پیشِ لفظ
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی سیرت دیگر تمام امہات المؤمنین اہل بیت کی سیرتوں کے مقابلے ایک الگ خصوصیت کی حامل ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ اور امور قابلِ توجہ ہیں ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے محض قرآن بھیجنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پاکیزہ زندگی کو اسوۂ حسنہ (ideal) قرار دیا تاکہ قرآن کی بنیاد پر زندگی استوار کرنے کے بعد اس زندگی کی عملی شکل کیا ہو گی وہ انسان اپنی مادی آنکھوں سے دیکھ لے اور کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے اور بہت سارے ایسے سوالات کا جواب خود مل جائے جو اسوۂ حسنہ کے سامنے نہ رہنے سے پیدا ہو سکتے تھے۔
آج جو اسلام کی اصلی شکل ہمارے سامنے موجود ہےاس کی وجہ یہی ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ ایک آئیڈیل زندگی یعنی نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ایسی آئیڈیل زندگی انسان کی نفسیاتی احتیاج بھی ہے اس لئے کہ ہر شخص کسی نہ کسی کو اپنا آئیڈیل ضرور قرار دیتا ہے۔
گو نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی مرد و عورت سب کے لئے نمونہ ہے تاہم عورتوں کے چند ایسے مخصوص مسائل ہیں جن میں اگر چہ قرآن نے واضح طور پر روشنی ڈالی ہے لیکن پھر بھی نفسیاتی طور پر عورتوں کو اس پہلو سے بھی ایک آئیڈیل عورت کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسی عورت کون ہو سکتی ہے جو عورتوں کے لئے نمونہ (ideal) کا کام دے۔جہاں تک صرف ایک پاکیزہ اسلامی زندگی کا تعلق ہے تو ایسی زندگی تو تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات کی تھی ۔ لیکن کتب احادیث پر جن کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے قول و فعل سے حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی زندگی کو ان سبھی میں اکمل ترین زندگی قرار دیا ہے اور صاف صاف فرما دیا ہے کہ :
"مردوں میں بہت سے کامل مرد گزرے لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے سوا اور کوئی کامل نہیں گزری اور عائشہ کو ان عورتوں پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسی ثرید کو کھانے کے دوسرے اقسام پر "
(بخاری و مسلم)
( ثرید یعنی روٹی کو شوربے میں بھگو کر تیار کی گئی ایک غذا جو عربوں کی اعلیٰ غذا سمجھی جاتی تھی)
حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی زندگی کا یہ وہ پہلو ہے جو ابھی تک امتِ مسلمہ کے سامنے کھل کر نہیں آیا جس کا انجام یہ ہوا کہ مسلمان عورتوں نے غلط قسم کی مثالیں اپنے سامنے رکھ لیں ۔ ہماری عورتون کے سامنے آزادیِ نسواں ، مساوات اور ترقی پسندی جیسے پر فریب مگر دلکش نعروں کو عملی نمونے کے طور پر پیش کیا گیا اور عورتوں کے نفسیاتی ضرورت کی تسکین ہو گئی۔
مولانا سید سلیمان ندوی نور اللہ مرقدہ (رحمۃ اللہ علیہ) نے شاید اسی ضرورت کے پیش نظر یہ کتاب سیرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نہایت محققانہ طریقہ پر لکھی ۔ لیکن اس دور کی بے ذوقی اور علمی پستی کا کیا کہیے کہ 200 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک مخصوص حلقہ خواص سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ حالانکہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا نمونۂ زندگی تو ہر گھر بلکہ ہر خاتون کی ضرورت ہے۔
اسی اہم ضرورت کے پیش نظر اقراء ویلفیئر ٹرسٹ نے اس کتاب کی تلخیص کا منصوبہ بنایا ۔ اس ادارہ کے دہلی کے نمائندے جناب حسن امام صاحب نے یہ ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی ۔ اس کتاب کی تلخیص میں حسب ذیل اصول پیش نظر رہے۔
1۔ دقیق علمی مباحث خصوصاً بحث روایت و درایت اور متن و اسناد حذف کر دئے گئے ہیں
2۔ جہاں زیادہ طوالت محسوس کی گئی خصوصاً واقعۂ جنگِ جمل وغیرہ تو وہاں ان اجزاء کو جو بہت زیادہ ضروری نہ تھے حذف کر دیا گیا ہے۔
3۔ باب علم و فضل اور افتاء و ارشاد میں جہاں ایسے مسائل بیان کئے گئے ہیں جن میں حضرت عائشہ منفرد ہیں اور ان کا موقف دیگر صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)، علماء جمہور و عملِ متواترہ کے خلاف ہے، چونکہ یہ خالصۃً علمی مسائل ہیں اس لئے حذف کر دئے گئے ہیں ۔
4۔ اصطلاحات اور ثقیل الفاظ کو حتی الامکان عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
5۔ عبارتوں کے حذف کی وجہ سے جہاں بے ربطی محسوس ہوئی دو ایک جملے بڑھا کر مربوط کر دیا گیا ہے۔
6۔ ان ضروری تبدیلیوں کی وجہ سے ابواب کی ترتیب نئے سرے سے کی گئی ہے
7۔ حتی الامکان یہ کوشش کی گئی کہ سیرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا کوئی اہم پہلو چھوٹنے نہ پائے۔
محمد شکیل شمسی