بینکوں سے تعلق لازمی وضروری ہے ، اس لیے کہ بینکوں کے سوا دوسرے جو بھی ذرائع ہیں ہمارے ملکی قانون کی نگاہ میں جرم ہیں ، علاوہ ازیں ان ذرائع سے بھیجی ہوئی رقم کے گھر پہنچنے تک انسان پریشانی کا شکار رہتا ہے ، نیز اگر یہ طریقہ اطمینان بخش بھی ہو لیکن اس سرمایہ سے انسان کوئی جائیداد ، گھر یا پراپرٹی خریدتا ہے تو انکم ٹیکس کا محکمہ اسے اپنا شکار بنا لیتا ہے کہ اس کے پاس اس جائیداد کو خریدنے کے لیے روپیہ کہاں سے آیا ؟ اس طرح آدمی قانون اور انکم ٹیکس محکمہ کے چنگل میں ایسے پھنس جاتا ہے کہ الامان والحفیظ ۔
ایسے حالات میں علماءنے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت عطا فرمائی ہے کہ وہ بوقت ضرورت سودی بینکوں کے ذریعے اپنی رقوم منتقل کرسکتے ہیں ۔ شیخ الاسلام علامہ عبد العزیز بن عبداﷲبن باز رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :
"اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر میں انہی بینکوں کے ذریعے رقوم منتقل کرنا عام ضروریات میں سے ہے ، اسی طرح سود کی شرط کے بغیر محض حفاظت کے لیے رقوم رکھنے میں کوئی حرج نہیں"۔( فتاویٰ اسلامیہ: 2/ 525)
اگر اس طرح کوئی شخص بینک میں کرنٹ اکاونٹ کا کھاتہ کھولتا ہے ، جس پر اسے سود نہ ملتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔

اضطراری کیفیت کا حکم:
رسول اﷲصلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے :" لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہوگا، اگر سود نہ کھائے تو اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کر رہے گا"۔ (نسائی ،کتاب البیوع ، باب اجتناب الشبہات فی الکسب )
اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے ، پوری دنیا اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ وریشے میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کرگیا ہے کہ جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہورہا ہے ، ایک مسلمان اگر پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتاً بچناچاہے بھی تواسے کئی مقامات پر الجھنیں پیش آتی ہیں ، مثلاً: آج کل اگرکوئی شخص گاڑی ، سکوٹر ،کار ، بس یا ٹرک خریدنا چاہے تو اسے لازمًا اس کی انشورنس کرانا پڑے گا ۔ اسی طرح جو تاجر پیشہ افراد بینک سے تعلق نہ رکھیں اور بینک سے ایل سی(Letter Of Credit ) یا اعتماد نامہ حاصل نہ کریں تو وہ نہ مال درآمد کرسکتے ہیں اور نہ بر آمد ۔
ایسے حالات کے متعلق عرض ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا اسلامی حکومتوں کا کام ہے ، اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پرجہاں تک سودسے بچ سکتا ہے بچے ، اور جہاں وہ مجبور ہے اﷲ تعالیٰ معاف فرمادے گا، اس لیے کہ شریعت کا اصول ہے کہ مواخذہ اس حد تک ہے جہاں انسان کا اختیار ہے ،جہاں اضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں ہوگا۔ ان شاءاﷲ

شیئرمارکیٹ کا حکم:
آج کا دور شیئر مارکیٹنگ کا دور ہے ، وہ اس طرح کہ نامور کمپنیاں لوگوں میں اپنی کمپنیوں کے حصے فروخت کرتی ہیں جو شخص کسی کمپنی کا شیئر خریدتا ہے وہ اس کمپنی کا شیئر ہولڈر بن جاتا ہے ، سال میں کمپنی اپنے نفع یا نقصان کے حساب سے اپنے شیئر ہولڈروں میں نفع یا نقصان تقسیم کرتی ہے ، جب کمپنی فائدے میں ہو تو اس کے شیئر کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ، جب کمپنی گھاٹے میں ہو تو اس کے شیئر کی قیمت گرجاتی ہے ، اور اس کے شیئر ہولڈروں کو بسا اوقات ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔
شیئر مارکیٹ میں سرمایہ لگانے کے متعلق علماءمختلف الخیال ہیں ، کچھ اسے اس لیے جائز قرار دیتے ہیں کہ اس میں کوئی متعین سود نہیں ملتا ، اور نفع اور نقصان ،دونوں کا احتمال ہے ، اس لیے جائز ہے ۔ بعض علماءکا یہ خیال ہے کہ دور حاضر میں شیئر مارکیٹ ، سٹّے کا ایک عظیم کاروبار بن چکا ہے ، اس میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ درمیان کے دلال ، لوگوں کا سرمایہ لیکر رفو چکر ہوجاتے ہیں ، اور بے چارے عوام کی خون پسینے کی گاڑھی کمائی منٹوں میں برباد ہوجاتی ہے ، اور شیئر مارکیٹ میں اس طرح کی ڈوبی ہوئی رقم کی بازیابی کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے ۔ دوسرا یہ کہ اکثر کمپنیاں کیا کاروبار کرتی ہیں ، اس کی بھی شیئرز ہولڈرس کو کوئی خبر نہیں ہوتی ، کئی کمپنیاں حرام اشیاءکی تجارت کا بھی کاروبار کرتی ہیں، اور اس سے حاصل ہونے والے فائدے کو اپنے حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہیں ۔تیسرا سبب یہ کہ کئی کمپنیاں اپنے شیئرز ہولڈرس کو کمپنی کے نفع نقصان کے متعلق دھوکے میں رکھتی ہیں ، مثلا ًکمپنی اگر گھاٹے میں چل رہی ہو تو وہ اس طرح کی معلومات فراہم کرتی ہیں کہ کمپنی چل نہیں بلکہ دوڑ رہی ہے ، جس وقت کمپنی کا جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے حصے داروں کو پتہ چلتا ہے کہ ہماری زندگی بھر کی کمائی شیئر قزاقوں کی نذر ہوگئی ، ان میں سے بعض صدمے سے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور بعض قبرستان۔ ان تمام اندیشوں کے باوجود کچھ علماءنے مندرجہ ذیل شروط کے ساتھ کمپنیوں کے شیئر خریدنے کی اجازت دی ہے کہ:
-1۔ کمپنی حلال اشیاءکا کاروبار کرتی ہو ۔
-2۔ سود سے اس کاکوئی تعلق نہ ہو۔
-3۔ سودی بینکوں کے شیئرز کی خریداری سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔
اگر ان چیزوں کا خیال رکھا جائے تو پھر ایسی کمپنیوں کے شیئرز خریدنے میں حرج نہیں ہے ۔

سود کی تباہ کاریاں
-1۔سود خور ، اﷲ کی رحمت سے دور،اور وہ اﷲ اور اس کے رسول اسے حالت جنگ میں رہتا ہے ۔
-2۔ﷲ تعالیٰ نے کسی بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب کو وہ دھمکی نہیں دی اور اس عذاب کا وعدہ نہیں کیا جو سود خور کےلئے کیا ہے ۔
-3۔سود ایک اجتماعی جرم ہے ، وہ جس معاشرے میں رواج پاجائے گا اسے تباہ وبرباد کردے گا اور اس کی (اقتصادی ) بنیادوں کو منہدم کردے گا ، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جن غریب ممالک نے عالمی بینکوں سے سے قرض لیا ہے وہ سود در سود ادا کرتے کرتے تباہ ہو گئے ، لیکن قرض بدستور برقرار ہے.
-4۔سود کھانے والے شخص کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ" حرام کا ایک لقمہ کھانے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ بندے کی چالیس دن کی عبادت قبول نہیں فرماتا"۔( ترمذی )
نیز ارشادنبوی صلى الله عليه وسلم ہے :"اگر کوئی شخص ایسا لباس پہنتا ہے جس میں نو درہم تو حلال کے ہیں اور ایک درہم حرام کا ہے تو یہ لباس جب تک اسکے جسم پر رہے گا اﷲ تعالیٰ اس کی کسی عبادت کو قبول نہیں فرماتا "۔ ( ابن ماجہ)
-5 اﷲ تعالیٰ کبھی کبھی کافر اور مشرک کی دعا بھی قبول کرلیتا ہے ،لیکن اس کی بارگاہ میں سود خور کی دعا تک قبول نہیں ہوتی۔
مآخذ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
سود ایک چیز کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دے کر فروخت کرناہے ۔ فقہاءنے اس کا قاعدہ کلیہ یہ بتایا ہے کہ وہ تمام اجناس، جن میں " ناپ ، وزن اور خوراک " تینوں صفات میں سے کوئی دو صفتیں پائی جائیں ، ان کا آپس میں لین دین یا خرید وفروخت کسی ایک کو زیادہ کرکے جائز نہیں۔ جن چیزوں میں یہ تینوں صفات معدوم ہوں ، یا ان کی جنس مختلف ہو ، تو پھر کسی کی زیادتی سود نہیں ہوگی ، جیسا کہ سیدنا عبادہ بن صامت صسے مروی ہے کہ رسول اکرم انے فرمایا :
" سونا سونے کے بدلے ،چاندی چاندی کے بدلے ، گیہوں گیہوں کے بدلے ، جو جو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے ، برابر بیچنا جائز ہے ، لیکن ان میں سے کسی ایک کو گھٹا بڑھا کر بیچنا یا دینا سود ہے "۔ ( مسلم ، احمد )
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز جتنی دی جائے اتنی ہی واپس لینی چاہئے ،جتنا سونا یا چاندی دی ہو ، یا جتنا روپیہ دیا ہو، اتنا ہی واپس لینا چاہئے ،اصل مال پر کچھ زائد رقم کا لینا ، چاہے وہ رقم کم ہو یا زیادہ ، سود ہے ۔
  1. اس تعریف کی رو سے صرف ایک جیسی نوع کے قرض کی واپسی میں دی گئی جنس سے زیادہ طلب کرنا سود ہے۔ واضح رہے کہ واپسی میں زیادہ طلب کرنا سود ہے۔ لیکن اگر زیادہ طلب نہیں کیا گیا بلکہ مقروض خوشی سے زیادہ دے تو یہ سود نہیں ہے بلکہ بعض احادیث کی رو سے احسن ہے۔
  2. چونکہ ہر دور میں نوع کی کیفیت بدلتی رہتی ہے اور لین دین یا قرض کی انواع میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اسی لئے ایک کلیہ دے دیا گیا ہے۔ آج کل سروسز، سہولیات بھی ”ادھار“ لی جاتی ہیں۔ جن کی ”اجرت“ بعد میں دی جاتی ہے۔ لہٰذا سروسز کے بدلہ (مروجہ ریٹ سے) زائد ادائیگی سود نہیں ہوسکتی کہ یہاں لین دین کی ”جنس“ مختلف ہے۔
  3. زمانہ قدیم میں سونے چاندی کی ”کرنسی“ کا رواج تھا۔ یہ کرنسی کبھی ”ڈی ویلیو“ نہیں ہوتی تھی۔ نہ ہی ”افراط زر“ ہوا کرتا تھا اور نہ ہی مہنگائی ہوا کر تی تھی۔ یہ سارے عذاب ”پیپر کرنسی“ کی دین ہے۔ پیپر کرنسی کی اپنی کوئی ”ذاتی ویلیو“ نہیں ہوا کرتی بلکہ یہ کرنسی نوٹ جاری کرنے والی حکومتیں اس کی ”ضامن“ ہوا کرتی ہیں۔ اسی لئے جب کبھی کوئی حکومت، ریاست کمزور یا افراتفری کا شکار ہوجاتی ہے تو اس حکومت کے جاریکردہ کرنسی نوٹ بھی کوڑیوں کے بھاؤ بھکتے ہیں۔ کرنسی نوٹ کا اگر سیریل نمبر مٹ جائے تو بھی اس کی مارکیٹ ویلیو گر یا ختم ہوجاتی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر آج کے عہد میں اگر کوئی کسی کو ایک لاکھ روپے کا قرضہ (شرعی قرض حسنہ نہیں) دے اور اسے یہ قرضہ ایک سال بعد ملے تو عملاً اس کی رقم ک ہوجاتی ہے (کرنسی ڈی ویلیو) ہونے کے سبب۔ اسی لئے بعض لوگ یا ادارے سود لینے کو ”جواز“ بناتے ہیں کہ جتنی کرنسی ڈی ویلیو ہوئی ہے، اسی کے برابر زائد رقم لے کر اپنا خسارہ پورا کرلیں۔ لیکن بہر حال ایک ہی شئے کے قرض میں واپسی میں زیادہ لینے کا مطاپبہ کرنا سود تو ہے۔ اس کا ایک حل ہے کہ ادارے یا افراد مروجہ لوکل کرنسی کی بجائے بین الاقوامی کرنسی میں قرض لیا کریں۔ یعنی میں بنک سے ایک لاکھ روپے لے کر ایک سال بعد سود سمیت سوا لاکھ روپے دینے کی بجائے (ایک لاکھ کے مساوی) ایک ہزار ڈالر قرض لوں (پھر اپنے لوکل استعمال کے لئے اسے روپے میں تبدیل کروالوں، اگر ضرورت ہو تو) اور ایک سال بعد بھی بنک کو ایک ہزار ڈالر ہی واپس کروں۔ اس دوران اگر روپیہ ڈی ویلیو ہو بھی جائے تو بنک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یا پھر (ایک لاکھ روپے کی بجائے اس کے تقریباً مساوی) دو تولہ سونا قرض لوں (اور اسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کروں) اور ایک سال بعد دو تولہ سونا ہی واپس کروں۔ اس دوران اگر سونے کی قیمت میں اضافہ بھی ہوجائے تو قرض دینے والے کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس طرح دو افراد بھی باہمی قرض کا لین دین کرسکرتے ہیں اور قرض دینے والا دنیوی اعتبار سے نقصان میں بھی نہیں رہے گا۔ سود کی لعنت سے بھی بچا رہے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
خضر حیات
انس
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
يہ تو بعينہ سود ہے

ايك شخص نے كسى بنك سے بغير فائدہ كے قرض حاصل كرنا چاہا كيونكہ فائدہ سود شمار ہوتا ہے، ليكن اس بنك كے ايك ذمہ دار نے اسے يہ كہا كہ: جب تم سود سے دور رہنا چاہتے ہو تو آپ كے ليے يہ ممكن ہے كہ ہم سے ايك ملين كى رقم لو اور اگر آپ كے پاس طاقت ہو تو دو ملين ہميں دے دينا ايك ملين ہمارا حق اور باقى ايك ملين كى رقم ايك سال تك ہمارے ملين كے بدلے ميں ايك برس تك ہمارے پاس رہے گا اور ايك برس بعد تم اپنا ملين واپس لے لينا، تو كيا يہ سود شمار ہو گا كہ نہيں ؟ ہميں تفصيلات فراہم كريں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

الحمد للہ :

يہ بالكل اور بعينہ سود ہے، كسى بھى حالت ميں يہ جائز نہيں، كيونكہ قرض كى غرض اور مقصد مسلمان شخص كى مصلحت اور اسے آسانى فراہم كرنا ہے، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

" باشبہ صدقہ دو بار صدقہ كى جگہ ہے"

لہذا جب ايك برس كے ليے بنك آپ كو ايك ملين كى رقم دے تو ايك برس گزرنے كے بعد آپ قرض ليا ہوا ايك ملين واپس كريں اور اس قرض كے بدلے ميں ايك ملين زيادہ ديں جو ان كے پاس ايك برس تك رہے، تو بالاتفاق مسلمانوں كے ہاں يہ حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے"

بغوى نے ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے.

تو بنك نے آپ كو ايك ملين اس شرط پر ديا ہے كہ آپ اس كے حق سے زيادہ ايك ملين كى رقم ديں تا كہ وہ اس سے خريد و فروخت كرسكے، اور اس سے حاصل ہونے والا نفع اس ( بنك ) كے ليے خاص ہو گا، تو اس شرط نے نفع كھينچا ہے، اور مسلمانوں كے اتفاق سے يہ شرط باطل ہے، لہذا ميرے بھائى آپ صرف بنك كو ايك ملين كى ہى رقم ادا كريں جو آپ نے بطور قرض حاصل كى ہے، اور اسے ايك برس تك كے ليے ايك ملين كى زيادہ رقم بالكل نہ ديں، كيونكہ علماء كرام كے اتفاق سے ايسا كرنا جائز نہيں.

لہذا بنك كو صرف اس كى رقم ہى واپس كى جائيگى كيونكہ اللہ تعالى فرماتا ہے:

{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور اگر تم مومن ہو تو جو سود باقى بچ گيا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گا} البقرۃ ( 278 - 279 ) .

ماخوذ از: فتاوى سماحۃ الشيخ عبد اللہ بن حميد صفحہ نمبر ( 185 ).

http://islamqa.info/ur/750
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مجھے اپنے ایک دینی پروجیکٹ کے باقاعدہ آغاز کے لئے پانچ ملین روپے بلا سود قرض فوری درکار ہیں۔ میں ان شاء اللہ انہیں پانچ سال کے بعد لوٹا دوں گا۔ قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے ہر قسم کی ضمانت دی جائیگی۔ حتیٰ کہ اگر اس دوران میں انتقال بھی کرجاؤں تب بھی اس بات کو یقینی بنا جاؤں گا کہ یہ قرض میرے مرتے ہی ادا ہو جائے۔ ان شاء اللہ

میں بنک سے بھی یہ قرض لینے کا ”اہل“ ہوں۔ لیکن روایتی بنکوں میں مجھے سود ادا کرنا پڑے گا۔ اور ”اسلامی بنکوں“ سے قرض لینے کی صورت میں بھی مجھے پانچ ملین سے زائد رقم (مختلف مدات میں) ادا کرنا پڑے گا، جو بہت سے علمائے کرام کے نزدیک تو سود نہیں ہے۔ جبکہ ایسے علماء بھی ہیں جو اس اضافی ادائیگی کو ہر صورت میں سود قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔

ہے کوئی فرد یا ادارہ جو مجھے یہ قرض دلواسکے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مجھے اپنے ایک دینی پروجیکٹ کے باقاعدہ آغاز کے لئے پانچ ملین روپے بلا سود قرض فوری درکار ہیں۔ میں ان شاء اللہ انہیں پانچ سال کے بعد لوٹا دوں گا۔ قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے ہر قسم کی ضمانت دی جائیگی۔ حتیٰ کہ اگر اس دوران میں انتقال بھی کرجاؤں تب بھی اس بات کو یقینی بنا جاؤں گا کہ یہ قرض میرے مرتے ہی ادا ہو جائے۔ ان شاء اللہ

میں بنک سے بھی یہ قرض لینے کا ”اہل“ ہوں۔ لیکن روایتی بنکوں میں مجھے سود ادا کرنا پڑے گا۔ اور ”اسلامی بنکوں“ سے قرض لینے کی صورت میں بھی مجھے پانچ ملین سے زائد رقم (مختلف مدات میں) ادا کرنا پڑے گا، جو بہت سے علمائے کرام کے نزدیک تو سود نہیں ہے۔ جبکہ ایسے علماء بھی ہیں جو اس اضافی ادائیگی کو ہر صورت میں سود قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔

ہے کوئی فرد یا ادارہ جو مجھے یہ قرض دلواسکے۔
واضح رہے کہ یہ ایک تمثیل ہے، مالی مدد کی اپیل نہیں۔ اس دنیا میں عموماً دیندار اور صاحب تقویٰ لوگوں کے پاس اس قدر وافر مال نہیں ہوتا کہ وہ بڑے بڑے پروجیکٹس کے لئے سرمایا فراہم (قرض) کر سکیں۔ دنیادار لوگوں اور اداروں کے پاس ہی سرمایہ وافر ہوتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے پروجیکٹس میں سرمایا لگا سکیں۔ لیکن وہ اپنی دولت سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ چنانچہ کسی نفع (سودی ہو یا غیر سودی)کے بغیر سرمایہ فراہم کرنا ان کے لئے ممکن نہیں۔ بہت اچھے ہوئے تو بلا کسی نقصان ( یا ڈی ویلیو آف کرنسی) کے شاید سرمایہ فراہم کر دیں۔ لیکن ہمارے روپیہ کی تاریخ بہت خراب ہے۔ یہ سالانہ بنیاد پہ لازماً ڈی ویلیو ہوجاتا اور اس کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ایسے لوگ اپنا روپیہ پراپرٹی یا فیکٹریز لگانے میں لگاتے ہیں جہاں روپیہ بڑھتا ہی ہے۔ ایسے میں وہ کسی ضرورتمند یا خوایشمند کو زر کثیر بطور قرض کیوں دیں۔ (سوچنے والا آئی کون)
 
Top