• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سونا اور نمازِ فجر کا ناغہ : ’’مسائل اور حل‘‘

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
12191704_883965778338359_4702876832204612035_n.jpg


سونا اور نمازِ فجر کا ناغہ : ’’مسائل اور حل‘‘


شیخ محمد صالح المنجد، حفظہ اللہ

ترجمہ: ثاقب شاہ

نظرثانی: مولانا عمران اصغر صاحب

اس مسئلہ کا حل ، دیگر مسائل کی طرح دو پہلو رکھتا ہے، پہلانظریاتی اور دوسرا عملی۔

نظریاتی پہلو کو مزید دو حصوں میں بیان کیا جاسکتا ہے:

(1)مسلمانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں نمازِ فجر کی بڑی اہمیت ہے۔

نبیﷺنے فرمایا:’’جو جماعت کے ساتھ نمازِفجر ادا کرتا ہے،تو گویا اس نے تمام رات عبادت کی ۔‘‘

(مسلم،ص۔454، نمبر656؛ الترمذی،221)

نبیﷺنے یہ بھی فرمایا:’’منافقین کے لیے سب سے زیادہ بھاری نمازیں، نمازِ عشاء اور نمازِ فجر ہیں،لیکن اگر وہ یہ جانتے جو وہ رکھتے ہیں(یعنی ان نمازوں پراجرکاملنا) تو وہ ضرور(نماز پڑھنے)آتےچاہے انہیں گھٹنوں کے بل آنا پڑتا۔‘‘

(امام احمد، المسند،2/424؛ صحیح الجامی،133۔)

’’وہ اللہ کی حفاظت میں ہے جو نمازِ فجر ادا کرتاہے، لہٰذا اپنےآپ کو اس حال میں نہ ڈالو جہاں اللہ تم سے تمہاری لاپروائی کا جواب طلب کرے۔‘‘

(الطبرانی، 7/267؛ صحیح الجامی، نمبر6344)

’’فرشتے دن اور رات میں تمہارے پاس باری باری آتے ہیں۔وہ نمازِ فجر اور نمازِ عصر میں تم سے ملتےہیں۔تو وہ(فرشتے) جو رات میں تمہارے ساتھ تھے، واپس جاتے ہیں،جو ان(فرشتوں) سے زیادہ جاننے والا (اللہ)ہے ان سے پوچھتا ہے:’تم نے میرے بندے کو کیسا پایا‘؟وہ کہتے ہیں،’تیرا بندہ عبادت میں مشغول تھا جب ہم اس کے پاس سے آئے،اور جب ہم اس کے پاس پہنچے تو بھی وہ عبادت میں مشغول تھا‘۔‘‘

(صحیح البخاری، الفتح،2/33)

ایک صحیح حدیث کے مطابق:

’’جس نے البردیان ادا کی وہ جنت میں جائے گا۔‘‘
(صحیح البخاری، الفتح،2/52 ۔ نمازِ فجر اور نمازِ عصر البردیان ہیں)


(2)مسلمانوں کو نمازِ فجر ادا نہ کرنے کے معاملے کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے۔


جیسا کہ حدیث میں بیان کیا جاچکا ہے:’’نمازِ عشاء اور نمازِ فجر منافقین کے لیے بہت شاق(بھاری ) ہیں۔‘‘

صحیح البخاری میں یہ روایت کیا گیا ہے کہ عمرؓ ابنِ الخطاب فرماتے ہیں کہ :

’’فجر اور عشاء کی نمازوں میں اگر ہم کسی کو نہ پاتے تو، اس کے بارےمیں برا خیال کرتے۔‘‘

(الطبرانی، المعجم الکبیر،12/271۔ الحیثمی کہتے ہیں، الطبرانی ثقہ(معتبر) ہیں۔ المجمہ،2/40۔)


وہ اس شخص کے بارے میں برا خیال کرتےجو ان دو نمازوں میں غیر حاضر ہوتا کیونکہ روزانہ کی بجاآوری کسی بھی شخص کے ایمان کی پیمائش اور اس کے اخلاص کی ایک علامت ہے۔

دیگر نمازیں ادا کرنا قدرے آسان ہوتی ہیں کیونکہ وہ کسی شخص کے ماحول ،کام اور اس کی نیند میں حائل نہیں ہوتیں۔ جن لوگوں پر حقیقت عیاں ہے وہ مخلص بھی ہیں اور وہ لوگ جن سے نیکی کی امید کی جاتی ہے، ایسے لوگوں پر فجر اور عشاء کا بوجھل ہونا تو درکنار وہ انکو باجماعت ادا کرنے میں انتہائی خوشی اور اطمینان محسوس کرتے ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں نمازِ فجر کے ترک پر وعید آئی ہے :

’’وہ شخص اللہ کی حفاظت میں ہے جو نمازِ فجر ادا کرتاہے، لہٰذا اپنےآپ کو اس حال میں نہ ڈالو جہاں اللہ تم سے تمہاری لا پروائی کا جواب طلب کرے۔ کیونکہ جوکوئی بھی اس حال میں مبتلا پایا جائیگا اسکو(لوگوں سے) الگ کرکے منہ کے بل جہنم میں جھونک دیا جائیگا۔ ‘‘
(مسلم ،ص۔454)۔
یہ دو نکات مسلمانوں کے لیے کافی ہیں۔ ان سے ان کا دل بے چین ہوگا اس فکر میں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ نمازِ فجر قضا نہ ہو۔

حدیث کا پہلا حصہ اس بات کی رغبت دیتاہے کہ نمازِ فجر کے اجروثواب کے حصول کی بھرپور کوشش کی جائے اور دوسرا حصہ خبردار کرتا ہے کہ غفلت جیسے گناہ سے باز رہا جائے۔وہ عملی تجاویزجن کے ذریعےاس مسئلے سے نبٹا جاسکتا ہے اور وہ اقدامات جو مسلمانوں کو نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کا عادی بنادیں درج ذیل ہیں:

جلدی سونا :

صحیح حدیث کے مطابق حضور اکرمﷺعشاء سے پہلے سو نا اور عشاء کے بعد گفتگو کرنا ناپسند فرماتے تھے۔مسلمانوں کو عشاء سے پہلے نہیں سونا چاہیے کیونکہ یہ واضح ہے کہ وہ لوگ جو عشاء سے پہلے سوتے ہیں وہ پوری رات بوجھل اور تھکاوٹ محسوس کرتے ہوئے گزاریں گے جیسا کہ وہ بیمار ہو۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ افراد نیند کے حوالے سے مختلف ہوتے ہیں، اسی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ مخصوص گھنٹوں کے بارے میں کہا جائے کہ انہیں میں سونا چاہیے، لیکن ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت کا خاص خیال رکھے اس سے وہ اپنی نیند پوری کرے گا تاکہ نمازِ فجر میں تازہ دم اٹھ سکے۔

وہ اطمینان کرلے کہ اسکا وجود پاکہے اور رات کو سونے سے پہلے دعائیں پڑھے ۔ یہ افعال نمازِ فجر میں اٹھنے کے لیے مددگارثابت ہونگے۔

وہ شخص نمازِ فجر میں بیدار ہوگا جو سونے جائے توسچی نیت رکھتا ہو اور عمل کے لیے پُرعزم ہو۔لیکن کوئی شخص اس اُمید کے ساتھ سوتا ہےکہ اگر آلارم بجے گا تو اسے بند بھی کیا جاسکتا ہے یا وہ خود ہی بند ہوجائیگا یا یہ نیت کرتا ہے کہ کوئی جگانے آئیگا اور دل چاہے گا تو بیدار ہونگا ورنہ بعد میں قضا تو کر ہی لوں گا،توایسی کمزور نیت کے ساتھ کیاوہ نمازِ فجر میں اُٹھ سکتا ہے؟ جبکہ اسکی نیت میں فتور ہو۔}ایسا نہیں ہوسکتا یعنی وہ بُری نیت رکھے گا تو انجام بھی برا ہوگا۔{

جیسے ہی بیدار ہوں اللہ کو یاد کریں۔ کچھ لوگ تھوڑی دیر کے لیے بیدار ہوتے ہیں اورپھر دوبارہ سو جاتے ہیں۔لیکن اگر کوئی شخص بیدار ہوتے ہی اللہ کو یاد رکھے ، وہ شیطان کی لگی ہوئی ایک گرہ کو کھول دے گا، اور پھر وہ ترغیب پاکر اُٹھ جائے گا۔جب وہ وضو کرتاہے، اس کا ارادہ پکا ہوجاتاہے، جس کے باعث شیطان اس سے مزید دور ہٹ جاتاہے، اور جب وہ نماز ادا کرتاہے تو شیطان مکمل طور پر شکست کھاجاتاہے، نیک نیتی مزید بڑھ جاتی ہے، اور وہ خوشی اور تروتازگی محسوس کرتاہے۔

نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے گھر سے یا کسی دوست سے مدد طلب کرنا۔

اس معاملے میں ایک دوسرے کو تلقین کرنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں کوئی شک نہیں ہے کہ:

’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو‘‘ (المائدہ:2)

اور

’’ زمانے کی قسم ! انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے ! جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے ، اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ ‘‘(العصر:1-3)

شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو تلقین کرے، مثلاً اسے فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے اٹھائے، اور اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو تلقین کرے، یہ سوچے بغیر کہ کتنے تھکے ہوئے ہوں گے۔ بچوں کو بیدار ہونے کے لیے اپنے والدین سے بھی مدد لینی چاہیے، تاکہ وہ انہیں نماز کے وقت میں اٹھائیں ۔والدین یہ نہ کہیں کہ’’ان کے امتحانات ہیں، یہ تھکے ہوئے ہیں، انہیں سونے دویا بے چارے بچے‘‘ اگر والدین ایسے افعال کریں تو انکو مہربان اور رحم دل سمجھنا انتہائی غلط ہوگا۔ والدین کی اولاد پر حقیقی شفقت کا مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں اللہ کی عبادت کے لیے بیدار کریں۔

’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کریں اور خود بھی اس کے پابند رہیں ۔‘‘ (طہ:132)

اسی طرح گھرانےکے تمام افراد کو چاہیے کہ نمازِ فجر ادا کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور تاکید کریں۔ اور مسلمان بھائی بھی اسی طرح ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں۔مثلاً، یونیورسٹی کے طالبِ علم جوکہ ایک ہی گھر میں یا پڑوس میں رہتے ہیں۔ایک دوسرے کی مدد اس طرح کرسکتے ہیں کہ پڑوسی کے دروازے پر دستک دیں اسے نماز کی غرض سے بیدار کریں اور اللہ کی عبادت کرنے میں مدد فراہم کریں۔

نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے اللہ سے دعا کریں تاکہ صبح بیدار ہوکر نماز ِفجر باجماعت ادا کریں۔دعا تمام معاملات میں قوت اور کامیابی کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔{جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ دُعا عبادت کا مغز ہے}

بیداری کے لیے مختلف ذرائع استعمال کریں :

جیسا کہ آلارم والی گھڑی ۔ انہیں سب سے زیادہ مناسب جگہ پر رکھا جائے۔بعض لوگ آلارم کلاک سر کے ساتھ رکھتے ہیں، جب آلارم بجتا ہے، تو وہ اسے فوراً بند کرکے دوبارہ سو جاتے ہیں۔ ایسے شخص کو گھڑی تھوڑی دور رکھنی چاہیے، تاکہ وہ محسوس کر سکےکہ واقعی گھڑی اسے بیدار کر رہی ہے۔ کوئی شخص ٹیلی فونک کمپنی کی طرف سے آلارم کالزکی سہولت سے بھی فائدہ اٹھا سکتاہے۔اور کسی مسلمان کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ اس سہولت کے بدلے کوئی خطیر رقم ٹیلی فونک کمپنی کو ادا کررہا ہے جبکہ اسےاس سروس کی اشد ضرورت بھی ہو۔کیونکہ یہ مال اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے ، اور نماز کیلئے بیدار ہونا تو گویا اللہ کا حکم ماننا ہے تو پھر کسطرح دنیاوی دولت کو نماز کے بدلے ناپا جاسکتاہے؟

اس شخص کے منہ پر پانی پھینکنا جو سو رہا ہے :

حضور اکرمﷺ نے اس شخص کو پسند کیا جو رات میں نماز کی خاطر بیدار ہوتا ہے، اور اپنی بیوی کو اٹھاتاہے، اور جب وہ بیدار ہونے سے انکار کرتی ہے تو وہ اس کے چہرے پر پانی پھینکتا ہے؛اور نبیﷺ نے پسند کیا اس عورت کو جو رات میں نماز کی خاطر بیدار ہوتی ہے ، اور اپنے شوہر کو جگاتی ہے اور جب وہ بیدار ہونے سے انکار کرتاہے تو اسکے چہرے پر پانی پھینکتی ہے۔

(امام احمد، المسند،2/250؛ صحیح الجامی،3494)۔

کسی شخص کے چہرے پر پانی پھینکنے کا مقصد اسے نماز کے لیے بیدار کرنا ہے جوکہ شریعت سے ثابت ہے۔دراصل یہ تازگی اور توانائی بخش ہے۔کچھ لوگ غصے میں آجاتے ہیں جب انہیں اس طریقہ سے اٹھایا جائے ، وہ چلّاتے ، غصہ کرتے اور دھمکیاں دیتےہیں۔ تو جو شخص کسی کو بیدار کرنا چاہتا ہے وہ حکمت اور صبر سے کام لے۔ اور یاد رکھیں کہ اعمال سے قلم اٹھا لیے جاتے ہیں جب کوئی سورہا ہوتا ہے(یعنی اس کے اعمال ریکارڈ نہیں کیے جاتے جبکہ وہ سورہا ہوتاہے)}الاّ یہ کہ سونے والا شریعت کی رو سے کوئی ایسا عمل کردے جو اسے سونے کے باوجود عابدوں میں شمار کردے اور وہ ایسا ہو کہ باوجود سونے کے گویا پوری رات عبادت میں مشغول رہا ہو{تو اسے چاہیے کہ کسی بھی بُرے برتاؤ کو برداشت کرے ،اور لوگوں کو نماز کے لیے بیدار کرنے کی کوشش نہ چھوڑے۔

اکیلے نہ سوئیں :

حضور اکرمﷺ نے اکیلئے سونے سے منع فرمایا ۔

(امام احمد ، المسند،2/91؛ سلسلہ الصحیح، نمبر60۔)

شاید اس ممانعت میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ کوئی شخص بہت دیر تک سو جائے ۔اور کوئی بھی شخص اسے نماز میں بیدار کرنے کے لیے نہ ہو۔

ایسی جگہ پر نہ سوئیں جس کا لوگوں کو علم نہیں ہے:

اور لوگ خیال کریں کہ یہاں تو کوئی سو نہیں سکتا۔ جیسا کہ کوئی شخص اپنے خاندان کو بتائے بغیر گھر کی چھت پر اور گھر یا طالب علموں کی رہائش گاہ پر ایسی جگہ جہاں عام طور پر نہیں سویاجاتا، سوجائے تو اس سے معلوم نہیں ہوگا کہ اسے بھی نماز کے لیے بیدار کرناہے۔اور ہر ایک یہ سمجھے گا کہ وہ مسجد میں ہے جبکہ وہ سورہا ہوگا۔کوئی ایسی جگہوں پر سونا چاہتا ہے جہاں پر عموماً سویا نہیں جاتا تو اسے چاہیے کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بتادے تاکہ اس کے پاس پہنچ کر اسے بیدار کرسکیں۔

جاگتے ہی چاق و چوبند رہیں :

آدمی کو چاہیے کہ فوراً اٹھ جائے ، سلسلہ وار نہ اٹھے، جیسا کہ کچھ لوگ کرتے ہیں۔ ایک شخص کو کئی مرتبہ اٹھایا جاسکتا ہے، ہر مرتبہ وہ اٹھتا ہے، لیکن جب اس کا دوست اسے چھوڑتا ہےتو وہ واپس سوجاتاہے۔سلسلہ وار بیداری کااختتام ناکامی کی صورت میں ہوتاہے، اور دوبارہ سونے سے بچنے کاصرف ایک ہی راستہ ہے کہ فوراً بیدار ہوجائیں۔

وقت سے پہلے کا آلارم نہ لگائیں :

اگر ایک شخص جانتا ہے کہ ابھی نماز میں کافی وقت ہے تووہ سوچتا ہے،’’میرے پاس توابھی کافی وقت ہے، تھوڑی سی اور نیند کرلیتاہوں۔‘‘ہر کسی کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ اپنے آپ سے کس طرح نبٹ سکتا ہے اور اس قسم کی صورتِ حال سے کیسے بچ سکتاہے۔اٹھتے ہی چراغ روشن کردینا— یا دورِ جدید میں، لائٹ آن کرلینا۔یہ تدبیر نیند کو بھگانے کے لیےمؤثر ثابت ہوتی ہے۔

دیر تک نہ جاگیں، حتی کہ قیام الیل کے لیے بھی :

کچھ لوگ قیام الیل کے لیے رات میں جاگتے ہیں، پھر نمازِفجر سے کچھ دیر قبل سوجاتے ہے جس کی وجہ سے وہ نمازِ فجر میں بیدار نہیں ہوپاتے۔یہ رمضان میں بہت زیادہ ہوتاہے—لوگ رات تک جاگتے ہیں اور فجر سے کچھ دیر قبل سوجاتے ہیں، جس کے باعث وہ نمازِ فجر قضاء کر بیٹھتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ یہ ایک سنگین غلطی ہے، فرض نماز کو نفل نماز پر فضیلت دینی چاہیے۔تو ان کے بارے میں کیا خیال ہے جو دیر تک جاگتے ہیں نماز کے لیے نہیں بلکہ گناہوں کے لیے ! یا زیادہ سے زیادہ جائز افعال کےلیے؟شیطان کچھ داعیوں(اسلامی کارکنان) کے لیے اہم معاملات کی گفتگو کو دلچسپ بنانے کا خیال پیش کرتاہے تاکہ وہ رات دیر تک جاگیں،پھر وہ دیر سے سوتے ہیں اور نماز چھوڑ دیتے ہیں، اس طرح وہ جتنااجر حاصل کرتے ہیں اس سے زیادہ گنوادیتے ہیں۔

سونے سے پہلے کھانا زیادہ نہیں کھائیں :

کیونکہ زیادہ کھانے کی وجہ سےآدمی گہری نیند سوتا ہے۔ایک شخص جو زیادہ کھاتا ہے، زیادہ تھک جاتاہے، زیادہ سوتاہے اوراس سے وہ محروم بھی زیادہ رہتاہے۔تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ رات کاکھانا کم کھائے۔

فجر کی سنتوں کے بعد سنت کے مطابق لیٹنے کے بارے میں جو غلط تشریح کی جاتی ہے اس کی تنبیہ :

بعض لوگوں سے یہ حدیث سنی ہے کہ جس میں نبیﷺ نے فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ لے،تو اسے چاہیے کہ اپنے دائیں پہلو پر لیٹے ۔‘‘
(الترمذی، نمبر420؛ صحیح الجامی،642)
یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ جب نبیﷺ نمازِ فجر کی سنت ادا کرلیتے تو وہ لیٹ جاتے، پھر بلالؓ انہیں نماز کے لیے پکارتے، وہ پھر نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔لوگ یہ احادیث سن سکتے ہیں، اور اس مستند سنت کو اپنانے کے لیے پُرجوش بھی ہوسکتے ہیں، لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پر عمل کرنے کا درست طریقہ کیا ہے۔تو کوئی شخص فجر کی سنتیں ادا کرنے کے بعد اپنے بائیں جانب سستانے کے لیے لیٹ جائے، اور گہری نیند میں پڑا رہے جب تک کہ صبح کا سورج طلوع ہو۔تویہ بات اسکی کم عقلی کی علامت ہے کیونکہ سستانے کا مقصد سونا نہیں ہے۔ اور بلالؓ نبیﷺ کو بتانے کے لیے تب آتے جب نماز کا وقت ہوجاتا۔

اس کے علاوہ، جیسا کہ صحیح حدیث میں امام احمد اور ابنِ حبان سے مروی ہے،اگر

نبیﷺ نمازِ فجر سے قبل آرام کرنا چاہتے، تو وہ اپنے سر کو اپنے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھتے،کُہنی سے سہارا لیتے۔

(احمد نے روایت کیا۔ المسند،5/298؛ صحیح الجامی،4752)
اس طرح سے آرام کرنا گہری نیند میں جانے سے روکتا ہے، کیونکہ اس معاملے میں ایک شخص کا سر اس کی ہتھیلی اور کُہنی کے سہارے ہوتاہے،اگر ذرا دیر کے لیے آنکھ لگ جائے اور ہاتھ چھوٹے، تووہ اس طرح دوبارہ بیدار ہوجائے گا۔مزید یہ کہ،نمازِفجر میں نبیﷺ کوبیدار کرنے کی ذمہ داری بلالؓ کو سونپی گئی تھی۔

فجر سے قبل رات دیر تک قیام اللیل پڑھنا :

جب کوئی وتر ادا کرتا ہے اور نمازِ فجر کی اذان دی جاتی ہے توعبادت جاری رکھے۔ قیام اللیل کو رات کےتیسرے پہر ادا کرنا چاہیے- جوکہ زیادہ مناسب وقت ہے- تاکہ اسکے بعد فوراً نمازِ فجر ادا کی جاسکے۔جبکہ کوئی شخص بیدار اور مستعد ہوتاہے۔

نبیﷺ کے آرام فرمانے کیلئے لیٹنے کا واقعہ :

تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے دائیں جانب لیٹے، دائیں رخسار(گال) کو اپنے سیدھے ہاتھ پر رکھے۔ یہ حالت اسے بیدار رہنے میں کافی معاون ثابت ہوگی ۔ بہترین رہبر نبیﷺ کی ذاتِ اقدس ہے،اور یہ حالت دوسری حالتوں میں سونے سے بہتر ہے جوکہ بیداری میں مشکل کاسبب بنتی ہے۔

دن میں آرام کرنے سے مدد لیں:

کیونکہ اس سےآدمی کو اپنی رات کی نیند کم کرنے میں مدد ملے گی۔

نمازِ عصر یا مغرب کے بعد نہ سوئیں:

کیونکہ اس سے وہ رات میں دیر سے سوئے گا، اور جوکوئی دیر سے سوتا ہے اسے بیدارہونے میں مشکل ہوگی۔

آخر میں، اللہ سے مخلص وابستگی ایک بہترین عمل ہے جوکہ کسی شخص کی بیداری میں حوصلہ افزا ہوگی۔کیونکہ اللہ واحد ہے جوکہ تمام مدد کے اسباب کی قدرت رکھتا ہے ۔اگر کوئی شخص سچا خلوص رکھتا ہے اور اس کا دل اللہ سے وابستہ ہوتو اللہ بیدار ہونے میں اسکی مدد کرے گا تاکہ وہ نماز ِفجر جماعت کے ساتھ ادا کرلے،چاہے وہ فجر سے چند لمحات قبل سوبھی جائے۔یہ حقیقی محبت اور بندگی پرعزم لوگوں کو اس بات پر ابھار سکتی ہیں کہ وہ خود ہی ایسی غیر معمولی راہیں تلاش کریں جس سے وہ نماز کے لیے بیدار ہوں جوکہ ان کے اشتیاق اور جوشیلے پن کی علامت ہے۔کوئی شخص بیدار ہونے کے لیے کئی آلارم سیٹ کرسکتاہے۔آلارم اس طرح سے سیٹ کرے کہ ہر آلارم تھوڑے وقفے بعد بجے تاکہ اگر وہ پہلا آلارم بند کربھی دیتاہے،تو اگلا آلارم اسے تھوڑے وقفے بعد بیدار کردے گا۔اسی طرح سے کوئی اپنی کلائی پر ڈوری باندھ لے، اور ڈوری کا دوسرا سرا کھڑکی سے لٹکادے۔اس لیے کہ اس کا دوست مسجد جانے کے لیے یہاں سےگزرتا ہے ،تو وہ رسی کھینچ کر اسے نمازِ فجر کے لیے بیدار کرسکتا ہے۔ذرا سوچیے کہ کیا کچھ خلوص اور پکے ارادے کے ساتھ حاصل کیا جاسکتاہے، اللہ ہمیں ہدایت دے!لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ آج کل لوگوں میں ایمان کی کمزوری اور اخلاص کی کمی بڑے عروج پر ہے،جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مساجد میں نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے قلیل تعداد نظر آتی ہے ۔اس کے باوجود کہ بہت سے لوگ مساجد کے اطراف بہت سے ہمسایوں کے ساتھ رہتے ہیں۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگ زیادہ سوتے ہیں جوکہ تقریباً ایک بیماری کی طرح ہے،اور یہ معذرت پیش کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ معاملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔لوگوں کو اس صورتحال میں اللہ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔اور ہر وہ عمل کرنا چاہیے جو کہ ممکن ہو، اور ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں اور علاج کی تلاش کی کوشش کریں۔
آخر میں ایک امر کے متعلق کچھ الفاظ:

کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک حدیث ہے کہ اگر کوئی شخص فجر میں بیدار ہونا چاہتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ سونے سے پہلے سورۃ الکہف کا آخری حصہ تلاوت فرمائے،اور اپنے دل میں کسی مخصوص وقت میں اُٹھنےکی پکّی نیت کرلے، اس وجہ سے وہ اس وقت اُٹھ جائے گا۔وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ آزمایا ہوا اور مجرّب(تجربہ سے ثابت شدہ) عمل ہے۔ہمارا جواب یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے،اور یہ کوئی وزن نہیں رکھتی ہے،بہترین رہبری نبیﷺ کی ہدایات ہیں۔


 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
12472383_914436321957971_2950440770891454608_n.jpg



نوافل پڑھنا مگر ؟


(حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سُلَيْمانَ بنَ أبي حَثمة رضی اللہ عنہ کو فجر کی نماز میں (حاضر) نہ پایا ،، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا صبح (کسی کام سے) بازار جانا ہوا اور سلیمان رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد اور بازار کے درمیان تھا ، ان کی والدہ سے ملاقات ہونے پر ان سے پوچھا کہ سلیمان آج صبح کی نماز میں نہیں تھے (خیریت تو تھی) اُن کی والدہ نے جواب دیا کہ وہ رات پر نوافل پڑھنے میں مصروف رہے ، نیند کے غلبہ سے آنکھ لگ گئی (صبح کی نماز کے وقت)) ، ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں صبح کی نماز میں شریک ہوں یہ (عمل) مجھے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں پوری رات نوافل پڑھتا رہوں

(یعنی نفل کی وجہ سے فرض نہیں چھوڑنا چاہئے)


------------------------------------------------------------
(الترغيب والترهيب : 1/207 ، ، صحيح الترغيب : 423 ، ،
تخريج مشكاة المصابيح للألباني : 1038)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز فجر كے علاوہ باقى سب نماز مسجد ميں ادا كرنے والے كا حكم كيا ہے ؟

ميں الحمد للہ سب فرض مسجد ميں ادا كرتا ہوں، ليكن فجر كى نماز گھر ميں، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

Published Date: 2006-04-17

الحمد للہ :

ميرے عزيز بھائى آپ علم ميں ركھيں كہ اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے يہ بھى ايك نعمت ہے كہ آپ كو مسجد ميں نماز باجماعت كى توفيق سے نوازا، اور يہ عظيم شعار پورا كرنے كے ليے اپنے گھر ميں اللہ تعالى كے سامنے كھڑا ہونے كى توفيق دى، اور آپ كے ذمہ جو فرض ہے اس كى ادائيگى كا شرف بخشا، اللہ تعالى كے ہاں اس كے فرائض كى ادائيگى سے زيادہ محبوب كوئى چيز نہيں، نماز باجماعت مسجد ميں ادا كرنے كے دلائل سوال نمبر ( 8918 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.

آپ نے جو بيان كيا ہے كہ آپ فجر كى نماز گھر ميں ادا كرتے ہيں، يہ غلطى ہے اس پر آپ اللہ تعالى كے ہاں توبہ كريں، يہ ايسى مصيبت ہے جس سے اللہ تعالى آپ كو اور ہميں عافيت سے نوازے؛ يہ اس ليے كہ نماز باجماعت كے واجب ہونے كے دلائل كسى ايك نماز كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ سب نمازوں كے ليے عام ہيں، اور ان ميں سب سے پہلى نماز فجر ہے، جس كے بارہ ميں آپ نے سوال كيا ہے.

اللہ كے بندے نماز فجر جماعت كے ساتھ ادا نہ كر كے، اور روز قيامت مكمل نور كے حصول سے محروم ہونے ميں آپ كا دل كيسے خوش ہوتا ہے.

ابو داود، ترمذى، ابن ماجہ رحمہم اللہ نے بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اندھيرے ميں چل كر مساجد كى طرف آنے والوں كو روز قيامت مكمل اور تام نور كى خوشخبرى دے دو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 561 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 223 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 781 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اللہ كے بندے آپ كا دل نماز فجر باجماعت ترك كر كے، اور فرشتوں كے جمع ہونے كى محروميت اور ان كى رب العالمين كو آپ كے متعلق گواہى كى محروميت سے آپ كيسے راضى ہو گئے.

امام بخارى اور مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں رات اور دن كے فرشتے بارى بارى آتے ہيں، اور وہ نماز فجر اور نماز عصر ميں جمع ہوتے ہيں، پھر تمہارے ساتھ رات بسر كرنے والے فرشتے اوپر چلے جاتے ہيں، تو اللہ عزوجل ان سے سوال كرتا ہے حالانكہ اللہ تعالى ان سے زيادہ علم ركھتا ہے، كہ تم نے ميرے بندوں كو كس حالت ميں چھوڑا ؟ تو وہ جواب ديتے ہيں: جب ہم نے انہيں چھوڑا تو وہ نماز ادا كر رہے تھے، اور جب ہم ان كے پاس گئے تو وہ نماز ادا كر رہے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 555 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 632 ).

اللہ كے بندے آپ كا دل نماز فجر باجماعت ترك كرنے اور نصف رات كے قيام سے محروم ہونے پر كيسے راضى ہو جاتا ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عثمان رضى ا للہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئےسنا:

" جس نے عشاء كى نماز جماعت كے ساتھ ادا كى گويا كہ اس نے نصف رات كا قيام كيا، اور جس نے صبح كى نماز جماعت كے ساتھ ادا كى گويا كہ اس نے سارى رات نماز ادا كى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 656 ).

اورابو داود اور ترمذى كى روايت ميں ہے كہ:

" جس نے عشاء كى نماز باجماعت ادا كى وہ نصف رات كے قيام كى طرح ہے، اورجس نے عشاء اور فجر كى نماز باجماعت ادا كى وہ سارى رات قيام كى طرح ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 555 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 221 ).

اللہ كے بندے آپ كا دل نماز فجر باجماعت ترك كرنے اور اللہ تعالى كے ذمہ و حفاظت اور اس كے پڑوس كى محروميت پر كيسے خوش ہو گيا؟

ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے صبح كى نماز باجماعت ادا كى وہ اللہ تعالى كے ذمہ اور حفاظت ميں ہے، اور جس نے اللہ تعالى كا ذمہ توڑا اللہ تعالى اسے اوندھا كر كے جہنم ميں پيھنكے گا "

الھيثمى رحمہ اللہ " المجمع الزوائد " ميں كہتے ہيں: اسے طبرانى الكبير ميں حديث كے دوران بيان كيا گيا ہے، اور يہ لفظ اسى كے ہيں، اس كے رجال صحيح كے رجال ہيں، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اصل حديث صحيح مسلم باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فى جماعۃ ميں ہے. ديكھيں حديث نمبر ( 657 ).

قولہ: " فمن اخفر اللہ :

يعنى جس نے اللہ تعالى كا عہد توڑا اور اسے پورا نہ كيا، وہ اس طرح كہ جس نے نماز فجر باجماعت ادا كى اسے اذيت سے دوچار كيا.

اللہ كے بندے آپ كا دل نماز فجر باجماعت ادا نہ كرنے پر كيسے راضى ہو گيا ؟ حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ نماز فجر سے پيچھے رہنا اور سستى و كوتاہى كرنا منافقوں كى علامت اور عادت ہے.

بخارى اور مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" منافقين كے ليے سب سے بھارى عشاء اور فجر كى نماز ہے، اگر انہيں علم ہو كہ اس ميں كيا ( اجروثواب ) ہے تو وہ اس كے ليے ضرور آئيں چاہے گھسٹ كر آئيں، اور ميں نے ارادہ كيا ہے كہ نماز كى اقامت كا حكم دوں پھر ايك شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دوں، اور پھر اپنے ساتھ كچھ آدمى ليكر جاؤں جن كے ساتھ لكڑيوں كا ايندھن ہو اور جو لوگ نماز كے ليے نہيں آئے انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 657 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 651 ).

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

( جب ہم فجر اور عشاء كى نماز ميں كسى شخص كو مفقود پاتے تو ہم اس كے متعلق غلط گمان كرتے "

مستدرك الحاكم حديث نمبر ( 764 ) وغيرہ حاكم نے اسے صحيح قرار ديا ہے شيخين كى شرط پر كہا ہے، اور امام ذھبى اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس كى موافقت كى ہے.

نماز باجماعت كى حرص ركھنے والا مسلمان شخص، جيسا كہ آپ نے اپنى حالت بيان كى ہے، كو ان شاء اللہ يہ اچھا ہى نہيں لگتا اور اس كا دل راضى ہى نہيں ہوتا كہ وہ اس سلسلے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سن كر نماز فجر ميں جماعت سے پيچھے رہے.

اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى پسند اور رضامندى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/40150
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
17191172_1237851609616439_8619902710656036289_n.jpg

بھلائی (خیر) نصیب نہیں ہوتی


جو بھی مسلمان (مرد یا عورت) سوتا ہے ، اس پر گرہیں لگ جاتی ہیں ، وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ، اگر وہ وضو کرکے نماز کے لئے اٹھتا ہے ، تو وہ چاق و چوبند حالت میں صبح کرتا ہے ، اس نے بھلائی حاصل کر لی ہوتی ہے ، اس کی تمام گرہیں کھل چکی ہوتی ہیں ، اگر وہ ایسی حالت میں صبح کرتا ہے ، اللہ تعالی کا ذکر نہیں کرتا ، اس کی سب گرہیں لگی ہوئی ہوتی ہیں وہ بوجھل ذہن کے ساتھ کاہلی کے عالم میں صبح کرتا ہے ، اِسے بھلائی(خیر) نصیب نہیں ہوتی

--------------------------------------------------

(صحيح ابن حبان : 2556 ، ، صحيح الموارد : 147 ، ،
الترغيب والترهيب : 1/304 ، ، صحيح الترغيب : 648)
 
Top