ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
تو آئیے رب ذولجلال کا کلام پاک کا تجزیہ جاری رکھتے ہیں.
الله پاک قرآن کریم کی سورہ آل عمران ٣:٧ میں فرماتے ہیں: " وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں."
سادہ اردو میں اس آیت کا ترجمہ کچھ یوں ھے کہ قرآن پاک میں بالکل صاف صاف احکامات والی آیات کے ساتھ کچھ مخفی آیات بھی ہیں جن کے معنی کا علم صرف الله ہی کو ھے. جو لوگ فتنہ بپا کرنا چاہتے ہیں وہ ایسی آیات کا اپنا ہی کوئی مطلب نکال لیتے ہیں اور ایمان والے ان پر بغیر معنی جانتے ہوے بھی ایمان رکھتے ہیں اور ایسے لوگ احسن ہیں. تو پھر سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ:
١. ایسی مخفی آیات کا نزول ہی کیوں کیا کہ جن کو فسادی کوئی بھی معنی دے کر فتنہ بپا کر سکتے ہیں؟ اور اگر اس کا خدشہ تھا، جیسا کے آیت سے لگ رہا ہے کہ تھا بھی، تو یا تو انکو نازل ہی نہ کرتے اور یا پھر انکو کھول کھول کر بیان کر دیتے جیسا کہ اکثر اصرار بھی کیا ہے؟
٢. مزید یہ کہ الله کیوں اپنی کتاب میں ہمیں اپنی اور بہت ساری آیات میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی آیات کھول کھول کر اور سیدھا سیدھا بیان کرتے ہیں؟ اور بار بار اصرار بھی کرتے ہیں کہ تم تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ساتھ ساتھ یہ کیوں اشارہ دیا کہ معنی نہ جاننے کی کوشش کرنے والے زیادہ احسن ہیں بنسبت کریدنے والوں کے؟ آخر کیوں؟
٣. اور آخرن یہ کہ کیا مقصد تھا آیات کو نازل کر کے بھی معنی کے علم کو خفیہ رکھنے کا؟ یہ تو راقم جیسے ناقدین کو موقع دینے کی بات ہو گئی. اگر ناقد اب یہ کہے کہ ایسا لگتا ھے کہ مقصد ہی فتنہ بپا کرنا کا تھا تو ناقد کیوں غلط کہے گا؟
الله پاک قرآن کریم کی سورہ آل عمران ٣:٧ میں فرماتے ہیں: " وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں."
سادہ اردو میں اس آیت کا ترجمہ کچھ یوں ھے کہ قرآن پاک میں بالکل صاف صاف احکامات والی آیات کے ساتھ کچھ مخفی آیات بھی ہیں جن کے معنی کا علم صرف الله ہی کو ھے. جو لوگ فتنہ بپا کرنا چاہتے ہیں وہ ایسی آیات کا اپنا ہی کوئی مطلب نکال لیتے ہیں اور ایمان والے ان پر بغیر معنی جانتے ہوے بھی ایمان رکھتے ہیں اور ایسے لوگ احسن ہیں. تو پھر سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ:
١. ایسی مخفی آیات کا نزول ہی کیوں کیا کہ جن کو فسادی کوئی بھی معنی دے کر فتنہ بپا کر سکتے ہیں؟ اور اگر اس کا خدشہ تھا، جیسا کے آیت سے لگ رہا ہے کہ تھا بھی، تو یا تو انکو نازل ہی نہ کرتے اور یا پھر انکو کھول کھول کر بیان کر دیتے جیسا کہ اکثر اصرار بھی کیا ہے؟
٢. مزید یہ کہ الله کیوں اپنی کتاب میں ہمیں اپنی اور بہت ساری آیات میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی آیات کھول کھول کر اور سیدھا سیدھا بیان کرتے ہیں؟ اور بار بار اصرار بھی کرتے ہیں کہ تم تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ساتھ ساتھ یہ کیوں اشارہ دیا کہ معنی نہ جاننے کی کوشش کرنے والے زیادہ احسن ہیں بنسبت کریدنے والوں کے؟ آخر کیوں؟
٣. اور آخرن یہ کہ کیا مقصد تھا آیات کو نازل کر کے بھی معنی کے علم کو خفیہ رکھنے کا؟ یہ تو راقم جیسے ناقدین کو موقع دینے کی بات ہو گئی. اگر ناقد اب یہ کہے کہ ایسا لگتا ھے کہ مقصد ہی فتنہ بپا کرنا کا تھا تو ناقد کیوں غلط کہے گا؟