• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورہ آل عمران ٣:٧ پر اعتراض کا جواب درکار ہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تو آئیے رب ذولجلال کا کلام پاک کا تجزیہ جاری رکھتے ہیں.

الله پاک قرآن کریم کی سورہ آل عمران ٣:٧ میں فرماتے ہیں: " وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں."

سادہ اردو میں اس آیت کا ترجمہ کچھ یوں ھے کہ قرآن پاک میں بالکل صاف صاف احکامات والی آیات کے ساتھ کچھ مخفی آیات بھی ہیں جن کے معنی کا علم صرف الله ہی کو ھے. جو لوگ فتنہ بپا کرنا چاہتے ہیں وہ ایسی آیات کا اپنا ہی کوئی مطلب نکال لیتے ہیں اور ایمان والے ان پر بغیر معنی جانتے ہوے بھی ایمان رکھتے ہیں اور ایسے لوگ احسن ہیں. تو پھر سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ:

١. ایسی مخفی آیات کا نزول ہی کیوں کیا کہ جن کو فسادی کوئی بھی معنی دے کر فتنہ بپا کر سکتے ہیں؟ اور اگر اس کا خدشہ تھا، جیسا کے آیت سے لگ رہا ہے کہ تھا بھی، تو یا تو انکو نازل ہی نہ کرتے اور یا پھر انکو کھول کھول کر بیان کر دیتے جیسا کہ اکثر اصرار بھی کیا ہے؟

٢. مزید یہ کہ الله کیوں اپنی کتاب میں ہمیں اپنی اور بہت ساری آیات میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی آیات کھول کھول کر اور سیدھا سیدھا بیان کرتے ہیں؟ اور بار بار اصرار بھی کرتے ہیں کہ تم تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ساتھ ساتھ یہ کیوں اشارہ دیا کہ معنی نہ جاننے کی کوشش کرنے والے زیادہ احسن ہیں بنسبت کریدنے والوں کے؟ آخر کیوں؟

٣. اور آخرن یہ کہ کیا مقصد تھا آیات کو نازل کر کے بھی معنی کے علم کو خفیہ رکھنے کا؟ یہ تو راقم جیسے ناقدین کو موقع دینے کی بات ہو گئی. اگر ناقد اب یہ کہے کہ ایسا لگتا ھے کہ مقصد ہی فتنہ بپا کرنا کا تھا تو ناقد کیوں غلط کہے گا؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حافظ ابن کثیر علیہ الرحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
يخبر تعالى أن في القرآن آيات محكمات هن أم الكتاب، أي: بينات واضحات الدلالة، لا التباس فيها على أحد من الناس، ومنه آيات أخر فيها اشتباه في الدلالة على كثير من الناس أو بعضهم، فمن رد ما اشتبه عليه إلى الواضح منه، وحكم محكمه على متشابهه عنده، فقد اهتدى. ومن عكس انعكس؛ ولهذا قال تعالى: {هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب} أي: أصله
الذي يرجع إليه عند الاشتباه {وأخر متشابهات} أي: تحتمل (1) دلالتها موافقة المحكم، وقد تحتمل (2) شيئا آخر من حيث اللفظ والتركيب، لا من حيث المراد.

ترجمہ : (مستفاد از مولانا محمد جونا گڑھی )
یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہوسکتی، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گر پڑیں گے ،
اور ’’ ام الکتاب ‘‘ میں ’ ام ‘ سے مراد وہ اصل آیات جن کی طرف اشتباہ کے وقت رجوع کیا جاتا ہے ۔ اور ’’ متشابہات ‘‘ سے مراد وہ آیات جن کے معنی میں احتمال ہوتا ہے کہ اس میں’’ محکم ‘‘ کے موافق بھی دلالت ہوتی ہے اور باعتبار لفظ اور جملے کے کسی اور معنی بھی ان سے نکل رہا ہوتا ہے ، اگرچہ وہ مراد نہیں ہوتا ۔

یہ اس آیت کا سادہ مفہوم ہے ، جو مفسرین نے بیان کیا ، نہ کہ وہ جو کسی ملحد نے اوپر بیان کیا ہے ۔
١. ایسی مخفی آیات کا نزول ہی کیوں کیا کہ جن کو فسادی کوئی بھی معنی دے کر فتنہ بپا کر سکتے ہیں؟ اور اگر اس کا خدشہ تھا، جیسا کے آیت سے لگ رہا ہے کہ تھا بھی، تو یا تو انکو نازل ہی نہ کرتے اور یا پھر انکو کھول کھول کر بیان کر دیتے جیسا کہ اکثر اصرار بھی کیا ہے؟
آزمائش کی خاطر ۔ گناہوں کی طاقت انسان کے اندر اسی لیے رکھی ہے تاکہ پرہیز گاروں اور گناہ گاروں میں فرق واضح ہو ۔
٢. مزید یہ کہ الله کیوں اپنی کتاب میں ہمیں اپنی اور بہت ساری آیات میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی آیات کھول کھول کر اور سیدھا سیدھا بیان کرتے ہیں؟ اور بار بار اصرار بھی کرتے ہیں کہ تم تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ساتھ ساتھ یہ کیوں اشارہ دیا کہ معنی نہ جاننے کی کوشش کرنے والے زیادہ احسن ہیں بنسبت کریدنے والوں کے؟ آخر کیوں؟
اللہ نے آیات کھول کھول کر بیان کی ہیں ، یعنی ایک آیت دوسری کی وضاحت کرتی ہے ۔ چند آیات دوسری چند آیات کی تفصیل بیان کرتی ہیں ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید پر غور و فکر کا حکم دیا ہے ، لیکن اس طرح جس طرح اللہ تعالی نے رہنمائی فرمائی کہ جن آیات کا معنی واضح نہ ہو ، انہیں دیگر آیات کے ساتھ ملا کر سمجھو اور غور و فکر کرو ،
غور و فکر کا مطلب یہ نہیں کہ چند آیات کو لے کر سیاق و سباق سے ہٹا کر ، اس سے فتنہ برپا کرو ۔
پہلی قسم کے لوگ چونکہ راہ راست پر ہیں ، اس لیے ان کی تعریف کی گئی ہے ، اور دوسری قسم کے فتنہ پردازوں کی مزمت کی گئی ہے ۔
٣. اور آخرن یہ کہ کیا مقصد تھا آیات کو نازل کر کے بھی معنی کے علم کو خفیہ رکھنے کا؟ یہ تو راقم جیسے ناقدین کو موقع دینے کی بات ہو گئی. اگر ناقد اب یہ کہے کہ ایسا لگتا ھے کہ مقصد ہی فتنہ بپا کرنا کا تھا تو ناقد کیوں غلط کہے گا؟
مقصد فتنہ برپا کرنا نہیں ، بلکہ کھرے کھوٹے کی پہچان واضح کرنا تھا۔ اسی کو ’ابتلاء ‘ کہا جاتا ہے ۔ اگر ملحد کی مراد ’ فتنہ ‘ سے ’ ابتلاء ‘ ہے تو یہ اللہ کی حکمت و مصلحت ہے ۔
 
Top