• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ‎ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کی سزا جہنم ہے

شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
سید الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ‎ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کی سزا جہنم ہے



1= سیدنا علیؒ روایت کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ‎ نے فرمایا۔
”میرے متعلق جھوٹ مت بولو۔ یعنی ایسی بات جو میں نے نہ کہی ہو اپنی طرف سے گھڑ کر میری جانب منسوب نہ کرو۔ اس لئے کہ جو میرے بارے میں جھوٹ گھڑے گا وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 1

2= سیدنا انس بیان کرتے ہیں۔ مجھے تمہارے سامنے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے جو چیز روکتی ہے، وہ یہ ہےکہ نبی کریم ﷺ‎ نے ارشاد فرمایا ہے۔
”جو شخص عمداً جھوٹی بات گھڑ کر میری طرف منسوب کرے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 2

3= سیدنا ابو ہریرہؒ روایت کرتے ہیں،نبی کریم ﷺ‎ نے ارشاد فرمایا ہے۔
”جو شخص عمداً جھوٹی بات گھڑ کر میری طرف منسوب کرے گا اسے چاھیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 3

4= سیدنا مغیرہؒ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی کریمﷺ‎ کو ارشاد فرماتے سنا ہے۔
”کہ میرے بارے میں جھوٹ بولنا کسی دوسرے شخص کے بارے جھوٹ بولنے کی مانند نہیں ہے۔ جو شخص عمداً جھوٹ گھڑ کر میری طرف منسوب کرگا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 4

5= عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
”اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر اس علم کو نہیں اٹھائے گا،بلکہ یہ علم،علماء(حق)کے چلے جانے سے ختم ہوگا، حتی کہ وقت آئے گا کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا۔ لوگ اپنا سردار ،راہبر،راہنماجاہلوں کو بنا لیں گے،اُن (جاہلوں) سے سوالات پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرڈالیں گے۔“
صحیح بخاری: کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم،حدیث نمبر: 100،
صحیح مسلم: کتاب الزمان،باب رفع العلم و قبضہ و ظھر الجھل والفتن فی آخر الزمان، حدیث نمبر: 2673


6= نبی ﷺ‎ نے فرمایا۔
”آخری زمانے میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہے تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے نہیں سنا ہو گا لہٰذا ان سے اپنے آپ کو بچانا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہِ میں ڈال دیں۔“
صحیح مسلم مقدمہ: 7

7= نبی کریمﷺ‎ نے فرمایا۔
”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بیان کردے۔“
صحیح مسلم مقدمہ: 5

1= امام جرح و تعدیل عبداللہ بن عدیؒ { کتاب الکامل }277 تا 365 فرماتے ہیں۔

”صحابہؓ کی ایک جماعت نے رسول اللہﷺ‎ سے حدیث بیان کرنے سے محض اس لیے گریز کیا کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث میں زیادتی یا کمی ہو جائے اور وہ آپ کے اس فرمان { جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولتا ہے اس کا ٹھکانا آگ ہے۔ } کے مصداق قرار پائیں۔“

2= امام مسلمؒ 206تا261 فرماتے ہیں۔
”جو شخص ضعیف حدیث کے ضعف کو جاننے کے باوجود اس کے ضعف کو بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے فعل کی وجہ سے گناہگار اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا بعض احادیث اکاذیب <جھوٹ> ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر بہت سے لوگ عمداً ضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث بیان کرتے ہیں محض اس لیے کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ”ان کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتب تالیف کر دی ہیں“ جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔“
صحیح مسلم مع شرح نوویؒ مقدمہ:177۔ 179۔

3= امام دار قطنی رحمہ اللہ 306تا385ھ فرماتے ہیں۔
”رسول اللہﷺ‎ نے اپنی طرف سے < بات > پہنچا دینے کا حکم دینے کے بعد اپنی ذات پاک پرجھوٹ بولنے والے کو آگ کی وعید سنائی الہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے ضعیف کی بجائے صحیح اور باطل کی بجائے حق کے پہنچا دینے کا حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس چیز کے پہنچا دینے کا جس کی نسبت آپ کی طرف کر دی گئی۔“
صحیح مسلم مقدمہ مع شرح نوویؒ

4= امام نووی رحمہ اللہ 631تا676ھ فرماتے ہیں۔
محققین محدثین اور ائمہ کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضغیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاھیے کہ
”رسولﷺ‎ نے فرمایا یا آپ نے کہا ہے یا آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے یا آپ نے منع کیا ہے“
اور یہ اس لیے کہ جزم کے صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں لہٰذا ان کا اطلاق اسی روایت پر کیا جانا چاہئے جو ثابت ہو ورنہ وہ انسان نبیﷺ‎ پر جھوٹ بولنے والے کی مانند ہو گا مگر< افسوس کہ > اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہ رکھا سوائے محققین محدثین کے اور یہ قبیح قسم کا تساہل ہے کونکہ وہ <علماء> بہت سی صحیح روایات کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ ”یہ روایت بنیﷺ‎ سے روایت کی گئی“ اور بہت سی ضغیف روایات کے بارے کہتے ہیں کہ ”آپ نے فرمایا“ ”اسے فلاں نے روایت کیا ہے“ اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے۔
مقدمة المجموع۔ امام نوویؒ

5= امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 661تا728ھ فرماتے ہیں۔
ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے واجب یا مستحب عمل ثابت ہو سکتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے اس نے اجماع کی مخالفت کی۔
التوسل و الوسیلہ۔ ابن تیمیہؒ۔

6= ضعیف حدیث مطلقاً قابلِ حجت نہیں، احکام میں ہو یا فضائل میں۔
یحییٰ بن معینؒ، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام بن حزمؒ، قاضی ابن العربی مالکیؒ، خطیب بغدادیؒ، امام بن تیمیہؒ، امام شاطبیؒ، امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ، امام شوکانیؒ، علامہ احمدشاکرؒ، امام البانیؒ، محدث ضیاء الاعظمیؒ اور محدثین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔
 
Last edited by a moderator:

احمدشریف

مبتدی
شمولیت
اپریل 21، 2022
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
12
کیا ضعیف حدیث جھوٹی بات ہے
تو پھر ایک محدث ضعیف کہے اور دوسرے صحیح تو کیا کریں
اگرصحابہ کا عمل متواتر ثابت ہو، اور حدیث ضعیف ہو تو کیا کریں
.
اگر ضعیف حدیث فضائل میں نہیں بیان کرنا ہے تو امام بخاری نے اپنی فضائل کی کتاب ادب المفرد میں اتنے سارے ضعیف احادیث کیون شامل کیں۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
1= کیا ضعیف حدیث جھوٹی بات ہے تو پھر ایک محدث ضعیف کہے اور دوسرے صحیح تو کیا کریں؟

جواب۔
صحیح احادیث کے درجے
”درجات کے اسی تفاوت کے پیشِ نظر امام نوویؒ نے صحیح حدیث کو سات قسموں میں تقسیم کیا ہے:
1۔ وہ متفق علیہ حدیث جو بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہو۔
2۔ جو حدیث صرف بخاری میں ہو۔
3۔ جو حدیث صرف مسلم میں ہو۔
4۔ جو حدیث بخاری و مسلم میں نہ ہو مگر کسی محدث نے اس حدیث کو بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق روایت کیا ہو۔
5۔ جو حدیث صرف بخاری کی شرط کے مطابق ہو۔
6۔ جو حدیث صرف مسلم کی شرط کے مطابق ہو۔
7۔ وہ حدیث جس کو بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر محدثین نے صحیح قرار دیا ہو۔
علوم الحدیث۔ ڈاکٹر صبحیؒ صالحؒ لبنان۔ ترجمہ پروفیسر حریریؒ: 198۔
نوٹ: آدمی ان درجات کے مطابق صحیح احادیث کو فوقیت یا ترجیح دے سکتا ہے۔

عصر حاضر میں بہت سے محدثین نے صحیح احادیث پر کام کیا ہے ان سے استفادہ کرنا چاھیے۔
مثلاً
1۔ محدث العصر محمد ناصر الدین البانیؒ۔ {صحیح جامع صغیر}
2۔ محدث مدینہ ڈاکٹر ضیا الرحمان اعظمیؒ۔ {جامع الکامل}۔
وغیرہ۔“

2= اگرصحابہ کا عمل متواتر ثابت ہو، اور حدیث ضعیف ہو تو کیا کریں؟

جواب۔
”اگر کوئی مسئلہ قرآن کریم اور صحیح احادیث میں نہ ہو تو صحیح الاسناد اقوال و فتاویٰ صحابہؓ پر عمل کرنا جائز ہے۔ اور یہ بھی ایک شرعی ماخذ ہے۔“

3= اگر ضعیف حدیث فضائل میں نہیں بیان کرنا ہے تو امام بخاری نے اپنی فضائل کی کتاب ادب المفرد میں اتنے سارے ضعیف احادیث کیون شامل کیں؟

جواب۔
” ادب المفرد فضائل کی کتاب نہیں یہ آداب کی کتاب ہے۔ علوم الحدیث۔ ڈاکٹر صبحیؒ صالحؒ لبنان۔ ترجمہ پروفیسر حریریؒ: 158۔
امام بخاریؒ نے ادب المفرد یا اپنی کسی کتاب میں نہیں کہا کہ ضعیف احادث پر عمل واجب ہے۔ آپ نے اسناد بیان کردی ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
اور امام بخاری نے واضح الفاظ میں لکھا کہ ”ضعیف حدیث مطلقاً قابلِ حجت نہیں، احکام میں ہو یا فضائل میں“۔ کتاب السنة۔ ڈاکٹر عمران ایوب: 68/69۔
محدثین ضعیف احادیث کیوں اپنی کتب میں درج کرتے ہیں؟
محدث العصر زبیر علی زئیؒ {فتاویٰ علمیہ توضیح الاحکام:2} میں لکھتے ہیں۔“

_20220616_112207.jpg
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
سید الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ‎ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کی سزا جہنم ہے



1= سیدنا علیؒ روایت کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ‎ نے فرمایا۔
”میرے متعلق جھوٹ مت بولو۔ یعنی ایسی بات جو میں نے نہ کہی ہو اپنی طرف سے گھڑ کر میری جانب منسوب نہ کرو۔ اس لئے کہ جو میرے بارے میں جھوٹ گھڑے گا وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 1

2= سیدنا انس بیان کرتے ہیں۔ مجھے تمہارے سامنے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے جو چیز روکتی ہے، وہ یہ ہےکہ نبی کریم ﷺ‎ نے ارشاد فرمایا ہے۔
”جو شخص عمداً جھوٹی بات گھڑ کر میری طرف منسوب کرے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 2

3= سیدنا ابو ہریرہؒ روایت کرتے ہیں،نبی کریم ﷺ‎ نے ارشاد فرمایا ہے۔
”جو شخص عمداً جھوٹی بات گھڑ کر میری طرف منسوب کرے گا اسے چاھیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 3

4= سیدنا مغیرہؒ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی کریمﷺ‎ کو ارشاد فرماتے سنا ہے۔
”کہ میرے بارے میں جھوٹ بولنا کسی دوسرے شخص کے بارے جھوٹ بولنے کی مانند نہیں ہے۔ جو شخص عمداً جھوٹ گھڑ کر میری طرف منسوب کرگا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 4

5= عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
”اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر اس علم کو نہیں اٹھائے گا،بلکہ یہ علم،علماء(حق)کے چلے جانے سے ختم ہوگا، حتی کہ وقت آئے گا کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا۔ لوگ اپنا سردار ،راہبر،راہنماجاہلوں کو بنا لیں گے،اُن (جاہلوں) سے سوالات پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرڈالیں گے۔“
صحیح بخاری: کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم،حدیث نمبر: 100،
صحیح مسلم: کتاب الزمان،باب رفع العلم و قبضہ و ظھر الجھل والفتن فی آخر الزمان، حدیث نمبر: 2673


6= نبی ﷺ‎ نے فرمایا۔
”آخری زمانے میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہے تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے نہیں سنا ہو گا لہٰذا ان سے اپنے آپ کو بچانا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہِ میں ڈال دیں۔“
صحیح مسلم مقدمہ: 7

7= نبی کریمﷺ‎ نے فرمایا۔
”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بیان کردے۔“
صحیح مسلم مقدمہ: 5

1= امام جرح و تعدیل عبداللہ بن عدیؒ { کتاب الکامل }277 تا 365 فرماتے ہیں۔
”صحابہؓ کی ایک جماعت نے رسول اللہﷺ‎ سے حدیث بیان کرنے سے محض اس لیے گریز کیا کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث میں زیادتی یا کمی ہو جائے اور وہ آپ کے اس فرمان { جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولتا ہے اس کا ٹھکانا آگ ہے۔ } کے مصداق قرار پائیں۔“

2= امام مسلمؒ 206تا261 فرماتے ہیں۔
”جو شخص ضعیف حدیث کے ضعف کو جاننے کے باوجود اس کے ضعف کو بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے فعل کی وجہ سے گناہگار اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا بعض احادیث اکاذیب <جھوٹ> ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر بہت سے لوگ عمداً ضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث بیان کرتے ہیں محض اس لیے کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ”ان کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتب تالیف کر دی ہیں“ جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔“
صحیح مسلم مع شرح نوویؒ مقدمہ:177۔ 179۔

3= امام دار قطنی رحمہ اللہ 306تا385ھ فرماتے ہیں۔
”رسول اللہﷺ‎ نے اپنی طرف سے < بات > پہنچا دینے کا حکم دینے کے بعد اپنی ذات پاک پرجھوٹ بولنے والے کو آگ کی وعید سنائی الہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے ضعیف کی بجائے صحیح اور باطل کی بجائے حق کے پہنچا دینے کا حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس چیز کے پہنچا دینے کا جس کی نسبت آپ کی طرف کر دی گئی۔“
صحیح مسلم مقدمہ مع شرح نوویؒ

4= امام نووی رحمہ اللہ 631تا676ھ فرماتے ہیں۔
محققین محدثین اور ائمہ کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضغیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاھیے کہ
”رسولﷺ‎ نے فرمایا یا آپ نے کہا ہے یا آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے یا آپ نے منع کیا ہے“
اور یہ اس لیے کہ جزم کے صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں لہٰذا ان کا اطلاق اسی روایت پر کیا جانا چاہئے جو ثابت ہو ورنہ وہ انسان نبیﷺ‎ پر جھوٹ بولنے والے کی مانند ہو گا مگر< افسوس کہ > اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہ رکھا سوائے محققین محدثین کے اور یہ قبیح قسم کا تساہل ہے کونکہ وہ <علماء> بہت سی صحیح روایات کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ ”یہ روایت بنیﷺ‎ سے روایت کی گئی“ اور بہت سی ضغیف روایات کے بارے کہتے ہیں کہ ”آپ نے فرمایا“ ”اسے فلاں نے روایت کیا ہے“ اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے۔
مقدمة المجموع۔ امام نوویؒ

5= امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 661تا728ھ فرماتے ہیں۔
ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے واجب یا مستحب عمل ثابت ہو سکتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے اس نے اجماع کی مخالفت کی۔
التوسل و الوسیلہ۔ ابن تیمیہؒ۔

6= ضعیف حدیث مطلقاً قابلِ حجت نہیں، احکام میں ہو یا فضائل میں۔
یحییٰ بن معینؒ، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام بن حزمؒ، قاضی ابن العربی مالکیؒ، خطیب بغدادیؒ، امام بن تیمیہؒ، امام شاطبیؒ، امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ، امام شوکانیؒ، علامہ احمدشاکرؒ، امام البانیؒ، محدث ضیاء الاعظمیؒ اور محدثین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔
سید الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ‎ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کی سزا جہنم ہے



1= سیدنا علیؒ روایت کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ‎ نے فرمایا۔
”میرے متعلق جھوٹ مت بولو۔ یعنی ایسی بات جو میں نے نہ کہی ہو اپنی طرف سے گھڑ کر میری جانب منسوب نہ کرو۔ اس لئے کہ جو میرے بارے میں جھوٹ گھڑے گا وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 1

2= سیدنا انس بیان کرتے ہیں۔ مجھے تمہارے سامنے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے جو چیز روکتی ہے، وہ یہ ہےکہ نبی کریم ﷺ‎ نے ارشاد فرمایا ہے۔
”جو شخص عمداً جھوٹی بات گھڑ کر میری طرف منسوب کرے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 2

3= سیدنا ابو ہریرہؒ روایت کرتے ہیں،نبی کریم ﷺ‎ نے ارشاد فرمایا ہے۔
”جو شخص عمداً جھوٹی بات گھڑ کر میری طرف منسوب کرے گا اسے چاھیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 3

4= سیدنا مغیرہؒ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی کریمﷺ‎ کو ارشاد فرماتے سنا ہے۔
”کہ میرے بارے میں جھوٹ بولنا کسی دوسرے شخص کے بارے جھوٹ بولنے کی مانند نہیں ہے۔ جو شخص عمداً جھوٹ گھڑ کر میری طرف منسوب کرگا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
متفق علیہ بخاری ، مسلم ، اللولووالمرجان: 4

5= عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
”اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر اس علم کو نہیں اٹھائے گا،بلکہ یہ علم،علماء(حق)کے چلے جانے سے ختم ہوگا، حتی کہ وقت آئے گا کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا۔ لوگ اپنا سردار ،راہبر،راہنماجاہلوں کو بنا لیں گے،اُن (جاہلوں) سے سوالات پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرڈالیں گے۔“
صحیح بخاری: کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم،حدیث نمبر: 100،
صحیح مسلم: کتاب الزمان،باب رفع العلم و قبضہ و ظھر الجھل والفتن فی آخر الزمان، حدیث نمبر: 2673


6= نبی ﷺ‎ نے فرمایا۔
”آخری زمانے میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہے تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے نہیں سنا ہو گا لہٰذا ان سے اپنے آپ کو بچانا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہِ میں ڈال دیں۔“
صحیح مسلم مقدمہ: 7

7= نبی کریمﷺ‎ نے فرمایا۔
”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بیان کردے۔“
صحیح مسلم مقدمہ: 5

1= امام جرح و تعدیل عبداللہ بن عدیؒ { کتاب الکامل }277 تا 365 فرماتے ہیں۔
”صحابہؓ کی ایک جماعت نے رسول اللہﷺ‎ سے حدیث بیان کرنے سے محض اس لیے گریز کیا کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث میں زیادتی یا کمی ہو جائے اور وہ آپ کے اس فرمان { جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولتا ہے اس کا ٹھکانا آگ ہے۔ } کے مصداق قرار پائیں۔“

2= امام مسلمؒ 206تا261 فرماتے ہیں۔
”جو شخص ضعیف حدیث کے ضعف کو جاننے کے باوجود اس کے ضعف کو بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے فعل کی وجہ سے گناہگار اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا بعض احادیث اکاذیب <جھوٹ> ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر بہت سے لوگ عمداً ضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث بیان کرتے ہیں محض اس لیے کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ”ان کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتب تالیف کر دی ہیں“ جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔“
صحیح مسلم مع شرح نوویؒ مقدمہ:177۔ 179۔


3= امام ابو حاتم محمد بن حبان تمیمی بُستی رحمہ اللہ 280 تا 354ھ فرماتے ہیں۔
1۔ ”جو شخص مصطفی کریم ﷺ‎ کی طرف کوئی چیز منسوب کرے اور اسےاس کی نسبت صحیح ہونے کا علم نہ ہو تو اس کے لیے جہنم میں داخل ہونے کے لازم ہونے کا تذکرہ“=حدیث 28 کےتحت صفحہ 196۔
2۔ ”نبی کریمﷺ‎ کی طرف جان بوجھ کر جھوٹی بات منسوب کرنے والے کے جہنم میں داخل ہونے کے لازم ہونے کا تذکرہ“=حدیث 31\32 کے تحت صفحہ 198۔

صیح ابن حبان“ تحقیق و تخریج شعیب الارناؤوط، مترجم اردو جہانگیری= 96 تا 98۔

4= امام دار قطنی رحمہ اللہ 306تا385ھ فرماتے ہیں۔
”رسول اللہﷺ‎ نے اپنی طرف سے < بات > پہنچا دینے کا حکم دینے کے بعد اپنی ذات پاک پرجھوٹ بولنے والے کو آگ کی وعید سنائی الہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے ضعیف کی بجائے صحیح اور باطل کی بجائے حق کے پہنچا دینے کا حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس چیز کے پہنچا دینے کا جس کی نسبت آپ کی طرف کر دی گئی۔“
صحیح مسلم مقدمہ مع شرح نوویؒ

5= امام نووی رحمہ اللہ 631تا676ھ فرماتے ہیں۔
محققین محدثین اور ائمہ کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضغیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاھیے کہ
”رسولﷺ‎ نے فرمایا یا آپ نے کہا ہے یا آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے یا آپ نے منع کیا ہے“
اور یہ اس لیے کہ جزم کے صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں لہٰذا ان کا اطلاق اسی روایت پر کیا جانا چاہئے جو ثابت ہو ورنہ وہ انسان نبیﷺ‎ پر جھوٹ بولنے والے کی مانند ہو گا مگر< افسوس کہ > اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہ رکھا سوائے محققین محدثین کے اور یہ قبیح قسم کا تساہل ہے کونکہ وہ <علماء> بہت سی صحیح روایات کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ ”یہ روایت بنیﷺ‎ سے روایت کی گئی“ اور بہت سی ضغیف روایات کے بارے کہتے ہیں کہ ”آپ نے فرمایا“ ”اسے فلاں نے روایت کیا ہے“ اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے۔
مقدمة المجموع۔ امام نوویؒ

6= امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 661تا728ھ فرماتے ہیں۔
ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے واجب یا مستحب عمل ثابت ہو سکتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے اس نے اجماع کی مخالفت کی۔
التوسل و الوسیلہ۔ ابن تیمیہؒ۔

7= ضعیف حدیث مطلقاً قابلِ حجت نہیں، احکام میں ہو یا فضائل میں۔
یحییٰ بن معینؒ، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام بن حزمؒ، قاضی ابن العربی مالکیؒ، خطیب بغدادیؒ، امام بن تیمیہؒ، امام شاطبیؒ، امیر محمد بن اسماعیل صنعانیؒ، امام شوکانیؒ، علامہ احمدشاکرؒ، امام البانیؒ، محدث ضیاء الاعظمیؒ اور محدثین کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔
 
Top