• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرتِ عائشہ (رضی اللہ عنہا)

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نام کتاب:
سیرتِ عائشہ (رضی اللہ عنہا)

تالیف :
مولانا سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ)

تلخیص :
محمد شکیل شمسی

ناشر :
اقراء ویلفیئر ٹرسٹ، بنگلور۔ انڈیا

{جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں}
(فورم پر پیشکشی بہ اجازت : اقراء ویلفیئر ٹرسٹ ، بتوسط : اعجاز عبید صاحب حفظہ اللہ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فہرستِ مضامین

1 :: تعارف
2 :: پیشِ لفظ
3 :: مقدمہ
4 :: ابتدائی حالات
4.1 :: ولادت
4.2 :: بچپن
4.3 :: شادی
4.4 :: ہجرت
4.5 :: رخصتی
5 :: تعلیم و تربیت
6 :: خانہ داری
7 :: معاشرتِ ازدواجی
7.1 :: بیوی سے محبّت
7.2 :: شوہر سے محبّت
7.3 :: بیوی کی مدارات
7.4 :: دل بہلانا
7.5 :: ساتھ کھانا
7.6 :: ہم سفری
7.7 :: ساتھ دوڑنا
7.8 :: ناز وانداز
7.9 :: خدمت گزاری
7.1 :: اطاعت اور احکام کی پیروی
7.11 :: باہمی مذہبی زندگی
7.12 :: گھر میں فرائض نبوت
8 :: سوکنوں کے ساتھ برتاؤ
9 :: سوتیلی اولاد کے ساتھ برتاؤ
10 :: واقعہ افک ،تحریم، ایلا و تخییر
10.1 :: واقعۂ تحریم
10.2 :: واقعۂ ایلاء
10.3 :: اختیار
11 :: بیوگی
12 :: عام حالات
12.1 :: عہد صدیقی
12.2 :: باپ کی جدائی
12.3 :: حضرت عثمان کا عہد
12.4 :: سبائی فرقہ
12.5 :: حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا عہد
13 :: دعوتِ اصلاح
13.1 :: جنگ کی نوبت کیوں آئی ؟
13.2 :: جنگ جمل
13.3 :: حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا زمانہ
14 :: وفات
15 :: اخلاق و عادات
15.1 :: متبنّی(گود لئے ہوئے بچے) کے ساتھ برتاؤ
15.2 :: عورتوں کی امداد
15.3 :: شوہر کی اطاعت
15.4 :: غیبت اور بد گوئی سے پرہیز
15.5 :: عدم قبول احسان
15.6 :: خود ستائی سے پرہیز
15.7 :: خود داری
15.8 :: دلیری
15.9 :: سخاوت
15.1 :: خوف الٰہی اور رقیق القلبی
15.11 :: عبادتِ الٰہی
15.12 :: معمولی باتوں کا لحاظ
15.13 :: غلاموں پر شفقت
15.14 :: فقراء کی ان کی حیثیت کے مطابق مدد
15.15 :: پردہ کا اہتمام
15.16 :: مناقب
16 :: علم و اجتہاد
16.1 :: علم قرآن
17 :: علمِ حدیث
17.1 :: روایت کے ساتھ درایت
17.2 :: بار بار پوچھنا
17.3 :: روایتِ مخالفِ قرآن حجت نہیں
17.4 :: مغز سخن تک پہنچنا
17.5 :: ذاتی واقفیت
17.6 :: قوّت حفظ
18 :: فقہ و قیاس
18.1 :: قرآن مجید
18.2 :: حدیث
18.3 :: قیاس عقلی
18.4 :: معاصرین سے اختلاف
19 :: علمِ کلام و عقائد
19.1 :: رویت باری تعالیٰ
19.2 :: علم غیب
19.3 :: پیغمبر اور اخفائے وحی
19.4 :: الصحابۃ عدول
19.5 :: عذابِ قبر
19.6 :: سماع موتی
19.7 :: علم اسرار دین
20.1 :: قرآن مجید کی ترتیب نزول
20.2 :: مکی سورتیں
20.3 :: مدنی سورتیں
20.4 :: جمعہ کے دن نہانا
20.5 :: سفر میں دو رکعت نماز
20.6 :: نماز صبح اور نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت
20.7 :: بیٹھ کر نماز پڑھنا
20.8 :: مغرب میں تین رکعتیں کیوں ہیں
20.9 :: صبح کی نماز دو ہی رکعت کیوں ہے؟
20.1 :: پورے رمضان میں آپ (رضی اللہ عنہا) نے تراویح کیوں نہ پڑھی
20.11 :: حج کی حقیقت
20.12 :: آپ (رضی اللہ عنہا) کا حجرہ میں دفن ہونا
21 :: طب، تاریخ، ادب، خطابت و شاعری
21.1 :: طب
21.2 :: تاریخ
21.3 :: ادب
22 :: تعلیم، افتا و ارشاد
22.1 :: افتاء
23 :: جنس نسوانی پر حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے احسانات
24 :: عالمِ نسوانی میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا درجہ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تعارف
علامہ شبلی نعمانی (رحمۃ اللہ علیہ) کے عزیز ترین شاگرد اور ا ن کی علمی و ادبی روایت کے امین سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے جلیل القدر خاتون، ام المؤمنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی سیرت لکھ کر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ، آپ چودہویں صدی ہجری کے ممتاز ترین سیرت نگار تھے ۔
اس کتاب کے ماخذ کی تلاش میں آپ نے بہت صعوبتیں برداشت کیں ۔ لکھتے ہیں کہ :
کتابوں میں حضرت عائشہ کے حالات بہت متفرق اور منتشر تھے لیکن ان کو ڈھونڈ کر اس طرح جمع کیا گیا جس طرح چیونٹیوں کے منہ سے شکر کے دانے کوئی چنے۔
اس کتاب کا اندازِ بیان بھی خوب ہے ۔ قاری کو حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی زندگی آنکھوں دیکھی جیسی لگے گی ۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ نسوانیت کو کیسے معراجِ علمی حاصل ہو سکتی ہے۔
ناظرین کے پیشِ نظر اس وقت جو کتاب ہے اس کو اقراء ویلفئر ٹرسٹ کے سلسلۂ سیرت کی ایک کڑی خیال کرنا چاہیے ۔ یہ ادارہ تقریباً تیس (30) سال سے اسلام اور جدید مسائل پر وقت کے تقاضے کے مطابق نئے انداز کا لیٹریچر انگریزی اور اردو زبان میں تیار کر رہا ہے اور اس کی شائع شدہ کتابیں تعلیم یافتہ حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔
انگریزی زبان میں تقریباً چھبیس سال سے ایک مشہور علمی اور ادبی ماہنامہ (ینگ مسلم ڈائجسٹ - Young Muslim Digest) بھی اسی کے تحت نکلتا ہے ۔اس ادارہ کا مقصد اسلام اور صحیح عقائد کی تبلیغ و اشاعت ہے ۔
امید کہ یہ کتاب اخلاقی ،معاشرتی اور گھریلو زندگی کو سنوارنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔
مُشرِف
عبد الباسط قاسمی
اقراء ویلفیئر ٹرسٹ ، بنگلور (انڈیا)

 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پیشِ لفظ
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی سیرت دیگر تمام امہات المؤمنین اہل بیت کی سیرتوں کے مقابلے ایک الگ خصوصیت کی حامل ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ اور امور قابلِ توجہ ہیں ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے محض قرآن بھیجنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پاکیزہ زندگی کو اسوۂ حسنہ (ideal) قرار دیا تاکہ قرآن کی بنیاد پر زندگی استوار کرنے کے بعد اس زندگی کی عملی شکل کیا ہو گی وہ انسان اپنی مادی آنکھوں سے دیکھ لے اور کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے اور بہت سارے ایسے سوالات کا جواب خود مل جائے جو اسوۂ حسنہ کے سامنے نہ رہنے سے پیدا ہو سکتے تھے۔
آج جو اسلام کی اصلی شکل ہمارے سامنے موجود ہےاس کی وجہ یہی ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ ایک آئیڈیل زندگی یعنی نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ایسی آئیڈیل زندگی انسان کی نفسیاتی احتیاج بھی ہے اس لئے کہ ہر شخص کسی نہ کسی کو اپنا آئیڈیل ضرور قرار دیتا ہے۔
گو نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی مرد و عورت سب کے لئے نمونہ ہے تاہم عورتوں کے چند ایسے مخصوص مسائل ہیں جن میں اگر چہ قرآن نے واضح طور پر روشنی ڈالی ہے لیکن پھر بھی نفسیاتی طور پر عورتوں کو اس پہلو سے بھی ایک آئیڈیل عورت کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسی عورت کون ہو سکتی ہے جو عورتوں کے لئے نمونہ (ideal) کا کام دے۔جہاں تک صرف ایک پاکیزہ اسلامی زندگی کا تعلق ہے تو ایسی زندگی تو تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات کی تھی ۔ لیکن کتب احادیث پر جن کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے قول و فعل سے حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی زندگی کو ان سبھی میں اکمل ترین زندگی قرار دیا ہے اور صاف صاف فرما دیا ہے کہ :
"مردوں میں بہت سے کامل مرد گزرے لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے سوا اور کوئی کامل نہیں گزری اور عائشہ کو ان عورتوں پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسی ثرید کو کھانے کے دوسرے اقسام پر "
(بخاری و مسلم)
( ثرید یعنی روٹی کو شوربے میں بھگو کر تیار کی گئی ایک غذا جو عربوں کی اعلیٰ غذا سمجھی جاتی تھی)
حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی زندگی کا یہ وہ پہلو ہے جو ابھی تک امتِ مسلمہ کے سامنے کھل کر نہیں آیا جس کا انجام یہ ہوا کہ مسلمان عورتوں نے غلط قسم کی مثالیں اپنے سامنے رکھ لیں ۔ ہماری عورتون کے سامنے آزادیِ نسواں ، مساوات اور ترقی پسندی جیسے پر فریب مگر دلکش نعروں کو عملی نمونے کے طور پر پیش کیا گیا اور عورتوں کے نفسیاتی ضرورت کی تسکین ہو گئی۔
مولانا سید سلیمان ندوی نور اللہ مرقدہ (رحمۃ اللہ علیہ) نے شاید اسی ضرورت کے پیش نظر یہ کتاب سیرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نہایت محققانہ طریقہ پر لکھی ۔ لیکن اس دور کی بے ذوقی اور علمی پستی کا کیا کہیے کہ 200 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک مخصوص حلقہ خواص سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ حالانکہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا نمونۂ زندگی تو ہر گھر بلکہ ہر خاتون کی ضرورت ہے۔
اسی اہم ضرورت کے پیش نظر اقراء ویلفیئر ٹرسٹ نے اس کتاب کی تلخیص کا منصوبہ بنایا ۔ اس ادارہ کے دہلی کے نمائندے جناب حسن امام صاحب نے یہ ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی ۔ اس کتاب کی تلخیص میں حسب ذیل اصول پیش نظر رہے۔
1۔ دقیق علمی مباحث خصوصاً بحث روایت و درایت اور متن و اسناد حذف کر دئے گئے ہیں
2۔ جہاں زیادہ طوالت محسوس کی گئی خصوصاً واقعۂ جنگِ جمل وغیرہ تو وہاں ان اجزاء کو جو بہت زیادہ ضروری نہ تھے حذف کر دیا گیا ہے۔
3۔ باب علم و فضل اور افتاء و ارشاد میں جہاں ایسے مسائل بیان کئے گئے ہیں جن میں حضرت عائشہ منفرد ہیں اور ان کا موقف دیگر صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)، علماء جمہور و عملِ متواترہ کے خلاف ہے، چونکہ یہ خالصۃً علمی مسائل ہیں اس لئے حذف کر دئے گئے ہیں ۔
4۔ اصطلاحات اور ثقیل الفاظ کو حتی الامکان عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
5۔ عبارتوں کے حذف کی وجہ سے جہاں بے ربطی محسوس ہوئی دو ایک جملے بڑھا کر مربوط کر دیا گیا ہے۔
6۔ ان ضروری تبدیلیوں کی وجہ سے ابواب کی ترتیب نئے سرے سے کی گئی ہے
7۔ حتی الامکان یہ کوشش کی گئی کہ سیرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا کوئی اہم پہلو چھوٹنے نہ پائے۔
محمد شکیل شمسی​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مقدمہ
اردو زبان کی نشأۃ جدیدہ نے ہماری زبان میں جن تصنیفات کا ذخیرہ فراہم کیا ہے، ان سے رجالِ اسلام کے کارنامے ایک حد تک منظر عام پر آ گئے ہیں لیکن مخدراتِ اسلام کے کارہائے نمایاں اب تک پردۂ خفا میں ہیں ، سیرۃ عائشہؓ پہلی کوشش ہے، جس کے ذریعہ سے اس صنف کے کارناموں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
آج مسلمانوں کے اس دور انحطاط میں ان کے انحطاط کا بحصۂ رسدی آدھا سبب ’’عورت ‘‘ ہے ،وہم پرستی ،قبر پرستی ، جاہلانہ مراسم ، غم و شادی کے موقعوں پر مسرفانہ مصارف اور جاہلیت کے دوسرے آثار صرف اس لئے ہمارے گھروں میں زندہ ہیں کہ آج مسلمان بیویوں کے قالب میں تعلیمات اسلامی کی روح مردہ ہو گئی ہے ، شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ان کے سامنے مسلمان عورت کی زندگی کا کوئی مکمل نمونہ نہیں ۔ آج ان کے سامنے اس خاتون کا نمونہ پیش کرتے ہیں جو نبوت عظمیٰ کی نہ سالہ مشارکتِ زندگی کی بناء پر خواتین خیر القرون کے حرم میں کم و بیش 40 برس تک شمعِ ہدایت رہی۔
ایک مسلمان عورت کے لئے سیرتِ عائشہؓ میں اس کی زندگی کے تمام تغیرات ، انقلابات اور مصائب ، شادی، رخصتی، سسرال ، شوہر ، سوکن ، لا ولدی، بیوگی، غربت ، خانہ داری، رشک و حسد ، غرض اس کے ہر موقع اور ہر حالت کے لئے تقلید کے قابل نمونے موجود ہیں پھر علمی ، عملی ، اخلاقی ہر قسم کے گوہر گرانمایہ سے یہ پاک زندگی مالا مال ہے، اس لئے سیرۃ عائشہؓ اس کے لئے ایک آئینہ خانہ ہے، جس میں صاف طور سے یہ نظر آئیگا کہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کی حقیقی تصویر کیا ہے۔
ایک خاص نکتہ جو اس موقع پر لحاظ کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ صدیقہ کی سیرۃ مبارکہ نہ صرف اس لئے قابل مطالعہ ہے کہ وہ ایک حجرہ نشینِ حرمِ نبوت کی پاک زندگی کے واقعات کا مجموعہ ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی اس کا مطالعہ ضروری ہے کہ یہ دنیا کے بزرگ ’’ترین انسان ‘‘ کی زندگی کا وہ نصف حصّہ ہے، جو ’’ مرأۃ کاملہ ‘‘ (کامل عورت ) کا بہترین مرقع ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔
سوانح عمریوں کے لئے عموماً تاریخ کی کتابیں کار آمد ہوتی ہیں ، لیکن اس وقت جس زمانہ کے واقعات لکھنا ہے، اس کی تاریخ صرف حدیث کی کتابیں ہے، یہ تمام ذخیرہ در حقیقت جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اُمّہات المومنینؓ اور اصحاب کبارؓ کی مقدس زندگیوں کی عملی تاریخ ہے اس بناء پر میرے معلومات کا ماخذ صرف احادیث کی کتابیں ہیں ، جوامع مسانید اور سنن سے عموماً اور کہیں کہیں اسماء الرجال کی کتابوں مثلاً طبقات ابن سعد، تذکرۃ الحفاظ ذہبی ، تہذیب ابنِ حجر وغیرہ اور فتح الباری قسطلانی ، خودی وغیرہ شروح احادیث سے بھی مدد لی گئی ہے، عام تاریخ کی کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا ہے، جنگ جمل کے متعلق بے شبہہ مجبوری تھی کہ اس کا مفصل تذکرہ احادیث میں نہیں ہے ، اس لئے اس باب میں زیادہ تر طبری پر اعتماد کیا گیا ہے۔
حدیث کی کتابوں میں زیادہ تر صحیح بخاری، صحیح مسلم ، ابو داؤد اور مسند امام احمد بن حنبل میرے پیش نظر رہی ہیں ، ان کتابوں کا ایک ایک حرف میں نے پڑھا ، مسند کی چھٹی جلد میں حضرت عائشہؓ کے مرویاّت میں ان کے حالات کثرت سے ملے، اس کتاب کے ماخذوں میں سب سے نادر کتاب حاکم کی مستدرک اور سیوطی کی عین الاصابہ فی استدراک عائشہ علی الصحابہ ہے، عین الاصابہ ایک مختصر رسالہ ہے جس میں وہ حدیثیں جمع کی گئی ہیں جن میں حضرت عائشہؓ نے اپنے معاصرین کی غلطیاں یا غلط فہمیاں ظاہر کی ہیں ۔
اربابِ نظر جانتے ہیں کہ کتب احادیث خصوصاً بخاری میں حالات اس قدر متفرق اور منتشر ہیں کہ ان کو ڈھونڈ کر یکجا کرنا چیونٹیوں کے منھ سے شکر کے دانے چننا ہے تاہم مسلسل مطالعہ نے جو سرمایہ فراہم کر دیا ہے وہ پیش نظر ہے، اس موقع پر یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ ایک ہی واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں یا ایک ہی کتاب کے مختلف ابواب میں مذکور ہوتا ہے، میں نے جہاں کہیں کسی کتاب یا کتاب کے باب کا حوالہ دیا ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ واقعہ حدیث کی دوسری کتابوں یا دوسرے ابواب میں نہیں ہے بلکہ جہاں جو حوالہ مناسب سمجھا گیا ہے دے دیا گیا، اس لیے آپ کہیں کہیں ایک ہی واقعہ کے مختلف حوالے پائیں گے۔
سید سلیمان ندوی
(1920ء)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الحمدللہ ربّ العالمین و الصلٰوۃ والسلام علی سید المرسلین و آلہ و ازواجہ و اصحابہ اجمعین۔
ابتدائی حالات
عائشہؓ نام ، صدّیقہ لقب، ام المومنین خطاب ، امّ عبد اللہ کنیّت اور حُمیرا لقب ہے،حضور ﷺ نے بنت الصدّیق سے بھی خطاب فرمایا ہے، چونکہ حضرت عائشہؓ کی اولاد نہ تھی، اس لئے کوئی کنیت بھی نہ تھی، ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے حسرت کے ساتھ کہا کہ اور بیویوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر اپنی اپنی کنیت رکھ لی ہے، میں اپنی کنّیت کس کے نام پر رکھوں ۔ فرمایا ’’ اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر ‘‘۔ چنانچہ اسی دن سے امّ عبد اللہ حضرت عائشہؓ کی کنّیت قرار پائی۔
حضرت عائشہ کے والد کا عبد اللہ نام ، ابو بکرؓ کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام اُمّ رومان تھا یہ باپ کی طرف سے قریشییہ، تیمیہ اور ماں کی طرف سے کنانیہ ہیں ۔حضرت عائشہؓ کے والد حضرت ابو بکرؓ نے 13ھ میں وفات پائی اور ان کی ماں ام رومانؓ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت تک زندہ رہیں۔
رسول اللہﷺ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کا نسب ساتویں آٹھویں پشت پر جا کر مل جاتا ہے اور ماں کی جانب سے گیارہویں بارہویں پشت میں کنانہ پر جا کر ملتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ولادت
حضرت عائشہؓ کو وائل کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ وائل کے بھائی افلح حضرت عائشہؓ کے رضاعی چچا کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے اور رسول اللہﷺ کی اجازت سے وہ ان کے سامنے آتی تھیں ۔ان کے رضاعی بھائی بھی کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔ حضرت امّ رومانؓ کا پہلا نکاح عبد اللہ اَزوعی سے ہوا تھا۔ عبد اللہ کے انتقال کے بعد وہ حضرت ابو بکرؓ کے عقد میں آئیں ۔ ان سے حضرت ابوبکرؓ کی دو اولادیں ہوئیں ، عبد الرحمن اور حضرت عائشہؓ ۔ حضرت عائشہؓ جب پیدا ہوئیں تو نبوّت کے چار سال گزر چکے تھے اور پانچواں گزر رہا تھا۔ اس حساب سے آپ کی پیدائش شوال 5 نبوی مطابق جولائی 614ء میں ہوئی۔
صدّیق اکبرؓ کا گھر وہ خوش قسمت گھر ہے جہاں اسلام کی روشنی سب سے پہلے پہنچی۔ اس بنا پر حضرت عائشہؓ اسلام کے ان برگزیدہ لوگوں میں ہیں جن کے کانوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز نہیں سنی۔ خود حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بچپن
غیر معمولی اشخاص اپنے بچپن ہی سے اپنے رنگ ڈھنگ اور چال چلن میں ممتاز ہوتے ہیں ۔ان کی ایک ایک حرکت میں کشش ہوتی ہے، ان کی پیشانی سے مستقبل کا نور خود بخود چمک چمک کر نتیجہ کا پتہ دیتا ہے۔حضرت عائشہؓ بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے تھیں ۔ بچپن ہی میں ان کے ہر انداز سے سعادت اور بلندی کے آثار نمایاں تھے۔ تاہم بچہ بچہ ہے وہ صرف کھیلتا ہے اور کھیلنا ہی اس کی عمر کا تقاضا ہے۔ حضرت عائشہ بھی لڑکپن میں کھیل کود کی بہت شوقین تھیں ۔ محلّہ کی لڑکیاں ان کے پاس جمع رہتیں اور وہ اکثر ان کے ساتھ کھیلا کرتیں ،لیکن اس لڑکپن اور کھیل کود میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ادب ہر وقت ملحوظ رہتا۔
اکثر ایسا ہوتا کہ حضرت عائشہؓ کھیلتی ہوتیں ، ارد گرد سہیلیوں کا ہجوم ہوتا کہ اتفاقاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پہنچ جاتے۔ وہ جلدی سے گڑیوں کو چھپا لیتیں ۔ سہیلیاں آپؐ کو دیکھ کر اِدھر ادھر چھُپ جاتیں لیکن چونکہ آپؐ بچّوں سے خاص محبت رکھتے تھے اور ان کے کھیل کود کو برا نہیں سمجھتے تھے، اس لئے لڑکیوں کو پھر بُلا بُلا کر حضرت عائشہؓ کے ساتھ کھیلنے کو کہتے تھے۔ تمام کھیلوں میں ان کو دو کھیل سب سے زیادہ پسند تھے، گڑیاں کھیلنا اور جھولا جھولنا۔
تھا جس کے دائیں بائیں دو پر لگے ہوئے تھے ۔آپؐ نے پوچھا ،عائشہ! یہ کیا ہے ؟ جواب دیا کہ’’ گھوڑا ہے‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے‘‘۔ انہوں نے بر جستہ کہا ، کیوں ؟ حضرت سلیمانؑ کے گھوڑوں کے تو پر تھے‘‘۔ آپ اس بے ساختہ جواب پر مسکرا دیئے۔ اس واقعہ سے حضرت عائشہؓ کی فطری حاضر جوابی ، مذہبی واقفیت ، ذہانت اور سمجھ بوجھ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
عموماً ہر زمانے کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچّوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انھیں کسی بات کا بالکل ہوش نہیں ہوتا اور نہ وہ کسی بات کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں ، لیکن حضرت عائشہؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں ۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کی مصلحتوں کو بتاتی تھیں ۔ لڑکپن کے کھیل کود میں اگر کوئی آیت ان کے کانوں میں پڑ جاتی تو اس کو بھی یاد رکھتی تھیں ۔ فرمایا کرتی تھیں کہ مکّہ میں جب یہ آیت:
بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْھٰی وَاَمَرّْ(سورہ القمر ۔46)
( بلکہ ان سے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور وہ وقت ہے بڑی آفت والا اور نہایت تلخ)
نازل ہوئی تو میں کھیل رہی تھی۔ ہجرت کے وقت ان کا سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس کمسنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوّتِ حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبویؐ کے تمام واقعات بلکہ تمام چھوٹی چھوٹی باتیں ان کو یاد تھیں ۔ ان سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت کے واقعہ کا تمام مسلسل بیان محفوظ نہیں رکھا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شادی
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سب سے پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ بنت خویلد تھیں ۔ ہجرت سے تین برس پہلے 65 برس کی عمر میں انہوں نے وفات پائی ، اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عمر شریف پچاس برس کی تھی ۔ایسی رفیق و غمگسار بیوی کی وفات کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت غمگین رہا کرتے تھے بلکہ اس تنہائی کے غم سے زندگی بھی دشوار ہو گئی تھی۔ جاں نثاروں کو اس کی بڑی فکر ہوئی۔ حضرت عثمانؓ بن مظعون ایک مشہور صحابی ہیں انکی بیوی خولہؓ بنت حکیم آپؐ کے پاس آئیں اور عرض کی یا رسول اللہؐ آپ دوسرا نکاح کر لیں ۔ آپؐ نے فرمایا کس سے؟ خولہ نے کہا بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں جس کو آپ پسند فرمائیں اس کے متعلق گفتگو کی جائے۔ فرمایا وہ کون ہیں ؟ خولہ نے کہا بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری ابو بکرؓ کی لڑکی عائشہؓ۔ارشاد ہوا بہتر ہے تم ان کی نسبت گفتگو کرو۔حضرت خولہؓ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مرضی پا کر پہلے حضرت ابو بکرؓ کے گھر آئیں اور ان سے تذکرہ کیا۔جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں ، عرب اپنے منھ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے ۔اس بناء پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا ، خولہ! عائشہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھتیجی ہے، آپؐ سے اس کا نکاح کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت خولہؓ نے آ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اس سلسلے میں پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا ابو بکرؓ میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے قبول کر لیا ۔
حضرت عائشہؓ کم سن بچّی تھیں ۔ کبھی کبھی بچپن کے تقاضے سے ماں کی مرضی کے خلاف کوئی بات کر بیٹھتی تھیں تو ماں سزا دیتی تھیں ۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) اس حال میں دیکھتے تو رنج ہوتا۔ اس بناء پرانکی ماں حضرت امّ رومانؓ سے تاکید فرما دی تھی کہ ذرا میری خاطر ان کو ستانا نہیں ۔ ایک بار آپ حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ کواڑ سے لگ کر رو رہی ہیں ۔ آپؐ نے حضرت ام رومانؓ سے کہا کہ تم نے میری بات کا لحاظ نہیں کیا۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ باپ سے میری بات جا کر لگا آتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ بھی کرے لیکن اس کو ستاؤ نہیں ۔
حدیثوں میں آیا ہے کہ نکاح سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپؐ کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔ پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ یہ آپؐ کی بیوی ہیں ۔ آپؐ نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہؓ تھیں ۔حضرت عائشہ کا جب نکاح ہو ا تو وہ اس وقت 6 برس کی تھیں ۔یہ نکاح مئی 620ء میں ہوا۔ اس کم سنی کی شادی کا اصل مقصد نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی تھی ویسے بھی عرب کی گرم آب و ہوا میں لڑکیوں کی جسمانی ترقی بہت تیز ہوتی ہے اور پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز لوگوں کی ذہنی اور دماغی ترقی بہت تیز ہوتی ہے اسی طرح قد و قامت کی ترقی بھی بہت تیز ہوتی ہے۔ بہر حال اس کم سنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حضرت عائشہ سے نکاح کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ لڑکپن ہی سے ان میں غیر معمولی عقل و فہم اور سمجھ بوجھ کے آثار نمایاں تھے۔
حضرت عطیہؓ حضرت عائشہؓ کے نکاح کا واقعہ اس سادگی سے بیان کرتی ہیں کہ ’’ حضرت عائشہؓ لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں ۔ ان کی ماں آئیں اور ان کو لے گئیں ۔ حضرت ابو بکرؓ نے آ کر نکاح پڑھا دیا۔‘‘
مسلمان عورت کی شادی صرف اسی قدر اہتمام چاہتی ہے۔ لیکن آج ایک مسلمان لڑکی کی شادی فضول خرچی اور مشرکانہ رسم و رواج کا مجموعہ ہے۔ لیکن کیا خود سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہ مقدس تقریب اس کی عملی تکذیب نہیں ؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب میرا نکاح ہوا تو مجھ کو خبر تک نہ ہوئی کہ میرا نکاح ہو گیا۔ جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہو گیا۔ اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا۔
حضرت عائشہؓ کا مہر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے 500 درہم مقرر فرمایا تھا جو 131 تولہ اور تین ماشہ چاندی کے برابر ہے۔ بہر حال مہر کی ا س مقدار کا مقابلہ آج کل کے زر مہر کی تعداد سے کرو جو ہمارے ملک میں جاری ہے۔ آج مہر کی کمی خاندان کی ذلّت سمجھی جاتی ہے لیکن کیا اسلام کا کوئی خاندان خانوادۂ صدیقؓ سے شریف تر ہے اور کوئی مسلمان لڑکی صدیقۂ کبریٰؓ سے زیادہ بلند پایہ ہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہجرت
حضرت عائشہؓ نکاح کے بعد تقریباً 3 برس تک میکہ ہی میں رہیں ۔ 2 برس 3 مہینے مکہ میں اور 7 مہینے ہجرت کے بعد مدینہ میں ۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ روزانہ صبح یا شام کو حضرت ابوبکرؓ کے گھر بلا ناغہ آیا کرتے تھے ۔ایک دن خلاف معمول چہرۂ مبارک چادر سے لپیٹے دوپہر کو تشریف لائے ۔ حضرت ابو بکرؓ کے پاس حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ دونوں صاحبزادیاں بیٹھیں تھیں ۔ آپ نے پکار کر آواز دی کہ ابو بکر ذرا لوگوں کو ہٹا دو میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ عرض کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہاں کوئی غیر نہیں ، آپؐ ہی کے گھر والے ہیں ۔ آپؐ تشریف لائے اور ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا۔ حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ نے مل جل کر سامان سفر درست کیا ۔دونوں صاحبوں نے مدینہ کی راہ لی اور بال بچوں کو یہیں دشمنوں کے بیچ چھوڑ گئے جس دن یہ مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا مدینہ پہنچا، نبوّت کا چودہواں سال اور ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ تھی۔
مدینہ میں ذرا اطمینان ہوا تو آپؐ نے بیوی بچّوں کے لانے کے لئے حضرت زید بن حارثہؓ اور اپنے غلام ابو رافعؓ کو مکہ بھیجا۔ حضرت ابو بکرؓ نے بھی اپنا آدمی بھیج دیا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن ابی بکرؓ اپنی ماں اور دونوں بہنوں کو لیکر مکہ سے روانہ ہوئے ۔اتفاق سے جس اونٹ پر حضرت عائشہؓ سوار تھیں وہ بھاگ نکلا اور اس زور سے دوڑا کہ ہر منٹ پر یہ ڈر تھا کہ اب پالان گرا اور اب گرا۔ عورتوں کا جیسا قاعدہ ہے ماں کو اپنی پرواہ تو نہ تھی لیکن بیٹی کے لئے زارو قطار رونے لگیں ۔آخر میلوں پر جا کر جب اونٹ پکڑا گیا تو ان کو تشفی ہوئی ۔یہ مختصر قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) اس وقت مسجد نبویؐ اور اس کے آس پاس مکانات بنوارہے تھے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دونوں صاحبزادیاں حضرت فاطمہؓ اور حضرت ام کلثومؓ اور آپ کی بیوی حضرت سودہؓ بنت زمعہ اسی نئے گھر میں اتریں ۔
 
Top