• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیاہ خضاب لگانا جائز نہیں

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سفید بالوں کو مہندی اور وسمہ سے رنگنا


الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سر اور داڑھی کے سفید بالوں کو مہندی اور وسمہ سے رنگنا تو جائز ہے لیکن کالے رنگ سے رنگنا جائز نہیں ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ دن حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو ان کا سر ثغامہ بوٹی کے پھولوں کی طرح سفید تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
" اذْهَبُوا بِهِ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، فَلْيُغَيِّرْهُ بِشَيْءٍ، وَجَنِّبُوهُ السَّوَادَ "(صحيح مسلم اللباس ،باب استحباب خضاب الشیت بصفة ۔۔الخ ، ح 2102 ومسند احمد : 338۔3 وسنن ابن ماجه ، اللباس ، باب الخضاب بالسواد ، ح3624 واللفظ له )


’’انہیں ان کی عورتوں میں سے کسی کے پاس لے جاؤ جو ان بالوں کو کسی چیز سے رنگ دے لیکن کالے رنگ سے اجتناب کرنا ۔‘‘
مسند احمد ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ فرمایا :
" لَوْ أَقْرَرْتَ الشَّيْخَ فِي بَيْتِهِ، لَأَتَيْنَاهُ (مسند احمد 160۔3)

’’اگر تم اس بزرگ کو اس کے گھر ہی میں رہنے دیتے تو ہم خود اس کے پاس جاتے ۔‘‘
آپ نے یہ بات حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی کے لیے فرمائی ۔ ابو قحافہرضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان کی داڑھی اور سر ثغامہ بوٹی کے پھولوں کی طرح سفید تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

فَلْيُغَيِّرْهُما، وَجَنِّبُوهُ السَّوَادَ "(مسند احمد 160۔3)

ان بالوں کے رنگ کو تبدیل کردو مگر کالے رنگ سے اجتناب کرنا ۔‘‘

«إِنَّ أَحْسَنَ مَا غَيَّرْتُمْ بِهِ الشَّيْبَ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ» (سنن ابی داؤد ،الترجل ،باب فی الخضاب ، ح 4205 و جامع الترمذی ، ح 1753 وسنن النسائی ، ح 5081 وسنن ابن ماجه ، ح 3622 وسند احمد 148۔5 ، 150 واللفظ للنسائی وابن ماجه )

سب سے احسن چیز جس سے تم سفید بالوں کو رنگتے ہو ، وہ منہدی اور وسمہ ہے ۔ ‘‘
جہاں تک داڑھی کے منڈوانے اوراسے سیاہ خضاب سے رنگنے کاحکم ہے تو یہ دونوں باتیں ہی ممنوع ہیں ، تاہم سیاہ خضاب کی نسبت داڑھی منڈوانےکی ممانعت زیادہ شدید ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ
ج4ص444

محدث فتویٰ

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بالوں کو کالا رنگ لگانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری عمر ٢١ سال ہے اور میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں، لیکن میرے سر کے کچھ بال سفید ہوگئے ہیں (شاید کسی بیماری کی وجہ سے) ۔ مجھے لوگوں کے مذاق کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو کیا میں کالی مہندی کا استعمال کر سکتا ہوں؟ یاد رہے کہ کالی مہندی کے استعمال کا مقصد لوگوں کو دھوکہ دینا قطعا نہیں ہے کیونکہ یہ بال عمر سے پہلے سفید ہوئے ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کالے رنگ کے علاوہ کسی بھی رنگ سے اپنے بالوں کو رنگ سکتے ہیں۔کالا رنگ استعمال کرنے سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابو بکر صدیق کے والد ابو قحافہ کو لایا گیا،ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اس کا رنگ بدلو اور کالے رنگ سے بچو''۔(صحیح مسلم :٢١٠٢/٥٥٠٩)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''ایسی قومیں آخر زمانہ میں آئیں گی جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح کالے رنگ کا خضاب کریں گی وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی۔'' (ابوداود :٤٢١٢وسندہ صحیح ،النسائی :٥٠٧٨)[اس کا راوی عبدالکریم الجزری(مشہور ثقہ )ہے۔دیکھئے شرح السنہ للبغوی١٢/٩٢ح٣١٨٠)
مذکورہ بالا روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ کالا رنگ استعمال کرنا حرام ہے۔مزید تفصیل کے لئے فتوی نمبر (11795) پر کلک کریں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی

محدث فتوی
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
تحریر: ابن الحسن محمدی
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر یا ڈاڑھی کے سفید بالوں کو رنگ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ یہ حکم استحباب پر محمول ہے۔ حدیث میں اس استحبابی عمل کو سیاہ خضاب سے سرانجام دینے کی ممانعت آئی ہے۔ اس ممانعت کا کیاحکم ہے ؟ سیاہ خضاب حرام ہے یا خلاف ِ اولیٰ ؟ یہ مضمون اسی بارے میں مفصل تحقیق پر مبنی ہے۔ قارئین کرام اس مضمون سے کماحقہ استفادہ کرنے کے لیے بطور تمہید تین باتیں یاد رکھیں۔
ایک یہ کہ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو سلف صالحین، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے۔ سلف صالحین ساری امت سے بڑھ کر قرآن و سنت کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن و سنت کا کوئی حکم فرضیت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے مستحب سمجھتے رہے ہوں اور شریعت کی کوئی ممانعت حرمت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے خلاف اولیٰ ہی کا درجہ دیتے رہے ہوں۔ اسی طرح اس کے برعکس معاملہ ہے۔ اسی لیے بعد میں آنے والے لوگوں کا فہم دین اگر اسلاف امت کے خلاف ہو تو مردود ہو گا۔ زبانِ نبوی سے اسلافِ امت کو خیرالقرون کا جو لقب ملا ہے، اس کا یہی تقاضا ہے۔
دوسرے یہ کہ قرآن و سنت کا ہر حکم فرضیت کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا استحباب پر محمول ہونا ثابت ہو جائے اور ہر ممانعت حرمت کے لیے ہوتی ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا محض کراہت پر محمول ہونا ثابت ہو جائے۔
تیسرے یہ کہ دلیل صرف کتاب و سنت ہے، البتہ کتاب و سنت کو سمجھنے کے لیے جس طرح لغت اور دیگر علوم و فنون کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ صحابہ و تابعین کے فہم کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نصوصِ شرعیہ کو سمجھنے کے لیے اہل لغت کی بات تو مانتا رہے، لیکن اسلاف ِ امت کے قول و فعل کو نظر انداز کرتا رہے۔ بعض لوگ لغت اور اصولِ فقہ جیسے علوم سے کتاب و سنت کے اوامر و نواہی کا درجہ متعین کرنے کو عین شریعت سمجھتے ہیں لیکن صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فہم و عمل کے ذریعے ایسا کرنے کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف پر مبنی بات نہیں۔
اسی لیے اہل حدیث کا منہج یہ ہے کہ کتاب و سنت کے وہی معانی سمجھے جائیں جو اسلاف ِ امت نے سمجھے ہیں۔ جس حکم شرعی کو اسلاف فرض کا درجہ دیتے تھے، اس کو اہل حدیث فرض کا درجہ دیتے ہیں اور جس کو اسلاف مستحب سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث مستحب ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جس ممانعت کو اسلاف حرام کا سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث حرام ہی قرار دیتے ہیں اور جس کو اسلاف صرف خلاف اولیٰ سمجھتے تھے، اس پر اہل حدیث بھی خلاف ِ اولیٰ ہی کا حکم لگاتے ہیں۔ اہل حق نہ تو سلف سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں، نہ ایک قدم پیچھے رہتے ہیں۔ یہی مسلک اہل حدیث ہے۔
اس تمہیدکے بعد ہمارے لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ اس بارے میں ممانعت حرمت پر دلالت نہیں کرتی۔ اسلاف امت کا فہم و عمل یہی بتاتا ہے۔

اسلاف ِ امت کا عمل پیش کرنے سے پہلے قارئین کرام وہ احادیث بھی ملاحظہ فرما لیں جن سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت ثابت کی جاتی ہے :

مرفوع احادیث اور ان کا صحیح معنی و مفہوم
حدیث نمبر :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والدِ گرامی سیدنا ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت، میں لائے گئے۔ ان کے سر اور ڈاڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
غيروا هذا بشىء، واجتنبوا السواد
’’ اس سفیدی کو کوئی بھی رنگ دے دو، البتہ سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔“ [صحيح مسلم 199/2، ح : : 2102]
↰ اس حدیث میں دو باتوں کا حکم موجود ہے، ایک بالوں کو رنگنے کا اور دوسرے سیاہ خضاب سے بچنے کا۔ جس طرح بہت سے اسلاف بالوں کو نہیں رنگتے تھے اور ان کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں، اسی طرح بہت سے اسلاف سیاہ خضاب لگاتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے، لہٰذا سلف کے فہم و عمل کی بنا پر سیاہ خضاب بھی حرام نہیں۔ اس حدیث ِ پاک میں موجود یہ دونوں حکم استحباب ہی پرمحمول ہیں۔

حدیث نمبر :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يكون قوم يخضبون فى آخر الزمان بالسواد، كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة
’’ آخری زمانے میں ایک قوم ایسی ہو گی جو کبوتر کے پوٹے کی طرح سیاہ خضاب لگائے گی۔ یہ لوگ جنت کی خوشبو نہیں پائیں گے۔“ [سنن أبى داؤد : 4213، سنن النسائي : 138/8، ح : 5078، مسند الإمام أحمد : 273/1، المعجم الكبير للطبراني : 413/12، التاريخ الكبير لابن أبى خيثمة : 909، المختارة للضياء المقدسي : 233/10، ح : 244، شرح السنة للبغوي: 3180، و سندهٔ صحيح]
اس حدیث کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا حديث حسن غريب
’’ یہ حدیث حسن غریب ہے۔“ [سير أعلام النبلاء : 4 /339]
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’ جید“ کہا ہے۔ [تخريج احياء علوم الدين :143/1]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’ قوی“ قرار دیا ہے۔
↰ اس کے راوی عبدالکریم جزری کو حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے عبدالکریم بن ابوالمخارق سمجھ کر اس پر جرح کی ہے۔ [الموضوعات : 55/3]
حالانکہ اس حدیث کی بعض ’’ صحیح“ سندوں میں عبدالکریم کے جزری ہونے کی صراحت موجود ہے۔

فائدہ : مسند اسحاق بن راہویہ كما فى ”النكت الظراف على الاطراف لابن حجر : 424/4“ میں یہ الفاظ ہیں :
يخضبون لحاهم بالسواد. ’’ وہ اپنی ڈاڑھیوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے۔“
بعض لوگ اس حدیث پاک سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت پر دلیل لیتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلاف امت اور محدثین کرام میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت کا قائل نہیں۔ دوسری یہ کہ اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنی و مفہوم بیان نہیں کیا، بلکہ بعض اہل علم نے اس سے سیاہ خضاب کی حرمت و کراہت کے استدلال کا ردّ کیا ہے۔

اہل علم کی تصریحات
اہل علم کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں :
◈ مشہور محدث، امام ابوبکر ابن ابوعاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإنه لا دلالة فيه على كراهة الخضاب بالسواد، فيه الإخبار عن قوم هذا صفتهم
’’ اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں۔ اس
میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کی نشانی یہ ہو گی۔“ [فتح الباري فى شرح صحيح البخاري لابن حجر : 354/10]

◈ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فعقلنا بذلك أن الكراهة إنما كانت لذلك، لأنه أفعال قوم مذمومين، لا لأنه فى نفسه مذموم، وقد خضب ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسواد، منهم عقبة بن عامر.
’’ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کراہت اس لیے ہے کہ حدیث میں سیاہ خضاب قابل مذمت لوگوں کا فعل ہے۔ اس لیے نہیں کہ سیاہ خضاب لگانا فی نفسہٖ مذموم ہے۔“ [شرح مشكل الاثار: 313/9، ح 3699]

◈ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (508- 597 ہ) فرماتے ہیں :
واعلم أنه قد خضب جماعة من الصحابة بالسواد، منهم الحسن والحسين وسعد ابن أبى وقاص، وخلق كثير من التابعين، وإنما كرهه قوم لما فيه من التدليس، فأما أن يرتقي إلى درجة التحريم، إذ لم يدلس، فيجب فيه هذا الوعيد، فلم يقل بذلك أحد، ثم نقول على تقدير الصحة : يحتمل أن يكون المغنى : لا يريحون رائحة الجنة، لفعل يصدر منهم، أو اعتقاد، لا لعلة الخضاب، ويكون الخضاب سيماهم، فعرفهم بالسيما، كما قال فى الخوارج : سيماهم التحليق، وإن كان تحليق الشعر ليس بحرام.
’’ آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے۔ ان میں سیدنا حسن و حسین سیدنا سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ بہت سے تابعین کرام بھی ایسا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے اسے اس لیے مکروہ سمجھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھوکا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیاہ خضاب کے ذریعے دھوکے کا ارادہ نہ بھی ہو تو اس کا استعمال حرمت کے درجے تک پہنچ جائے اور اس کے استعمال کنندہ پر جنت کی خوشبو سے بھی محرومی کی وعید صادق آ جائے، تو یہ بات آج تک کسی اہل علم نے نہیں کہی۔ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس معنی کا احتمال ہے کہ وہ اپنے کسی غلط عقیدے یا عمل کی بنا پر جنت کی خوشبو سے محروم رہیں گے، سیاہ خضاب کی بنا پر نہیں۔ یہ خضاب تو ان کی ایک نشانی ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پہچان کے لیے بتلائی ہے، جس طرح خارجیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی نشانی سر کے بالوں کو منڈانا ہے۔ اس کے باوجود سر کے بالوں کو منڈانا حرام نہیں۔“ [الموضوعات : 55/3]
↰ ثابت ہوا کہ مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں، ورنہ ’’ آخری زمانے“ کی قید کا کیا معنی ؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام سے لے کر ہر دور میں موجود رہے ہیں ! ! !

◈ شارحِ ترمذی، علامہ محمدعبدالرحمٰن، مبارک پوری رحمہ اللہ (1353ھ) فرماتے ہیں :
فالاستدلال بهذا الحديث على كراهة الخضب بالسواد ليس بصحيح
’’ اس حدیث سے سیاہ خضاب کے مکروہ ہونے کی دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [تحفة الأحوذي : 55/3]

حدیث نمبر :
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن أحسن ما غير به هذا الشيب الحناء والكتم
’’ بڑھاپے کے سفید بالوں کو رنگنے کے لیے بہترین چیز مہندی اور کتم کا آمیزہ ہے۔“ [سنن أبى داؤد : 4205، مسند الإمام أحمد : 147/5، 150، وسنده صحيح]
↰ اس حدیث کے راوی سعید بن ایاس جریری آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے،
البتہ معمر اور عبدالوارث نے ان سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی ہیں، لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ [1753] نے ’’ حسن صحیح“ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ [5474] نے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) ’’ کتم“ کے بارے میں فرماتے ہیں :
والكتم نبات باليمن، يخرج الصبغ أسود، يميل إلى الحمرة، وصبغ الحناء أحمر، فالصبغ بهما معا يخرج بين السواد والحمرة.
”کتم یمن کے علاقے کی ایک بوٹی ہے جو سرخی مائل سیاہ رنگ دیتی ہے۔ مہندی کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ یوں کتم اور مہندی مل کر سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ دیتے ہیں۔“ [فتح الباري : 355/10]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ سفید بالوں کو دینے کے لیے بہتر اور احسن رنگ ہے۔ اس سے کالے خضاب کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ان صحیح احادیث اور ان کے بارے میں اہل علم کی رائے کے بعد سیاہ خضاب کے بارے میں سلف صالحین کا عمل اور فہم ملاحظہ فرمائیں۔

سیاہ خضاب اور سلف صالحین
صحابہ كرام اور سياه خضاب :
➊ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
اتی عبيد الله ابن زياد برأس الحسين عليه السلام، فجعل فى طست، فجعل ينكت، وقال فى خسنه شيئا، فقال أنس : كان أشبههم برسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان مخضوبا بالوسمة .
’’ عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک لایا گیا۔ اسے ایک پلیٹ میں رکھ دیا گیا۔ عبیداللہ زمین کریدنے لگا اور اس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے حسن کی تعریف کی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سب صحابہ کرام سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سر کو سیاہ خضاب لگا ہوا تھا۔“ [صحيح البخاري:530/1، ح : 3748]

➋ امام ابوجعفر باقر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إن الحسن بن على كان يخضب بالسواد.
’’ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سیاہ خضاب سے اپنے بالوں کو رنگ دیتے تھے۔“ [المعجم الكبير للطبراني : 22/3، ح : 2535، معرفة الصحابة لأبي نعيم الاصبهاني: 1750، وسندهٔ صحيح]

➌ حی بن یومن، ابوعشانہ معافری بیان کرتے ہیں :
رأيت عقبة بن عامر الجهني، يصبغ بالسواد.
’’ میں نے سیدنا عقبہ بن عامر حہنی رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے، آپ سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 437/8، التاريخ الكبير لابن أبى خيثمة : 1391، الطبقات الكبرى لا بن سعد:345/7، الثقات لابن حبان : 280/3، المعجم الكبير للطبراني: 268/17، وسندهٔ صحيح متصل]

ایک روایت میں ہے :
انهٔ كان يصبغ شعر راسه بشجرة يقال لها :، كاشد السواد
’’ آپ اپنے سر کے بالوں کو ایک۔۔۔ نامی درخت سے رنگ دیتے تھے۔ یہ سخت سیاہ رنگ ہوتا تھا۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 437/8، و سندهٔ صحيح]

تابعين عظام اور سياه خضاب :
درج ذیل تابعین کرام بھی سیاہ خضاب لگاتے تھے :
➍ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف، قرشی (م:104/94ھ) [الطبقات الكبري لابن سعد : 119/5، و سندهٔ صحيح]
➎ محمد بن اسحاق بن یسار، مدنی (م:150ھ) [المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي :137/1، وسنده صحيح]
➏ علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب، قرشی، ہاشمی (118ھ) [الطبقات الكبري لابن سعد : 240/5، و سندهٔ صحيح]
➐ ابوقلابہ، عبداللہ بن زید بن عمرو، جرمی، بصری (م:104 ھ) [الطبقات الكبري لابن سعد :138/7، و سندهٔ صحيح]
➑ ابوعبداللہ، بکر بن عبداللہ، مزنی، بصری (م:106ھ) [الطبقات الكبري لابن سعد :158/7، و سندهٔ صحيح]
➒ قاضی، محارب بن دثار، سدوسی، کوفی (م:116ھ) [مسند على بن الجعد: 725، و سندهٔ حسن]
➓ ابوبکر، محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب، زہری، مدنی (م:125ھ) [جامع معمر بن راشد :155/11، و سندهٔ صحيح]
⓫ موسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ، قرشی (م:103ھ) [مصنف ابن ابي شيبة: 436/8، الطبقات الكبري لابن سعد : 124/5، و سندهٔ حسن]
⓬ نافع بن جبیر بن مطعم بن عدی، قرشی، نوفلی (م:99ھ) [مصنف ابن ابي شيبة: 430/8، الطبقات الكبري لابن سعد : 158/5، و سندهٔ حسن]
⓭ امام شعبہ بن حجاج کے استاذ عمر بن ابوسلمہ ( ؟ ) [تهذيب الاثار للطبري : 895، و سندهٔ صحيح، الجزء المفقود]
⓮ ابوخطاب، امام قتادہ بن دعامہ بن قتادہ، سدوسی، بصری (م: بعد 110ھ) نے فرمایا :
رخص فى صباغ الشعر بالسواد للنساء.
”عورتوں کے لیے بالوں کو سیاہ خضاب دینے میں رخصت ہے۔“ [جامع معمر بن راشد : 20182، وسندهٔ صحيح]

⓯ عبداللہ بن عون بیان کرتے ہیں :
كانوا يسالون محمدا عن الخضاب بالسواد، فيقول : لا أعلم به بأسا.
”لوگ محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ (م : 110ھ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں سوال کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس میں کوئی حرج نہیں جانتا۔“
[مصنف ابن أبى شيبة : 436/8، وسنده صحيح]

تابعین کے کچھ متعارض اقوال :
سابق تصریحات قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں، اس کے برعکس :
◈ امام عطاء بن ابورباح رحمہ اللہ (27-115ھ) سے سیاہ خضاب استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
هو مما أحدث الناس، قد رأيت نفرا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما رأيت أحدا منهم يختضب بالوسمة، ما كانوا يخضبون إلا بالحناء والكتم وهذه الصفرة.
”یہ تو لوگوں نے نیا طریقہ بنایا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو دیکھا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب نہیں لگاتا تھا۔ صحابہ کرام مہندی اور کتم (سیاہ رنگ دینے والا درخت) ملا کر اور اس زرد رنگ کے ساتھ بالوں کو رنگ دیتے تھے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 438/8، وسنده صحيح]

امام عطاء رحمہ اللہ نے اپنے علم کے مطابق یہ بیان دیا ہے۔ ہم صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت کر چکے ہیں۔ امام عطاء رحمہ اللہ نے ان صحابہ کرام کو نہیں دیکھا ہو گا جو سیاہ خضاب استعمال کر تے تھے۔
◈ امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ (م : 95 ھ ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں پوچھا: گیا تو انہوں نے فرمایا :
يكسو الله العبد فى وجهه النور، ثم يطفئهٔ بالسواد.
”اللہ تعالیٰ بندے کے چہرے کو منور کرتا ہے، پھر بندہ سیاہ خضاب کے ساتھ اس نور کو بجھا دیتا ہے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 439/8، وسندۂ صحيح]

خضاب بالوں کو لگایا جاتا ہے، چہرے کو نہیں۔ مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جا سکتا ہے کہ بند ے نے نورانی چہرے کو زرد کر لیا ؟ جو صحابہ کرام سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے، ان کے چہروں سے نور ختم نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا یہ قول ناقابل التفات ہے۔
◈ امام مکحول تابعی رحمہ اللہ (م : بعد 110ھ) نے سیاہ خضاب کو مکروہ قرار دیا۔ [مصنف ابن ابي شيبة : 438/8، وسندهٔ صحيح]
اس سے کراہت تنزیہی، یعنی خلاف اولیٰ ہونا مراد ہے۔ حدیث رسول میں موجود ممانعت سے یہی مراد ہے۔ اسلاف امت میں سے کسی نے سیاہ خضاب کو ناجائز، ممنوع اور حرام قرار نہیں دیا۔

أئمہ دین اور سیاہ خضاب :
◈ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (م : 294 ھ) سے پوچھا گیا کہ عورت سیاہ خضاب استعمال کر سکتی ہے تو انہوں نے فرمایا :
لا بأس بذلك للزوج أن تتزين له .
”عورت اپنے خاوند کے لیے مزین ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بكر الخلال : 142، وسنده صحيح]

◈ امام مالک رحمہ اللہ (93-179ھ) سیاہ خضاب کے بارے میں فرماتے ہیں :
لم أسمع فى ذلك شيئا معلوما، وغير ذلك من الصبغ أحب إلي وترك الصبغ كله واسع، إن شاء الله، ليس على الناس فيه ضيق.
”میں نے اس بارے میں کوئی متعین بات نہیں سنی۔ سیاہ کے مقابلے میں دوسرے رنگ مجھے زیادہ پسند ہیں۔ بالوں کو بالکل نہ رنگنے کی بھی گنجائش ہے۔ ان شاء اللہ ! بالوں کو خضاب لگانے کے بارے میں لوگوں پر کوئی تنگی نہیں رکھی گئی۔“ [المؤطا للامام مالک برواية يحيي : 3497]

سیاہ خضاب کے بارے میں ضعیف روایات
اب بطور فائدہ اس بارے میں ”ضعیف“ روایات ملاحظہ فرمائیں :
روایت نمبر :

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يكون فى آخر الزمان قوم، يسودون أشعارهم، لا ينظر الله إليهم يؤم القيامة .
”آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے بالوں کو سیاہ کیا کریں گے۔ روز قیامت اللہ تعالیٰ ان کی طرف (نظر رحمت سے ) نہیں دیکھے گا۔“ [المعجم الأوسط للطبراني : 136/4، ح : 3803، الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بكر الخلال : 160]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی عبدالکریم بن ابوالمخارق ”ضعیف“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد ضعفہ الجمهور.
”اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [اتخاف المهرة : 719/11]
◈ علامہ عینی حنفی کہتے ہیں :
وإن كان الجمهور على تضعيفه.
”جمہور محدثین اس کو ضعیف ہی قرار دیتے ہیں۔“ [النهاية فى شرح الهداية : 582/11]
➋ عبدالوہاب بن عطاء خفاف راوی ”مدلس“ ہے۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
➌ امام طبرانی کے استاذ علی بن سعید رازی متكلم فيه ہیں۔ حافظ ہیثمی نے انہیں ”ضعیف ”قرار دیا ہے۔ [مجمع الزوائد : 124/3، 357/9، 110/10]
لہٰذا علامہ ہیثمی کا اسی کتاب [مجمع الزوائد : 161/5] میں اس کی سند کو جيد کہنا صحیح نہیں۔

روایت نمبر :
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كنا يوما عند النبى صلى الله عليه وسلم، فدخلت عليه اليهود، فرآهم بيض اللحى، فقال : ما لكم لا تغيرون ؟ فقيل : أنهم يكرهون، فقال النبى صلى الله عليه وسلم ! لكنكم غيروا، وإياي والسواد .
”ایک روز ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ یہود کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کی ڈاڑھیاں سفید دیکھیں تو فرمایا : ”تمہیں کیا ہے کہ انہیں رنگ نہیں دیتے ؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہود بال رنگنے کو پسند نہیں کرتے۔ اس پر آپ نے فرمایا : تم بالوں کو رنگو اور سیاہ رنگ سے بچو۔“ [المعجم الأوسط للطبراني : 51/1، ح : 142]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ”ہے۔
اس میں ابن لہیعہ راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“، ’’ مدلس“ اور ”مختلط“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هو ضعيف بالاتفاق، لاختلال ضبطه.
”یہ راوی حافظے کی خرابی کی بنا پر بااتفاق ضعیف ہے۔“ [خلاصة الأحكام : 625/2]
◈ حافظ ہیشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وابن لهيعة ضعفهٔ الجمهور.
”ابن لہیعہ کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزوائد : 375/10]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعفهٔ الجمهور. ”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ [فتح المغیث : 221]
◈ حافظ ابناسی لکھتے ہیں :
ضعفهٔ الجمهور. ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح : 201/1]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعيف الحديث. ”اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔“ [تغليق التعليق : 239/3]

روایت نمبر :
سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
من شاب شيبة فى الإسلام – أو قال : فى سبيل الله – كانت له نورا يؤم القيامة، ما لم يخضبها أو ينتفها، قلث لشهر : إنهم يصفرون ويخضبون بالحناء ؟ قال : أجل، قال : كأنه يعني السواد.
’’ جس شخص کے بال اسلام میں یا اللہ کی راہ میں سفید ہو جاتے ہیں، اس کے بال قیامت کے دن اس کے لیے روشنی بن جائیں گے بشرطیکہ وہ ان کو نہ رنگے اور نہ اکھیڑے۔ (راوی حدیث عبد الجلیل بن عطیہ کہتے ہیں : ) میں نے (اپنے استاذ) شہر (بن حوشب) سے پوچھا: مسلمان سفید بالوں کو زرد اور مہندی رنگ دیتے تھے ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ شاید آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی مراد سیاہ خضاب ہو۔“ [مسندالطيالسي : 1248،مسند أبى يعلي كما فى جامع المسانيد والسنن لابن كثير : 587/6، ح : 8352، شعب الإيمان للبيهقي : 386/6، ح : 5972]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ عبدالجلیل بن عطیہ راوی ”مدلس“ ہے۔ اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
➋ شہر بن حوشب (موثق، حسن الحدیث) کا سیدنا عمرو بن عبسہ سے سماع و لقاء نہیں۔ امام ابوحاتم رازی اور امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔ [کتاب المراسیل لابن أبی حاتم : 89]
یوں یہ روایت ”منقطع“ ہونے کی بنا پر ”ضعیف“ ہے۔

روایت نمبر :
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
غيروا الشيب، ولا تقربوه السواد، ولا تشبهوا باعدائكم من المشركين، وخير ما غيرتم به الشيب الحناء والكتم).
”سفید بالوں کو رنگ دیا کرو لیکن سیاہ رنگ کو بالوں کے قریب نہ لے جاؤ اور اپنے دشمن مشرکین کی مشابہت نہ کرو۔ بالوں کو رنگنے کے لیے سب سے بہتر رنگ مہندی اور کتم کو ملا کر بنتا ہے۔“ [المعجم الاوسط للطبراني : 227/5، ح : 5160]

تبصرہ :
یہ سند باطل ہے۔ اس کا راوی سلم بن سالم بلخی باتفاق محدثین ضعیف ہے۔
روایت نمبر :

سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من خضب بالسواد، سود الله وجهه يؤم القيامة
”جس نے سیاہ خضاب استعمال کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا چہرہ سیاہ کر دے گا۔“ [مسند الشامیین للطبرانی : 652، الکامل لابن عدی : 222/3، الناسخ والمنسوخ لابن شاہین، ص : 462، ح : 614، الأمالى للشجری : 249/2-250]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس کی سند میں زہیر بن محمد خراسانی جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہے، لیکن اس سے اہل شام کی روایت ”ضعیف“ ہوتی ہے، جیسا کہ :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رواية أهل الشام عنه غير مستقيمة.
”اہل شام کی اس سے بیان کردہ روایت صحیح نہیں ہوتی۔“ [تقريب التهذيب : 2049]
یہ روایت بھی اہل شام کی ہے، لہٰذا یہ جرح مفسر ہے اور روایت ”ضعیف“ ہے۔
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ (195- 277 ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
هو حديث موضوع . ”یہ من گھڑت حدیث ہے۔“ [علل الحديث لابن أبى حاتم : 299/2]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وسنده لين . ”اس کی سند کمزور ہے۔“ [فتح الباري : 355/10]

روایت نمبر :
عامر شعبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں :
إن الله لا ينظر إلى من يخضب بالشواد، يؤم القيامة
”جو شخص سیاہ خضاب لگاتا ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے ( نظر رحمت سے ) نہیں دیکھے گا۔“ [الطبقات الكبري لابن سعد : 340/1]

تبصرہ :
یہ سخت ”ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ :
➊ اسے بیان کرنے والے عامر شعبی رحمہ اللہ صحابی نہیں، تابعی ہیں اور وہ بلاواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں۔ یوں یہ روایت ”مرسل“ ہے۔
➋ لیث بن ابوسلیم راوی جمہور محدثین کرام کے نزدی ”ضعیف“ اور ”مختلط“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں :
ضعفه الجمهور. ”یہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“ [تخريج أحاديث الإحياء : 170/2]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وصعفه الأكثر. ”اسے اکثر محدثین سے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزوائل : 1 / 90-91]
◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ضعيف عند الجمهور. ”یہ جمہور کے ہاں ضعیف راوی ہے۔ “ [البدر المنير : 104/2]
◈ حافظ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ضعفہ الجمهور. ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [زوائد ابن ماجه : 63/1، ح : 54]
➌ عبدالرحمن بن محمد محاربی راوی ”مدلس“ ہے اور اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ یوں یہ روایت کئی وجوہ سے ”ضعیف“ ہے۔

روایت نمبر :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فإذا خطب أحدكم امرأة، وقد خضب بالسواد،فليعلمها، لا يغرنها.
”تم میں سے کوئی جب کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے، اگر اس نے سیاہ خضاب لگا رکھا ہو تو اسے بتا دے۔ اسے دھوکہ ہرگز نہ دے۔“ [السنن الكبري للبيهقي : 290/7]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کا راوی عیسیٰ بن میمون مدنی ”ضعیف“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں :
عيسي بن ميمون ضعيف ”عیسیٰ بن میمون مدنی ضعیف راوی ہے۔“

روایت نمبر :
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صبغ بالسواد، لم ينظر الله إليه يوم القيامة ”جو شخص سیاہ خضاب لگائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ ؟“ [مسند الشاميين للطبراني : 306/2، ح : 1393، تاريخ دمشق لابن عساكر : 114/34]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کا راوی تھی مثنیٰ بن صباح جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”مختلط“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف عند الجمهور. ”یہ جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔“ [فيضں القدير للمناوي : 69/1]
◈ علامہ ہیثمی نے اسے ”متروک“ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
والجمهور على ضعفه ”جمہور محدثین اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ [مجمع الزوائل : 70/5]

روایت نمبر :
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يكون أقوام يغيرون البياض بالسواد، (قال مرة) يغيرون بياض اللحية والرأس بالسواد، يسود الله وجوههم يؤم القيامة .”کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اپنے سر اور ڈاڑھی کے سفید بالوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ کر دے گا۔“ [الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بكر الخلال : 143]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ امام حسن بصری رحمہ اللہ تابعی ہیں اور ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ روایت ”مرسل“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
➋ زہیر بن محمد کا حسن بصری سے سماع مطلوب ہے۔
روایت نمبر :

صہیب رومی سے مروی سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان احسن ما اختضبتم به لهذا السواد، أرغب لنسائكم فيكم، وأهيب لكم فى صدور عدوكم . ”بالوں کو رنگنے کے لئے سب سے اچھا رنگ سیاہ ہے۔ یہ تمہیں بیویوں کے لئے زیادہ دلکش بناتا ہے اور تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہارے زیادہ رعب کا باعث بنتا ہے۔“ [سنن ابن ماجه : 3625]

تبصرہ :
یہ روایت سخت ”ضعیف“ ہے۔ اس کا راوی دفاع بن دغفل جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 1827]
اس کا دوسرا راوی عبدالحمید بن صفی ”لین الحدیث“ ہے۔ [تقريب التهذيب : 3765]
اس تیسرا راوی صفی بن صہیب ”مجہول الحال“ ہے۔ [تقريب التهذيب : 2961]
اس میں اور بھی علتیں موجود ہیں۔

روایت نمبر :
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے :
انهٔ عرضت عليه مولاة لهٔ أن يصبغ لحيته، فقال : ما أريد تطفي نوري، كما أطفا فلان نوره.
”ان کی لونڈی نے انہیں سیاہ خضاب لگانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا : میں نہیں چاہتا ہے کہ تو میرا نور اس طرح بجھا دے جس طرح فلاں شخص نے اپنا نور بجھا لیا ہے۔“ [معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني : 182]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کونکہ اس میں بقیہ بن ولید (موثق، حسن الحدیث) کی ”تدلیس“ ہے۔ سماع کی صراحت نہیں مل سکی۔
بقیہ بن ولید کے بارے میں :
◈ حافظ ابن ناصر الدین دمشقی (777-842 ھ) فرماتے ہیں :
وثقه الجمهور عن الثقات، بلفظ يدل على السماع .
”اسے جمہور محدثین نے اس وقت قابل اعتبار سمجھا ہے، جب یہ ثقہ راویوں سے روایت کرے اور سمال کی صراحت کرے۔“ ؟ [توضيح المشتبه : 59/2]

◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرمائے ہیں :
وثقه الجمهور فيما سمعه من الثقات.
”اسے جمہور محدثین نے ان روایات میں ثقہ قرار دیا ہے جو اس نے ثقہ راویوں سے خود سن رکھی ہوں۔“ [الكاشف : 106-107]

◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (723-804 ھ) فرماتے ہیں :
لكن بقية رمي بتدليس التسوية، فلا ينفعه بتصريحه بالحديث.
”بقیہ بن ولید پر تدلیس تسویہ کا الزام ہے، لہٰذا اس کا (صرف اپنے استاذ سے) سماع کی تصریح کر دینا مفید نہیں۔“ [البدر المنير : 509/4]

روایت نمبر :
ابوقبیل حئ بن ہانی تابعی کا بیان ہے :
دخل عمرو بن العاص على عمر بن الخطاب، وقد صبغ راسه ولحيته بسواد، فقال عمر: من انت؟ قال: أنا عمرو بن العاص، قال عمر : عهدي بك شيخا، وأنت اليوم شاب، عزمت عليك، إلا ما خرجت، فغسلت هذا.
”سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے اپنے سر اور ڈاڑھی کو سیاہ خضاب لگا رکھا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کون ہیں؟ عرض کیا : میں عمرو بن عاص ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: میں نے تو آپ کو بڑھاپے کی حالت میں دیکھا تھا، لیکن اب آپ جوان نظر آتے ہیں۔ میں آپ پر یہ لازم کرتا ہوں کہ یہاں سے جائیں اور اس رنگ کو دھو ڈالیں۔‘‘ [فتوح مصر والمغرب لأبي القاسم عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم، ص: 207]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس میں ابن لہیعہ موجود ہے، جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف ‘‘ اور’’مدلس“ ہے۔ كما مر

روایت نمبر :
کعب احبار تابعی فرماتے ہیں:
و ليصبغن أقوام بالسواد، لا ينظر الله إليهم يؤم القيامة.
”لوگ ضرور سیاہ خضاب استعمال کریں گے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ ‘‘ [حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني 377/5]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
➊ اس کا راوی عقیل بن مدرک سلمی ”مجہول الحال“ ہے۔
سوائے ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: 294/7 ) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”مقبول‘‘ (مجہول الحال) ہی قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 4663]
➋ عقیل بن مدرک کا استاذ ولید بن عامر یزنی بھی ”مجہول الحال“ ہے۔ اس کی توثیق بھی سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات:552/7] کے کسی نے نہیں کی۔

فائده
امام جعفر صادق رحمہ اللہ (م :148 ھ) سے منقول ہے:
الخضاب مكبدّة للعدو، مرضاة للزوجة.
”خضاب دشمن کو پریشان کرنے اور بیوی کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 400/8، ح : 5995]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس کے راوی علی بن محمد بن عقبہ شیبانی کی توثیق نہیں مل سکی۔
فائده

ضمرہ بن ربیعہ بیان کرتے ہیں:
سمعت عبدالعزيز بن أبى رواد يذكر، قال : الصفرة خضاب الإيمان، والحمرة خضاب الإسلام، والسواد خضاب الشيطان.
”میں نے عبدالعزیز بن ابو رواد (م:159ھ) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ زردی ایمان کا، سرخی اسلام کا اور سیاہی شیطان کا خضاب ہے۔“ [تاريخ ابن أبى خيثمة:383، وسندہ صحيح]

تبصرہ :
یہ شاذ قول ہے جس میں عبدالعزیز بن ابو رواد کا کوئی سلف نہیں۔
جس کام کو صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت نے کیا ہو، اسے شیطانی عمل قرار دینا مناسب نہیں۔ یوں یہ قول ناقابل التفات ہے۔
الحاصل :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیاہ خضاب کے استعمال کی ممانعت وارد ہے، لیکن اسلاف امت یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کے استعمال کا جواز ثابت ہے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالوں کو رنگنے کا حکم ثابت ہے لیکن اسلاف امت کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکم استحباب پر محمول ہے، اسی طرح اسلاف امت کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ خضاب کی ممانعت بھی کراہت پر محمول ہے۔ اسے حرام کہنے سے سلف کی مخالفت لازم آتی ہے۔ اسلاف امت سے بڑھ کر دین متین کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے سیاہ خضاب کو زیادہ سے زیادہ مکروہ کہا جا سکتا ہے۔

ماخوذ:

https://www.tohed.com/سیاہ-خضاب-کی-شرعی-حیثیت/
 

راٹھور

مبتدی
شمولیت
ستمبر 28، 2019
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم، نیچے دیا ہوا لنک سعودی عرب کے مفتیان کی طرف سے اسی موضوع پر دلیل دی ہے، براہِ مہربانی اس بارے میں بھی وضاحت فرما دیں،
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
360
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
۔

سیاہ خضاب کی ممانعت کے دلائل

تحریر :
حافظ ندیم ظہیر


سیاہ خضاب کی شرعی حیثیت
الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:

اسلاف کے متفقہ فہم سے کسی کو انکار نہیں کیونکہ قرآن و حدیث کا وہی مفہوم معتبر ہے جو سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے ، لیکن ان کے فہم میں اگر اختلاف ہو جائے تو پھر درج ذیل باتیں ملحوظ رہنی چاہئیں:

➊ اختلاف کی صورت میں انھیں اسلاف کے موقف کو ترجیح ہوگی جن کے اقوال و افعال کتاب وسنت کی تفسیر و تشریح میں یا ان کے قریب تر ہوں گے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُم تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَ اَحْسَنُ تَأْوِيلًا)

پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے ۔

(٤ / النساء : ٥٩)

➋ واضح اور صریح دلائل کے خلاف اگر سلف صالحین میں سے کسی کا قول یا فعل ہوگا تو اسے ان کی لاعلمی پر محمول کیا جائے گا کیونکہ یہ لازم نہیں کہ ہر ایک کو ہر بات کا علم ہو۔ دیکھئے التمهيد لابن عبد البر (١/ ١٥٩ ، ) وغيره

حافظ ابوبکر الحازمیؒ (متوفی ۵۵۸۴) مرد کے لیے سونے کی حرمت ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

رہا براء بن عازبؓ کا نبی ﷺ (کی وفات) کے بعد (سونے کی ) انگوٹھی استعمال کرنا اور اسے پہنا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں اس کی ممانعت کے بارے میں علم نہیں ہو سکا اور یہی عذر طلحہ، سعد اور صہیبؓ کی طرف سے ہے جو انھوں نے سونے کی انگوٹھیاں پہنیں ۔

واللہ اعلم بالصواب۔

(الاعتبار في الناسخ والمنسوخ في الحديث ٢/ ٨٠٥)

تنبیه:
ہمارے نزدیک سیدنا براءؓ کا انگوٹھی پہنا، محمد بن مالک الجوز جانی ضعیف کی وجہ سے غیر ثابت ہے۔

(مسند احمد ٢٩٤/٤)

➌ ایک دو کے مقابلے میں جمہور کے فہم کو ترجیح ہوگی۔

➍ اگر کسی مسئلے میں اسلاف کے دو طرح کے اقوال ہوں تو اپنے مقصود کو فہم سلف قرار دینا اور دوسرے کو یکسر نظر انداز کرنا یا اس کی تحقیر کرنا غیر مناسب ہے، بلکہ دونوں میں سے جو کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہو اسی کو راجح قرار دینا چاہیے۔

➎ کتاب وسنت کے صریح دلائل کے مقابلے میں سلف صالحین کے شاذ اقوال غیر مقبول ہیں، مثلاً :

رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھنا وغیرہ۔
حافظ عثمان بن سعید الدارمیؒ (متوفی ۲۸۰ ھ ) نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِي يُرِيْدُ الشُّدُونَ عَنِ الْحَقِّ يَتَّبِعُ الشَّاذَ مِنْ قَوْلِ الْعُلَمَاءِ وَيَتَعَلَّقُ بِزَلَّاتِهِمْ ، وَالَّذِي يَومُ الْحَقَّ فِي نَفْسِهِ يَتَّبِعُ الْمَشْهُورَ مِنْ قَوْلِ جَمَاعَتِهِمْ وَيَنْقَلِبُ مَعَ جُمْهُورِهِمْ، فَهُمَا آيَتَانِ بَيْنَتَانِ يُسْتَدَلُّ بِهِمَا عَلَى اتِّبَاعِ الرَّجُلِ وَعَلَى ابْتِدَاعِهِ

’’بلاشبہ جو شخص حق سے روگردانی کرنا چاہتا ہے وہ علماء کے اقوال میں سے شاذ قول کی پیروی کرتا ہے اور ان کی غلطی کو حجت بنالیتا ہے اور جو شخص حق کا طالب ہوتا ہے وہ علماء کے مشہور (و مقبول ) قول کی پیروی کرتا ہے اور جمہور علماء کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ دو نشانیاں بڑی واضح ہیں ان کے ذریعے سے متبع اور مبتدع شخص کو ( بآسانی ) پہچانا جاسکتا ہے۔“

(الرد على الجهمية / عقائد السلف ص ۲۳۷)

قارئین کرام ! اس تمہید کو ذہن نشین کرنے کے بعد سیاہ خضاب کی ممانعت کے دلائل، ان پر اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ کریں۔

سیاہ خضاب کی ممانعت کے دلائل
دليل ۱:
سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سید نا ابوقحافہؓ کو لایا گیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال سفیدی ثغامہ کی طرح تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”اس (سفیدی) کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔“

(صحیح مسلم : ۷۸/ ۲۱۰۲)

اس حدیث پر علامہ نوویؒ نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:

”بَابُ اسْتِحْبَابِ خِضَابِ الشَّيْبِ بِصُفْرَةٍ وَحُمْرَةٍ وَتَحْرِيْمِهِ بِالسَّوَادِ“

سفید بالوں کو سرخ و زرد رنگ سے رنگنا مستحب ہے اور سیاہ رنگ سے رنگنا ممنوع ہے۔

امام نسائیؒ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا:

’’ النَّهْيُّ عَنِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ“

سیاہ خضاب کی ممانعت کا بیان۔

(سنن النسائي قبل حدیث: ٥٠٧٩)

امام ابوعوانہؒ نے ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ’’وَحَظْرِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ“
یعنی سیاہ خضاب سے ممانعت کا بیان ۔

(مستخرج أبي عوانه ٣٠٩/٤)

امام ابن حبانؒ نے ’’ ذِكْرُ الزَّجْرِ عَنِ اخْتِضَابِ الْمَرْءِ السَّوَادَ‘‘ آدمی کو سیاہ خضاب لگانے کی ممانعت۔

(صحیح ابن حبان ١٢/ ٢٨٥، الرسالة)

امام خطیب بغدادیؒ نے بھی اس سے ’’ كَرَاهَةُ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ“ مراد لیا ہے، یعنی سیاہ خضاب کی کراہت کا بیان۔

(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع ۱/ ۳۸۰)

درج بالا محد ثین نے اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت پر استدلال کیا ہے،

اب اگر کوئی اس کے باوجود بھی اسے استحباب پر محمول سمجھے تو یہ فہم سلف سے اعراض نہیں تو کیا ہے؟

’’ اعتراض اس حدیث میں دو باتوں کا حکم موجود ہے، ایک بالوں کو رنگنے کا اور دوسرے سیاہ خضاب سے بچنے کا۔ جس طرح بہت سے اسلاف بالوں کو نہیں رنگتے تھے اور ان کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں، اسی طرح بہت سے اسلاف سیاہ خضاب لگاتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے، لہذا سلف کے فہم و عمل کی بنا پر سیاہ خضاب بھی حرام نہیں ۔“

ازالہ:
یہ کہنا درست نہیں کہ محض اسلاف کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں کیونکہ اس بارے میں علیحدہ سے مرفوع احادیث بھی موجود ہیں جن سے استدلال کی بنیاد پر بعض سلف صالحین نے بالوں کو رنگنا ترک کیا، جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ دس کاموں کو نا پسند کرتے تھے.. ان میں سے ایک ’’تغییر الشَّيْبِ“ بھی ہے، یعنی سفید بالوں کو رنگنا۔

دیکھئے سنن ابی داود : ٤٢٢٢ ، سنن النسائی: ٥٠٩۱ وسنده حسن۔

اسی طرح امام ابن ماجہؒ تین مرفوع احادیث سے استدلال کرتے ہوئے درج ذیل باب قائم کرتے ہیں:

” بَابُ مَنْ تَرَكَ الْخِضَابَ“

خضاب ترک کرنے کا بیان۔

(سنن ابن ماجه قبل حديث : ٣٦٢٨)

جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بال نہ رنگنے کے علیحدہ سے دلائل موجود ہیں، جبکہ سیاہ خضاب لگانے کے بارے میں ایک بھی مرفوع حدیث نہیں، لہٰذا خلط مبحث کے ذریعے سے دو کو ایک حکم میں بدلنا مذموم عمل ہے۔ نیز ’’وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ“ سے سلف صالحین نے سیاہ خضاب کی ممانعت ہی مراد لی ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔

تنبیه:
بعض الناس نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے کہ ”اسلاف امت اور محدثین کرام میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت وحرمت کا قائل نہیں ۔“ اس دعویٰ کی حقیقت عیاں ہو چکی ہے، نیز آنے والے صفحات کا مطالعہ کیجیے۔

دليل (۲):
سید نا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((يَكُونُ قَوْمٌ يَخْضِبُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِالسَّوَادِ، كَحَوَاصِلِ الْحَمَامِ ، لَا يَرِيْحُوْنَ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ))

”آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب سے اپنے بال رنگیں گے، جیسے کبوتروں کے سینے ہوتے ہیں۔ وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گے۔“

(سنن أبي داود : ٤٢١٢ ، سنن النسائی : ٥٠٧٨ وسنده صحیح)

’’ اعتراض بعض لوگ اس حدیث پاک سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت پر دلیل لیتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے. اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنی و مفہوم بیان نہیں کیا۔“

ازاله:
مطلق طور پر یہ کہنا کہ اہل علم نے اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت مراد نہیں لی بالکل مردود ہے کیونکہ اہل علم کی ایک جماعت اسے سیاہ خضاب پر ممانعت کی دلیل سمجھتی ہے۔
امام ابن سعدؒ نے اس حدیث پر ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا:

”ذِكْرُ مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ وَأَصْحَابُهُ فِي تَغْيِيرِ الشَّيْبِ وَكَرَاهَةِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ‘‘

(الطبقات لابن سعد ۳۷۸/۱)

یعنی ابن سعدؒ اسے ممانعت کی دلیل سمجھتے ہیں۔

امام نسائیؒ نے بایں الفاظ باب باندها: ’’النهي عَنِ الْـخِـــــابِ بِالسَّوَادِ“ سیاہ خضاب کرنے کی ممانعت۔

(سنن النسائي قبل حدیث: ٥٠٧٨)

جلیل القدر تابعی امام مجاہد بن جبرؒ نے فرمایا:

’’يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَنِ قَوْمٌ يَصْبُغُونَ بِالسَّوَادِ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ أَوْ قَالَ: لَا خَلَاقَ لَهُمْ‘‘

آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگا ئیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہیں دیکھے گا یا فرمایا:

ان کے لیے (آخرت میں کوئی ) حصہ نہیں ہے۔

(جامع معمر بن راشد ١٥٥/١١ وسنده صحيح)

امام ابن ابی خیثمہؒ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’أَنَّهُ كَره الْخِضَابَ بِالسَّوَادِ‘‘

یعنی وہ (ابن ابی رواد ) سیاہ خضاب کو نا پسند کرتے تھے۔

(التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة ١/ ٢٦٣)

امام منذریؒ نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:

’’التَّرْهِيْبُ مَنْ خَضَبَ اللَّحْيَةَ بِالسَّوَادِ“

جس شخص نے داڑھی کو سیاہ خضاب کیا اس کے لیے وعید۔

(الترغيب والترهيب ٨٦/٣)

علاوہ ازیں جمہور محدثین کا اس حدیث کو ”بــاب فـي الخضاب‘‘ وغیرہ کے تحت بیان کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کے نزدیک اس حدیث سے مقصود سیاہ خضاب کی ممانعت ہی ہے نہ کہ کسی قوم کی علامت بتانا۔ جیسا کہ امام ابوداودؒ نے اس حدیث پر:

’’مَا جَاءَ فِي خِضَابِ السَّوَادِ“

کے الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے۔

(سنن أبي داود قبل حدیث : ٤٢١٢)

تنبیه:
جن بعض علماء ومحدثین نے اس حدیث کو کتاب الفتن (السنن الواردة فـي الـفـتـن لأبي عمرو الداني: ۳۱۹) یا اشراط الساعۃ میں نقل کیا ہے، اس سے محض یہ مراد ہے کہ جوں جوں قیامت قریب آئے گی یہ معصیت عام اور زیادہ ہوتی چلی جائے گی، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”بلاشبہ یہ علامات قیامت میں سے ہے کہ علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی (کھلم کھلا) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔“

(صحیح البخاری : ٨٠ ، صحیح مسلم : ٦٧٨٥)

معلوم شد کہ شراب پینے اور زنا کا ارتکاب ہر دور میں ہوتا آیا ہے۔

حافظ محمد بن علی بن الحسن، احکیم الترمذیؒ (متوفی ۳۲۰ھ ) نے اس حدیث کو اپنی کتاب ’’المنهیات‘‘ یعنی ممنوعات شرعیہ میں بیان کیا ہے۔ (ص۱۹۹)

اعتراض:
مشہور محدث، امام ابوبکر ابن ابی عاصمؒ فرماتے ہیں:

اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں۔ اس میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کی نشانی یہ ہوگی۔

(فتح الباری ١٠/ ٤٣٥٤)

ازاله:
واضح نصوص اور سلف کے مفہوم کے بعد ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ ہمارے جیسے ادنیٰ طالب علموں کے لیے یہ تاویل کچھ ادھوری سی ہے! وہ اس طرح کہ قوم کی نشانی تو موجود ہے لیکن اس معصیت و نافرمانی کا ذکر نہیں جس وجہ سے وہ جنت کی خوشبو سے محروم ہوں گے…؟؟

علماء وطلباء پر قرآن و حدیث کا اسلوب واضح ہے کہ عموماً جب کسی قوم کو جنت کی نوید یا عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے تو ساتھ ان افعال محمودہ یا مذمومہ کا ذکر بھی ہوتا ہے جس وجہ سے وہ ان کے مستحق ہوئے ، تاکہ دیگر لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں، مثلاً خارجیوں کی علامات کے ساتھ ساتھ ان کے قبیح اعمال کا تذکرہ بھی کتب احادیث میں موجود ہے، چنانچہ سابقہ صفحات پر مذکور دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس حدیث میں جس قوم کا ذکر ہے وہ کسی اور گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاہ خضاب کی وجہ سے ہی جنت کی خوشبو سے محروم رہے گی۔ والعیاذ بالله

اعتراض:
مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں ، ورنہ ”آخری زمانے‘‘ کی قید کا کیا معنی؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام سے لے کر ہر دور میں موجود رہے ہیں۔“

ازاله:

یہ اعتراض طفل تسلی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ۔ ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ آخری زمانے میں چونکہ اس فعل کی بہتات ہوگی، اس لیے اس کی نسبت آخری زمانے یا قرب قیامت سے کی گئی ہے۔ اس کا یہ معنی قطعاً نہیں کہ پہلے ادوار میں اس فعل کا وجو دسرے سے تھا ہی نہیں۔

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”آخری زمانے میں (ایسے) دجال کذاب ہوں گے جو تمھارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو تم نے (پہلے) سنی ہوں گی نہ تمھارے آباء نے ، لہٰذا تم ان سے دور رہنا کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کر دیں اور تمھیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔“

(صحیح مسلم : ٧)

معترض کا اس حدیث کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ صرف آخری زمانے کے ساتھ خاص ہے؟ ہرگز نہیں، عہد نبوت کے بعد سے لے کر اب تک ہر دور میں ایسے کذاب آتے رہے جو روایتوں کو گھڑ کر لوگوں میں عام کرتے رہے ہیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ، پھر سیاہ خضاب سے متعلق ’’يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ“ کی بنا پر آخری زمانے کے ساتھ خاص ہو اور صحیح مسلم کی حدیث ’’يَكُونُ فِي آخرِ الزَّمَانِ‘‘ کے باوجود عام کیوں؟ جب ان الفاظ کے باوجود یہ ہر دور کو محیط ہے تو سیاہ خضاب سے متعلق حدیث کو مقید کیوں کیا جارہا ہے؟

سلف صالحین اور سیاہ خضاب
جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابیؒ نے نبی کریم ﷺ کے دوسو صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہے۔

السنن الكبرى للبيهقى ١/ ٥٩ وسنده حسن

خالد بن ابی ایوب حسن الحدیث ہیں، انھیں ابن حبان نے ثقہ کہا اور ابن خزیمہ، حاکم اور ذہبی نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

انھوں نے عہد صحابہ میں جو مشاہدہ کیا اس کی روشنی میں فرماتے ہیں:

” هُوَ مِمَّا أَحْدَثَ النَّاسُ ، قَدْ رَأَيْتُ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ مَعَ ، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ يَخْتَضِبُ بِالْوَسْمَةِ مَا كَانُوا يَخْضِبُونَ إِلَّا بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَم وَهَذِهِ الصُّفْرَةِ‘‘

لوگوں نے یہ نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرامؓ) کی ایک جماعت دیکھی ہے ان میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب نہیں لگا تا تھا۔ وہ (صحابہ کرامؓ) تو صرف مہندی اور کتم ( کو باہم ملا کر ) اور اس زرد رنگ سے خضاب لگاتے تھے۔

(مصنف ابن ابى شيبة ٤٣٨/٨ ح ٢٥٥١٦ وسنده صحيح)

اعتراض:
امام عطاء بن ابی رباحؒ نے اپنے علم کے مطابق یہ بیان دیا ہے، جبکہ صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت ہے۔ امام عطاءؒ نے ان صحابہ کرامؓ کو نہیں دیکھا ہوگا جو سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔“

ازاله:
بالکل امام عطاءؒ نے اپنے علم اور مشاہدے کے مطابق ہی بیان دیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سیاہ خضاب کا رجحان نہیں تھا۔ حیرت ہے! تقریباً دوسو کے مقابلے میں تین کو جماعت قرار دے کر جلیل القدر تابعی کی گواہی کو کنارے لگایا جارہا ہے۔ جمہور صحابہ کرامؓ کے مقابلے میں جن بعض صحابہ نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے ہم اسے لاعلمی پر محمول کریں گے کہ ممکن ہے ان تک اس کی ممانعت والی حدیث پہنچی ہی نہ ہو۔ واللہ اعلم

جلیل القدر تابعی امام سعید بن جبیرؒ نے فرمایا:

’’يَكْسُو اللهُ الْعَبْدَ فِي وَجْهِهِ النُّورِ ثُمَّ يُطْفِتُهُ بِالسَّوَادِ‘‘

اللہ تعالیٰ بندے کے چہرے کو پُر نور کرتا ہے تو بندے سیاہ خضاب کے ذریعے سے اس نور کو بجھا دیتا ہے۔

(مصنف ابن ابي شيبة ٤٣٩/٨ ، ح ٢٥٥٢٢ وسنده صحيح)

اعتراض:
’’خضاب بالوں کو لگایا جاتا ہے، چہرے کو نہیں ۔ مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کر لیا ؟ لہٰذا یہ قول نا قابل التفات ہے۔“

ازاله:
یہ اعتراض کسی اہل علم کو زیب نہیں دیتا کیونکہ قرآن وحدیث میں چہرے کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اور جب نیکی بتانا مقصود ہو تو روشن چہرے سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اگر برائی سے متعلق بتانا مقصود ہو تو سیاہ چہرے یا بے نور چہرے کی مثال دی جاتی ہے، چونکہ امام سعید بن جبیرؒ کے نزدیک سیاہ خضاب سے بچنا نیکی اور اسے استعمال کرنا گناہ ہے، لہٰذا انھوں نے قرآن و حدیث والا ہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ قرآن مجید سے اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

((لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(26) ))

’’جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے اچھا بدلہ اور کچھ زیادہ ہے اور ان کے چہروں کو نہ کوئی سیاہی ڈھانچے گی اور نہ کوئی ذلت، یہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“

((وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(27) ))

’’اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں، کسی بھی برائی کا بدلہ اس جیسا ہوگا اور انھیں بڑی ذلت ڈھانچے گی، انھیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں پر رات کے بہت سے ٹکڑے اوڑھا دیے گئے ہیں، جبکہ وہ اندھیری (رات) ہے۔ یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘

(١٠/ یونس : ۲۶ ، ۲۷)

اسی طرح اللہ رب العزت نے فرمایا:

(یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ۫-اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ(106))

’’جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے تو وہ لوگ جن کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا؟ الہٰذا (اب ) عذاب چکھو، اس بنا پر کہ تم کفر کیا کرتے تھے اور رہے وہ لوگ جن کے چہرے سفید ہوں گے، پس وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔‘‘

(۳/ ال عمران : ١٠٦، ١٠٧)

نیز فرمایا:

وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ(22)اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ(23) وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍۭ بَاسِرَةٌ(24)تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌﭤ(25)

’’اس دن کئی چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھنے والے اور کئی چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے، وہ یقین کریں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑنے والی (سختی) کی جائے گی۔“

(٧٥/ القيمة : ٢٢-٢٥)

ان آیات میں غور و فکر کرنے سے امام سعید بن جبیرؒ کے قول کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ

باقی رہا معترض کا یہ کہنا کہ ’’مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کرلیا؟“

تو عرض ہے کہ قطعاً نہیں، کیونکہ معترض کو بھی تسلیم ہے کہ ’’یہ سنت سے بھی ثابت ہے‘‘ اور سنت کی پیروی تو روز قیامت چہرے روشن ہونے کا ذریعہ ہے نہ کہ زرد…. البتہ سیاہ خضاب سنت سے ثابت نہیں ، لہذا امام سعید بن جبیرؒ کا قول قابل التفات ہی ہے۔ تدبر جداً

جلیل القدر تابعی امام مجاہد بن جبرؒ نے فرمایا:

’’يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَنِ قَوْمُ يَصْبُغُونَ بِالسَّوَادِ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ أَوْ قَالَ: لَا خَلَاقَ لهُمْ‘‘

آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہیں دیکھے گا، یا فرمایا:

ان کے لیے (آخرت میں کوئی ) حصہ نہیں ہے۔

(جامع معمر بن راشد ١١/ ١٥٥ وسنده صحيح)

جلیل القدر تابعی امام مکحولؒ نے سیاہ خضاب کو مکر وہ کہا ہے۔

(مصنف ابن ابى شيبة ٤٣٨/٨ ح ٢٥٥١٩ وسنده صحيح)

امام ابوقلابہؒ کا سیاہ خضاب سے رجوع:

بعض الناس نے امام ابوقلابہؒ کو ان تابعین میں شمار کیا ہے جو سیاہ خضاب لگاتے تھے، حالانکہ امام موصوفؒ کا سیاہ خضاب ترک کر دینا ثابت ہے۔ امام خالد بن مہران الحذاء نے فرمایا:

’’كَانَ أَبُو قِلَابَةَ يَخْضِبُ بِالْوَسْمَةِ ثُمَّ تَرَكَهَا بَعْدَ ذَلِكَ‘‘

ابو قلابہؒ (پہلے) سیاہ خضاب لگاتے تھے ، پھر انھوں نے اسے استعمال کرنا چھوڑ دیا۔‘‘

(تهذيب الآثار، الجزء المفقود ص ٤٧٩ وسنده صحيح)

جلیل القدر تابعیؒ کا رجوع اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک سیاہ خضاب مسنون یا مستحب نہیں اور ممکن ہے کہ انھوں نے ممانعت والی حدیث پہنچنے کے بعد ہی اسے ترک کیا ہو۔ واللہ اعلم

امام عبد العزیز بن ابی روادؒ نے فرمایا:

’’الصُّفْرَةُ خِضَابُ الْإِيْمَانِ وَالْحُمْرَةُ خِضَابُ الْإِسْلَامِ وَالسَّوَادُ خِضَابُ الشَّيْطَان‘‘

زرد رنگ ایمان کا خضاب، سرخ رنگ اسلام کا خضاب اور سیاہ خضاب شیطان کا ہے۔

(تاريخ ابن ابي خيثمة ١/ ٢٦٢ وسنده صحيح)

اعتراض:
’’یہ شاذ قول ہے جس میں عبد العزیز کا کوئی سلف نہیں۔“

ازالہ:
یہ شاذ نہیں بلکہ واضح نصوص اور اسلاف کے مفہوم کی ترجمانی ہے کیونکہ ایمان و اسلام کی تعلیم صرف زرد و سرخ خضاب ہے اور سیاہ خضاب سے بچنے کا حکم ہے، چونکہ سیاہ خضاب استعمال کرنا معصیت و نافرمانی ہے اس لیے اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔

ایوب بن النجار کہتے ہیں:

میں نے یحیی بن ابی کثیرؒ کو دیکھا انھوں نے اپنی داڑھی کو پکڑ کر فرمایا:

’’مَا أُحِبُّ أَنِّي سَوَّدْتُهَا وَأَنَّ لِي بِكُلِّ شَعْرَةٍ دِينَارًا‘‘

مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اسے سیاہ خضاب لگاؤں، اگر چہ مجھے ہر بال کے بدلے میں ایک دینار ملے ۔ ایوب فرماتے ہیں:

آپ کی داڑھی سرخ تھی۔

(تهذيب الآثار، الجزء المفقود ص ٤٨٢ ، وسنده صحيح)

محمد بن احمد بن ابی موسیٰ الشریف البغدادیؒ (متوفی ۴۲۸ھ ) کے نزدیک بالوں کو سیاہ کرنا مکروہ ہے۔

(الإرشاد إلى سبيل الرشاد ص ٥٣٤)

سلف کے اقوال و افعال سے متعلق بعض غلط فہمیاں اور ان کا ازالہ

غلط فهمي:
’’ درج ذیل تابعین کرام بھی سیاہ خضاب لگاتے تھے :

ابوبکر، محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب، زہری، مدنی (م : ۱۲۵ھ )

(جامع معمر بن راشد: ١١/ ١٥٥ وسنده صحيح)

ازالہ:
اس روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے کیونکہ عبدالرزاق اسے معمر سے بیان کر رہے ہیں اور عبد الرزاق مدلس ہیں، جبکہ انھوں نے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے، اسے ”و سندہ صحیح“ کہنا اور اپنے موقف میں پیش کرنا درست نہیں۔

غلط فهمی:
’’ابوعبداللہ بکر بن عبد اللہ، مزنی بصری (م :۱۰۶ھ)

الطبقات الكبرى لابن سعد ١٥٨/٧ وسنده صحیح“

ازاله:
امام ابوبکر محمد بن واسع ( ثقه، عابد، کثیر المناقب) نے فرمایا:

’’رَأَيْتُ لحتة.‘‘

’’بكْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِى یصفر لحیتہ‘‘ نے بکر بن عبد الله المزنی کو دیکھا، انھوں نے اپنی داڑھی کو زرد خضاب کیا ہوا تھا۔

(تهذيب الآثار، الجزء المفقود ص ٤٧٤، ٤٧٥ وسنده صحيح)

اس اثر کے بعد دو باتیں واضح ہیں:

❀ امام بکر بن عبد اللہ المزنیؒ نے سیاہ خضاب سے رجوع کر لیا تھا۔

❀ سیاہ خضاب کے راوی زیاد بن ابی مسلم مختلف فیہ بھی ہیں اور اپنے سے اوثق ابوبکر محمد بن واسع کی مخالفت بھی کر رہے ہیں، لہٰذا سیاہ خضاب والی روایت شاذ ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔

غلط فهمی:
’’ قاضی، محارب بن دثار، سدوسی کوفی (م : ۱۱۶ھ )

(مسند على بن الجعد : ٧٢٥ وسنده حسن)

ازاله:
قاضی محارب بن دثارؒ بھی سیاہ خضاب لگانے سے رجوع کر چکے ہیں جس کی دو دلیلیں پیش خدمت ہیں:

مسند علی بن الجعد (٧٢٦ وسندہ حسن)

میں مذکورہ حوالے سے متصل بعد حسان بن ابراہیم ہی نے فرمایا:

میں نے (محارب بن دثارؒ) کی مانگ والی جگہ میں مہندی لگی دیکھی ہے۔

امام سفیان بن عیینہؒ نے فرمایا:

میں نے محارب بن دثار کو عمر رسیدہ حالت میں کوفہ کی مسجد کے ایک کونے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے دیکھا، آپ کی گھنی ، لمبی ( اور سفید ) داڑھی تھی ، آپ خضاب نہیں لگاتے تھے۔

(أخبار القضاة لأبي محمد بن خلف ص ٥٠٧ وسنده صحيح)

تنبیه:
سفید داڑھی کے الفاظ ابن عیینہ کی دوسری روایت سے لیے ہیں۔
دیکھئے حوالہ مذکورہ
۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قاضی محارب بن دثارؒ نے سیاہ خضاب سے رجوع کر لیا تھا۔

غلط فهمى:
’’ ابو خطاب، امام قتاده بن دعامہ بن قتادہ، سدوسی بصری (م: بعد ۱۰اھ ) نے فرمایا:
”عورتوں کے لیے بالوں کو سیاہ خضاب دینے میں رخصت ہے۔ ‘‘

(جامع معمر بن راشد: ۲۰۱۸۲ وسنده صحیح)

ازاله:
رخصت اسی وقت رخصت ہوتی ہے جب عزیمت کا حکم باقی ہو ورنہ وہ رخصت نہیں بلکہ اصل حکم کی ناسخ ہوتی ہے، لہٰذا قائلین سیاہ خضاب کو یہ چنداں مفید نہیں کیونکہ امام قتادہؒ سیاہ خضاب کی ممانعت تسلیم کر کے عورتوں کو رخصت دے رہے ہیں اور یہ رخصت بھی محل نظر ہے کیونکہ سیاہ خضاب مرد و زن دونوں کے لیے یکساں ممنوع ہے جب تک عورتوں کے لیے علیحدہ سے کوئی خاص حکم نہ ہو۔

بعض علماء نے ریشم اور سونے پر قیاس کرتے ہوئے سیاہ خضاب عورتوں کے لیے جائز قرار دیا ہے لیکن یہ اجتہادی سہو ہے اور نصوص و دلائل کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے، نیز امام اسحاق بن راہو یہؒ کی رخصت کا بھی یہی جواب ہے۔
مزید دیکھئے آنے والے صفحات۔

غلط فهمى:
’’ ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف قرشی (م : ۱۰۴/۹۴ھ )
(الطبقات الكبرى لابن سعد ٥ / ١١٩ وسنده صحيح)‘‘

ازاله:
دو علیحدہ علیحدہ گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوفؒ بھی سیاہ خضاب سے رجوع کر چکے تھے۔

محمد بن ہلال کا بیان ہے:

انھوں نے ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن کو دیکھا کہ وہ مہندی لگاتے تھے۔

محمد بن عمرو بن علقمہ وقاص اللیثی کا بیان ہے کہ ابوسلمہؒ مہندی اور کتم (ملا کر اس) سے خضاب لگاتے تھے۔

(الطبقات لابن سعد / ١٥٥ وسنده حسن)

ائمہ دین اور سیاہ خضاب
امام مالکؒ نے فرمایا:

” وَغَيْرُ ذَلِكَ مِنَ الصَّبْغِ أَحَبُّ إِلَيَّ.“

مجھے اس (سیاہ خضاب) کی بجائے دوسرے(مسنون ) رنگ پسند ہیں۔

(موطأ امام مالك ٢/ ٩٤٩)

امام احمد بن حنبلؒ نے سیاہ خضاب کے بارے میں فرمایا:

اللہ کی قسم! مکروہ ہے۔ الوقوف والترجل من مسائل الإمام احمد ص ۱۳۸ وسنده حسن، احمد بن محمد بن ابراهيم بن حازم صدوق كما قال الخطيب عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:

میرے والد محترم نے اپنے سر اور داڑھی پر مہندی لگا رکھی تھی۔

(حلية الأولياء ١٦٢/٩ وسنده صحيح)

امام احمد بن سنان الواسطیؒ نے فرمایا:

’’رَأَيْتُ الشَّافِعِيُّ أَحْمَرَ الرَّأْسِ وَاللَّحْيَةِ ‘‘

میں نے امام شافعیؒ کو سرخ داڑھی اور بالوں میں دیکھا۔ امام ابن ابی حاتم الرازیؒ نے فرمایا:

’’يَعْنِي أَنَّهُ اسْتَعْمَلَ الْخِضَابَ اتِّبَاعًا يلسنة“

یعنی بلاشبہ انھوں نے سنت کی اتباع میں ( سرخ ) خضاب استعمال کیا ہے۔

(آداب الشافعی للرازی ص ٥٩ وسنده صحیح)

نبی کریم ﷺ کا انتخاب
قارئین کرام! ہم سابقہ سطور میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ سیاہ خضاب کا استعمال جائز نہیں اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اب ہم آپ کو اختصار کے ساتھ اس خضاب سے متعلق آگاہی دیں گے جسے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کے لیے پسند فرمایا اور صحابہ کرامؓ نے اسے اختیار کیا ۔ اللہ رب العزت ہر مسلمان کو اتباع رسول ﷺ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ أَحْسَنَ مَا غَيَّرْتُمْ بِهِ الشَّيْبَ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ))

’’بہترین چیز جس سے تم سفید بالوں کا رنگ بدلو، مہندی اور کتم کا آمیزہ ہے۔‘‘

(سنن أبی داود : ٤٢٠٥ ، سنن الترمذي :١٧٥٣ ، سنن النسائی : ٥٠٨١ وسنده صحیح)

نبی کریم ﷺ کا عمل :
عثمان بن عبد اللہ بن موہبؒ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلمہؓ نے ہمیں نبی ﷺ کے چند بال نکال کر دکھائے جن پر خضاب لگا ہوا تھا۔

(صحیح البخاری : ٥٨٩٧)

ابن موہبؒ سے مروی ہے کہ سیدہ ام سلمہؓ نے انھیں نبی ﷺ کا بال دکھایا جو سرخ تھا۔

(صحیح البخاری : ٥٨٩٨)

سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا عمل :
عقبہ بن وساجؒ سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالکؓ نے فرمایا:

جب رسول الله ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ کے ساتھیوں میں سے ابوبکر الصدیق بلال عمر رسیدہ تھے اور وہ مہندی اور کتم ( ملا کر ) خضاب لگاتے تھے، یہ بار بار کرتے حتی کہ اس کا رنگ خوب گہرا ہو جاتا۔ عقبہ نے کہا:

پھر میں دوسرے دن انس سے ملا اور ان سے پوچھا:

کیا آپ نے کہا تھا:

”حتی کہ وہ سیاہ ہو جاتے ؟“

تو انسؓ نے فرمایا:

میں نے سیاہ کا ذکر نہیں کیا۔

(تهذيب الآثار، الجزء المفقود ص ٤٦٣ وسنده صحيح)

سید نا عمرؓ کا عمل :
سیدنا انس بن مالکؓ نے فرمایا:

’’ وَقَدْ خَضَبَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ بِالْحِنَّاءِ والكتم‘‘

ابوبکر وعمرؓ مہندی اور کتم ( ملا کر ) خضاب لگاتے تھے۔

سیدنا انس بن مالکؓ کا عمل :
(صحیح مسلم: ٢٣٤١)

اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں:

’’رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكِ يَخْضِبُ بِالْحِنَّاءِ‘‘

میں نے انس بن مالکؓ کو دیکھا، آپ بالوں کو مہندی سے خضاب کرتے تھے۔

(اتحاف الخيرة المهرة ٥٤٣/٤ وسنده صحيح)

طوالت کے خوف سے انھیں آثار پر اکتفا کیا جاتا ہے کیونکہ جو نکتہ ہم قارئین کو سمجھانا چاہتے ہیں وہ اس سے واضح ہو جاتا ہے۔ والحمد لله

آخری گزارش:
قارئین کرام! ہم پورے شرح صدر سے لکھ رہے ہیں کہ احادیث صحیحہ اور فہم سلف صالحین سے سیاہ خضاب کی ممانعت ہی ثابت ہورہی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ یادر ہے جو لوگ خود ایسی کشمکش کا شکار ہوں کہ سیاہ خضاب کی ممانعت کبھی ان کے نزدیک استخباب پر محمول ہو تو کبھی کراہت پر … ان کے الحاصل‘ سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ جو مستحب ہے وہ مکروہ نہیں اور جو مکروہ ہے وہ مستحب نہیں۔ ایک صاحب نے تقریباً میں صفحات اس موضوع پر لکھے ہیں، بالآخر پورے مضمون کا نچوڑ آخری سطر میں یوں واضح کرتے ہیں: "سیاہ خضاب کو زیادہ سے زیادہ مکر وہ کہا جاسکتا ہے !!! تو عرض ہے کہ ممنوعات و مکروہات اگر اس لیے بیان کیے جائیں کہ لوگ انھیں پڑھ کر ان سے اپنا دامن بچا ئیں گے تو یہ لائق تحسین ہے، لیکن اگر ان کی تبلیغ شروع کر دی جائے تو پھر ایسے حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

وما علينا الا البلاغ

۔
 
Top