موضوع: سورہ اخلاص اور بندوں کی خدائی
*
*
سورہ اخلاص اور بندوں کی خدائی
خبر آئی ہے کہ رحمان ملک نے صحافیوں کو سورت اخلاص سنائی وہ تو سوالوں کے جواب عربی زبان میں دینے کو تیار تھے۔ مگر کسی صحافی کو عربی میں سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی آج کل سیاست دان جواب نہیں دیتے۔ لاجواب کرتے ہیں۔ رحمان ملک کے لئے شیخ ریاض کی وجہ سے نرم گوشہ ہے۔ ان کے کالم نوائے وقت میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ رحمان ملک کو سورة اخلاص پڑھنا نہیں چاہئے تھی۔ سننے والوں، میں شاید ایک بھی آدمی نہ تھا جو خلوص رکھتا ہو۔ ممبران اسمبلی یعنی سیاستدان جس قدر افلاس سے دور ہیں۔ اخلاص سے بھی اتنے ہی دور ہیں۔ رحمان ملک کو کیا پڑی تھی کہ وہ تلاوت کرنے بیٹھ گئے۔ بے چارے حامد سعید کاظمی کے بعد یہ بھی مولانا فضل الرحمان کی سازش ہو گی۔ ورنہ اعظم سواتی کو حامد سعید کاظمی سے کوئی دشمنی نہ تھی۔ اصل میں وہ حامد سعید کاظمی کو وزیراعظم سے نکلوا کے اب صدر زرداری سے وزیراعظم کو نکلوانا چاہتا ہے۔ صدر زرداری کے لئے بھی کوئی ترکیب اس کے دل میں ہو گی۔ خطرہ ہے کہ اب صدر زرداری سے سورہ فاتحہ کی تلاوت کراکے اسے مفتوح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وہ تنقید سے زیر نہیں ہوئے۔ تمسخر سے زیروزبر کرنے کی کوشش ہو گی۔ جس طرح اصل ہدف حامد سعید کاظمی نہ تھے۔ وزیراعظم گیلانی تھے۔ گیلانی نہ رہے تو اس سیٹ اپ کو اپ سیٹ کرنا آسان ہو جائے گا۔ رحمان ملک سے یہ کس نے کہلوایا کہ میں عربی گریجویٹ ہوں۔ اب یہ کہا جائے گا کہ ایک عربی گریجویٹ کو سورہ اخلاص نہیں آتی۔ اس کی ڈگری چیک کرو۔ یار لوگ ڈاکٹر بابر اعوان کی ڈگری کے جعلی ہونے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں جب کہ الیکشن کے لئے بی اے کی شرط تھی۔ بابر اعوان سینیٹر بنے تو یہ شرط بھی نہ تھی۔ رحمان ملک بھی اس شرط کے پابند نہیں مگر پروپیگنڈا کرنے میں کیا حرج ہے۔ جمشید دستی بھی سپریم کورٹ میں اسلام کے بنیادی سوالات کے جواب نہ دے سکے تھے۔ موصوف کے پاس کسی دینی مدرسے کی ڈگری تھی۔ یہ کسی نے چیک نہیں کیا کہ دستی صاحب نے کس دینی مدرسے کی ڈگری تھی۔ کہیں وہ حضرت مولانا کے کسی مدرسے کی ڈگری تو نہ تھی!۔ جمشید دستی نے دوبارہ جیت کے ثابت کر دیا کہ ووٹ لینے کے لئے ڈگری لینا ضروری نہیں۔ اس پر کسی مقدمے میں ڈگری ہو چکی ہے تو یہ بھی کوالیفیکشن ہے۔ بی اے پاس کرنے کے لئے کتاب وغیرہ پڑھنا ضروری تو نہیں ڈگری لینے اور حصول علم میں بڑا فرق ہے۔ عام طور پر بی اے پاس لوگ انگریزی میں درخواست نہیں لکھ سکتے۔ انگریزی بی اے میں لازمی ہے۔ عربی لازمی نہیں قومی زبان اردو بھی لازمی نہیں۔ ہماری بیورو کریسی (براکریسی) نے ہمارے نوجوانوں کے فیل ہونے کے لئے انگریزی کا مضمون رکھا ہوا ہے۔ پچھلے ساٹھ برس میں انگریزی لازمی ہونے سے جعل سازی فراڈ اور کرپشن عام ہوئی ہے۔ زوال آیا ہے ترقی تو نہیں ہوئی۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو کمپلکس میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ انہیں انگریزی نہیں آتی۔ غلط انگریزی بولتے ہیں اپنا مذاق اڑواتے ہیں مگر بولتے انگریزی ہیں۔ چین، جاپان، جرمنی، فرانس نے ترقی کی ہے اور انگریزی وہاں لازمی نہیں ہے۔ سی ایس ایس کا امتحان کسی نہ کسی طرح پاس کر کے اپنی نالائقیوں کو چھپانے کے لئے جاہل حکمرانوں اور احمق سیاست دانوں پر اپنی جعلی لیاقت کا رعب ڈالتے رہتے ہیں۔ وہ صرف افسری کرتے ہیں اور احکامات پر دستخط کرتے ہیں۔ سارا فائل ورک ملازم کرتے ہیں پھر بھی انہیں ملزم سمجھا جاتا ہے۔ دستخط کرنے میں ہی کئی مہینے لگا دیتے ہیں۔ البتہ دستخط انگریزی میں کرتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ انہوں نے کوئی آئیڈیا کوئی پالیسی، کوئی منصوبہ بندی ایسی پیش کی ہے جو ملک و قوم کے لئے مفید ہوتی ہو اور کسی طرح کی ترقی کا سبب بنی ہو۔ اس کے باوجود صرف انہی پر انحصار کیا جاتا ہے اور وہ کسی خواب و خیال والے علوم و فنون میں کمال والے کو آگے نہیں آنے دیتے۔ ہمارے کئی امیر کبیر وزیر شذیر اور بے ضمیر تسبیح ہاتھ میں لے کے پھرتے ہیں۔ قیمتی موبائل کی طرح مہنگی تسبیح بھی اب فیشن ہو گیا ہے کسی نے پوچھ لیا کہ یہ تسبیح پر پڑھتے کیا ہیں۔ یونہی جواب دے دیا گیا۔ آیت الکرسی۔ اس نے کہا کہ آیت الکرسی تو بڑی لمبی ہے۔ اور یہ لوگ بڑی جلد جلدی دانے گراتے ہیں۔ بتایا گیا کہ انہوں نے آیت الکرسی کا خلاصہ کر لیا ہے۔ کرسی.... کرسی.... کرسی.... آخر سورہ اخلاص کا خلاصہ کیا ہے۔ یہ تو پہلے ہی مختصر ہے۔ اس کے لفظی خلاصے کی ضرورت نہیں۔ اس کا مظاہرہ صرف چہرے کے تاثرات، باڈی لینگوئج اور حاکمانہ پروٹوکول کے ذریعے ہی ہو جاتا ہے۔ اللہ ایک ہے۔ کوئی اس جیسا نہیں۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ سیاست دان اور حکمران بھی تکبر کرکے سمجھتے ہیں کہ کوئی ان کا شریک نہیں۔ نعوذباللہ وہ وحدہ لاشریک ہیں۔ شراکت اقتدار تو انہیں قبول ہی نہیں جہاں تدبر ضروری ہے وہاں بھی تکبر سے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تسبیح ہاتھ میں لینے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔ اپنے رویئے اور طرز عمل سے سب کچھ کرتے ہیں۔ رحمان ملک تو ایسے لگتے نہیں۔ شاید اسی لئے انہوں نے سورہ اخلاص پڑھنے کی کوشش کی۔
۔میرے آقا و مولا رسول کریم حضرت محمد نے معراج پر جاتے ہوئے فرشتوں سے کہا تھا (جب کہ ان کے مخاطب آج کے حکمران اور سیاست دان ہیں) ”میں اللہ کے دربار میں وہ چیز لے کے جا رہا ہوں جو اس کے پاس بھی نہیں۔“ فرشتے حیران ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ ”میں خدا کے حضور عاجزی لے کے جا رہا ہوں۔“ خدا کے سامنے بندگی ہی بندے کا اعزاز ہے۔ مگر وہ خدا کا بندہ ہونا نہیں چاہتے۔ یہاں بندوں کو خدا ہونے کا بڑا شوق ہے
لنکسورہ اخلاص اور بندوں کی خدائیحضرت علیؓ نے فرمایا کہ خدا جس کو عاجز کرنا چاہتا ہے اس سے عاجزی چھین لیتا ہے۔!