• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرح العقیدۃ الواسطیہ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
413
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
64
شرح العقیدۃ الواسطیہ

پہلا درس: مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله وحدہ لا شریک له والصلاة والسلام على رسول الله محمد خاتم الأنبياء والرسل و على آله و صحبه ومن والاه.

أما بعد:

طویل مدت سے یہی تمنا تھی کہ عوام الناس تک قرآن وسنت کا صاف اور شفاف عقیدہ پہنچ جائے، جو کہ ہر قسم کے فرقہ پرستی اور صوفیت، ارجائیت، جہمیت اور اس طرح دوسری غلاظتوں سے پاک عقیدہ ہو، بوجہ سستی اور ضعف بشریت کے یہ کام مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا رہا، حلانکہ آج کل اردو دان دنیا میں اس موضوع پر کام کرنے کی بہت قلت محسوس بھی کی جا رہی ہے، اور دوسری جانب فتنوں کا دور دورا ہے، علماء سوء اپنے طواغیت کی خوشنودی کیلئے دعاۃ علی ابواب جہنم بنے بیٹھے ہیں، اور لوگوں کو طاغوتی نظام کی مضبوطی کیلئے گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جس میں گمراہی کا سب سے بڑا دروازہ عقیدہ (نظریہ) کی بگاڑ ہے، کیونکہ عقیدہ (نظریہ) ہی وہ اساس ہے جس کے ذریعے انسان اپنی کوشش اور محنت پوری اخلاص کے ساتھ جاری رکھ سکتا ہے، اور اسی بنیاد پر ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔

جب دیکھا کہ امت کے نوجوانوں کو طاغوتی اور عالمی دجالی نظام کی مضبوطی کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں، اور ان کو اپنے اسلامی عقیدے سے دور رکھ کر ارجائیت، صوفیت، اور دوسرے شرکی عقائد سے ان کو گمراہ کئے جا رہے ہیں، تو بہت افسوس ہوا، اور دل میں ایک قسم کا درد محسوس کرلیا، اور لازم سمجھا کہ عقیدے کے موضوع پر کام کرنا ضروری بلکہ واجب ہے، تو اس کیلئے اپنے اوپر لازم کردیا کہ وسائل میسر نہ ہونے کے باوجود بھی کچھ کر ہی جاؤں گا ان شاءاللہ۔

اسی مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ارادہ کیا کہ کسی ایسی کتاب کا انتخاب کیا جائے جس میں لوگوں کیلئے زیادہ منفعت اور فائدہ ہو، اور سلف صالحین کے عقیدے کی صحیح ترجمانی بھی کر سکے، جس کیلئے اپنے دوسرے موحدین بھائیوں سے مشورہ بھی کرلیا، بالآخر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مشہور کتاب (العقيدة الواسطية) کو چن لیا، جوکہ ایک مختصر اور جامع کتاب بھی ہے، اور اہل سنت والجماعت کے ایک مشہور اور بڑے امام کی تصنیف کردہ بھی ہے، وہ امام جن کا نام اور علمی کارنامے سات صدیاں گزرنے کے باوجود لوگوں کی زبان پر موجود ہے، جس نے اپنے وقت کے تمام فرقہ پرستوں اور گمراہ عقائد کے پرچاریوں کی حقیقت بیان کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں اہل سنت والجماعت کے صاف اور شفاف عقیدے پر ہر قسم کے اعتراضات کی مدلل رد پیش کردیا۔

(العقیدۃ الواسطیہ) کی تالیف کا سبب واسط شہر کے ایک قاضی بنا، جس نے تاتاری مرتدین، متکلمین اور دیگر گمراہ فرقوں کے گمراہ کن عقائد پھیلنے کی شکایت کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے عقیدہ کی باب میں ایک مختصر رسالے کا مطالبہ کیا، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس قاضی کے مطالبے کو لبیک کہتے ہوئے ایک مختصر سے وقت میں یہ رسالہ تصنیف فرمایا، جو بعد میں اس کے مختلف نسخے مختلف ممالک اور شہروں میں جا پھیلے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا پورا نام تقی الدین ابو العباس احمد ابن عبد الحلیم ابن تیمیہ ہے، ان کی پیدائش سنہ 661 ھ میں ہوئی اور قلعہ دمشق میں بحالت قید سنہ 728 ھ میں وفات پائی، شیخ الاسلام نے مخلتف کتابیں تصنیف کرکے اس امت اسلامیہ کیلئے گراں قدر میراث چھوڑ کر گئے ہیں، جس میں سے بعض کے نام یہ ہے:
• فتاوی ٰابن تیمیہ
• الصارم المسلول
• منہاج السنہ
• اقتضاء الصراط المستقیم وغیرہ شامل ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے چونکہ یہ رسالہ فرقہ ناجیہ یعنی اہل سنت والجماعت کے عقیدے کو بیان کرنے کیلئے تالیف فرمایا ہے اس لئے اس میں جابجا آپ کو ملاحدہ، جہمیہ، معتزلہ، مرجئہ اور دوسرے گمراہ فرقوں کے غلط عقائد پر رد کرتے بھی نظر آئے گا، اہل سنت والجماعت کا عقیدہ چھ چیزوں پر ایمان لانا ہے: اللہ تعالیٰ پر، اللہ کے رسولوں پر، ملائکہ پر، آسمانی کتابوں پر، یوم آخرت پر اور تقدیر پر۔

ایمان باللہ میں کچھ تفصیل سے بات کی ہے کیونکہ معتزلہ، جہمیہ اور دوسرے گمراہ فرقوں نے صفات الہٰی کا انکار یا تاویل کی تھی اسی لئے آپ نے قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کو بکثرت ذکر کیا ہے، جو صفات الہٰی پر دلالت کرتے ہیں، خاص طور پر صفت علو، استواء علی العرش، صفت کلامی کی تشریح کی ہے، پھر ایمان بالیوم الآخر کی تشریح میں عذاب ونعیم قبر، احوال محشر اور جنت و جہنم کا بیان کیا ہے، تقدیر کے مبحث کو کسی قدر بیان کردیا ہے، آسمانی کتابوں کی حقیقت بیان کرکے صفت کلامی کو کچھ تفصیل سے ذکر کیا ہے، اور چونکہ ایمان بالرسل و الملائکہ میں زیادہ انحراف واقع نہیں ہوا تھا اس لئے ان کے سرسری ذکر پر اکتفاء کیا۔

روافض مشرکین کی وجہ سے سَبِّ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خطرناک بدعت اور کفر ظاہر ہوا تھا، اس لئے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے سیاسی اختلافات کے متعلق اہل سنت والجماعت کے مسلک کو واضح کیا، اور گمراہ متصوفین کی تردید کرتے ہوئے افعال نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کو مسلک اہل سنت قرار دیا، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس رسالے میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کے اہم امور کو مدلل طور پر واضح اور بیان کردیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے بدست دعاء ہوں کہ اللہ ہم سے یہ عمل قبول فرمائے، اور عوام المسلمین کی ہدایت اور رشد کا سبب بنائے، اور ہمارے لئے سامان آخرت کا ذریعہ بنائے، اور ہمیں اپنے دین کی خدمت کیلئے استعمال فرمائے، اور صحیح عقیدہ پر ثابت قدمی نصیب فرمائے آمین۔
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
413
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
64
دوسرا درس: خطبہ کا ترجمہ اور تشریح

بسم الله الرحمن الرحيم

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، وَأَشْهَدُ أَلَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ إِقْرَارًا بِهِ وَتَوْحِيدًا ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلٰى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا مَزيدًا.

(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)

ترجمہ: ہر قسم کی تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں، وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اللہ عز و جل گواہ کافی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اسکا کوئی شریک نہیں ہے، میں اس بات کا زبان سے اقرار کرتا ہوں اور اخلاص کے ساتھ اس کو یکتا ذات مانتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ آپ پر اور آپ کے اہل اور اصحاب پر بے بہا رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔

تشریح: مصنف رحمہ اللہ نے کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے اپنے اس رسالے کی ابتداء بسم اللہ سے کردی، قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداء میں بسم اللہ لکھی ہوئی ہے سوائے سورہ براءۃ کے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے خطوط کی ابتداء بسم اللہ سے فرماتے تھے۔

•اسم: وہ لفظ ہے جو کسی متعین معنی پر دلالت کرے یا کسی معنی کو دوسرے معنی سے ممیز (جدا) بنانے کیلئے وضع کیا جائے۔

• اللہ: ذات مقدسہ کا نام ہے، اور اس کا معنی ہے: وہ ذات جس کی عبادت کی جاتی ہے۔

•الرحمن الرحیم: یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے دو خوبصورت نام ہیں، جوکہ رحمت سے مشتق ہے، اور اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق اس ذات کا رحمت سے متصف ہونے پر دلالت کرتے ہیں، پھر (الرحمن) کا مطلب ہے: وہ ذات جو اپنے تمام مخلوق پر رحمت کرنے والا ہے، اور (الرحیم) کا مطلب ہے: وہ ذات جو اپنے خاص بندوں یعنی مؤمنین پر رحمت کرنے والا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا﴾ (الأحزاب: 43)
ترجمہ: اور (اللہ تعالیٰ) مومنین پر رحم کرنے والا ہے۔

بسم اللہ کا خلاصہ کلام یہ ہوا کہ: اس رسالے کو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں، جوکہ رحمن اور رحیم ذات ہے، جوکہ تمام مخلوقات پر عام رحمت کرنے والا اور مومنین پر خاص رحمت کرنے والا ہے۔

• (الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَرْسَلَ۔۔۔) شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے سنت نبوی کی اتباع کرتے ہوئے اپنے رسالے کو حمد و ثناء اور شہادتین پر مشتمل خطبے سے شروع کردیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنت تھی، اور اسی طرح سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں آتا ہے: (كل أمر ذي بال لم يبدأ فيه بالحمد لله فهو أقطع) [سنن ابی داؤد: کتاب الأدب: 4840]
یعنی جو بھی اہم فعل یا قول الحمد للّہ سے شروع نہ کی جائے وہ برکت والا نہیں رہتا۔

• الحمد للہ: کا مطلب ہے کہ ہر قسم کے محامد، تعریفیں اور اچھی صفات اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ منعم (نعمت عطاء کرنے والا) ذات ہے.

• الذي أرسل رسوله: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کیلئے پیارے نبی محمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔

• الرسول: رسول کا معنی ہے پیغام لانے والا، اور شرع میں رسول اس عظیم شخص کو کہا جاتا ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کسی امر کی وحی کرے اور پھر اس وحی کو انسانوں تک پہنچانے کا امر دے۔

• بالهدى: یہاں ہدی سے مراد علم نافع ہے، یعنی ہر وہ امر جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس پہنچایا ہے، چاہئے وہ سچی خبروں (قصص، اور آخری زمانے کی نشانیاں) کی صورت میں ہو یا اوامر (واجبات، سنن، نوافل) کی صورت میں ہو یا نواہی (حرام، مکروہات) کی صورت میں ہو یا شرائع نافعہ (نظام، قانون) کی صورت میں ہو۔

پھر ہدایت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں:
1: ہدایت کا مطلب ہے کہ کسی کو کسی ہدف تک پہنچنے کا راستہ دکھایا جائے، اور یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، یعنی وہ ہمیں صحیح راستہ بتلاتے تھے، تاکہ ہم اس پر چل کر دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ الشوری: 52
ترجمہ: اور بے شک (اے محمدﷺ) تم سیدھا راستہ دکھاتے ہو۔

2: ہدایت کا دوسرا مطلب ہے کسی کام کا الہمام اور توفیق دینا، اور یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے، جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِىْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ ۚ ﴾ القصص: 56
ترجمہ: بے شک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہئے لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہئے۔

• و دين الحق: کا مطلب عمل صالح ہے، عمل صالح کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجے گئے ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو جس دین کے ساتھ بھیجے گئے ہیں وہ حق دین ہے، اور جو بھی شخص اس دین پر عمل کرے گا اس کا عمل صالح اور مقبول ہوگا ان شاءاللہ۔

• ليظهره على الدين كله: یعنی اللہ تعالیٰ اس محمدی دین کو تمام ادیان اور شرائع پر غالب کر رہے گا، چاہئے وہ تلوار اور جہاد سے ہو یا قلم اور بیان، حجت اور دلیل سے ہو، یہاں تک کہ تمام اہل ارض عرب وعجم پر اس دین کی حقیقت واضح ہو جائے، اور یہ امر واقع ہوگیا، اور مسلمانوں نے جہاد اور تبلیغ کے ذریعے مشرق سے لیکر مغرب تک سب لوگوں پر اسلام کی حقیقت واضح کردی، اور اسلامی حکومت چین سے لیکر اندلس تک جا پھیلی، الحمد للّہ۔

• و كفى بالله شهيدا: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور حقانیت پر گواہی دینے کیلئے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے، اور وہی ذات ہی ان کی مدد ونصرت فرمائے گا اور ان کے ہر ہر فعل سے باخبر ہے، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت پر ایک قطعی اور یقینی دلیل ہے کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کردیتا جیسے دوسرے جھوٹے مدعیان نبوت کو ہلاک کردیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ° لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ°ثُـمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ﴾ الحاقۃ: 44-46
ترجمہ: اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا۔ تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر ہم اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔

خلاصہ: یہ ہوا کہ ہر قسم کی تعریفیں اور حمد اللہ تعالیٰ کیلئے ہے، اس ذات نے ہم انسانوں پر بڑی نعمت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بناکر ہدایت اور دین حق سے بھیجا، تاکہ حق راستے کی طرف انسانوں کی راہنمائی کرکے دین حق کو جہاد اور بیان و حجت سے سب ادیان پر غالب کردیں، اور اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور ان کی سچی نبوت پر گواہ ہے۔

• وَأَشْهَدُ أَلَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ: یہاں پر کلمہ توحید کی گواہی کا ذکر ہے، یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، صرف اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو عبادت کے مستحق ہے، باقی سب آلہہ باطلہ ہیں۔

• وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ: یہ جملہ ماقبل جملے (لا الہ الا اللہ) کی تاکید ہے، "وحدہ" ٫٫إلا اللہ،، کی تاکید ہے جوکہ اثبات پر دلالت کرتا ہے، اور "لا شریک لہ" ٫٫لا إله،، کی تاکید ہے، جوکہ نفی پر دلالت کرتا ہے۔

• إِقْرَارًا بِهِ وَتَوْحِيدًا: یہ جملہ سابقہ جملے کیلئے تاکید معنوی ہے، یعنی میں اپنی زبان سے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اخلاص کے ساتھ اس بات کو قولی، عملی اور دلی طور پر مانتا ہوں۔

فائدہ: یہاں پر مصنف رحمہ اللہ نے ایک بہت اہمیت والے امر کی طرف اشارہ کردیا ہے وہ یہ کہ ایمان صرف زبانی اقرار کو نہیں کہا جاتا کہ بس صرف زبان سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائے بلکہ ایمان کیلئے ضروری ہے کہ زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرے، اور دل سے اس بات کو مان لیں، منافقین کی طرح نہیں کہ صرف زبان سے اقرار کرے اور دل سے انکار کرے، اور اسی طرح اپنی عملی زندگی میں بھی کلمہ توحید کے تقاضوں پر عمل کرے، کیونکہ عمل کے بغیر ایمان ایمان نہیں ہوتا، جیسے کہ بعض گمراہ فرقوں (مرجئہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ عمل سے ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ضمنی طور پر ان گمراہ فرقوں پر مصنف رحمہ اللہ نے اس عبارت میں رد کردیا۔

• وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہے، جیسے کہ ایمان کیلئے کلمہ توحید کی گواہی دینا اور زبان سے اس کا اقرار کرنا ضروری ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی گواہی دینا اور زبان سے اس کا اقرار کرنا لازمی ہے، یہ دونوں شہادتیں لازم ملزوم ہے، آج کل کے زنادقہ کی طرح نہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف توحید کا اقرار کرنا لازمی ہے، پھر چاہئے یہودی بنے یا عیسائی، جبکہ دین اسلام میں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دینا ضروری ہے اس کے بغیر اس کا اسلام قبول نہیں ہوتا ٹھیک اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور اس کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے، اور جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ لیکر آیا ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے، باقی سب ادیان کے بطلان کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔

اور اس جملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں افراط اور تفریط سے کام لینے والوں پر بھی رد ہے، اہل افراط نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر سے اونچا سمجھ کر عبودیت کے درجے پر پہنچا دیا، ان کیلئے علم غیب ثابت کرنا ، اور ان سے بشریت کا نفی کرنا وغیرہ جیسی شرکیات کے مرتکب ہوگئے، اور اہل تفریط نے تو بلکل ان کے رسول ہونے سے انکار کرکے بیزاری کا اظہار کردیا، اب اس بات کی گواہی دینا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا بندہ ہے افراط والوں پر رد ہے، اور ان کی شان میں غلو کرنے سے نفی ہے، اور اس بات کی گواہی دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے تفریط والوں پر رد ہے، اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان پر ایمان لانا ضروری ہے، اور جس چیز کا امر دیا ہے اس میں ان کی اطاعت لازمی ہے، اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اور جن چیزوں کی خبر دی ہے اس میں ان کی تصدیق کرنا لازمی ہے، اور جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس میں ان کی اتباع کرنا ضروری ہے۔

• صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ: ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، صلاۃ کا لغوی معنی ہے دعاء، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ذکر کیا ہے: (صلاة الله على رسوله ثناؤه عليه عند الملائكة) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ پڑھنے کا مطلب ملائکہ کی مجلس میں ان کی تعریف بیان کرنا ہوتا ہے۔

• وعلى آله و صحبه: آل سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار مراد ہے، اور جامع اور اسلم قول یہ ہے کہ ہر وہ شخص مراد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے، اور (صَحْبه) صاحب کی جمع ہے، جن سے مراد صحابی ہیں، ہر اس شخص کو صحابی کہا جاتا ہے جس نے مسلمان ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی زندگی میں ملاقات کی ہو اور اس کی موت بھی اسلام پر ہوئی ہو۔

• وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا مَزيدًا: کثیر تعداد میں سلامتی ہو، اور ہر قسم کے نقائص اور رذائل سے سلامت ہو۔

خلاصہ: یہ ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جوکہ یکتا ذات ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے، اور یہ بات قولا، عملا اور اعتقادا میں مانتا ہوں۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
413
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
64
تیسرا درس: اہل سنت والجماعت کی وجہ تسمیہ اور ایمان کی تعریف۔

أَمَّا بَعْدُ: اعْتِقَادُ الْفِرْقَةِ النَّاجِيَةِ الْمَنْصُورَةِ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ أهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ هُوَ الْإِيمَانُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْإِيمَانُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ.

ترجمہ: نجات پانے والی اور قیامت کے قائم ہونے تک اللہ کی طرف سے مدد یافتہ جماعت (یعنی اہل السنۃ و الجماعۃ) کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے اور اس کے ملائکہ پر، اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر، اور اچھی اور بری تقدیر پر۔

تشریح:

• أَمَّا بَعْدُ
: یہ کلمہ عربی زبان میں عام طور پر ایک اسلوب سے دوسرے اسلوب کو منتقل ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے، جیسے کہ اردو زبان میں جب بات کرتے کرتے درمیان میں کوئی قصہ یا بات آ جائے اور پھر جب وہ ختم ہو کر اپنے موضوع کی طرف لوٹ آئے تو کوئی یہ کہے: بہر حال۔۔۔

٫٫اما بعد،، لفظ کو استعمال کرنا مستحب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات اور خطوط میں یہی اسلوب استعمال فرماتے تھے۔

• اعْتِقَادُ الْفِرْقَةِ النَّاجِيَةِ الْمَنْصُورَةِ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ: مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ یہ رسالہ فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کے عقیدے پر مشتمل رسالہ ہے، جوکہ اہل سنت والجماعت سے موسوم ہے۔

• اعتقاد: یہ عربی زبان کا ایک مصدر ہے، جس کا معنی ہے نظریہ اور عقیدہ، اصل میں عقیدے کا مطلب ہے: وہ بات جس پر دل جم جائے، اور اس کو قبول کرکے سختی سے اپنا لیں۔

• الفرقة: فرقہ کا مطلب ایک جماعت یا طائفہ ہے، جو ایک نظریے اور عقیدے پر جمع ہوگیا ہو۔

• الناجية:
یہ فرقے کی صفت ہے، یعنی وہ فرقہ جو دنیا میں ہر قسم کی ہلاکت اور شر سے اور آخرت میں جہنم کی آگ سے محفوظ ہو، اور کامیابی اس کی نصیب میں لکھی ہو، مصنف رحمہ اللہ نے یہ صفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے مستنبط کی ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"افترقتِ اليَهودُ علَى إحدَى وسبعينَ فرقةً فواحدةٌ في الجنَّةِ وسبعونَ في النَّارِ وافترقتِ النَّصارى علَى ثِنتينِ وسبعينَ فرقةً فإحدَى وسبعونَ في النَّارِ وواحدةٌ في الجنَّةِ والَّذي نفسُ محمَّدٍ بيدِهِ لتفترِقَنَّ أمَّتي علَى ثلاثٍ وسبعينَ فرقةً واحدةٌ في الجنَّةِ وثِنتانِ وسبعونَ في النَّار قيلَ يا رسولَ اللَّهِ مَن هم قالَ: الجماعَةُ" (سنن ابن ماجة، حديث صحيح)

ترجمہ: یہود 71 فرقوں میں تقسیم ہوگئے، ان میں سے صرف ایک فرقہ جنت میں باقی ستر فرقے جہنم میں ہوں گے، اور نصاری 72 فرقوں میں تقسیم ہوگئے، جن میں سے 71 فرقے جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا، اور میں اس ذات کی قسم اٹھاتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی، ایک فرقہ جنت میں جائے گا، جبکہ باقی 72 فرقے سب جہنم میں جائیں گے، کہا گیا کہ وہ ایک فرقہ کون ہے (جو جنت میں جائے گا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جماعت ہے
، اور ایک اور روایت میں ہے: (ما أنا عليه و أصحابي) یعنی وہی فرقہ جو میرے اور میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقے اور سنت کو اپنائے گا۔

دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرقے کا کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے: "لا تَزالُ طائِفَةٌ مِن أُمَّتي ظاهِرِينَ علَى الحَقِّ، لا يَضُرُّهُمْ مَن خَذَلَهُمْ، حتَّى يَأْتِيَ أمْرُ اللهِ وهُمْ كَذلكَ".
ترجمہ: ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے (یعنی قیامت) اور وہ اسی حال میں ہوں گے (یعنی قیامت تک حق کا دفاع کرتے ہوں گے)۔

• الْمَنْصُورَةِ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ:
یعنی یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید شدہ ہوگا، اللہ تعالیٰ اس فرقے والوں کی مدد فرماتا رہے گا یہاں تک کہ ان کی موت آ جائے، اور یہی موت ہر مومن کے حق میں قیامت شمار ہوتی ہے، کیونکہ وہ قیامت جس کے آنے سے تمام دنیا ختم ہو جاتی ہے وہ یہاں مراد نہیں کیونکہ وہ قیامت جب آئے گی تو اس وقت کوئی مومن بندہ نہیں ہوگا، سب اشرار لوگ ہوں گے جیسے کہ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ( لا تقوم الساعة حتى لا يقال في الأرض الله الله)
ترجمہ: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہیں رہے گا۔

اور ایک اور حدیث میں بڑی قیامت کے کچھ اس طرح احوال ذکر ہوئے ہیں یہ بھی صحیح مسلم کی حدیث ہے:

(يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا كَرِيحِ المِسْكِ مَسُّهَا مَسُّ الحَرِيرِ، فلا تَتْرُكُ نَفْسًا في قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنَ الإيمَانِ إلَّا قَبَضَتْهُ، ثُمَّ يَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ عليهم تَقُومُ السَّاعَةُ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ (آخری زمانے میں) مشک کی طرح ایک خوشبو والی ہوا بھیج دے گا، جو ریشم جیسی نرم ہوگی، یہ ہوا ہر اس شخص کی روح قبض کر لے گی جس کے دل میں ذرا برابر بھی ایمان ہو، اور پھر سب شریر لوگ باقی رہیں گے، اور انہی شریر لوگوں پر قیامت قائم ہوگی۔

• أهل السنة والجماعة:
یعنی فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ اہل سنت والجماعت ہی ہے۔

• السنة: طریقہ اور عادت کو کہا جاتا ہے، یہاں پر مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ طریقہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے قولی یا عملی یا تقریری طور پر اپنایا ہو، اہل السنہ کو اہل السنہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور ان کا طریقہ اپناتے ہیں جبکہ اہل بدعت کبھی اپنے بدعات اور کفریات کی طرف منسوب ہوتے ہیں جیسے کہ مرجئہ اور قدریہ، اور کبھی اپنے گمراہ مؤسس کی طرف ان کی نسبت ہوتی ہے جیسے کہ جہمیہ اور اشاعرہ اور کبھی وہ اپنے قبیح افعال اور اعمال کی طرف منسوب ہوتے ہیں جیسے کہ رافضہ اور خوارج۔

• الجماعة: طائفہ اور فرقہ کو کہا جاتا ہے، جیسے اوپر حدیث میں مذکور ہوا (قيلَ يا رسولَ اللَّهِ مَن هم قالَ: الجماعَةُ) اور یہاں پر مراد صحابہ اور ان کے اتباع کرنے والے ہیں جو حق پر قائم ہوکر قرآن وسنت کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں، اگرچہ وہ قلیل تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں، جیسے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے: (الجماعة ما وافق الحق و إن كنت وحدك فإنك أنت الجماعة حينئذ).
ترجمہ: جماعت وہی ہے جو حق کی اتباع کرے، اگرچہ آپ (اس حق کے اتباع میں) اکیلے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ پھر آپ اکیلے ہی پوری جماعت شمار ہوں گے۔

• هُوَ الْإِيمَانُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْإِيمَانُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ:
یعنی طائفہ منصورہ جوکہ اہل سنت والجماعت ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے ملائکہ پر اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر، اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر، اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لایا جائے، ان چھ امور پر ایمان لانا ایمان کے اصول میں سے شمار ہوتا ہے، ان چھ امور میں سے بعض پر ایمان لانا اور بعض سے انکار کرنا یا ان میں سے کسی ایک امر سے انکار کرنا یا قرآن وسنت کے بتائے ہوئے طریقے کے بغیر کسی دوسرے طریقے سے ایمان لانا بھی انسان کو اسلام سے خارج کردیتا ہے، اور وہ کافر ہو جاتا ہے۔

یہ چھ امور جبریل علیہ السلام کے اس مشہور واقعے سے لئے گئے ہیں جس میں جبریل علیہ السلام ایک اعرابی کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام، ایمان اور احسان کے متعلق سوالات پوچھے، جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ایمان کیا ہے؟ جس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الإيمان أن تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره".
ترجمہ: ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے (دل سے) اللہ پر، ملائکہ پر (کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے ہیں اور اس کا حکم بجا لاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی طاقت دی ہے) اور اس کے پیغمبروں پر (جن کو اس نے بھیجا مخلوق کو راہ بتلانے کے لئے) اور پچھلے دن پر (یعنی قیامت کے دن پر جس روز حساب کتاب ہو گا اور اچھے اور برے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی) اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

• الإيمان
: ایمان کا لغوی معنی ہے یقین اور تصدیق کرنا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ﴾ يوسف: 17
ترجمہ: آپ ہمارے کہنے پر یقین نہیں کریں گے اگرچہ ہم سچے ہی ہوں۔

شرع میں ایمان: زبان سے اقرار کرنا، دل سے ماننا، اور اعضاء سے اس پر عمل کرنے کو کہا جاتا ہے، یعنی ایمان کے تین ارکان ہیں :

1: دل سے ان چھ امور کو تسلیم کرنا ہے۔
2: اور زبان سے ان کو ماننے کا اقرار کرنا ہے۔
3: اور اپنے اعضاء سے ان امور پر عمل کرنا ہے، ایمان کے لئے صرف زبان سے اقرار کرنا یا دل سے تسلیم کرنا کافی نہیں بلکہ اپنی عملی زندگی میں بھی ثابت کرنا ہوگا کہ واقعی ہم مسلمان ہیں۔
 
Top