• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شان رسالت میں گستاخی کی سزا اور آزادیٔ رائے

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
تحریر: جناب رانا محمد شفیق خاں پسروری
گستاخانِ یورپ گاہے گاہے کائنات کی سب سے عظیم و افضل ہستی کی شانِ اقدس میں گستاخی کی جسارت کر کے دنیا میں سب سے زیادہ بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں اور پھر اس کو ’’آزادیٔ اظہار رائے‘‘ کے نام سے جاری رکھنے پر اصرار بھی کرتے ہیں حالانکہ رائے کی آزادی اور کسی کی دل آزاری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دنیا کے کسی معاشرے میں رائے کے اظہار کی ایسی آزادی نہیں کہ جس کی چاہا عزت خاک میں ملا دی اور جس کے چاہا دل کے پرخچے اڑا دئیے۔ ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں۔ حقائق تک کو بیان کرنے کے لئے بھی حدود و قیود پائی جاتی ہیں۔ مثلاً یورپ و امریکہ میں بھی جہاں فحاشی و عریانی عروج پر ہے، بچوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی فحش نگاری، مذہبی ونسلی منافرت پھیلانے والی تحاریر و تقاریر پر پابندی ہے۔ آسٹریا، بیلجیئم، چیک ری پبلکن، فرانس، جرمنی، اسرائیل، ایتھوپیا، پولینڈ، رومانیہ، چیکوسلواکیہ، سوئٹزرلینڈ وغیرہ میں عالمی جنگوں کی تباہی کے انکار کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک میں ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے انکار بلکہ اس کے بارے میں یہ تک کہنے کی اجازت نہیں کہ ’’اس میں ہلاک شدہ یہودیوں کی تعداد مبالغہ آمیز ہے۔‘‘

۱۹۸۴ء میں ایک سکول ٹیچر ’’جیمز کنگ‘‘ نے ہولوکاسٹ کے بارے میں چند الفاظ کہے تھے، اس کو نوکری سے برخاست کر کے سزا دی گئی۔ کینیڈا کے ’’ارنسٹ رنڈل‘‘ کو ہولوکاسٹ کے بارے میں تضحیکی انداز اپنانے پر ۱۵ ماہ قید کی سزا ہوئی۔ کینیڈا ہی کے ’’کن میک وے‘‘ کو انٹرنیٹ پر اس حوالے سے مضمون لکھنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ آسٹریا کے ایک لکھاری ’’ڈیوڈ ڈارونگ‘‘ نے لکھ دیا کہ ۶۰ لاکھ یہودیوں کی ہلاکت کی بات مبالغہ آمیز ہے۔‘‘ اس کو ۱۷ سال بعد (فروری ۲۰۰۶ء میں) گرفتار کر کے تین سال کی سزا دی گئی۔ ایران کے صدر احمدی نژاد نے ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے بارے میں تقریر کی تو پورے یورپ نے شدید احتجاج کیا تھا۔ یورپ کے بعض ممالک میں ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے انکار پر ۲۰ سال تک کی سزا مقرر ہے۔ ایرانی صدر احمدی نژاد کی تقریر پر یہودی تنظیم کے صدر کا بیان شائع ہوا تھا کہ ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے انکار کا مطلب ۶۰ لاکھ یہودیوں کو دوبارہ قتل کرنے کے مترادف ہے۔‘‘

اظہار رائے کی آزادی کی بات کرنے والے یورپ و امریکہ کی اپنی حالت یہ ہے کہ ’’وہاں بھی کوئی کھل کر ان کے دستور، اقتدار اعلیٰ یا پالیسیوں پر بات نہیں کر سکتا۔ صرف یورپ و امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں وہاں کے دستور یا اقتدار اعلیٰ سے بغاوت یا باغیانہ اظہار رائے کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے اور مجرموں کے لئے موت تک کی سزا موجود ہے۔ اسی طرح مقدس ہستیوں، مقدس مقامات اور مقدس اشیاء کی توہین پر سزا کا قانون بھی اکثر (بلکہ تمام) ممالک میں موجود ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق اکثر ممالک میں بلاس فیمی لاء Blas phemy Law ایک لفظ موجود ہے۔ خصوصاً آسمانی صحائف اور آسمانی ادیان سے تعلق رکھنے والی اقوام میں انبیاء و رسلؑ کی توہین قابل سزا جرم ہے۔ قدیم ایران میں تین قسم کے جرم تھے:

مضمون لنک
http://www.ahlehadith.org/shan-risalat-men-gustakhi-ki-saza-aur-azadi-ray
 
Top