• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ از علامہ محمد رضا

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
مقدمۃ المحقّق
یقینا ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ،ہم اس کی حمد و ثنا بیان کرتے، اسی سے مدد اور مغفرت طلب کرتے ہیں، ہم اپنے نفسوں کے شراور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدصل اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، انہوں نے امانت کو اٹھایا، رسالت کو پہنچایا اور آخری دم تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا، جیسا کہ جہاد کرنے کا حق تھا، پس اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو، اللہ تعالیٰ ہمیں اس روز آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے جس روز اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔

’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرو تو صرف اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔“
۳/آل عمران:۲۰۱۔
اے لوگو اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں کی نسل سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابت داری (کے تعلقات منقطع کرنے) سے ڈرو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگہبان ہے۔“
۴/النساء:۱۔

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور بات کہو تو سیدھی اور پختہ۔وہ تمہارے اعمال کو سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے تو وہ عظیم الشان کامیابی حاصل کرتا ہے۔‘‘
۳۳/الاحزاب:۷۰۔۷۱ ۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
خطبہ مسنونہ کے بعد:
یقیناًاسلام لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کرنے، انہیں اندھیروں اور تاریکیوں سے روشنی کی طرف لانے ، دنیا و آخرت میں ان کے لیے سعادت ثابت کرنے، عقیدہ و عبادت اور معاملات و اخلاق کے ہر پہلو سے صالح معاشرے کی ایجاد و قیام کے لیے آیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد صل اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ منہج کے مطابق اسلام، اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس اکیلے کی عبادت کرنے کی طرف دعوت دینے کا اہتمام کریں، وہ لوگوں کے نفوس کا تزکیہ اور ان کی تربیت او ر ہراس چیز کی بیخ کنی کریں جو عوام اور معاشرے کے لیے خرابی کا باعث ہے۔
کیونکہ دین حنیف کی تبلیغ کے سلسلے میں علما، انبیا علیہم السلام کے وارث ہیں،پس صحابہ کرام اور ان کے بعد سلف صالحین نے لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دینے اور صراط مستقیم کی طرف ان کی راہنمائی کرنے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے اسلام اور عقیدہ اسلامیہ کے دفاع میں جان و مال خرچ کر دیا ، انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاں سے ملنے والے اجر و ثواب پر وثوق اور اس نے اپنے متقی بندوں سے جو وعدے کیے ہیں ان پر پختہ یقین کرتے ہوئے اس راہ میں ہر ممکن کوشش صرف کر دی۔
ایمان ان کے دلوں میں گھر کر گیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی قوت سے جلد ہی باوقار بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور مہاجرین و انصار میں سے پیش قدمی کرنے والے پہلے لوگوں اور خلوص دل سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ خوش ہو گیا اور وہ اللہ سے خوش ہو گئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں، وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
۹/التوبہ:۱۰۰۔
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و تاریخ ایسی اہم چیز ہے جس کی ہر دور میں ہر مسلمان مرد و زن کو ضرورت رہی ہے۔ ان بہادر و بے مثال اشخاص کی زندگی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے، انہی اشخاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے سینوں میں اسلام کی مشعل روشن کی، ان کی سیرت و تاریخ کا ہر پہلو خواہ وہ صحابیت کے حوالے سے ہو، خلافت کے حوالے سے ہو، علم و قضا ہو، خواہ طب و حکمت سے متعلق ہو، امت اسلامیہ اس پر فخر کر سکتی ہے۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو ہر دور اور ہر نسل و قوم کے لیے مشعل راہ اور مینارۂنور رہا ہے، ہر نسل و قوم نے ان سے ایمان ، ورع و تقوی، جہاد و قوت ، حکم نیز عدل و احسان اور حکمت کا خزینہ حاصل کیا ہے، وہ مینار ۂ اسلام کیسے نہ ہوں جبکہ وہ حق کے لیے اہل اور رشد و ہدایت کے لیے سبیل ہیں۔

جب ان کے دل ایمان سے بھر گئے اور اللہ تعالیٰ نے اسے ان کے دلوں میں مزین کر دیا تاکہ وہ اپنی نعمت ان پر ظاہر کر دے، تو ارشادفرمایا:
’’اور جان لو کہ تمہارے اندر اﷲ کا رسول ہے اگر وہ تمہاری بہت سے معاملات میں اطاعت کرے تو تم مشکل میں پڑجاؤلیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور اس کو تمہارے دلوں میں پسندیدہ بنا دیا ہے اور کفر و انکار اور بدکاری و نافرمانی سے تمہیں متنفر کر دیا ہے، یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

الحجرات:7

جب انہوں نے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی، نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی تو اللہ تعالیٰ نےانہیں نجات و کامیابی کی بشارت ان الفاظ کے ساتھ سنائی :
’’یقیناًمومنوں نے فلاح پائی۔‘‘
۲۳/المومنون:۱۔
جب نبی صل اللہ علیہ وسلمکی برکت سے صحابہ کرام آپس میں بھائی بھائی بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:

’’پس تم اس کی عنایت سے بھائی بھائی بن گئے۔‘‘
۳/آل عمران:۱۰۳۔

رسول اللہ نے اس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا:

’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔‘‘

بخاری،باب لایظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ: ۲۴۴۲و ۶۹۵۱؛ مسلم ، کتاب البر و الصلۃ والاداب، باب تحریم الظلم:۲۵۸۰۔

پس وہ دست واحد، قلب واحد اور جسد واحد بن گئے اور آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرنے والے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:

’’محمدصل اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ(صحابہ) آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں، تم انہیں رکوع کرتے، سجدہ میں جاتے اور اللہ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں لگے ہوئے دیکھتے ہو، یہ نشانیاں ان کے چہروں پر سجدوں کے نشانات سے نمودار ہیں۔ ان کے یہ ہی اوصاف تور ات میں اور یہ ہی انجیل میں مذکورہیں۔‘‘
۴۸/الفتح:۲۹۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
صحابہ کرام رضی اللہ عنہمسب سے افضل نبی و رسول صل اللہ علیہ وسلمکے بہترین ساتھی تھے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلمکے بعد انہوں نے زمین کے اکثر حصوں میں رسالت اور اسلام کی نشر و اشاعت اور دعوت پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنے کی انتہائی کوشش کی، اس سلسلے میں انہوں نے اپنی جانوں کی پروا نہیں کی۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کیا، انہوں نے لوگوں تک کلمہ حق یعنی کلمہ توحید پہنچانے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو بندوں کی پوجا سے نکال کر بندوں کے رب کی عبادت کرنے کی طرف لانے اور انہیں سرکشوں کے ظلم سے نکال کر اسلام اور خلفا کے عدل کی طرف لانے کی خاطر اپنی جانوں کو پیش کیا جو کہ انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول aکی محبت کی خاطر اللہ تعالیٰ کی دعوت دینے کی راہ میں جہاد و فتح کی تلخیوں کو بھی برداشت کیا۔ انہوں نے اپنی ذات کی پرواہ کی نہ کسی اور چیز کی، انہوں نے اپنی اولاد، اپنی ازواج اور اپنے وطنوں کو خیرباد کہہ دیا اور دنیا کے مشرق و مغرب میں بسنے والے ایک ایک مسلمان کی خاطر اپنے آرام و سکون کو قربان کر دیا۔
ان کی بدولت(اسلام کی ) ہدایت پوری دنیا میں پھیل گئی اور اسلام و ایمان نیز عبادت و احسان کی حکومت قائم ہو گئی اور لوگ ہر طرف اور ہر جگہ سے جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت سے رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کرام بالخصوص ہمارے ساداتِ ذی وقار خلفائے اربعہ(ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم) کی سیرت جیسے موضوع جلیل پر تالیف کی سعادت استاذ محمد رضا کے حصہ میں آئی، وہ اس طرح کہ انہوں نے ان صحابہ کرام میں سے ہر ایک کے لیے الگ خصوصی تالیف کا اہتمام کیا، آپ سے پہلے کسی نے اس نوعیت کا کام نہیں کیا اور یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر خصوصی فضل و کرم ہے۔ پھر ان کے بعد انہوں نے نوجوانانِ جنت کے دو سرداروں اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلمکے دو پیارے نواسوں ابو محمد الحسن اور ابوعبداللہ الحسین رضی اللہ عنہم کے متعلق دو الگ الگ کتابیں تصنیف کیں۔
میں اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس پر توکل کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ نبیصل اللہ علیہ وسلمکی اتباع کے بعد سب سے اہم بات آپ صل اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی اتباع ہے۔ جیسا کہ آپ صل اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
’’تم میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو اور اسے زور کے ساتھ دانتوں سے پکڑ لو۔‘‘

ابو داود، کتاب السنۃ، باب فی لزوم السنۃ:۴۶۰۷؛ الترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع:۲۶۷۶؛ ابن ماجہ، مقدمہ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین:۴۲۔

ان کی اتباع، ان کی سیرت، تاریخ اور ان کے طبقات کا مطالعہ کرنے، ان کے اقوال حفظ کرنے اور ان کا موقف نقل کرنے کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔ جس طرح رسول اللہ کی حیات مبارکہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے اسی طرح آپ کے صحابہ کرام کی زندگی میں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہونا چاہیے، پس ہم ابوبکر کی حکمت، عمرکی عقلمندی ، عثمان کا حیا، علی کا علم، حسن کی نرمی، حسین کا ثبات، حمزہ کی شجاعت، معاذ کا ورع و تقویٰ، عباس کا یقین، ابن مسعود کا تقویٰ، ابوہریرہ کا توکل، جعفرکا اخلاص، ابن عباس کی محبت، ابن عمر کی عبادت ، انس کی تواضع، حذیفہ کا صدق، زید کا صبر، ابوذر کا حلم،اُبی کی غیرت، ابودرداء

رضی اللہ عنہم کا خوف حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ان کی اولاد اور ان کی ازواج پر راضی ہو۔
میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی رحمت سے ہمیں ڈھا نپ لے اور اپنے فضل و کرم کے ذریعے ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کرے، ہمیں صحابہ کرام کا منہج اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں سید المرسلین کی سچی اتباع کرنے والوں کی صف میں شامل فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ وسلم.

الشیخ خلیل مامون
 
Top