• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا عدي بن حاتم الطائي رضی الله عنه وارضاہ

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
سیدنا عدي بن حاتم الطائي رضی الله عنه وارضاہ

1
صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ)
صحیح بخاری: کتاب: فضیلتوں کے بیان میں (باب: رسول اللہ ﷺکےمعجزات یعنی نبوت کی نشانیوں کابیان)
3595 . حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَكَمِ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ أَخْبَرَنَا سَعْدٌ الطَّائِيُّ أَخْبَرَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَكَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ فَقَالَ يَا عَدِيُّ هَلْ رَأَيْتَ الْحِيرَةَ قُلْتُ لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا قَالَ فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ قُلْتُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّئٍ الَّذِينَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِلَادَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى قُلْتُ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ قَالَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ وَلَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ فَلَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَيُبَلِّغَكَ فَيَقُولُ بَلَى فَيَقُولُ أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَيْكَ فَيَقُولُ بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ وَيَنْظُرُ عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ قَالَ عَدِيٌّ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقَّةِ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ شِقَّةَ تَمْرَةٍ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ قَالَ عَدِيٌّ فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ وَكُنْتُ فِيمَنْ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُجَاهِدٍ حَدَّثَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ سَمِعْتُ عَدِيًّا كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حکم : صحیح
3595 .سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر و فاقہ کی شکایت کی ، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی ، اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عدی ! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے ؟ ( جوکوفہ کے پاس ایک بستی ہے ) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں ، البتہ اس کانام میں نے سنا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور ( مکہ پہنچ کر ) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہوگا ۔ میں نے ( حیرت سے ) اپنے دل میں کہا ، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکووں کا کیا ہوگا جنہوں نے شہروں کو تباہ کردیا ہے اور فساد کی آگ سلگارکھی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے ( تم پر ) کھولے جائیں گے ۔ میں ( حیرت میں ) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز ( ایران کا بادشاہ ) کسریٰ آپ نے فرمایا : ہاں کسریٰ بن ہرمز ! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تویہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا ، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہوگی ( جو اس کی زکوٰۃ ) قبول کرلے لیکن اسے کوئی ایساآدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کرلے ، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا جودن مقرر ہے اس وقت تم میں سے ہر کوئی اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہوگا ( بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں کرے گا ) اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گا ۔ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجے تھے جنہوں نے تم تک میرا پیغام پہنچا دیاہو ؟ وہ عرض کرے گا بے شک تونے بھیجا تھا ۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کیا میں نے مال اور اولاد تمہیں نہیں دی تھی ؟ کیا میں نے ان کے ذریعہ تمہیں فضیلت نہیں دی تھی ؟ وہ جواب دے گا بے شک تونے دیا تھا ۔ پھر وہ اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو سوا جہنم کے اسے اور کچھ نظر نہ آئے گا پھر وہ بائیں طرف دیکھے گا تو ادھر بھی جہنم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا ، عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرمارہے تھے کہ جہنم سے ڈرو ، اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو ۔ اگر کسی کو کھجور کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہ آسکے تو ( کسی سے ) ایک اچھا کلمہ ہی کہہ دے ۔ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور ( مکہ پہنچ کر ) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے ( ڈاکو وغیرہ ) کا ( راستے میں ) خوف نہیں تھا اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شریک تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے ۔ اور اگر تم لوگ کچھ دنوں اور زندہ رہے تو وہ بھی دیکھ لوگے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ( زکوٰۃ کا سونا چاندی ) بھر کر نکلے گا ( لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا )

2
جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ فَاتِحَةِ الكِتَابِ)
جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورہ فاتحہ کی تفسیر)
2954 . أَخْبَرَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ الْقَوْمُ هَذَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ وَجِئْتُ بِغَيْرِ أَمَانٍ وَلَا كِتَابٍ فَلَمَّا دُفِعْتُ إِلَيْهِ أَخَذَ بِيَدِي وَقَدْ كَانَ قَالَ قَبْلَ ذَلِكَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ يَدَهُ فِي يَدِي قَالَ فَقَامَ فَلَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ وَصَبِيٌّ مَعَهَا فَقَالَا إِنَّ لَنَا إِلَيْكَ حَاجَةً فَقَامَ مَعَهُمَا حَتَّى قَضَى حَاجَتَهُمَا ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي حَتَّى أَتَى بِي دَارَهُ فَأَلْقَتْ لَهُ الْوَلِيدَةُ وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَيْهَا وَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ مَا يُفِرُّكَ أَنْ تَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَهَلْ تَعْلَمُ مِنْ إِلَهٍ سِوَى اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ ثُمَّ تَكَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا تَفِرُّ أَنْ تَقُولَ اللَّهُ أَكْبَرُ وَتَعْلَمُ أَنَّ شَيْئًا أَكْبَرُ مِنْ اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَإِنَّ الْيَهُودَ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ وَإِنَّ النَّصَارَى ضُلَّالٌ قَالَ قُلْتُ فَإِنِّي جِئْتُ مُسْلِمًا قَالَ فَرَأَيْتُ وَجْهَهُ تَبَسَّطَ فَرَحًا قَالَ ثُمَّ أَمَرَ بِي فَأُنْزِلْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ جَعَلْتُ أَغْشَاهُ آتِيهِ طَرَفَيْ النَّهَارِ
حکم : صحیح
2954 . "سیدنا عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، لوگوں نے کہا: یہ عدی بن حاتم ہیں، میں آپ کے پاس بغیر کسی امان اور بغیر کسی تحریر کے آیا تھا، جب مجھے آپ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ آپ اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا ‘‘ عدی کہتے ہیں: آپ مجھے لے کر کھڑے ہوئے، اسی اثناء میں ایک عورت ایک بچے کے ساتھ آپ سے ملنے آ گئی، ان دونوں نے عرض کیا: ہمیں آپ سے ایک ضرورت ہے۔ آپ ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی ضرورت پوری فرما دی۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے لیے لیے اپنے گھر آگئے۔ ایک بچی نے آپ کے لیے ایک گدا بچھا دیا، جس پر آپ بیٹھ گئے اور میں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے اللہ کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: ’’ (بتاؤ) تمہیں لا إلہ إلا اللہ کہنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود سمجھتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے کچھ دیر باتیں کیں، پھر فرمایا: ’’ اللہ اکبر کہنے سے بھاگ رہے ہو؟ ‘‘ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ’’ یہود پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں ‘‘، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں تو مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، پھر آپ نے میرے لیے حکم فرمایا: ’’ تو میں ایک انصاری
صحابی
کے یہاں (بطور مہمان) ٹھہرا دیا گیا، پھر میں دن کے دونوں کناروں پر یعنی صبح وشام آپ کے پاس حاضر ہونے لگا۔ "

3
مسند احمد میں ان کے ایمان لانے کا قصہ انہی کی زبانی :
مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 155

عن أبي عبيدة بن حذيفة ، قال : كنت أسأل الناس عن حديث عدي بن حاتم وهو إلى جنبي لا آتيه ، ثم أتيته فسألته ، فقال : بعث النبي - صلى الله عليه وسلم - فكرهته ، ثم كنت بأرض الروم ، فقلت : لو أتيت هذا الرجل ، فإن كان صادقا ، تبعته ، فلما قدمت المدينة ، استشرفني الناس ، فقال لي : يا عدي ! أسلم تسلم ، قلت : إن لي دينا ، قال : أنا أعلم بدينك منك ، ألست ترأس قومك ؟ قلت : بلى قال : ألست ركوسيا تأكل المرباع ؟ قلت : بلى . قال : فإن ذلك لا يحل لك في دينك . فتضعضعت لذلك . ثم قال : يا عدي ! أسلم تسلم . فأظن مما يمنعك أن تسلم خصاصة تراها بمن حولي ، وأنك ترى الناس علينا إلبا واحدا . هل أتيت الحيرة ؟ قلت : لم آتها ، وقد علمت مكانها . قال : توشك الظعينة أن ترتحل من الحيرة بغير جوار حتى تطوف بالبيت ، ولتفتحن علينا كنوز كسرى . قلت : كسرى بن هرمز ! قال : كسرى بن هرمز ، وليفيضن المال حتى يهم الرجل من يقبل منه ماله صدقة .
ایک صاحب ( أبي عبيدة بن حذيفة رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عدی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی ہے لیکن میں اسے خود آپ سے سننا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا بہت اچھا جب مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان نبوت کی خبر ملی تو مجھے اس پر بڑی ناگواری ہوئی میں اپنے علاقے سے نکل کر روم کے ایک کنارے پہنچا اور قیصر کے پاس چلا گیا لیکن وہاں پہنچ کر مجھے اس سے زیادہ شدید ناگواری ہوئی جو بعثت نبوت کی اطلاع ملنے پر ہوئی تھی، میں نے سوچا کہ میں اس شخص کے پاس جاکر تو دیکھوں اگر وہ جھوٹا ہو تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اگر سچا ہوا تو مجھے معلوم ہوجائے گا۔ چنانچہ میں واپس آکر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں پہنچا تو لوگوں نے " عدی بن حاتم، عدی بن حاتم " کہنا شروع کردیا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا اے عدی! اسلام قبول کرلو سلامتی پاجاؤگے تین مرتبہ یہ جملہ دہرایا میں نے عرض کیا کہ میں تو پہلے سے ایک دین پر قائم ہوں ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سے زیادہ تمہارے دین کو جانتا ہوں میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ سے زیادہ میرے دین کو جانتے ہیں ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! کیا تم " رکوسیہ " میں سے نہیں ہو جو اپنی قوم کا چوتھائی مال غنیمت کھا جاتے ہیں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حالانکہ یہ تمہارے دین میں حلال نہیں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے آگے جو بات فرمائی میں اس کے آگے جھک گیا۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تمہیں اسلام قبول کرنے میں کون سی چیز مانع لگ رہی ہے تم یہ سمجھتے ہو کہ اس دین کے پیروکار کمزور اور بے مایہ لوگ ہیں جنہیں عرب نے دھتکار دیا ہے یہ بتاؤ کہ تم شہر حیرہ کو جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ دیکھا تو نہیں ہے البتہ سناضرور ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے اللہ اس دین کو مکمل کرکے رہے گا یہاں تک کہ ایک عورت حیرہ سے نکلے گی اور کسی محافظ کے بغیر بیت اللہ کا طواف کر آئے گی اور عنقریب کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہوں گے میں نے تعجب سے پوچھا کسریٰ بن ہرمز کے؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! کسریٰ بن ہرمز کے اور عنقریب اتنا مال خرچ کیا جائے گا کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واقعی اب ایک عورت حیرہ سے نکلتی ہے اور کسی محافظ کے بغیر بیت اللہ کا طواف کر جاتی ہے اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو فتح کرنے والوں میں تو میں خود بھی شامل تھا اور اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے تیسری بات بھی وقوع پذیر ہو کر رہے گی کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔
الراوي : عدي بن حاتم | المحدث : ابن حبان | المصدر : صحيح ابن حبان
الصفحة أو الرقم: 6679 | خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيح

4
جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ)
جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورہ توبہ سے بعض آیات کی تفسیر)
3095 . حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الْوَثَنَ وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ وَغُطَيْفُ بْنُ أَعْيَنَ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ فِي الْحَدِيثِ
حکم : حسن
3095 . عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ عدی ! اس بت کو نکال کر پھینک دو، میں نے آپ ﷺ کو سورہ برأۃ کی آیت:
{ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ}
پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ وہ لوگ ان کی عبادت نہ کرتے تھے، لیکن جب وہ لوگ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو وہ لوگ اسے حلال جان لیتے تھے، اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ لوگ اسے حرام جان لیتے تھے‘‘ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف عبدالسلام بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ۳- غطیف بن اعین حدیث میں معروف نہیں ہیں۔

5
صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ قِصَّةِ وَفْدِ طَيِّئٍ وَحَدِيثُ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ)

صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں(باب: قبیلہ طے کے وفد اورعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کاقصہ)
4394 . حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْنَا عُمَرَ فِي وَفْدٍ فَجَعَلَ يَدْعُو رَجُلًا رَجُلًا وَيُسَمِّيهِمْ فَقُلْتُ أَمَا تَعْرِفُنِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ بَلَى أَسْلَمْتَ إِذْ كَفَرُوا وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا وَعَرَفْتَ إِذْ أَنْكَرُوا فَقَالَ عَدِيٌّ فَلَا أُبَالِي إِذًا
حکم : صحیح
4394 .سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ( ان کی دور خلافت میں ) ایک وفد کی شکل میں آئے ۔ وہ ایک ایک شخص کو نام لے لے کر بلاتے جاتے تھے ) میں نے ان سے کہا کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں ؟ اے امیر المومنین ! فرمایا کیا تمہیں بھی نہیں پہچانوں گا ، تم اس وقت اسلام لائے جب یہ سب کفر پر قائم تھے ۔ تم نے اس وقت توجہ کی جب یہ سب منہ موڑ رہے تھے ۔ تم نے اس وقت وفا کی جب یہ سب بے وفائی کر رہے تھے اور اس وقت پہچانا جب ان سب نے انکا ر کیا تھا ۔ عدی رضی اللہ عنہ نے کہا بس اب مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔

6
مسند احمد میں روایت یوں ہے :
مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 299

عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِي فَجَعَلَ يَفْرِضُ لِلرَّجُلِ مِنْ طَيِّئٍ فِي أَلْفَيْنِ وَيُعْرِضُ عَنِّي قَالَ فَاسْتَقْبَلْتُهُ فَأَعْرَضَ عَنِّي ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنْ حِيَالِ وَجْهِهِ فَأَعْرَضَ عَنِّي قَالَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَعْرِفُنِي قَالَ فَضَحِكَ حَتَّى اسْتَلْقَى لِقَفَاهُ ثُمَّ قَالَ نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُكَ آمَنْتَ إِذْ كَفَرُوا وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا وَإِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ صَدَقَةُ طَيِّئٍ جِئْتَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَخَذَ يَعْتَذِرُ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا فَرَضْتُ لِقَوْمٍ أَجْحَفَتْ بِهِمْ الْفَاقَةُ وَهُمْ سَادَةُ عَشَائِرِهِمْ لِمَا يَنُوبُهُمْ مِنْ الْحُقُوقِ
سیدناعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے بنو طئی کے ایک آدمی کو دوہزار دئیے لیکن مجھ سے اعراض کیا، میں ان کے سامنے آیا تب بھی انہوں نے اعراض کیا، میں ان کے چہرے کے رخ کی جانب سے آیا لیکن انہوں نے پھر بھی اعراض کیا، یہ دیکھ کر میں نے کہا امیرالمومنین! آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ سیدنا عمررضی اللہ عنہ ہنسنے لگے، پھر چت لیٹ گئے اور فرمایا ہاں! اللہ کی قسم! میں آپ کو جانتاہوں، جب یہ کافر تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا، جب انہوں نے پیٹھ پھیر رکھی تھی آپ متوجہ ہوگئے تھے، جب انہوں نے عہد شکنی کی تھی تب آپ نے وعدہ وفا کیا تھا اور سب سے پہلا وہ مال صدقہ جسے دیکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے چہرے کھل اٹھے تھے بنو طئی کی طرف سے آنے والا وہ مال تھا جو آپ ہی لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان سے معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے میں نے ان لوگوں کو مال دیا ہے جنہیں فقروفاقہ اور تنگدستی نے کمزور کر رکھا ہے اور یہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہیں، کیونکہ ان پر حقوق کی نیاب کی ذمہ داری ہے۔
الراوي : عدي بن حاتم الطائي | المحدث : أحمد شاكر | المصدر : مسند أحمد
الصفحة أو الرقم: 1/160 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

7
صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ غِفَارَ وَأَسْلَمَ وَجُهَيْنَةَ وَأَشْجَعَ وَمُزَيْنَةَ وَتَمِيمٍ وَدَوْسٍ وَطَيِّئٍ)

صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: غفار،اسلم جہینہ اشجع مزینہ ،تمیم ،دوس اور طے کے فضائل)
6449 . حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لِي: «إِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ، صَدَقَةُ طَيِّئٍ، جِئْتَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
حکم : صحیح
6449 . سیدناعدی بن حاتم سے روایت ہے،کہا: میں سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا تو انھوں نے مجھ سے کہا: سب سے پہلا صدقہ (باقاعدہ وصول شدہ زکوۃ) جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے چہروں کو روشن کر دیا تھا بنو طے کا صدقہ تھا ،جس کو آپ (عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے تھے۔
 
Top