• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

يوسف اسعدي

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2020
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5


بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، الصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم​

*الکذب* یعنی *جھوٹ*، انسان کی فطرت میں چھوٹ شامل ہی نہیں ہے، کیونکہ جب *آدم علیہ السلام* کو بنایا گیا اور جنت میں چھوڑ دیا گیا تو وہ ابلیس ہی تھا جس نے آکر *آدم علیہ السلام* کو جھوٹی بات کہی،
*اللہ تعالی* نے فرمایا
*قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ ﴿۲۰﴾)*
*(ابلیس نے) کہا تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے کھانے سے صرف اسی لئے منع کیا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا پھر ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ ہو جاؤ۔*
*(سورۃ الأعراف : 28)*


یہاں پر یاد رکھیں *آدم علیہ السلام* کو *اللہ تعالی* نے تمام چیزوں کے نام تو سکھائے تھے، مگر *اللہ تعالی* نے *آدم علیہ السلام* کو جھوٹ کیا چیز ہے نہیں سکھلایا، یعنی *اللہ تعالی* نے *آدم علیہ السلام* کی فطرت میں جھوٹ نہیں رکھا، یہی وجہ تھی کہ *آدم علیہ السلام* نے ابلیس کے جھوٹ کو نہیں پہچانا۔

اس سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ *اللہ سبحانہ و تعالی* نے انسان کو جو بہترین سانچہ میں پیدا کیا ہے تو اس سانچے میں *اللہ سبحانہ وتعالیٰ* نے صرف سورت کو خوبصورت نہیں بنایا بلکہ سیرت کو بھی خوبصورت بنایا ہے، یعنی اس بہترین سانچے میں *اللہ سبحانہ و تعالی* نے تمام باتیں خیر کی تو رکھی ہیں لیکن شر کی باتیں جیسے جھوٹ دھوکہ وغیرہ نہیں رکھی۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ *سچائی آدم علیہ السلام کی صفت* اور آدمی یعنی *انسانی فطرت ہے*، اور *جھوٹ کی خصلت* انسانوں میں باہر یعنی *شیاطین سے آئی ہے*۔

اور یاد رکھیے لوگ *نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم* کے صرف چہرے کو دیکھ کر *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کی سچائی کی گواہی دیتے:

*عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامَ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ اسْتَشْرَفَهُ النَّاسُ فَقَالُوا : قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ. قَالَ : فَخَرَجْتُ فِيمَنْ خَرَجَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ وَجْهَهُ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ. فَكَانَ أَوَّلَ مَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ ".*

*ابو یوسف عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں، تو لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لیے میں بھی آیا، جب میں نے کوشش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا، تو پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے۔*
*سنن الدارمي 1501 كتاب الصلاة. | باب : فضل صلاة الليل.*
*سنن الترمذي ( 2485 )، سنن ابن ماجه ( 1334, 3251 )، سنن الدارمي ( 2674 )، مسند أحمد ( 23784 ).*


پہلے تو یہ بات یاد رکھیں کہ *جھوٹ بولنا یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے،*
دوسری بات یہ ہے کہ *ہم اس نبی کی امت ہے جس کے چہرے کو دیکھ کر لوگ گواہی دیتے تھے کہ یہ چہرہ جھوٹا نہیں* ہوسکتا۔



*جھوٹ کی مذمت:*

*(اِنَّمَا یَفۡتَرِی الۡکَذِبَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾ )*
*جھوٹ افترا تو وہی باندھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں ہوتا۔ یہی لوگ جھوٹے ہیں۔*
*(سورۃ النحل: 105)*

اس آیت میں بتایا گیا کہ جھوٹ بولنے کی عادت ان کی ہوتی ہے جو *اللہ تعالی* کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے ہے۔



*عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ ؛ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا. وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ ؛ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا*"

*اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا:
*تم سچائی کو لازم کرو، (کیوں کہ) بے شک سچائی (آدمی کو) نیکی کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکی جنت تک لے جاتی ہے، اور آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے ۔ اور تم جھوٹ سے بچو، ( کیونکہ ) بے شک جھوٹ ( آدمی کو ) گناہ کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم تک لے جاتا ہے، اور آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔*
*صحيح مسلم 2607 كتاب : البر والصلة والآداب | باب : قبح الكذب وحسن الصدق وفضله*
*.صحيح البخاري ( 6094 )،صحيح مسلم ( 2606, 2607 )، سنن أبي داود ( 4989 )، سنن الترمذي ( 1971 )، سنن ابن ماجه ( 46 )، موطأ مالك ( 2828 )، سنن الدارمي ( 2757 )، مسند أحمد ( 3638)*

*سب سے بڑا جھوٹ کونسا ہوتا ہے؟*


*قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ يُرِيَ عَيْنَهُ مَا لَمْ تَرَ، أَوْ يَقُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ ".*
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سب سے بڑا بہتان اور سخت جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ کہے یا جو چیز اس نے خواب میں نہیں دیکھی اس کے دیکھنے کا دعویٰ کرے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی حدیث منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو۔*
*صحيح البخاري 3509 كتاب المناقب.*
*مسند أحمد ( 16008, 16015, 16980, 16983 ).*


جھوٹ کہنا تو ویسے ہی گناہ ہے مگر وہ اور بھی بڑا گناہ بنجاتا ہے جب ایک آدمی اپنے *نصب* یا *خواب کے متعلق* جھوٹ بولتا ہے، اور جب وہ *نبی* پر جھوٹ گھڑتا ہے تو اسکا ٹھکانہ جہنم ہی ہوجاتا ہے۔


*اور جو لوگ شریعت کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں وہ کبھی بھی کامیاب نہی ہو پائینگے۔*

*اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾ؕ )*
*بے شک اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیاب نہیں ہو پائینگے۔*
*(سورۃ النحل: 116)*



*اور شریعت کے متعلق جھوٹ بولنا کیا ہے ؟*
شریعت کے متعلق جھوٹ بولنا یہی ہے کہ ایک آدمی *قرآن و حدیث* کے دلائل کو چھوڑ کر اپنی مرضی سے چیزوں کو *حلال* اور *حرام* کہتا پھرے، یا دین کی نسبت سے وہ باتیں کریں جو *قرآن و حدیث* میں موجود نہ ہو۔
جب کہ اللہ نے فرمایا :
*(وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَتُکُمُ الۡکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾ؕ )*
*کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں*
(سورۃ النحل : 116)


*وہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہوتے ہیں جو اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہے*
یعنی *اللہ تعالی* کی جانب ان باتوں کی نسبت کرتے ہیں جو *اللہ* نے نازل ہی نہیں کی۔
*وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہٗ ؕ اَلَیۡسَ فِیۡ جَہَنَّمَ مَثۡوًی لِّلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۶۸﴾ )*
اور اس سے بڑا ﻇالم کون ہوگا؟ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا جب حق اس کے پاس آجائے وه اسے جھٹلائے، کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہ ہوگا؟
*(سورۃ العنکبوت : 68)*


*اور جو لوگ رسول ﷺ پر جھوٹ گھڑتے ہے ان کا ٹھکانہ جہنم ہوتا ہے:*

*قَالَ أَنَسٌ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ".*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
*صحيح البخاري 108 كتاب : العلم | باب إثم من كذب على النبي.*
*صحيح مسلم ( 2 )، سنن الترمذي ( 2661 )، سنن ابن ماجه ( 32 )، سنن الدارمي ( 241, 242, 244 )، مسند أحمد ( 11942)*


جو بات *اللہ* نے نازل ہی نہ کی ہو اور نا ہی *رسول ﷺ* نے فرمائی ہو وہ بات دین نہی ہو سکتی ہے، اگر کوئی شخص اس بات کو پھر بھی دین مانتا ہے تو گویا کہ اس نے اللہ تعالی پر یا پھر *رسول ﷺ* پر جھوٹ باندھا ہے، اور آپ پڑھ چکے ہیں کہ *اللہ* اور اس کے *رسول* پر جھوٹ باندھنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔


اور جو شخص *اللہ سبحانہ وتعالی* کی جھوٹی قسم کھائے قیامت کے دن *اللہ سبحانہ وتعالی* اس کی جانب رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔

*عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ". قَالَ : فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِرَارًا. قَالَ أَبُو ذَرٍّ : خَابُوا، وَخَسِرُوا، مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " الْمُسْبِلُ ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ ".*
ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ تین ( قسم کے لوگ ) ہیں اللہ ان سے گفتگو نہیں کرے گا ، نہ قیامت کے روز ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں ( گناہوں سے ) پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ۔ ‘ ‘ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : آپ نے اسے تین دفعہ پڑھا ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : ، اے اللہ کے رسول ! یہ کون ہیں ؟ فرمایا : ’’ اپنا کپڑا ( ٹخنوں سے ) نیچے لٹکانےوالا ، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے سامان کی مانگ بڑھانے والا ۔ ‘
*صحيح مسلم 106 كتاب : الإيمان | باب : تحريم إسبال الإزار*
*صحيح مسلم ( 106 )، سنن أبي داود ( 4087 )، سنن الترمذي ( 1211 )، سنن النسائي ( 2563, 2564, 4458, 4459, 5333 )، سنن ابن ماجه ( 2208 )، سنن الدارمي ( 2647 )، مسند أحمد ( 21318)*


*خلاصہ:*
١- جھوٹ بولنا، یہ انسان کی فطرت کے خلاف ہے۔
٢-جھوٹ بولنا شیطان کا طریقہ ہے۔
٣- اللہ سبحانہ و تعالی نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھائے مگر جھوٹ فریب یا ان جیسی کوئی چیز نہیں سکھائی۔
٤- اللہ نے انسان کو پیدائش کے ساتھ ہر چیز کا علم نہیں دیا، بلکہ کان آنکھ اور دل دیے کہ اس زندگی کے تجربوں سے ہم سیکھ سکے۔(سورة النحل: 78)
٥- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی آپ کے چہرے سے جھلکتی تھی۔
٦- جس نبی کے چہرے کو دیکھ کر لوگوں کے دل صداقت کی گواہی دیتے تھے اس نبی کی امت کیسے جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا سکتی ہے۔
٧- سچائی نیکی تک، نیکی جنت تک لے جاتی ہے، جبکہ جھوٹ گناہ تک، گناہ جہنم تک لے جاتا ہے۔
٨- سب سے بڑا جھوٹ، اپنا نسب بدلنا، جھوٹا خواب بیان کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہے۔
٩- دین کے معاملے میں بغیر قرآن و حدیث کی دلیل سے بات کرنا جائز نہیں۔
١٠- جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والے، ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے، اور احسان جتانے والے کی جانب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن رحمت کی نگاہ نہیں ڈالے گا۔
 
Top