• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے کثرت روایت پر اعتراضات کی حقیقت

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے کثرت روایت پر اعتراضات کی حقیقت

تحریر: ابوبکر قدوسی

انکار کا کیا ہے وہ تو لوگ اللہ کا بھی کر گزرے ، اور اعتراض کا کیا ہے ، وہ تو نبیوں پر بھی کیا گیا -
سیدنا ابو ہریرہ پر کثرت راویت حدیث کے سبب ایک طبقہ اعتراض کرتا ہے -
جو احترام کرتے ہیں ان کو بھی یہ خدشہ ہوتا ہے کہ حضرت بھول بھال بھی جاتے ہوں گے ، غلطی کا صدور بھی ہوتا ہو گا - ظاہر ہے زیادہ جو بیان کرتے تھے -
ایک اعتراض یہ آتا ہے کہ آپ چار برس قبل تو نبی کریم کی خدمت میں آئے ، اس میں سے بھی ایک برس آپ گورنر بن کے چلے گئے - اور ان تین برسوں میں یہ ہزاروں احادیث کیونکر بیان ہو گئیں -
ایک اعتراض سیدنا عبد اللہ بن عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے -
ایک سیدہ عائشہ کے حوالے بھی بیان کیا جاتا ہے -

یہ اعتراضات کرنے والے تین طبقات ہیں :

ایک وہ جو سن سنا کے ، کسی کا پڑھ پڑھا کے اعتراض جڑنے والے ہیں - خود ان کی کوئی تحقیق ، نہ ایسی تحقیق تک پہنچ ہوتی ہے -
بس شوق ہوتا ہے کہ کچھ نیا ہو ، ہٹ کے بات کی جائے -
ایسے دوست کسی کی لکھی بات کو مستعار لے کے اپنی دانش وری بگھارتے ہیں -

دوسرا گروہ وہ جو ان معاملات کی گہرائی کو سمجھتا تو ہے ، لیکن اندر انکار حدیث اور استخلاف حدیث سانپ بن کے کنڈلی مارے بیٹھا ہوتا ہے ، اور بوقت ضرورت پھنکارتا ہے

تیسرا گروہ مستشرقین کا ہے ، جس کا بنیادی مقصد ہی ذخیرہ حدیث کو مشکوک ٹہرانا ہے -

سیدنا ابو ہریرہ پر اعتراضات کو ہوا دینے میں ایک بڑا نام گولڈ زیہر کا ہے -
جس نے خاص طور پر کھیتی کے کتے کو پالنے والی حدیث کو بیان کر کے بہت " مہارت " کے ساتھ اس شک کو پیدا کیا -

ان اعتراضات کی حقیقت کچھ بھی نہیں - کوئی بھی اگر معمولی سا غور فکر کرے تو اس کو اصل معاملہ سمجھ آ جائے گا -

پہلا اعتراض کہ بندہ بھول بھی تو سکتا ہے ، اتنی باتیں کس طرح ممکن ہے یاد رکھنا ؟؟

اس پر ہم آخر میں بات کریں گے کہ "باتیں " یعنی حدیثیں تھیں کتنی ، جن کا شور کیا جاتا ہے - لیکن پہلے بھولنے کی بات اور یہ کہ کیا اتنا یاد رکھنا ممکن ہے؟ -

عالم اسلام میں اس وقت ہر سو ، بھلے عجم ہو یا عرب ، حفاظ قران بکھرے پڑے ہیں -

آپ مجھے بتائیے کہ اگر میں کہوں کہ لاکھوں میں نہیں "میلینز" میں حفاظ موجود ہیں تو کیا غلط ہو گا ؟

حفاظ قران کو رمضان میں مسجد خالی نہیں ملتی - تو جب لاکھوں بچے ، بڑے قران کی ایک ایک آئت یاد رکھ سکتے ہیں ، ایک ایک حرف ، ایک ایک حرکت یعنی زیر زبر ان کی نظر میں ہوتی ہے - کوئی غلطی کرے ، صرف زبر زیر کی غلطی ، لفظ تو بڑی بات ہو گی - جی ہاں صرف ایک زیر یا زبر کی غلطی بھی کر لے تو اس کا بچ کے جانا ممکن نہیں -

تو سیدنا ابو ہریرہ کی بیان کردہ احادیث اس قران کی آیات سے تو زیادہ نہیں جناب - اور جب سیدنا ابو ہریرہ کی زندگی کا بنیادی مقصد ہی آپ کی باتیں سننا ، یاد رکھنا اور محفوظ کرنا تھا - جب بندہ کسی خاص مقصد کو سامنے رکھ کے کام کرے تو اس کی کارکردگی بہت بڑھ جاتی ہے -

پھر یہ بھی کہ سیدنا ابوہریرہ کو نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم کی خصوصی دعا بھی تھی - کم از کم مسلمان ہوتے ہووے آپ اس دعا کو کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں ؟

بندے کی گواہی بندے کے اپنے حق میں قبول نہیں ہوتی ، لیکن دوسرے کی گواہی کا آپ کس طرح انکار کر سکتے ہیں ؟

لیجئے یہ واقعہ پڑھیے اور غور کیجئے کہ دعائے رسول نے کس طرح اپنے اثرات دکھائے اور ہم تک پہنچے :

سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
"ہم مسجد میں بیٹھے ذکر و فکر میں مشغول تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے ۔ (ہم جو رک گئے تو )
فرمایا اپنا کام جاری رکھو ۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے دعا کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری دعا پر آمین کہی -
پھر ابوہریرہ نے یہ دعا کی:

"انی اسئلک مثل ما سال صاحباک واسالک علما لاینسی"
کہ اے اللہ میں اس چیز کا سوال بھی کرتا ہوں جس کا میرے ساتھیوں نے کیا اور مزید مجھے ایسا علم عطافرما جو کبھی نہ بھولے ۔
فقال رسول اللہ آمین فقلنا یارسول اللہ ونحن نسالک علما لاینسی فقال سبقکم بھا الغلام الدوسی"
تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین فرمائی -
اس پر ہم نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم بھی اللہ سے ایسے ہی علم کا سوال کرتے ہیں جو کبھی نہ بھولے -
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوسی[اشارہ ابو ہریرہ کی طرف] تم دونوں سے سبقت لے گیا۔


(الاصابۃ ج4ص2391،سیراعلام النبلاء ج3ص522)

دیکھئے یہ روایت سیدنا ابوہریرہ نہیں بیان کر رہے ، دوسرے صحابی کا بیان ہے - اور جس دعا پر خاتم النبین آمین کہیں ، اور بشارت بھی دیں کہ ابو ہریرہ بازی لے گئے ..کیا اس کی قبولیت میں کوئی شک ہو سکتا ہے ؟
میں تو کہتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ " دوسی تم پر سبقت لے گیا " اصل میں ایک لطیف اشارہ بھی ہے کہ قبولیت ہو گئی -
...................

اسی طرح سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لا اشک ان اباہریرۃ سمع من رسول اللہ مالم نسمع (الاصابۃ ج4ص2391)
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابوہریرہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ احادیث سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں۔

یہی روایت قدرے تفصیل کے ساتھ مستدرک حاکم میں ان الفاظ کے ساتھ ہے :
"اللہ کی قسم ، بے شک انہوں نے رسول اللہ سے وہ سنا جو ہم نے نہیں سنا ، اور انھیں وہ کچھ معلوم ہوا جو ہمیں معلوم نہ ہو سکا - بے شک ہم مال دار لوگ تھے - ہمارے گھر اور کنبے تھے - ہم اللہ کے نبی کے ہاں صبح شام حاضر ہوتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے - ابو ہریرہ مسکین آدمی تہے نہ ان کا مال تھا نہ کنبہ نہ اولاد - ان کا ہاتھ نبی کریم کے ہاتھ کے ساتھ تھا جہاں کہیں آپ تشریف لے جاتے آپ بھی ساتھ ساتھ ہوتے - ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ یقینا انہوں نے وہ کچھ جانا جس کا ہمیں کوئی علم نہ تھا - اور انہوں نے وہ سنا جو ہم نے نہ سنا - ہم میں سے کسی ایک نے بھی ان پر یہ تہمت نہ باندھی کہ انہوں نے رسول اللہ سے کچھ ایسا منسوب کیا کہ جو نبی کریم نے نہ بیان کیا ہو "(المستدرک الصحیحین ٥١٢، ٥١٣ /٣ )

اسی طرح امام احمد سیدنا ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ کو مخاطب کر کے فرمایا :

"اے ابو ہریرہ آپ رسول اللہ کے ساتھ ہمارے سے زیادہ چمٹنے والے تھے ، اور ان کی حدیث ہم سے زیادہ جاننے والے تھے "(لمبی حدیث ہے ، جس کا آخر میں نے ذکر کیا )

خود سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ :

”لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے۔بات یہ ہے کہ میں اپنا پیٹ بھر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتا تھا نہ لذیذ کھانے مجھے نصیب تھے نہ عمدہ کپڑا،نہ میرا کوئی خادم اور نوکر تھا،جب بھوک ستاتی تو میں پیٹ کے بل کنکریوں پر الٹا لیٹ جایا کرتا تھا۔” (بخاری )

اس قول سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو نبی کریم کی محفل میں رہنا ، آپ کے ایک ایک لفظ کو سننا ، یاد رکھنا اور محفوظ کرنا کس قدر پسند تھا - آپ ہم پیچھے بیان کر چکے کہ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے خیر دی تھی ، اور ہمار ایمان ہے کہ آپ کی اس دعا کی برکت سے آپ کا حافظہ بہت مضبوط ہو گیا ..

امام ذھبی آپ کی قوت حفظ بارے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار مروان بن حکم نے آپ کو آزمانا چاہا اور بلا بھیجا - آپ تشریف لے آئے اسی بیچ مروان نے اپنے کاتب أبو الزعيزعة کو اپنے تخت کے پیچھے چھپا کے بٹھا دیا - کاتب أبوالزعيزعة کہتے ہیں کہ :

"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں بیان کرتے رہے اور میں لکھتا رہا۔ مروان نے پھر سال کے شروع میں حضرت ابو ہریرہ کو دوبارہ بلوایا اور مجھے پردہ کے پیچھے بیٹھا یا آپ رضی اللہ عنہ سے وہی احادیث دوبارہ سنانے کی فرمائش کی - آپ رضی اللہ عنہ نے اسی ترتیب سے سنائیں ، کوئی کمی تھی نہ زیادتی، مقدم کو موخر کیا نہ موخر کو مقدم " (سیر اعلام النبلاء ج3ص522)

ممکن ہے کسی کو یہ واقعہ عجیب لگے ، لیکن آج بھی ایسی مثالیں مل جاتی ہیں -

ایک اور اہم بات یاد رکھیے کہ جب کوئی طالب علم حصول علم کو اپنی زندگی حاصل بنا کے کلاس میں بیٹھتا ہے تو اس سی توجہ استاد کی طرف کسی کی نہیں ہوتی - اور آپ سیدنا کا بیان پڑھ چکے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد ہی آپ کا ایک ایک لفظ سننا تھا - ......

سیدنا ابو ہریرہ کو علم کے حصول کا کیسا شوق تھا اس کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے -

بخاری میں روایت ہے کہ ایک بار سیدنا نے نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم سے پوچھا کہ :
"لوگوں میں آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟"
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم نے فرمایا :
"میرا گمان بھی یہی تھا کہ لوگوں میں تم سے پہلے یہ سوال مجھ سے کوئی نہیں کرے گا -
کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ تم میں حدیث سننے کی طلب سب سے زیادہ ہے "

سو اس شوق کا سبب ہے کہ آپ کے پاس نبی کریم کی احادیث دوسروں سے کہیں زیادہ جمع ہو گئیں -
امید ہے کہ آپ سیدنا ابو ہریرہ کی کثرت روائیت کے پس منظر کو سمجھ گئے ہوں گے -
اب ہم آتے ہیں ان کی روایات کے تجزیے کی طرف - اور یہاں آپ کو جب حقائق سے آشنائی ہو گی تو آپ حیرت کے سمندر میں اتر جائیں گے -

سوال یہ ہے کیا سیدنا ابو ہریرہ واقعی ایسی کثرت سے روایت کرتے تھے کہ ان کا ثانی کوئی نہ تھا ؟

ایسا بالکل نہیں ہے - دوسرے بہت سے صحابہ بھی ایسے ہیں کہ جن کی روایات خاصی زیادہ ہیں گو آپ کے برابر نہیں پہنچتیں -
خود سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے تھے کہ:
" ان کے پاس نسبتا زیادہ روایات جمع تھیں ، کیونکہ وہ لکھ لیا کرتے تھے جب کہ میں لکھتا نہیں تھا "
سوال یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ کی روایات ایسی منفرد تھیں کہ کسی نے نہ کی ہوں ؟
اس کا جواب بھی آپ کو حیرت میں مبتلا کر دے گا

- سیدنا ابو ہریرہ کی کل روایات کی تعداد ٥٣٧٤ ہے

- اس میں سے مکرارت کو حذف کر دیجیے جن کی تعداد ٤٠٧٤ ہے
-
مکرارت کو آپ آسان الفاظ میں کہہ لیں کہ جو حدیث مختلف سند کے ساتھ ، دوبارہ کسی مقام پر آئے - یعنی آپ نے ایک حدیث بیان کی، آپ سے آگے دس افراد نے بیان کی توعلم حدیث میں اس کو دس احادیث کہا جائے گا حالانکہ وہ ایک حدیث ہی ہو گی -
اب آپ نے تکرار کو سمجھ لیا ؟
تو جناب بخاری کی کل حدیثیں ساڑھے سات ہزار سے زائد ہیں ...
اب ان ساڑھے سات ہزار میں مکرارت کو حذف کر کے سیدنا ابوہریرہ کی احادیث صرف تین سو چودہ ہیں ...
اب بتائیے کہاں گئی کثرت روایات ؟
آپ ہمارے ساتھ ساتھ چلیے ...
سفر کچھ باقی ہے -
بخاری کو شامل کر کے باقی کتب حدیث میں ہم ذکر کر چکے کہ
سیدنا ابوہریرہ کی روایات کی تعداد ٥٣٧٤ ہے ..
اس میں سے مکرارت کو حذف کیجئے ..
ہر حدیث کے متن کو ایک بار گنتی کیجئے ..
لیں
سیدنا ابو ہریرہ کی حدیثوں کی تعداد سامنے آ رہی ہے -
جی مکرارت ہم اوپر لکھ چکے کہ ٤٠٧٤ ہیں -
تو جناب اس کے بعد " صافی " احادیث رہ جاتی ہیں ١٣٠٠
جی برداران ! محض تیرہ سو ، جن کو ایک ہزار تین سو بھی بولتے ہیں ...
کیسی حیرت کی بات ہے محض تیرہ سو اور جھگڑا کتنا کھڑا کیا ہوا ہے لوگوں نے -
اور ان تیرہ سو احادیث میں آپ کے لیے مزید حیرت کا پہاڑ موجود ہے - وہ یہ کہ ان میں سے تقریبا ساڑھے بارہ سو کے قریب احادیث کسی نہ کسی مقام پر ، کسی دوسرے صحابی سے بھی مروی ہیں -
یہاں یہ لکھ دوں کہ ضروری نہیں کہ اس کے الفاظ حرف حرف ایک ہوں اگر مفھوم مگر ایک ہی رہے - کیونکہ محدثین کے ہاں احادیث کی حفاظت میں اصل مقصود مفھوم کی حفاظت ہے
اور روایت بالمعنی جائز ہے ،
ہاں اگر الفاظ بھی محفوظ ہوں تو سونے پر سہاگہ ہے -
یہاں رک کے ایک بات مزید "سمجھاتا " چلوں - دوستو تیرہ سو احادیث آپ نے روایت کیں ،
جو اکثر کسی نہ کسی اور صحابی سے بھی مروی ہونا ہم لکھ چکے -
یہ آپ کے شاندار اور جان دار حافظے کی دلیل ہے - اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ کے حافظے کے لیے کی گئی دعا کی قبولیت کی بین دلیل - کہ جو روایات مختلف صحابہ اپنی اپنی جگہ روایت کر رہے ہیں ،
وہ آپ بھی روایت کر رہے ہیں -
میرے منکرین حدیث " بھائیوں "
کی فہم کمزور ہے
،بات بہت کھول کھول کے لکھنا پڑتی ہے -
جناب ایسی روایات جن کو صرف سیدنا ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں ان کی تعداد بیالیس رہ جاتی ہے .....
یعنی ذخیرہ حدیث میں صرف بیالیس حدیثیں ایسی ہیں کہ جن کو آپ کے علاوہ کوئی دوسرا روایت نہیں کرتا -
اب یہاں میں ایک اہم پہلو کی طرف آپ کو لے جاتا ہوں کہ ان تیرہ سو احادیث میں بہت سی ایسی بھی ہوں گی
کہ جو ضعیف ہیں اور جن سے ہم استدلال نہیں کرتے لیکن "احباب کی خوشی " کے لیے ہم ان کو بھی شمار کرتے ہیں -
تو برادران ان تیرہ سو احادیث کو آپ کے قیام مدینہ کے ایام پر تقسیم تو کیجئے -
آپ نبی کریم کے پاس چار برس رہے ،
ان میں سے ایک سال آپ یمن کو نکل گئے -
باقی بچے تین برس .... تین برس کے دن ہوتے ہیں قریب گیارہ سو .......
تو گیارہ سو دن
ایک صاحب اپنے صاحب ذی وقار کے ساتھ رہے ،
ان کی ہر بات پر کان لگائے رکھے ،
ان کی ہر ہر جنبش لب کو آنکھوں سے لگایا -
ایک ایک بات کو دل میں چھپایا ....
تو کیا اس محبت و عقیدت کا حاصل ایک دن کی ایک حدیث بھی نہ بنی ؟
کچھ تو خوف خدا کیجئے کہ اعتراض کرنے میں بھی حیاء دامن گیر کیوں نہیں ہوتی -
کہ جو ان اعداد و شمار کے بعد بھی آپ پر حدیث وضع کرنے کا گھٹیا الزام لگاتے ہیں -
مجھے یاد ہے کہ ایک ایسی ہی رات میں ایک فیس بکی قاری صاحب نے ایسا الزام لگایا تھا
اور کچھ دیر میں بھاگ لیے اور دلیلٹ کر دیا - ایسے لوگوں کو یہ خبر نہیں کہ ان کا الزام ایسے تمام صحابہ پر آ جاتا ہے جو وہی روایت مختلف الفاظ یا انہی الفاظ سے کرتے ہیں -
اور ایسی روایات سیدنا ابو ہریرہ کی پاک بازی کی علامت ہیں -
اصولی طور پر بحث کا محور وہی روایات ہونی چاہئیے
جو پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں -
لیکن ہم نے صحیح ضعیف کو شامل کر کے یہ حساب کیا ہے -

یہ کہہ کے رخصت کہ :

لاکھ ستارے ہر طرف ، ظلمت شب جہاں جہاں۔۔۔
اک طلوع آفتاب ، دشت چمن سحر سحر
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
راوی اسلام، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

صفہ کا چبوترہ اسلامی تاریخ کا وہ عظیم القدر مقام ہے۔ جس نے وحی الٰہی کی کرنوں کو چہار دانگ عالم میں نہ صرف پھیلایا، بلکہ ان کرنوں کی آب و تاب اور ضیاء پاشیوں نے شرک کے اندھیروں کو دفاعی قدم لینے پر مجبور کردیا۔ توحید کی ضو پھیلی تو شرک و کفر کے ایوانوں کو اپنا آپ لرزتا ہوا محسوس ہوا، یہ آقائے کریمﷺ کے مبارک لفظوں کی تقسیم گاہ تھی، جہاں تقوی و للہیت اور محبت رسول کے بھاو پر شریعت کا اصلی فہم بانٹا جاتا تھا۔

یوں تو اس چبوترے کے تمام طلبہ اپنی مثال آپ ہیں، لیکن دوس قبیلے کے غریب الدیار، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس درس گاہ کا پوزیشن ہولڈر طالب علم مانا جاتا ہے۔ علم کی جو حرص آپ کو عطا کی گئی تھی، کسی دوسرے کے نصیب میں نہیں آئی، اسی لئے تو پیمبر علیہ السلام فخر سے کہا کرتے تھے، ابو ہریرہ مجھے معلوم تھا کہ یہ سوال سب سے پہلے آپ پوچھیں گے۔(1)

کملی والے کے ہاتھوں پر بیعت کی پھر وہیں کے ہورہے، دو وقت کا کھانا مل جاتا تو کھا لیتے، کئی دفعہ فاقہ کاٹ لیتے، کھانا چھوڑ دیتے تھے مگر آقا کی حدیث نہیں چھوڑتے تھے۔ پھر رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد دنیا نے انہیں محدث مدینہ کے طور پر جانا۔

رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد پچاس برس تک زندرہ ہے اور حلقہ حدیث قائم کئے رکھا۔ اپنی پوری زندگی بیان حدیث اور عمل حدیث کے لئے وقف کردی۔ آپ کی کل روایات تقریبا اٹھارہ سو بنتی ہیں، مکررات کو حذف کر کے دیکھیں تو 1475رہ جاتی ہیں اور ان میں سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں، وہ تقریبا935 یا اس سے کچھ آگے پیچھے ہیں۔

رسول اللہﷺ کے کسی دوسرے صحابی نے اس تعداد میں روایات بیان نہیں کیں۔ کسی کی روایات تین سو، چار سو، پانچ سو، چھ سو، یا حد ساڑھے چھ سو تک گئی ہیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان سے سبقت لے گئے ہیں۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

یہ وہ میدان ہے، جہاں بڑے بڑے صحابہ ان تک نہیں پہنچ پاتے ہیں اور یہی وہ امتیاز ہے جو عرصہ دراز سے اسلام کے دشمنوں کو کھٹکتا چلا جاتاہے۔

تو یہ اعتراض پر اعتراض اٹھانے لگتے ہیں۔ اجی نبی کے ساتھ دو سال رہنے والے نے پانچ ہزار روایات کیسے بیان کر لیں؟ حالاں کہ ان دین و عقل سے جاہل دشمنوں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات پانچ ہزار نہیں ہیں، جن محدثین نے پانچ ہزار روایات کا ذکر کیا ہے تو وہ سندوں کے اعتبار سے کیا ہے۔

مثلا ایک حدیث کی پچاس سندیں ہیں تو محدثین ان کو پچاس حدیثیں گنتے ہیں، اس طرح پانچ ہزار تک ان کی روایات پہنچتی ہیں،یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہیں۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے ساتھ 1400 دن رہے ہیں اور ان میں دو سو جمعے بھی آتے ہیں۔ تو کیا جو چودہ سو دن آقا کے ساتھ رہا ہو، وہ 950 احادیث بھی نہیں سنے گا؟

پھر آپ سبھی روایات رسول اللہ ﷺ سے بیان نہیں کرتے بلکہ دیگر صحابہ سے سن کر بھی بیان کرتے ہیں، یہ آپ کی علم سے حد درجہ محبت تھی۔
اسی طرح آپ کی تمام روایات پر دوسرے صحابہ نے متابعت کر رکھی ہے۔ ایسا نہیں کہ 950 حدیثیں صرف سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہی بیان کی ہیں، بلکہ ایسا ہے کہ وہ روایات دیگر صحابہ نے بھی بیان کر رکھی ہیں۔ صرف 110 احادیث ایسی ہیں جو آپ نے بیان کی ہیں اور ان کا تعلق زیادہ تر فضائل، شمائل یا اس قسم کے معاملات کے ساتھ ہے۔ فلہٰذا کج فہموں کا یہ اعتراض بجائے خود ختم ہوجاتا ہے کہ اتنی کثرت سے روایات کیسے بیان کر لی گئی ہیں۔

ذہین اور حریص اتنے کہ روایت حدیث میں سب کے امام بن گئے اور عمل حدیث کا جذبہ اس انتہاء کو پہنچا ہوا کہ اتباع حدیث مقام عشق پر کھڑا دکھائی دیتاہے ، بقول اقبال، عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی !

فرماتے تھے :
عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثٍ، لَا أَدَعُهُنَّ أَبَدًا: «لَا أَنَامُ إِلَّا عَلَى وِتْرٍ، وَفِي صَلَاةِ الضُّحَى، وَصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ»
'' رسول اللہﷺ نے مجھ سے تین وعدے لئے تھے تو میں ان کو کبھی نہیں چھوڑوں گا، وتر پڑھ کے سویا کروں گا، نماز عید الاضحی ادا کیا کروں گا اور ہر مہینے تین روزے رکھتا رہوں گا۔(2)''

ابو عثمان نہدی کہتے ہیں :

میں سات دن تک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان رہا، آپ نے اپنی بیوی اور خادم کے ساتھ مل کر رات کے تین حصے کر رکھے تھے۔ ایک نماز پڑھتا تو دوسرے کو جگا دیتا، پھر دوسرا پڑھ لیتا تو تیسرے کو جگا دیتا ، میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ روزہ کیسے رکھتے ہیں؟ فرمایا : ہر ماہ تین روزے رکھ لیتا ہوں۔(3)

گویا کملی والے کے وعدے کو پلے باندھ لیا۔ آقا نے فرمایا :
جو مدینے کی بیماری اور شدت پر صبر کرے گا، میں قیامت میں اس کی شفاعت کردوں گا۔؛؛(4)

محبوب کی شفاعت کی ہڑک اٹھی اور تمام عمر مدینے میں گزار دی۔
آقا سے پوچھا کہ میری محبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا : ماں ہے۔ تو ماں کی محبت کا حق ادا کردیا۔ فرمایا کرتے تھے :
قسم اس ذات پاک کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر جہاد فی سبیل اللہ، حج اور ماں کے ساتھ نیکی کا خیال نہ ہوتا آقا کی حدیث کا تقاضہ پورا کرتے ہوئے ، میں بہ طور غلام فوت ہوتا۔''
راوی حدیث کہتے ہیں : ہمیں کسی نے بتایا کہ جب تک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کی ماں زندہ رہیں، آپ نے اس وقت تک حج ادا نہیں کیا۔(5)

ایک شخص کے سامنے حدیث بیان کی تو وہ مثالیں بیان کرنے لگا، فرمایا:
«إِذَا حَدَّثْتُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَلَا تَضْرِبْ لَهُ الْأَمْثَالَ»
(6) جب رسول اللہﷺ کی حدیث آجائے تو پھر اس کے مقابلے میں مثالیں بیان نہ کیا کرو۔''

ابو رافع نے آپ کی اقتداء میں عشاء کی نماز ادا کی، آپ سورت انشقاق کے سجدے میں چلے گئے، ابو رافع نے پوچھا یہ سجدہ کیا ہوا؟ فرمایا : ابو القاسم محمد رسول اللہﷺ کے پیچھے میں نے نماز پڑھی تھی تو آپ نے یہاں سجدہ کیا تھا، تب سے میں اس سورت کا سجدہ کرتا چلا آرہا ہوں۔(7)

امامین جعفر صادق اور باقر کرتے ہیں، ابو رافع نے آپ کو جمعہ کے دن سورت جمعہ اور سورت منافقون کی تلاوت کرتے دیکھا، عرض کیا : ابوہریرہ ! آپ بھی یہی سورتیں پڑھتے ہیں، جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ بھی یہی سورتیں پڑھا کرتے تھے، تو فرمایا : میں نے کملی والے کو یہ سورتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔(8)

حدیث کے راوی جعفر صادق سے یاد آیا، کچھ کمبختوں کو اہل بیت نبی کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے محبت راس نہیں آئی ، تو انہوں نے ایک عجیب روایت گھڑ لی۔ چنانچہ شیعہ کتب میں یہ روایت وارد ہوئی ہے ۔ جعفر بن محمد بن عمارہ نامی کوئی بدبخت جعفر صادق علیہ الرحمہ پر جھوٹ باندھتا ہے، کہتا ہے انہوں نے کہا :
''تین لوگ رسول اللہﷺ جھوٹ بولا کرتے تھے، ابو ہریرہ ، انس بن مالک اور ایک خاتون، اس سے مراد وہ امی عائشہ لیتاہے۔ نعوذ باللہ ﷺ! '' (9)

لیکن خود شیعہ اصولوں پر بھی یہ روایت پوری نہیں اترتی ہے۔اس کا راوی
محمد بن ابراہیم بن اسحاق طالقانی مجہول ہے۔
جعفر بن محمد بن عمارہ مجہول ہے۔
محمد بن عمارہ مجہول ہے۔

گویا رب کریم نے ان لوگوں سے پہچان ہی چھین لی ہے جو نبی کے صحابہ اور آپ کے پیاروں کے درمیان نفرت کی خلیج حائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جھوٹ باندھنے والوں کو بھی یاد نہیں رہا کہ وہ ان لوگوں کے حق میں کوئی کلمہ توثیق ہی بول دیں۔

اللہ نے جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حدیث کی محبت اور غیرت اتنی عطا کی تھی کہ کسی کی پرواہ کئے بغیر حق سچ ادا کر دیا کرتے تھے۔ مروان بن حکم کے یہاں گئے تو اس نے تصویریں لٹکا رکھی تھیں، تو اسے ڈانٹ دیا۔(10)

صحابہ نے آپ کے حلقہ درس میں بیٹھ کر احادیث یاد کیں، راوی حدیث بیان کرتے ہیں :
'' میں آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا تھا اور اٹھارہ کے قریب صحابہ بھی آپ کی مجلس میں موجود تھے۔ آپ ان کو احادیث بیان کرتے جاتے تھے، کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ کوئی صحابی اس حدیث کو نہیں جانتا ہوتا تھا، وہ دیگر لوگوں کی طرف دیکھتاتواسی مجلس سے کئی صحابہ کہہ دیتے ہاں یہ حدیث رسول اللہﷺ ہی کی ہے۔ راوی کہتے ہیں : مجھے اس دن علم ہوا کہ ابوہریرہ رضی اللہ اس روئے زمین پر حدیث رسول کے سب سے بڑے حافظ ہیں۔(11)

مالک بن ابی عامر سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص آگیا، کہنے لگا : یہ یمانی آپ سے زیادہ عالم ہے؟ ایسی روایات بیان کرتا ہے جو آپ نے بیان نہیں کی ہیں، تو سیدنا طلحہ تڑپ اٹھے۔ فرمایا : اللہ کی قسم ! اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابوہریرہ نے آقا سے وہ سنا ہے جو ہم نہیں سن پائے۔ ہم گھربار بال بچوں والے لوگ تھے۔ دن کے کسی حصے میں رسول اللہﷺ کے پاس آتے اور ابوہریرہ مسکن تھے، گھر بار تھا کوئی نہیں، سارا دن پیمبر سے چمٹے رہتے، سو انہوں نے وہ سب آقا سے سن لیا، جو ہم نہیں سن پائے۔ ہم صحابہ میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو حدیث رسول کے بیان میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر کوئی شک کرتا ہو۔(12)

مروان کو جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظہ دیکھنے کا شوق ہوا، یہ قصہ مروان کے کاتب نے بیان کیا ہے، کہتاہے : مروان نے آپ کو بلوا کر آپ سے کچھ احادیث کے متعلق سوال کئے، میں نے پردے میں چھپ کر وہ سب لکھ لئے۔ ایک سال گزرا کہ پھر بلوایا گیا،پھر وہی سوال کئے گئے، قسم اللہ کی، کوئی ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہیں کیا، بلکہ اسی طرح سنا دیا۔''(13)

مروان کے کاتب تک اس کی سند صحیح ہے۔یہ نبی کی دعاوں کا اثر تھا، جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لئے مانگی گئی تھیں۔
میرے آقا کا یہ نرالا شاگرد از وال تا آخر اسلام دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہے گا ۔ آپ اس سے بھی اندازہ کیجئے کہ اسلامی تاریخ میں جس نے جتنی زیادہ محنت اسلام کے لئے کی ہے، دشمنان دین اس کے خلاف اتنا ہی زیادہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دیکھیں، فاتح مصر و شام جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھیں، ابن خطاب سے یاد آیا، لوگ جھوٹی روایات کی بنیاد پر پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ابن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جھوٹا سمجھا کرتے تے۔ لیکن آپ مجھے یہ تو بتاو کہ عمر جیسا بہادر اور غیرت مند انسان، جسے جھوٹا سمجھتا ہو، اسے کسی جگہ پر گورنر لگا سکتاہے؟ لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو امیر بنا دیا تھا، پھر ایک دفعہ امارت کے متعلق پوچھا :

كَيْفَ وَجَدْتَ الْإِمَارَةَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟
'' ابوہریرہ امارت کیسی لگی؟''
دل کی حالت کہہ ڈالی۔ یوں گویا ہوئے :
بَعَثْتَنِي وَأَنَا كَارِهٌ، وَنَزَعْتَنِي وَقَدْ أَحْبَبْتُهَا.
'' آپ نے مجھے بھیجا تو مجھے اچھی نہیں لگتی تھی، اب آپ نے مجھ سے امارت واپس لی ہے تو مجھے یہ اچھی لگنے لگی ہے۔''
دور امارت میں کچھ تجارت سے پیسے کما لئے تھے، ابن خطاب نے کہا : بیت المال میں جمع کروا دو، جمع کروا دیئے ۔(14)

پھر روایات میں آتا ہے عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ امارت دینے کی کوشش کی مگر نہیں لی، دنیا سے بے رغبتی کی انتہاء تھی۔ ایک دفعہ قیامت میں سب سے پہلے حساب والی روایت بیان کی، جس کا مضمون یہ ہے کہ سب سے پہلے عالم سخی اور مجاہد سے حساب لیا جائے گا، اس روایت کو بیان کرتے کرتے تین دفعہ خوف خدا سے بے ہوش ہوگئے پھرجاکر حدیث مکمل کی۔ (15)

زندگی کے اختتامی لمحات میں رو رہے تھے، پوچھا گیا کہ آپ کیوں روتے ہو؟ فرمایا :
أَمَا إِنِّي لا أَبْكِي عَلَى دُنْيَاكُمْ هَذِهِ
'' میں تمہاری دنیا کا رونا نہیں روتا''
وَلَكِنِّي أَبْكِي لِبُعْدِ سَفَرِي وَقِلَّةِ زَادِي.
(16)'' میں روتا ہوں کہ سفر بڑالمباہے اور میرے پاس زاد راہ کوئی نہیں۔''

مروان حال احوال پوچھنے آیا، کہنے لگا :اللہ آپ کو شفا دے گا ابوہریرہ ! تو اللہ کی جانب متوجہ ہوگئے، فرمایا :
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّ لِقَاءَكَ فَأَحِبَّ لِقَائِي.
'' اللہ میں تیری ملاقات کو پسند کرتا ہوں، تو میری ملاقات کو پسند کرنا۔''
مروان یہاں سے چلا گیا، ابھی مروان اصحاب قطا نامی جگہ پر نہیں پہنچا تھا کہ خبر آگئی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دنیا میں نہیں رہے۔ (17)

آخرش علم حدیث کو زندگی بخشنے والا اپنی حیات کا سفر پورا کر کے اللہ کے حضور چلا گیا اور قیامت تک کے لئے آنے والوں کے لئے منزل کا رستہ متعین کر گیا، جو اس کے نشان راہ پر چلتا رہے گا، اللہ سے ملاقات کو محبوب پائے گااور جو کوئے یار سے نکلے گا، سوئے دار جائے گا۔ رستہ تمہارے سامنے ہے منزل تمہارے سامنےہے۔

ابو الوفا محمد حماد اثری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ صحیح البخاری : 6572۔2۔ مسند احمد: 7725،وسندہ حسن) 3۔ (حلیۃ الاولیاء : 1/381، وسندہ حسن، سیر اعلام النبلاء : 2/609، وسندہ صحیح) 4۔صحیح مسلم : 1378)
5۔(مسلم : 1665)6۔ سنن ابن ماجہ : 22،وسندہ حسن)
7۔(سنن ابی داود : 1408، وسندہ صحیح) 8۔(سنن الترمذی : 519،وسندہ صحیح)9۔(معجم رجال الحديث -11 / 55) 10۔(مسند احمد :7166، وسندہ صحیح)
11۔ (التاريخ الكبير للبخاري 1/ 186، وسندہ حسن)
12۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 3/585، وسندہ حسن) 13۔(المستدرک علی الصحیحین : 3/583)
14۔(الطبقات الکبری لابن سعد :4/335، وسندہ صحیح)
15۔ (السنن الکبری للنسائی : 11824، وسندہ حسن)
16۔( الطبقات الکبری : 4/253، وسندہ حسن)
17(الطبقات الکبری : 4/253، وسندہ حسن)


ابو الوفا محمد حماد اثری
 
Last edited:
Top