یقیناً وہ شخص کامیاب (٦) ہوگا جو (کفر و شرک سے) پاک ہوگیا ،اور جس نے اپنے رب کو یاد کیا ،پھر نماز پڑھی "
علامہ عبدالرحمن کیلانیؒ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
[١٠] یعنی جس نے اپنے آپ کو کفر و شرک ' عقائد فاسدہ سے اور اخلاقی رذیلہ سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ یہاں بعض لوگوں نے تزکی ٰسے مراد زکوٰۃ اور بالخصوص صدقہ فطر اور (وذکر اسم ربہ) سے مراد تکبیرات عیدین اور فصلی سے مراد نماز عید لی ہے۔ اور اگر اس آیت کو اس کے عام مفہوم میں لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو پاکیزہ بنا لے پھر اللہ کو زبان سے بھی یاد کرتا رہے اور دل میں بھی یاد رکھے۔ پھر اسی کی تائید کے طور پر باقاعدگی سے نمازیں ادا کرتا رہے تو سمجھ لو کہ اس کی زندگی سنور گئی اور کامیاب ہوگیا۔ یہاں کامیابی سے مراد اخروی کامیابی تو یقینی ہے اور اس دنیا میں اس کی کامیاب زندگی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے کیونکہ دارالجزا آخرت ہے یہ دنیا نہیں۔
(تیسیر القرآن )
اور امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
يقول تعالى: {قد أفلح من تزكى} أي: طهر نفسه من الأخلاق الرذيلة، وتابع ما أنزل الله على رسوله، صلوات الله وسلامه عليه، {وذكر اسم ربه فصلى} أي: أقام الصلاة في أوقاتها؛ ابتغاء رضوان الله وطاعة لأمر الله وامتثالا لشرع الله
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کر لیا ، احکام اسلام کی تابعداری کی ، نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا ، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پا لی ‘
آگے امام ابن کثیرؒ نے اس کی تفسیر میں مشہور تابعی ابوالعالیہؒ کا قول نقل کیا ہے ،وہ فرماتے ہیں :
عن أبي خلدة قال: دخلت على أبي العالية فقال لي: إذا غدوت غدا إلى العيد فمر بي. قال: فمررت به فقال: هل طعمت شيئا؟ قلت: نعم. قال: أفضت على نفسك من الماء؟ قلت: نعم. قال: فأخبرني ما فعلت بزكاتك؟ قلت: وكأنك قلت: قد وجهتها؟ قال: إنما أردتك لهذا. ثم قرأ: {قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى} وقال: إن أهل المدينة لا يرون صدقة أفضل منها ومن سقاية الماء.
ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ابوخلدہ رحمہ اللہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا ، جب میں گیا تو مجھ سے کہا : کچھ کھا لیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، فرمایا : غسل کرلیا ؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا : زکوٰۃ فطر ادا کر چکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا : بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت {
قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى} میں یہی مراد ہے ۔ اہل مدینہ صدقہ فطرسے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد مشہور تابعی ابوقتادۃ کا تفسیری قول نقل کیا ہے کہ :
(وَقَالَ قَتَادَةُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ {قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى} زَكَّى مَالَهُ وَأَرْضَى خَالِقَهُ ۔۔۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس آیت میں وہ سعادت مند آدمی مراد ہے جس نے اپنے مال کو پاک کر لیا اور اپنے رب کو راضی کر لیا "
https://archive.org/stream/FPtkather/tkather14#page/n324
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث نقل ہے ،جس میں بتایا گیا ہے کہ (تزکیٰ ) سے زکاۃ الفطر مراد ہے
تو اس حدیث کے متعلق علامہ البانیؒ لکھتے ہیں :
" هي زكاة الفطر . آية : *( قد أفلح من تزكى )* " .
قال الألباني في " السلسلة الضعيفة و الموضوعة " ( 3/275 ) :
ضعيف جدا .
أخرجه البزار في " مسنده " ( 1/429/905 ) و ابن عدي في " الكامل " ( ق 333/1 )
و البيهقي ( 4/159 ) من طريق عبد الله بن نافع عن كثير بن عبد الله المزني عن
أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن قوله : *( قد أفلح من تزكى
و ذكر اسم ربه فصلى )* قال : فذكره .
قلت : و هذا إسناد ضعيف جدا ، كثير هذا هو ابن عبد الله بن عمرو بن عوف ، قال
الشافعي و أبو داود :
" ركن من أركان الكذب " .
و قال الدارقطني و غيره :
" متروك " .
و عبد الله بن نافع هو الصائغ المخزومي المدني ، قال الحافظ :
" ثقة صحيح الكتاب ، في حفظه لين " .
و الحديث أورده السيوطي في " الدر المنثور " ( 6/339 ) بتخريج البزار و ابن
المنذر و ابن أبي حاتم و الحاكم في " الكنى " و ابن مردويه و البيهقي في " سننه
" بسند ضعيف عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف به .
قلت : فضعف إسناده بعبد الله بن نافع ، و تضعيفه بكثير أولى لما عرفت من سوء
حاله ، و لكن لعله سكت عنه لشهرته بذلك .
و للحديث شاهد موقوف ، رواه أبو حماد الحنفي عن عبيد الله ( و في نسخة عبد الله
) ابن عمر عن نافع عن عمر أنه كان يقول :
" نزلت هذه الآية : *( قد أفلح من تزكى و ذكر اسم ربه فصلى )* في زكاة رمضان "
قلت : و هو مع وقفه ضعيف الإسناد جدا ، فإن أبا حماد الحنفي و اسمه مفضل بن
صدقة قال النسائي :
" متروك " .
و قال ابن معين :
" ليس بشيء " .
و عبد الله بن عمر إن كان هو المكبر فضعيف ، و إن كان المصغر فثقة .