• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوشل میڈیا پر مجہول آئی ڈی کےساتھ دین کی تبلیغ کا حکم

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
جب سے کمپیوٹر سائنس کے ایک ذیلی مضمون، مصنوعی یا مشینی ذہانت یعنی
Artificial intelligence کی ایک تھیوری کے بارے کچھ جانے کا اتفاق ہوا ہے تو یہ احساس بہت شدت اختیار کر گیا ہے کہ عصر حاضر کے فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ ، جو خاص طور دین یا دینی تصورات کے بگاڑ میں کوئی بڑا کردار ادا کر رہا ہے یا مزید کرے گا، وہ مجہول آئی ڈیز کے ساتھ دین کی تبلیغ کا کام ہے۔ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ Artificial intelligence اب باقاعدہ ایک سبجیکٹ ہے جو یونیورسٹیز میں پڑھایا جاتا ہے اور اس کے تحت بہت سی تھیوریز، ڈسکس کی جاتی ہے۔

اب کمپیوٹر سائنس میں یہ بات ڈسکس ہو رہی ہے کہ مجہول آئی ڈی سے اس کے اونر کا وجود ثابت نہیں ہوتا۔ یہ وجود ورچوئل بھی ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ تھیوری بھی آ چکی ہے کہ ایک شخص پندرہ سو کے قریب ورچوئل پرسنیلیٹیز کے طور اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے۔ جب ایک شخصیت کا وجود ہی مشکوک ہے کہ وہ ورچوئل ہے یا ریئل میں ہے تو اس کا دین کیسے معتبر ہو گا؟

اس مسئلے کا ایک پہلو تو کمپیوٹر سائنس سے متعلق ہے جو میرا اصل موضوع نہیں ہے۔ یہاں اگر کوئی صاحب کمپوٹر سائنس کی زبان میں اس مسئلے کو کھولنا چاہیں تو شاید قارئین کے لیے مفید ہو۔

جبکہ دوسرا پہلو دینی ہے اور دینی اعتبار سے ہمارے دین میں مجہول راوی کی نہ تو روایت قابل قبول ہے اور نہ ہی اس کی دینی رائے معتبر ہے کیونکہ اس کا وجود، عدالت اور ثقاہت ثابت نہیں ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
وأخرج مسلم عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ : "إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ".
امام مسلم رحمہ اللہ نے محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: بلاشبہ یہ علم دین ہے، پس تم دیکھو کہ تم اپنا دین کہاں سے لے رہے ہو۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
جبکہ دوسرا پہلو دینی ہے اور دینی اعتبار سے ہمارے دین میں مجہول راوی کی نہ تو روایت قابل قبول ہے اور نہ ہی اس کی دینی رائے معتبر ہے
کیونکہ اس کا وجود، عدالت اور ثقاہت ثابت نہیں ہے۔



میرے خیال میں یہ اصول اس وقت تو لاگو کیاجاسکتا ہے جب کسی معاملے کی سند،گواہی یا روایت کی جارہی ہو۔اگر کوئی دین کی بات ہی کررہا ہو،لیکن اپنی شناخت نہ کرارہاہو اس کی وجہ کوئی بھی ہوسکتی ہے سکیورٹی،ریاکاری سے بچنا،یا کوئی اور۔۔۔۔
تو ایسے مجہول افراد کی دعوت کو قرآن وسنت پر پرکھ لیاجائے۔درست بات کو قبول اور غلط کو رد کردیاجائے۔

اسی طرح محمد بن سیرین ٌ کا جو قول نقل کیا ہے وہ بھی ایسے سند،روایت یا پھرگواہی والے معاملے میں ہی آتا ہے شاید
شاید کسی صحابی کا قول ہے یا۔۔۔(مجھے اچھی طرح یاد نہیں)کہ یہ مت دیکھو بات کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہہ کیا رہا ہے۔
اس کے علاوہ آیت الکرسی کی فضیلت والا واقعہ بھی علم میں ہی ہوگا کہ فضیلت بتانے والا شیطان ہے لیکن نبیﷺ نے اس کی بات لے لی۔[/QUOTE]
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
وأخرج مسلم عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ : "إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ".
امام مسلم رحمہ اللہ نے محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: بلاشبہ یہ علم دین ہے، پس تم دیکھو کہ تم اپنا دین کہاں سے لے رہے ہو۔
  • صحیح مسلم فن روایت حدیث کی کتاب ہے ؛مذکورہ قول اسی فن کے حوالے سے ہے،اس کا تبلیغ سے کیا تعلق ہے؟؟
  • پھر شرعی مسئلہ کتاب و سنت اور ان سے ماخوذ دیگر شرعی دلائل سے ثابت ہوتا ہے؛اگر اس موقف پر کوئی شرعی دلیل موجود ہو تو اسے پیش فرمائیں تا کہ اس پر غور کیا جا سکے۔جزاکم اللہ خیراً
  • اس سلسلے میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ مبلغ کے لیے تو شاید اپنا تعارف کرانا ضروری نہ ہو لیکن جو شخص باقاعدہ علم دین حاصل کرنا چاہتا ہے وہ استاد یا شیخ کی شخصیت سے لازماً واقفیت حاصل کرے مبادا وہ بدعتی ہو اور یہ اس کا معتقد ہو کر اہل سنت ہی سے منحرف ہو جائے۔
  • لیکن کوئی ایسی تحریر یا تقریر جس میں دلائل کے ساتھ شرعی مسئلہ بیان کیا گیا ہو اور سامع یا قاری دلیل کے فہم پر قادر ہو تو اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے خواہ وہ صاحب تحریر و تقریر سے ناواقف ہی ہو اور اس کا حقیقی تعارف میسر ہی نہ ہو کیوں کہ تعارف سے اصل مقصد فتنے سے محفوظ رہنا ہے جو یہاں حاصل ہے۔ہذٰا ما عندی والعلم عنداللہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
ایک اشکال یہ بھی ہے کہ جب کوئی بھائی، مثال کے طور اپنے فورم کی بات لے لیتے ہیں، یہاں رجسٹر ہوتا ہے، ہمارے فورم پر، تو یہاں اسے کچھ خانے پر کرنے ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک خانہ، نام کا بھی ہے۔ جب محدث فورم کی انتظامیہ کسی کو اپنے فورم پر اس اعتراف کے ساتھ آنے کی اجازت دے رہی ہے کہ وہ اپنا نام بتلائے۔ اور جب نام پوچھا جاتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ پوچھنے والے کے نزدیک اس کا معروف نام مراد ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی ممبر اپنا ایسا نام، نام کے خانے میں درج کر دیتا ہے جو اس کا معروف نام نہیں ہے، جو اس کا وہ نام نہیں ہے جو اس کے والدین نے رکھا، جو اس کا وہ نام نہیں ہے جو اس کے آئی ڈی کارڈ میں ہے، جو اس کا قلمی نام نہیں ہے وغیرہ اور ایک مجہول نام کا ذکر کر دیتا ہے تو کیا یہ جھوٹ نہیں ہے۔ جھوٹ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو امر واقعہ کے خلاف ہے۔ تو مجہول نام سے رجسٹر ہونا کیا امر واقعہ کے خلاف بات نہیں ہے؟

طاہر صاحب کی یہ بات درست ہے کہ اب سیرین رحمہ اللہ کا قول فن روایت میں منقول ہے لیکن بات عام ہے۔ فن روایت بھی دین کا ایک حصہ ہے اور ہم بات دین کی کر رہے ہیں کہ جس میں فن روایت بھی داخل ہے۔ اور دین سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے اللہ کی طرف منسوب کیا جائے۔ تو روایت ہو یا فہم بالاخر اسے دین قرار دینے کی صورت میں اس کی نسبت اللہ کی طرف ہوتی ہے۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کی نسبت میں اتنی احتیاط ہے تو پھر کسی چیز کو اللہ کی طرف منسوب کرنے میں احتیاط کیوں نہ ہو؟ ایک چھوٹی سی مثال بیان کروں گا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی ایک کتاب کا نام "اعلام الموقعین عن رب العالمین" رکھا ہے۔ اب پہلے لفظ میں اختلاف ہے کہ یہ جمع کا صیغہ ہے یا باب افعال کا مصدر ہے۔ میری رائے میں یہ باب افعال سے مصدر ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کو خبردار کر رہی ہے جو رب العالمین کی طرف سے دستخط کر کے دے رہے ہیں۔ اس عنوان کے ذریعے در اصل علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کی طرف سے اپنے زمانے کے مفتیوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اپنے فتوی کو محض ایک علمی رائے نہ سمجھو۔ اس فتوی کے نیچے جو تم دستخط کر رہے ہو تو یہ سوچ کر کرو کہ دستخط کر کے تم اپنے فتوی کی نسبت رب العالمین کی طرف کر دی ہے اور یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔ تم نے اپنے فتوی کو رب العالمین کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس پس منظر میں میری یہ تحریر تھی۔

باقی اگر کوئی شخص قرآن کی کوئی آیت، یا حدیث کا کوئی جزء یا کسی عالم کی کوئی رائے کتاب کے متعین حوالے کے مطابق پیش کر دیتا ہے اور اس میں اپنی رائے نہیں دیتا تو یہ میری مراد نہیں تھی۔ میری مراد مجہول آئی ڈی سے کسی شخص کا اپنی دینی رائے پیش کرنا ہے یا دینی روایت نقل کرنا ہے۔ مثلا کوئی صاحب مجہول آئی ڈی سے آج بھی کسی معروف عالم دین کی طرف کوئی واقعہ منسوب کریں کہ انہوں نے ایسا کیا، یا ایسا کہا جبکہ اس کے اور شواہد موجود نہ ہو، تو کیا مجہول آئی ڈی سے یہ روایت قابل قبول ہو گی؟ یہ اصل میں مبحث ہے؟ باقی چیزیں اسکین کر کے پیش کر دینے میں شاید ہمیں مجہول آئی ڈی سے کچھ لینے یا نہ لینے کے سوال میں کوئی غرض نہیں ہے لیکن یہاں بھی یہ غرض ضرور ہے کہ اس کا مجہول آئی بنانا کیا جھوٹ میں شامل ہے یا نہیں؟

اب اگر ہم اس کے خلاصہ کی طرف آئیں تو دو چیزیں ہو گئیں:

ایک مجہول آئی ڈی بنانا: اس کے بارے سوال یہ ہے کہ کیا یہ غلط بیانی اور جھوٹ میں شامل ہے یا نہیں۔ تو میں اسے جھوٹ میں شامل سمجھتا ہوں کیونکہ جب آپ سے نام پوچھا گیا ہے تو پوچھنے والے کا مقصد یہی ہے کہ آپ اپنا معروف نام ہی وہاں لکھیں اور آپ نے ایسا نہیں کیا۔ واللہ اعلم۔ باقی لوگ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ مجہول آئی ڈی سے روایت اور فہم دین کو قبول کیا جائے گا کہ نہیں۔ تو میرے نزدیک قبول نہیں کیا جائے گا۔ دینی روایت سے مراد صرف حدیث نہیں ہے بلکہ مجہول آدمی اگر کسی واقعہ کو آج بھی نقل کرتا ہے تو اس کی جہالت کی بنا پر اس واقعہ کی تحقیق لازم ہے یعنی صرف اس کے خبر دینے کی بنا پر یہ واقعہ قابل قبول نہ ہو گا مثلا کسی مجہول آئی ڈی کے ساتھ کسی شخص نے یہ دعوی کیا کہ میں علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی مجلس میں رہا ہوں اور وہ ایسے ایسے تھے یا کچھ بھی واقعہ نقل کرے۔ اور دوسرا مجہول آئی ڈی کا دین کی کوئی تعبیر پیش کرنا ہے یا دین کا فہم بیان کرنا ہے تو یہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ دین کی تعبیر یا دین کے فہم کا مطلب ہے دینی رائے دینا۔ اور دینی رائے دین ہی کہلاتی ہے کہ جس کی نسبت اللہ کی طرف ہو جاتی ہے۔ اور اللہ کے دین کو کسی مجہول شخص سے لینا درست نہیں ہے جیسا کہ روایت لینا درست نہیں ہے۔ ہاں، اگر کوئی کتاب وسنت کی اسکین شدہ تصاویر لگا رہا ہے یا دینی رائے نہیں دے رہا کوئی دنیاوی بات کر رہا ہے تو اس صورت میں اس پر یہ اعتراض رفع ہو جاتا ہے لیکن پہلا باقی رہتا ہے۔

جزاکم اللہ خیرا
 
Last edited:

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
مجہول آئی ڈی اور "قلمی نام" میں بھی فرق کیا جانا چاہیے۔
قلمی نام رکھنے کی کئی وجوہات ممکن ہیں جن میں سے چند اوپر کے مراسلات میں گنائی گئی ہیں۔ جس کسی فرد کا کوئی قلمی نام ہو اور اس فرد سے معاشرے کے چند معتبر و معروف اشخاص ذاتی طور پر واقف ہوں تو وہ چند اصول جو علوی بھائی نے مجہول آئی ڈی کے حوالے سے بیان کیے ہیں یہاں لاگو نہیں ہو سکتے۔
قلمی نام جھوٹ بھی نہیں کہلایا جا سکتا کیونکہ یہ خطاب/کنیت کے زمرے سے متعلق ہے۔

اردو ادب کے حوالے سے ایک قلمی نام بہت سے لوگ جانتے ہیں یعنی :
خامہ بگوش
خامہ بگوش نے کتب و رسائل ادیب، شعرا و نقاد کے متعلق ایسے ایسے مستند واقعات و حکایات اپنے حوالے سے بیان کیے ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک زمانے میں بہت کم لوگ ان کے اصل نام سے واقف تھے۔ لیکن آج اردو ادب کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہ ہمارے عہد کے مشہور قلمکار محقق و دانشور "مشفق خواجہ" (1935-2005) کا قلمی نام تھا!
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
معذرت خواہ ہوں۔ اس تھریڈ میں اپنی پہلی پوسٹ کے بعد ایک اور تھریڈ میں علوی بھائی کا یہ مراسلہ نظر سے گزرا ۔۔۔۔
یوسف ثانی صاحب نے یہ بات درست کی ہے کہ مجہول میں اور ان لوگوں میں کہ جو لکھنے کے لیے قلمی نام یا لقب استعمال کرتے ہیں، فرق ہے۔ قلمی نام والا شخص مجہول نہیں ہے۔ اسے سوسائٹی جانتی ہے۔
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
انفورمیشن ٹکنولوجی کا طالب علم ہونے کی ناطے ھمارے استاد اور ڈاکٹرز یہی مشورہ دیا کرتے ہے جہاں تک ہوسکے اپنی پرسنل انفورمیشن دوسروں تک نا دے۔۔۔ آپ کو ہر طرح سے دیکھا جا رھا ہے آپ کی ہر چیز کو سکین کیا جا رھا ہے۔ بہت ہی احتیاط برتنا چاھئے،،، اور اس کے بے شمار فوائد ہے ایک انسان بخوبی یہ جان سکتا ہے،، اپنی ائی ڈی وغیرہ چھپا کر تبلیغ کرنا،،، مجھے نہین لگتا دینی اعتبار سے یہ درست نہیں ہونگا ،،، بے شمار مصلحتیں اس میں شامل ہے۔،، خاص کر جو کفار کے خلاف کام کر رھے ہیں، خیر یہ ایک میری رائے ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
یہ بات بالکل درست ہے کہ فتویٰ وغیرہ بھی دین ہی میں شامل ہے لیکن اس میں مجہول ہونا ضررساں نہیں کیوں کہ فتوے میں دلیل مذکور ہوتی ہے جسے پرکھا جا سکتا ہے جب کہ روایت میں استدلال نہیں ہوتا جسے پرکھا جا سکے وہ تو ایک دعویٰ ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تو یہاں اب مدعی کا حال معلوم ہونا ضروری ہے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا اس لیے روایت میں جہالت اثر انداز ہو گی اور یہ بھی حد درجہ احتیاط کے پیش نظر ہے مبادا آں حضرت ﷺ کی جانب کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جو درحقیقت آپ ﷺ سے ثابت نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ راوی کے لیے مجتہد ہونا ضروری نہیں کہ اصل زور اس کی روایت پر ہے جب کہ اجتہاد میں مجتہد کی شخصیت کا معلوم ہونا ضروری نہیں کیوں کہ اصل چیز اس کا استدلال ہے اور وہ ہمارے سامنے موجود ہے؛اسے بہ خوبی جانچا پرکھا جا سکتا ہے۔
دیکھیے روایت ثقہ کی مقبول ہو گی خواہ وہ غیر مجتہد ہو اور ضعیف کی روایت مردود ہو گی چاہے وہ مجتہد اور صالح ہی کیوں نہ ہو اسی طرح اجتہاد اور فتویٰ اس کا مقبول ہو گا جس کی دلیل اور استدلال درست ہو گا خواہ وہ مجہول ہی کیوں نہ ہو اس کے برعکس جس کا استدلال نادرست ہو اس کا فتویٰ نہیں لیا جائے گا خواہ وہ معلوم ہی کیوں نہ ہو یعنی اس سے دین نہیں لیا جائے گا۔
البتہ اس حوالے سے ایک نکتہ یہ ذہن میں آیا ہے کہ کسی مجہول شخصیت کو دینی پیشوا یا رہ نما نہیں بنایا جا سکتا کیوں کہ اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ وہ بدعتی ہو جب کہ امام و رہ نما اسی کو بنانا چاہیے جس کے تدین پر بھروسا کیا جا سکے۔
 
Top